مفتی رضا انصاری فرنگی محلی

0
450

مضمون نگارتازہ ترین خبروں اور اردو مضامین کے لئے نیچے دئے گئے لنک پر کلک کر کے واٹس ایپ اور فیس بک پر ہمیں جوائن کریں

https://chat.whatsapp.com/9h6eHrmXUAXBjMyW9zQS4B

https://www.facebook.com/urduavadhnama?mibextid=ZbWKwL


اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه ذیل ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

[email protected] 

9807694588(موسی رضا)


مضمون نگار: پروفیسر شارب ردولوی

مفتی رضا انصاری جن کو ہم لوگ ہمیشہ رضا بھائی کہتے تھے بہت عجیب انسان اور مجموعہ اضداد تھے۔ ظاہراََ بہت سادہ انسان کھلتا رنگ ، چہرے پر خوبصورت سیاہی ڈاڑھی جو نہ بہت لمبی اور نہ بہت چھوٹی، جسم پر ہمیشہ شیروانی کبھی سیاہ کبھی سفید جو موسم کے لحاظ سے بدلتی رہتی تھی نام کے ساتھ مفتی کاسابقہ اس وقت بھی لگا تھا لیکن کہیں سے مفتی نظر نہ آتے تھے۔ ہم لوگوں کے بڑے لیکن بزرگ سے زیادہ دوست۔ اپنے عہد کے ترقی پسند ادیبوں اور معتبر صحافیوں میں شمار ہوتے تھے۔ اس عہد میں لکھنؤ میں ایسے دو اشخاص تھے جن کے ناموں کے ساتھ مفتی یا مولانا کا سابقہ لگا تھا۔ اور دونوں ترقی پسند تھے ایک رضا بھائی دوسرے مولانا اسحاق سنبھلی، مولانا تو باقاعدگی سے کمیونسٹ پارٹی کے ممبر تھے اور اسمبلی میں ان کے نمائندے یعنی ایم۔ایل۔اسی تھے۔ سفید قمیص اور پیجامہ زیب تن کرتے تھے اور لوگوں کے کام کرنے کے لئے سرکاری دفتروں کا چکر لگاتے تھے ۔ مفتی رضا انصاری صاحب کی خاص پہچان ان کی سائیکل تھی جس کے ساتھ وہ ہمیشہ نظر آتے تھے۔ وہ روزنامہ قومی آواز کے شہری نمائندے تھے اس لئے ان سے دن میں کہیںکہیں ملاقات ہونا ضروری تھا اور اگر کہیں نہیںملیں تو شام کو امین آباد وچوراہے پرامین سلونوی، عمر انصاری،صلاح الدین عثمان اور دو ایک لوگوں کے ساتھ عبداللہ کے چائے خانے کے سامنے مل جانا ضروری تھا۔ مفتی رضا انصاری اس قدر سادہ اور منکسرالمزاج تھے کہ کوئی خود ان کے علم کا اندازہ نہیں کر سکتا تھا اور کرتا بھی کیسے وہ ہم لوگوں جیسے یونیورسٹی کےتھوڑے خودسر طالب علموں کے دوست بھی تھے اور رہنما بھی۔ ہم لوگوں نے 1954 کی طالب علموں کی تحریک میں ان سے کبھی کوئی بات نہیں چھپائی، یہ وہی زمانہ تھا جب لکھنؤ کو اپنی تاریخ میں پہلی بار 72 گھنٹے کا کرفیو جھیلنا پڑا تھا۔ مفتی رضا انصاری صاحب کی ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ وہ ایک بہت معتبر صحافی اور مفتی کے علاوہ بہت اچھے ادیب تھے جن کا بڑے قلم کاروں میں شمار ہوتا تھا۔ لکھنؤ اس وقت ادیبوں ، شعرا اور افسانہ نگاروں کا مرکز تھا۔ مجاز، سلام مچھلی شہری، حیات للہ انصاری، مسیح الحسن رضوی، رام لعل، عابدسہیل، قیصر تمکین وغیرہ سے رضا انصاری صاحب کے گہرے مراسم تھے۔ وہ خود ایسی نفیس زبان لکھتے تھے کہ ان کے مضامین کا لوگوں کو انتظار رہتا تھا۔ آج جب میں یہ سطریں لکھ رہا ہوں تو سوچتا ہوں کہ کیسا گنجہائے گرانمایا تھا لکھنو کہ جس کا ہر شخص نگینے کی طرح آنکھوں کو خیرہ کر تا تھا۔

یہ بھی پڑھیں

نئی پارلیمنٹ کے افتتاح پر سیاسی بھونچال

ان نگینوں کو جمع کرنے کا کام فرزانہ اعجاز صاحبہ نے کیا ہے ۔ فرزانہ اعجاز مفتی رضا انصاری کی بیٹی ہیں خود اردو کی ایک اچھی افسانہ نگار اور خاکہ نگار ہیں۔ ان کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ لکھنؤ کی تہذیب سے بہت گہرائی تک واقف ہیں۔ گہرائی سے میری مراد گھروں کے اندر بولی جانی والی زبان، رسوم ورواج، توہمات اور عقائد سے، جن سے باہر کے لوگ اکثر واقف نہیں ہوتے ہیں۔ فرزانہ اعجاز کا تعلق رضا انصاری صاحب کے حوالے سے اس عہد کے ادبا، شعرا اور افسانہ نگاروںسے بھی عزیزداروں کا سا رہا ہے اور جب بھی کہیں ایسے لوگوں کا کوئی حوالہ آجاتا ہے تو وہ بے چین ہو کر قلم اٹھا لیتی ہیں خواہ مراسلہ ہی کیوں نہ لکھیں لیکن وہ اس عہد کی باقی ماندہ چیزیں اور اس حوالے سے وابستہ واقعات قلم بند کر دیتی ہیں۔ فرزانہ اعجاز نے ادھر تقریباََ اپنا قلم رکھ دیا اور پورے انہماک اور تندہی سے باقیات رضا انصاری کو جمع کرنے اور ان کی اشاعت میں لگ گئیں۔ یہ بڑے فخر کی بات ہے کوئی بیٹی ایسی بھی ہو جو اپنے علمی کاموں کو چھوڑ کر والد کے نام اور ان سے وابستہ چیزوں کو جمع کرنے میں اپنا سارا وقت صرف کر دے۔ سب سے پہلے فرزانہ اعجاز نے برسوں کی محنت کے بعد رضا انصاری صاحب کے نام آئے ہوئے خطوط کا مجموعہ ”خطوط کی زبانی “مرتب کیا۔مجھے معلوم ہے کہ ان خطوط کو مرتب کرنے میں انھیں کتنی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا۔ مختلف لوگوں کی تحریر کو پڑھ پانا جس میں عبدالماجد دریاآبادی جیسے اشخاص بھی ہوں بہت کمال کی بات ہے۔ بعض الفاظ کی صحت کے لئے انھوں نے مختلف لوگوں سے مدد لی اور بالآخر اس لفظ کو صحیح پڑھ لیا۔ ان دشواریوں کو حل کرنے میں ان کا بڑا وقت صرف ہوا۔ لیکن انھوں نے طے کر لیا تھا کہ وہ اس کام کو ہر صورت میں مکمل کریں گے اس لئے انھوں نے ہر خط کو مکمل طور پر پڑھ کر شامل کیا۔ یہ خطوط مختلف واقعات، حالات اور باتوں سےمتعلق ہیں بعض زمانی حالات سے۔ اس لئے یہ خطوط ایک عہد کے بہت سے مسائل کا احاطہ کر لیتے ہیں۔ خطوط کی اشاعت کے بعد ان کے مضامین اور خاکوں کا مجموعہ ”جواہرات فرنگی محل “کے نام سے مرتب کیا۔ اس میں بہت دلچسپ تاریخی اور کارآمد مضامین ہیں مثلاََ موئے مبارک ایک پس منظر، ملا قطب الدین سہالوی۔مولانا سہالوی کے علاوہ فرنگی محل کی پوری تاریخ انھوں نے محفوظ کر دی۔فرنگی محل کی وجہ تسمیہ کیا ہے۔ کیسے کیسے علما اور ادبا کا تعلق اس جگہ سے تھا اس کے علاوہ انھوں نے ایک بہت دلچسپ لطیفے کا حوالہ دیا ہے جس میں سید سلمان ندوی ، ڈاکٹر وحید مرزا ، ڈاکٹر عبدالمجید، مولانا عنایت اللہ اور محمد وسیم باراہٹ لا موجود تھے اور خود رضا انصاری صاحب ان سب کی خدمت میں حاضر تھے جب مولانا عنایت اللہ نے فرنگی محل کی وجہ تسمیہ دریافت کی سب ہمسر، بےتکلف علما اور ادبا تھے۔ محمد وسیم باراہٹ لا نے ہنستے ہوئےکہا کہ وجہ تسمیہ بس یہی ہے کہ میاں کے کسی عالم نے ایک فرنگن سے نکاح کر لیا ہوگا۔ یہ توبات بہت بڑے عالم سے منسوب لطیفے کی تھی ۔ رضاانصاری صاحب نے اس مضمون میں بہت تفصیل سے فرنگی محل اور اس سے وابستہ واقعات ، لطائف اور اس کی علمی اور دینی خدمات پر ورشنی ڈالی ہے اور ان علما کا ذکر کیا ہے جن کے علم و مرتبہ نے فرنگی محل کو فرنگی محل بنایا خصوصیت کے ساتھ بانی درس نظامی۔ فرنگی محل کے بارے میں مفتی رضا انصاری نے لکھا ہے کہ پہلے اس کی اس طرح کی شہرت نہیں تھی جو آج ہے پہلے یہ چوک کا ایک حصہ تھا یہاں پر انھوں نے آتش اور منیر شکو ہ آبادی کے اشعار کے حوالے دیئے ہیں جن میں ”کوئے فرنگی محل“ اور ”بتان فرنگی محل“ کا ذکر ہے۔ جان صاحب گوکہ ریختی کے شاعر تھے اور انھوں نے فرنگی محل پر پوری نظم لکھی ہے لیکن انھوں نے فرنگی محل کا احترام سے ذکر کیا ہے۔ جان صاحب کی پوری نظم رضا انصاری صاحب نے نقل کی ہے یہاں پر صرف تین اشعار درج ہیں

فرنگی محل گوری بی صاحبہ دنیا میں جنت کا تحفہ اجی
سلامت خدا رکھے اس باغ کو کہ اس باغ کے گل ہیں سب جنتی
عطا مجھ کو فرمائیں گے آبرو ہیں ہر علم کے قدر داں جوہری
(جوہرات فرنگی محل صفحہ ، 30)

ان اشعار سے ظاہر ہوتا ہے کہ جان کی نظم فرنگی محل کے مرکز علما ہونے کے بعد کی ہے۔ مفتی رضا انصاری نےاپنے سادہ و پرکشش انداز میں اس طرح اس کی تاریخ لکھ دی ہے جو پڑھنے کے بعد ذہن میں خود محفوظ ہوجاتی ہے۔

رضا انصاری کا اسلوب تحریر بڑا شستہ و پاکیزہ ہے وہ اعتراض بھی کرتے ہیں تو اس کی تلخی کو اپنے لہجے کی نرمی اور زبان کی دلکشی سے چھان دیتے ہیں۔ ”نگینہ“ میں ان کا ایک مضمون جوش کی نظم’ تلاش ‘کے متعلق ہے۔ اب شاید لوگوں کے ذہن میں اس کا نام نہ ہو لیکن ایک زمانے میں گھر کی خواتین تک کویہ نظم زبانی یاد تھی۔ نگینہ کے مضامین کی یہی صفت ہے کہ وہ اپنے قاری کو جدید عہدمیں بھی رکھتے ہیں اور اس میں ایک ایسا آئینہ ہے کہ ذرا ترچھا ہو جائے توقاری اپنےکو جوشؔ ، عبدالعلیم، سید سبط حسن اور آنند نرائن ملا کی صف میں کھڑا پاتاہے ۔ جوش ملیح آبادی پران کے اس مضمون سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ رضا انصاری صاحب ایک زمانے میں ترقی پسند مصنفین کے سکریٹری رہے ہیں اور اس نظم کی اشاعت کی ذمہ داری بھی انھیں پر تھی۔

اسی طرح سے علما ءاور خواجگان کے بارے میں رضا انصاری صاحب کے مضامین کو یکجا کر کے ایک طویل مقدمے کے ساتھ فرزانہ اعجاز نے شائع کیا ہے۔ اس کے علاوہ بعض شائع شدہ چیزیں مثلاََ بانی درس نظامی ملا نظام الدین اور فتاوائے قادریہ جو رضا انصاری صاحب کے بہت بڑے کام تھے انھیں فرزانہ اعجاز نے بڑی محنت سے مرتب کر کے دوبارہ شائع کیا۔

ابھی حال ہی میں مفتی رضا انصاری کے مضامین اور خاکوں پر مشتمل بہت اچھا مجموعہ نگینے کے نام سے فرزانہ اعجاز نے شائع کیا۔یہ مضامین اس لئے بھی بہت اہم اور معلومات افزا ہیں کہ ان سےشخص مذکور کے علاوہ اس زمانے کی تہذیب اورعلم و ادب کا اندازہ ہوتا ہے۔ اس میں ایک مضمون یاد مجاز پر ہے۔ مجاز کے انتقال کے بعد فوراََ لکھے جانے والے مضامین میں یہ مضمون ہے جو قومی آواز میں مجاز کے انتقال کے دوسرے دن شائع ہوا تھا بعد میں بہت سے اخبارات و رسائل میں یہ نقل ہوا۔اس وقت کے جو لوگ مجازکی زندگی سے متعلق تنازعات سے واقف ہیں انھیں یہ مضمون پڑھ کر بہت سی نئی باتوں کا علم ہوگا۔ رضا انصاری صاحب مجاز سے بہت قربت رکھتے تھے۔مجاز سے کم ہی لوگوں سے باقاعدگی سے خط و کتابات رہی جن میں رضا انصاری کا نام سہر فہرست ہے۔ رضا انصاری صاحب اپنی دوستی کے سلسلہ میں لکھا ہے کہ

” مجاز سے میری پہلی شناسائی (حیات اللہ انصاری و فرحت اللہ انصاری)ان واسطوں کے بدولت دوستی میں جلد ہی تبدیل ہو گئی۔ مگر اس کو میرے نام کے سلسلہ میں دلچسپ مغالطہ رہا۔ مخاطب کرنے میں تو صرف رضا کافی تھالکھنؤ سے جانے کے بعد میں نے خط لکھ کر اس سے وہ نظم مانگی تھی جو اس نے حیات اللہ انصاری سے (جو اس وقت مارکسی زیادہ تھے) طویل تبادلہ خیالات کے بعد لکھنؤ ہی میں لکھنا شروع کر دی تھی۔ یعنی اندھیری رات کا مسافر یہ جون یا جولائی 37 کی بات ہے مجازنے علی گڑھ سے ردولی شریف جاتے ہوئے پنجاب میل پر یہ نظم مکمل کی تھی اور ٹرین ہی پر سے مجھے جواب لکھا جس کے ساتھ انقلاب اور اندھیری رات کا مسافر نظمیں بھی اس نے بھیجی تھیں۔ اس سلسلہ کی دو باتیں مجھے اب تک یاد ہیںایک تو اس نے پتہ پر میرا نام رضا انصاری صاحب لکھا مگر نام کے اوپر کونے میں ایک چھوٹا سا ”اللہ“ بھی لکھ دیا۔ جب ملاقات ہوئی تو میں نے اپنے نام کی صحت کی طرف اسے متوجہ کیا کہنے لگا حیات اللہ اور فرحت اللہ کا بھتیجا سمجھ کر میں خیال کیا کہ ’اللہ ‘آپ کے نام کے ساتھ بھی لگا ہوگا۔ مگر پورا یقین نہیں تھااس لئے چھوٹا سا ’اللہ ‘لکھ دیا تھا۔“(صفحہ 26-125 نگینے)

نگینے میں خانقاہ کاظمیہ کے اولین بزرگ شاہ محمد کاظم قلندر پر ایک بہت اچھا مضمون ہے جس سے اس زمانے کی تہذیبی قدروں ، آپسی میل جول اور محبتوں کا اندازہ ہوتا ہے۔کاکوری کی خانقاہ کاظمیہ سے آج کون نہیں واقف ہوگا شاہ محمد کاظم قلندر کی یہ خانقاہ آج بھی رشدو ہدایت کا مرکز ہے ،ضیا میاں کے گرد خلائق جمع رہتی ہے،شاہ صاحب کے بارے میں مفتی رضا انصاری نے لکھا ہے وہ بہت خوش آواز تھے اور سرخوشی کے عالم میں جب گاتے تھے تو فضا بھی جھوم اٹھتی تھی ان کے اس طرح ’گانے‘ میں محو رہنے پر بعض لوگوں نے اعتراض بھی اٹھائے، رضا انصاری صاحب اس کے بارے میں لکھتے ہیں

”یہ الگ رنگ اور یہ نغمہ و چنگ عشق مجازی سے عشق حقیقی تک پہنچنے کا زینہ تھا یہی وجہ ہے کہ شاہ صاحب جب جوش عشق میں گاتے تھے تو مسلسل دو تین روزگاتے رہتے تھے پھر مسلسل تین چار روز خاموش رہتے تھے۔(نگینے، ص 85)

شاہ صاحب کے مریدین میں غیر مسلم حضرات بھی تھے۔ اور یہ عام غیر مسلم لوگ نہیں تھے جن میں مجلس رائے اور بینی رام کا ذکر منشی فیض بخش کاکوری نے اپنی مثنوی باغ و بہار میں کیا ہے۔ مفتی رضا انصاری صاحب نے شاہ صاحب کا کے بڑے بیٹے حضرت شاہ تراب علی قلندر کےایک مذاق کا بے حد دلچسپ پیرائے میںذکر کیا ہے۔ مہاراجہ ٹکیت رائے بھی شاہ صاحب کے مرید تھے اس طرح کے واقعات سے اس زمانے کے سماجی تعلقات پرروشنی پڑتی ہے کہ کس طرح سب سماج میںشیر و شکر تھے اور ان کا مذہب اور عقیدہ ان کی زندگی میں کسی طرح کی رکاوٹ نہیں تھا اب آپ وہ لطیفہ بھی سن لیجئے مفتی رضا انصاری صاحب لکھتے ہیں

”شاہ تراب علی شاہ قلندر کا ایک مذاق بہت مشہور ہے جو سننے میں آیا، جب اہل دنیا کی طالب حق کے بھیس میں آمد بڑھنے لگی تو شاہ تراب نے صاف محسوس کرلیا۔ اب اگر کوئی شخص مرید ہونے کی خواہش کرتا تو شاہ صاحب مذاقاََ اس سے دریافت کرتے ’بھائی سلسلہ قلندریہ میں مرید کروں یا سلسلہ ٹکیٹہ میں؟‘ یعنی صاف معلوم ہو جائے کہ طالب حق بن کر آئے ہو یا مہاراجہ ٹکیت رائے سے شناسائی پیدا کرنے کا موقع حاصل کرنے۔۔“ (نگینے ص 89)

نگینے میں شروع میں دو ماہی اکیڈمی جو اردو اکیڈمی کا ادبی رسالہ تھا اس کے اداریے بھی فرزانہ اعجاز نے جمع کر دئے ہیں۔ ان اداریوں سے بعض اہم باتوں کی طرف اشارہ ملتا ہے۔ مثلاََ کسی شاعر کا انتقال ہوااس پر انھوں نے ادارتی نوٹ لکھا یا کوئی خاص واقعہ کانپور یا قرب و جوار میں ایسا ہوا جس کا ذکر انھوں نے اپنے اداریے میں کیا۔ اس سے یہ اداریے ایک طرح کی تاریخی معلومات کا ذخیرہ ہیں۔ اس طرح فرزانہ اعجاز نے رضا انصاری صاحب کی کوئی سوانح تو نہیں لکھی کہ میںیہ کہہ سکوں کہ انھوں نے باسوِل کی طرح جس نے ڈاکٹر جانسن کو نئی زندگی دے دی رضا انصاری صاحب کی چیزوں کو یکجا کر کےان کی ادبی ،علمی و تاریخی حیثیت کو محفوظ کر دیاہےاس لئے وہ کسی ’باسول ‘سے کم نہیں ہیں۔

9839009226

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here