مجاہد آزادی مولانا احمد اللہ شاہ فاروقی شہید

0
227

( ۱۷۸۷- ۱۸۵۸ ) (1787-1858)
دھنی پور ایودھیا میں تعمیر کی جانے والی مسجد اور دوسرے پروجیکٹوں کے سلسلے میں قائم کردہ انڈو اسلامک کلچرل ٹرسٹ ( Indo Islamic cultural trust ) کے حوالے سے شائع انگریزی اخبار “ٹائمز آف انڈیا” کا ایک مضمون بتاریخ 27 جنوری 2021 نظر سے گزرا۔ جس کے ذریعے معلوم ہوا کہ مسجد کا نام مولانا احمد اللہ شاہ شہید کے نام پر رکھنے پر مشورہ ہو رہا ہے۔ میں اس کا خیر مقدم کرتا ہوں۔ مگر مضمون میں مولانا شہید سے متعلق کچھ معلومات کو درست کرنے کی طرف توجہ مبذول کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔
مولانا شہید کی شخصیت اُن کے وطن اور اُن کی زندگی سے متعلق بہت سی روایتیں منسوب ہیں اور اُن میں تضاد پایا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں 1963 میں لکھنؤ کے مشہور وکیل تصدق حسین صاحب مرحوم نے اپنے ایک مقالہ “جنگ آزادی کے ایک مجاہد احمد اللہ شاہ” کے عنوان سے بحوالہ اخبار ‘ طلسم ‘ فرنگی محل، ریڈیو اسٹیشن لکھنؤ سے نشر کرتے ہوئے کہا احمد اللہ شاہ کے پر دادا انورالدیں خان بہادر شہامت جنگ تھے جو ابتداء میں قصبہ گوپامؤ ضلع ہردوئی کے باشندے تھے جن کے صاحبزادے محمد علی خان والا جاہ نواب آف آرکاٹ تھے۔ آخر الذکر کے صاحبزادے عمدۃ المرا غلام حسین خان نواب چینا پٹن (مدراس) تھے۔ جن کے نور نظر دلاور جنگ تھے جن کا اصل نام احمد علی تھا۔ احمد علی دلاور جنگ ہی کو اُن کے پیر و مرشد کی طرف سے احمد اللہ شاہ کا لقب عطاء ہوا۔ چونکہ مولانا احمد اللہ شاہ کی جہادی تحریک کا آغاز فیض آباد سے ہوا اس وجہ سے سب سے پہلے کرنل میسن نے اُنہیں مولوی فیض آبادی لکھ کر ہدف ملامت بناتے ہوئے باغی کے خطاب سے نوازا۔ اس کے بعد تقریباً ہر مضمون نگار اور مقالہ نویس نے اُن کو فیض آبادی بھی لکھا اور باغی بھی۔ البتہ شيخ تصدق حسین صاحب نے سب سے پہلے اپنے تحقیقی مقالے میں یہ ثابت کرنے کی سعی کی کہ نہ تو وہ فیض آبادی تھے اور نہ باغی۔ بلکہ وہ ایک نواب زادے اور درویش صفت مجاہد تھے۔ جو قصبہ گوپامؤ کے مشہور معروف فاروقی خاندان کے ایک فرد تھے۔
تصدق حسین صاحب کے اس مقالے کے سبب اپنے وقت کے معروف اسکالر مولانا محمد ابرار حسین فاروقی صاحب گوپاموی رحمت اللہ علیہ کو تحریک پیدا ہوئی کہ احمد اللہ شاہ کی زندگی سے متعلق مستند تاریخ نہ ملنے کے بائث جو باتیں پردہ خفاء میں تھیں اُن کو سامنے لایا جائے۔ لہٰذا مواد کی تلاش میں مختلف شہروں کے دورے کئے اور جہاں جو مستند حوالے ملے اُنہیں یکجا کیا۔ اسی سلسلے میں احمد اللہ شاہ کے ایک معتقد مولانا فتح محمد تائب لکھنوی کی نظم کردہ مثنوی “تواریخ احمدی” کا علم ہوا۔ مولانا تائب نے یہ مثنوی 1863 میں مکمل کر لی تھی مگر کنہی وجوہات کی بنا پر 1935 سے پہلے طبع نہ ہو سکی ۔ مولانا ابرار حسین کی معرکۃ الارا تصنیف ‘ماثر دلاوری’ جو 1966 اور “مراۃ احمدی” ( شرح ہے “تواریخ احمدی” کی ) سن 1972 میں شائع ہوئیں جن میں مولانا نے بڑی عرق ریزی اور کاوش کے بعد ثابت کیا ہے کہ وہ اسی خاندان فاروقیہ کی اسی شاخ کے جو مدراس منتقل ہو گئی تھی، فرزند نواب عمدۃالملک امیر الہند والا جاہ بہادر اول والي پایاں گھاٹ ( مدراس و آرکاٹ ) کے پوتے تھے۔
ٹائمز آف انڈیا کے مضمون میں گوپا مؤ ( Gopamau ) کا نام Gopaman لکھا گیا ہے وہ بھی درست نہیں۔ اس قصبے کے نام کی تاریخی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ یہ قصبہ جو ریاست قنوج کے راجہ جے چند کے زیر اثر تھا وہاں ٹھٹھیروں کا قبضہ تھا جس کو آزاد کرانے کے لئے راجہ جے چند نے اپنے دو سرداروں سوروپ سنگھ عرف سوپی اور گوپال سنگھ عرف گوپی کو اُن کی سرکوبی کی ذمے داری سونپی۔ فتحیاب ہوکر گوپال سنگھ گومتی ندی کے کنارے موضع کچنالی یا اس سے قریب قلعہ تعمیر کروا کر مع اہل و عیال متوطن ہوے اور جگہ کا نام رکھا گوپی مؤ یا گوپال مؤ جو کثرت استعمال سے گوپا مؤ ہو گیا۔
٭٭٭
نجم الدین احمد فاروقی
نوٹ: مندرجہ بالا تحریر پروفیسر محمد صلاح الدین عمری کی اہم تحقیقی تصنیف “اعلام گوپامؤ” سے مآخذ۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں شعبہ عربی کے صدر رہ چکے ہیں۔

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here