ماں- Mother

0
415

Mother

(والدہ قمر جہاں بیگم کی یاد میں جنہوں نے۱۹؍فروری ۱۹۹۷ء کو اس جہانِ فانی کوالوداع کہی تھی)
عارف نقوی
’’ ماں کے پیر کے نیچے جنت ہوتی ہے۔‘‘
بچپن سے یہی سنتا آیا ہوں۔ ایک زمانے میں یہ کلمہ ایک کان سے سنتا تھا اور دوسرے کان سے باہر نکال دیتاتھا۔ اس کے مفہوم پر کبھی سنجیدگی سے غور نہیں کیا تھا۔ دراصل ہماری حالت ایسی ہی ہوتی ہے جیسے کسی چڑیا کے بچے کی۔ اس کی ماں اسے نہ صرف انڈے میں محفوظ رکھتی ہے، سیتی ہے اور جب وہ پیدا ہوتا ہے تو اسے پالنے کے لئے نہ جانے کہاں کہاں سے غذا چونچ میں بھر کر لاتی ہے اور محبت سے اس کی ننھی چونچ میں ڈالتی ہے پھر جب تک وہ بڑا نہیںہوجاتا اور اس میںخوددانہ چگنے اور اڑنے کی قوت نہیں آجاتی اس کی حفاظت میں اپنی جان کی بازی لگا دیتی ہے۔لیکن جب بچہ بڑا ہوتا ہے ، تو اڑ کر نہ جانے کہاں چلا جاتا ہے۔اپنے ماں باپ کی طرف پلٹ کر بھی نہیں دیکھتا۔ مگر وہ چڑیا شاکی نہیں ہوتی اپنی اگلی اولاد کی تیاری میں لگ جاتی ہے اوراس کے لئے بھی اپنی ساری محبت نثار کر دیتی ہے۔
یہ ایک عجیب قانون فطرت ہے۔انسانی ماں بھی اپنی اولاد کے لئے کیا کچھ نہیں کرتی ہے۔ نو مہینے پیٹ میں پالنا اور اس کے لئے ہر طرح کی تکلیفات کو برداشت کرنا۔ محبت سے دودھ پلا کر بڑا کرنا گود میں لے کر پیار سے تھپکیاں دینا، پالنے میں لٹا کر جھولا جھلانا، خود بھوکی رہ کر اس کے مہنہ میں نوالے ڈالنا اس کی تعلیم و تربیت کے لئے خون پسینا ایک کرنا، اور اس کی چھوٹی چھوٹی سی خواہشوں کے لئے اپنی ہزاروں آرزوئوں کو قربان کردینا ۔ بغیر یہ سوچے کہ اولاد سے اسے کیا ملے گا۔
کبھی کبھی مجھے اپنی دادی 1یاد آ جاتی ہیں ، جو نہایت خوبصورت اور با رعب خاتون تھیں۔ ان کے والدمنصرم الدولہ واجد علی شاہ کے وزیر تھے۔ جن کا سارا اثاثہ تہس نہس ہو گیا تھا۔ میری دادی کا بچپن کلکتّہ کے پاس مٹیا برج میں گزرا تھا جہاںواجد علی شاہ اور ان کے قریبی لوگ حراست میںرکھے گئے تھے۔ بعد میں جب میری دادی بڑی ہو گئیں اور خود ماں بنیںتو اپنی اولادوں کو لے کر جے پور اور پھر وہاں سے لکھنئو آئیںاور جو کچھ ان کے پاس زیورات بچ گئے تھے انھین بیچ کر اور گر ھوٰیں رکھ کر اپنے بیٹوں کی تعلیم اور شادیوںپر خرچ کیا۔ اور اپنی اولادوں اور ان کی اولادوں کو دیکھ دیکھ کر خوش ہوتی رہیں۔ اور جب میرے والدامین الدین نقوی (حسن) کا ۴۰ برس کی عمر میںانتقال ہوا تو اپنے سینے پر پتھر رکھ کر انہیں الوداع کہی۔
مجھے ایک چچا زاد بہن یاد آرہی ہے۔ کمسنی میں اس کی شادی ہوئی تھی، شوہر ایک سرکاری افسر تھے۔ دونوں کی ازدواجی زندگی میںبہار شروع ہوئی ہی تھی اور ایک بیٹی کے روپ میں ننھی سی گڑیا نے قدم رکھا اور پھدکنا شروع ہی کیا تھا کہ اچانک اس کے شوہر کا انتقال ہو گیا۔ چند مہینوں کے بعد دو جڑواں بچے ہوئے۔ جنھیں اس نے اپنے خون جگر سے محبت کے ساتھ پالا۔ کن کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہوگا اس کا تصور بھی ہم نہیں کر سکتے۔ایسی ہی میری کتنی رشتے دار عورتیں ہیں۔ دوستوں اور ملاقاتیوں کے خاندانوں کی عورتیں ہیں جن کی مادری محبت کے سامنے سر جھکانا پڑتا ہے۔میں خود جب اپنی ماںکے بارے میں غور کرتا ہوں تو اس فقرے کے مطلب سمجھ میں آجاتے ہیں:
’’ماں کے پیر کے نیچے جنت ہے۔‘‘
مجھے ابھی بھی یاد ہے کتنی محبت سے میری ماں نے مجھے اور میری چھوٹی بہن کو پالا تھا۔ اور جب پانچ سال کی عمر میں میری بہن نیلو فر کا حیدراباد دکن میں انتقال ہو گیا تو وہ کتنا روئیں تھیں۔ پھر جب ہم عید منانے کے لئے لکھنئو آئے اور میرے والد کودل کا دورہ پڑا تو انھوں نے اٹھارہ دنوں تک اسپتال میں ان کی خدمت کرتے ہوئے دن رات ایک کر دئے اور میرے والد کی وفات کے بعد اپنے بیٹے کی خاطر دوسری شادی تک نہ کی حالانکہ وہ ان دنوں جوان تھیں، خوبرو تھیں اور ان کے والد ان پر زور دے رہے تھے ۔یہاں تک کہ بیٹے کی بہتر تربیت کے لئے اس بات پر بھی تیار ہو گئیں کہ وہ اپنی دادی اور چچا کے ساتھ رہے۔ اور جب ان کا بیٹا پڑھ لکھ کر پردیس جانے لگا3 تو اپنے سینے پر پتھر رکھ کر اسے اجازت دی تاکہ اس کا مستقبل سنور سکے۔
۱۹ فروری ۱۹۹۷ء کو جب لکھنئو میں عیش باغ کے قبرستان میں میں ان کی لاش کو قبر میں اتار رہا تھاتو خیالات کا ایک ہجوم تھا جس نے مجھے محصور کر لیا تھا۔ آج بھی جب میں ان کے باریمیں سوچتا ہوں تو ایک عجیب و غریب شخصیت میرے سامنے آجاتی ہے۔ اور جی چاہتا ہے کہ یہ انٹرویو جو میں نے اپنی والدہ کے انتقال سے ایک سال قبل ان سے لیا تھا پیش کردوں۔یہ وہ وقت تھا جب میری والدہ کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ چکی تھی اور وہ اٹھنے بیٹھنے سے معزور تھیں۔ ساتھ ہی ڈاکٹروں نے سینے میں کینسر کا شک ظاہر کیا تھا۔ اس وقت مجھے پہلی بار یہ احساس ہوا تھا کہ اپنی ماں سے ان کے خاندانی حالات کے باریمیںجہاں تک ہو سکے معلومات حاصل کر لوں۔ یہ گفتگو جس کا کیسیٹ میرے پاس سے گم ہو گیا تھا اور ابھی حال میں پھر ملا ہے کچھ اس طرح ہے:
عارف: امی آپ کے والد کا کیا نام تھا؟
والدہ:لیجئے، آپ کو نہیں معلوم، حافظ عبدالسلام تھا۔
عارفَ:تو حافظ تو ان کا ٹائٹل تھا؟
والدہ:پکارے جاتے تھے۔ سید حافظ عبدالسلام ان کا نام تھا۔
عارف:دادا کا نام کیا تھا؟
والدہ:یاد نہیں ہے۔ ( بعد میںمیری والدہ کے ایک بھائینے بتایا کہ ان کے خیال سے یہ نام برکت علی یاایسا ہی کچھ تھا)
عارف :اپنی والدہ کا نام تو یاد ہے؟
والدہَ:حسن آرا بیگم تھا۔
عارف:تو ان کے والد کا کیا نام تھا؟
والدہ:اماں کے؟ ہمیں یاد نہیں۔ ہم چھوٹے سے تھے۔ گود میں تھے، جب نانا مرے ۔ تو ہمیں کیا معلوم۔ اور دادا جب مرے ہیں تو ہماری اماں کی شادی بھی نہیں ہوئی تھی۔
عارف:آپ کے والد لکھنئو میں کہاں سے آئے تھے؟
والدہ:وہ سب عرب کے تھے یا پنجاب کے تھے۔ میرے خیال میں پنجاب کے تھے۔ (بعد میں معلوم ہوا کہ سیالکوٹ سے آئے تھے۔)
عارف:وہ تو بہت لمبے چوڑے تھے؟
والدہ:ہاں بہت چوڑے تھے سنتے ہیں۔ اماں کو دیکھا۔ دادا کو نہیں دیکھا۔ دادا تو ہمارے ۔۔۔اماں کی شادی بھی نہیں ہوئی تھی جب دادا ہمارے مرے ہیں۔
عارف:پنجابی ٹولہ کا محلّہ کیسے بنا؟
والدہ: انھیں لوگوں نے بنایا ہے۔ ابّا کے اس وقت والدزندہ تھے، دادا۔ سب ان لوگوں نے بنایا ہے۔ بھئی ابا کے جو پردادا تھے۔۔۔(والدہ نے کچھ ایسی باتیں بتائی جن کی تفتیش کرنے کے بعد ہی اشاعت ممکن ہے) ان کی بڑی عزت تھی۔ سنا جب غدرہوا ہے تو ہمارے پھاٹک پر گوروں کا پہرا تھا۔ مذاق نہیں۔
عارف:توپھاٹک پر گوروں کا پہراتھا؟
والدہ:ہاںغدر ہوا تھا نا۔ تو سب طرف آفت مچی ہوئی تھی۔ یہاں لوگ آن کر چھپے تھے۔
عارف: تو آپ کے دادا پردادا جو تھے انھوں نے دیش سے غداری کی تھی؟
والدہ:کیا غداری کی تھی؟
عارف: انگریزوں کا ساتھ دیا تھا۔
والدہ:اس وقت جو بادشاہ تھے۔۔۔
عارف:واجد علی شاہ؟
والدہ: ہاں انھوں نے ان سے ملنا چاہا تھا، دادا سے۔ تو انھوں نے کہا میں غداری نہیں کروں گا۔ میں نہیں مل سکتا۔ تو انھوں نے بہت ہی۔۔کہا ایک بجرے پر آپ آئیے ایک بجرے پر ہم آئیں گے۔ تو بیچ میں ملاقات ہوئی۔ تو اس وقت انھوں نے نامعلوم کتنے توڑے اشرفیوں کے دئیے اور ایک چوغا پہنایا، پردادا کو بادشاہ نے۔ سنا ہے۔ سب دیکھا تو نہیں مگر ابا کی زبانی سب سنا ہے۔(اس کی بھی پہلے تفتیش کرنا پڑے گی)
عارف:تو وہ کیوں ملنا چاہتے تھے؟
والدہ:اب کچھ وجہہ ہوگی۔
عارف:تو آپ کے ابّا کی شادی کلکتے میں کیسے ہوگئی؟
والدہ:نانا ہمارے یہاں کاروبار کرتے تھے۔
عارف: کہاں، یہاں؟
والدہ:ہاں لکھنئو میں۔ تمھاری نانی وانی سب رہتی تھیں یہاں۔یہیں شادی ہوئی۔
عارف: کاہے کا کاروبار کرتے تھے؟
والدہَ:یہ نہیں معلوم۔ کاروباری تھے۔ تجارت تھی ان کی بہت بڑی۔ یہ نہیں معلوم کہ کونسا کاروبار کرتے تھے۔
عارف:اچھا ناظم الدین صاحب کے۔۔۔؟
والد:وہ ہماری خالہ ان کو بیاہی ہوئی تھیں۔
عارف:خواجہ ناظم الدین سے ؟ آپ کی خالہ، کیا نام تھا ان کا؟
والدہ:ان کا شمس النساء یا مہر جہاں۔۔۔کیا نام تھا۔۔۔
عارف:آپ تو ان کو بیگم خالہ کہتی تھیں؟
والدہ:تو بیگم تو ان کو پکارا جاتا تھا۔ اور ان کا نام مہر النسا ایسا ہی کچھ تھا، بیگم خالہ کا۔
عارف:تو یہ لوگ کتنے بھائی تھے ، خواجہ ناظم الدین وغیرہ؟
والدہ:دو۔ دو بھائی تھے۔ وہ بھی شاید مر گئے ۔ وہ لوگ ڈھاکہ کے نواب کے لڑکے تھے۔ یہ ببن صاحب کی شادی انھیں کی لڑکی کے ساتھ ہوئی تھی۔ یہ جو سکندرہیں ، ننھی ہیں یہ ڈھاکہ کے نواب کی نواسی ہیں۔ ابّن صاحب کی پہلی بیوی، ان کے یہ بچّے ہیں۔ننھی، سکندر اور پیارے، یہ تینوں اولادیں انھیں کی ہیں۔
عارف:ننھی آپا کے پہلے شوہر کا کیا نام تھا؟
والدہ:صبحان، صبحان نام تھا۔
عارف:وہ کلکتے میں کیا تھے؟
والدہ:مجسٹریٹ۔۔۔بڑی پوسٹ تھی۔
عارف:اور سکندر آپا؟
والدہ:سکندر؟ تو ان کے میاں وزیر تھے۔ وہاں ڈھاکہ میں۔
عارف:سکندر آپا کے؟
والدہ:ہاں وزیر تھے۔ مرگئے۔
عارف:ہم نے سنا وہ پاکستان ڈیولپمنٹ کارپوریشن کے ڈائریکٹر تھے؟
والدہ:نہیں، وزیر تھے۔
عارف:کیا نام تھا؟
والدہ:زماں۔
عارف:اچھا زماں صاحب جو تھے وہ سکندر آپا کے شوہر تھے؟
والدہ:ہاں۔
عارف:اور صبحان تھے ننھی آپا کے میاں؟
والدہ:ننھی کے میاں۔
عارف:تو ننھی آپا سے کیا رشتہ ہے؟
والدہ:کس کا؟
عارف:آپ کا۔
والدہ:اے ہماری اماں کے۔۔۔ان کے باپ جو ہیں ، ہماری اماں کے سگے ماموں زاد بھائی ہیں۔ان سے رشتہ ہے۔ سگے ماموں کے لڑکے ہیں۔ ببن صاحب اماں کے۔۔۔ سگا رشتہ ہے۔
عارف:آپ کے والدکی شادی کب ہوئی؟
والدہ:اب مجھے کیا معلوم۔
عارف:کچھ تو پتہ ہوگا؟
والدہ:نہیں مجھے۔۔۔میں ایسے پتہ نہیں رکھتی۔
عارف:کیوں؟
والدہ:باپ ماں کی شادی کا کیا پتہ رکھتی۔
عارف:تو کیا پہلے دیکھا تھا ان دونوں نے ایک دوسرے کو؟
والدہ:نہیں نہیں ابا نے دیکھا تھا۔ ہماری دادی نے ٹہرائی تھی۔ ماں زندہ تھیں ابّا کی۔کمسنی میں شادی ہوئی۔ اماں تیرہ برس کی تھیں اور باپ اٹھارہ برس کے تھے۔ سال بھر کے بعد بچے ہوئے ہیں۔ تیرہ چودہ بچے ہوئے ہیں۔ مرجاتے تھے۔ ایک پیٹ میں آیا ، دوسرا مر گیا، بہت کم عمری میں امّاں ابّا کی شادی ہوئی۔ دادی کو سنا شوق تھا۔ اٹھارہ لڑکیوں میں یہی ابّاتھے۔ اٹھارہ لڑکیوں کے بعد ابّاپیدا ہوئے تھے۔ سمجھو بہت دُلارے تھے۔ مگر باپ نہیں رہے ۔جب یہ پیٹ میں آئے تو باپ مرگئے۔ ہماری نانی کی بھی اٹھارہ لڑکیاں تھیں اور ایک ماموں ہوئے۔ اماں اٹھارہ بہنیں تھیں اور ایک ہمارے ماموں تھے۔
عارف:کیا نام تھا؟
والدہ:نظام الدین۔
عارف: اٹھارہ بہنیں تھیں؟ میں نے تو نہیں دیکھا۔
والدہ: تم کیا دیکھتے ، وہ ہوتے ہی مر جاتی تھیں۔ سال چھہ مہینے کی ہوکے مر جاتی تھیں۔ تم کیا دیکھتے۔ کسی نے بھی نہیں دیکھا۔ ہمارے ابّا نے بھی نہیں دیکھا تو تم کیا دیکھتے۔
عارف:مراد ماموں 1کی شادی کیسے ہوئی؟
والدہ:محبت کی شادی تھی ۔ بہت زبردست محبت تھی دونوں میں۔
عارف:یہ کیسے؟
والدہ:کیا معلوم۔ ایک دوسرے کو دیکھا تھا۔ برسوں محبت رہی۔ اس کے بعد شادی ہو گئی۔
عارف:نیازو نانا کیا کرتے تھے؟
والدہ:وہ تجارت کرتے تھے، جانوروں کی۔ بھیڑئیے، شیر، بھالو، ہاتھی اس سب کی تجارت ہوتی تھی۔ وہاں جرمن جاتا تھا ان کا مال جہاز سے۔ سانپ، اژدہے اس سب کی تجارت کرتے تھے۔ بڑا بھاری تھا چڑیا خانہ ۔ سو ڈیڑھ سو ان کے نوکر تھے۔ یہاں (لکھنئو) سے بھی شیر کے بچے لے کرجاتے تھے۔ راجہ محموداباد ان کے دوست تھے۔ یہاں وہ شکار کرتے تھے اور بھیڑئیے اور شیر کے بچّے لے کر جاتے تھے۔چڑیا ، طوطے۔۔۔۔
عارف:ان کے گھر میں بھی تو میں نے شیر دیکھا تھا؟ (کلکتے میں)
والدہ:ہاں انھیں کا تھا ۔ سب مٹ گیا۔
عارف:ان کی بیوی کی جائداد اکیاب میں تھی؟
والدہ:اکیاب میں۔پورے خاندان کی جائداد اکیاب میں تھی۔ مگر جب وہ اکیاب کا قصّہ ہوا ۔۔(اکیاب پر جاپانیوں کا قبضہ) تو سب کچھ ختم ہو گیا۔ ورنہ ہماری خالہ اماں کی ، سب کی لاکھوں روپئے کی جائداد وہاں مر گئی، اکیاب میں۔
عارف:تو اپنی شادی کے باریمیں بتائیے۔
والدہ:اے ہٹو، پاگل ہو گیا ہے کیا۔۔
عارف:یہ بتائیے، کب ہوئی شادی؟
والدہ: کیا جانے کب ہوئی۔
عارف:عشق کی شادی تھی یا۔۔۔؟
والدہ:مارو، کیسی باتیں پوچھ رہے ہو۔
عارف:ہم نے تو یہی سنا ہے؟
والدہ:جو سنا ہے ٹھیک ہے۔ کیا کہیں۔
عارف:آپ نے ہمارے والد کو پہلے دیکھا تھا؟
والدہ:ہاں دیکھا کیوں نہیں تھا۔
عارف؛ کیوں دیکھا تھا؟
والدہ:جاتے تھے آتے تھے ڈولی میں، نظر پڑ گئی۔
عارف:مگر دیکھنا تو نہیں چاہیے غیر مردوں کو؟
والدہ:ہم بچّہ تھے ۔کوئی بوڑھے تھوڑی۔ اتنے بڑے تو نہیں تھے۔ برسوں تو تمھاری دادی رہی ہیں یہاں۔یہاں ہمارے وہاں۔
عارف:ہماری دادی آپ کے وہاں رہیں؟
والدہ:ہاں اسی مکان میں جس میں نوابُو (والدہ کے ایک بھائی ۔ نانا کی دوسری بیگم سے) ہیں۔
عارف:کتنا کرایہ دیتی تھیں؟
والدہ:ساڑھے بارہ روپئے۔
عارف:اور کون رہتا تھاْ؟ منصف۔۔۔
والدہ:پہلے وہ رہتی تھیں چھوٹی خالہ، تمھاری دادی کی سگی بہن، خلیل کی سگی نانی۔ بیوی باجی، زاہدہ ، یہ لوگ سب پہلے رہتے تھے۔ اس کے بعد تمھاری دادی آئیں۔
عارف:منصف بھائی کب رہتے تھے؟
والدہ:اس میں رہتے تھے دیوان خانے میں ( یہ بھی نانا کے ایک مکان کا نام تھا)۔زاہدہ دیوان خانے میں تھیں اور بیوی باجی اور چھوٹی خالہ اس مکان میں آئی تھیں۔ جب وہ لوگ چلے گئے تو تمھاری دادی آئیں۔برسوں رہ کے گئے ہیں۔تمھارے پاپا یہیں سے پڑھنے کے لئے علی گڑھ گئے تھے۔ انھوں نے علی گڑھ میں اور یہاں لکھنئو میں پڑھا تھا۔
عارف:تو آپ سے انھون نے کیسے شادی کرلی؟
والدہ:انھوں نے تھوڑی کی ہمارے باپ نے کر دی۔ دماغ خراب ہوا ہے۔ ہمارے ابّا نے کی اور ان کی امّاں نے کی۔عارف:اور دوسرے رشتے نہیں آئے؟
والدہ:ہزاروں رشتے آئے ہیں۔ مگر ابّا نے ان کو پسند بہت کیا تھا۔
عارف:کیوں؟
والدہ:یہ نیک بہت تھے۔ سیدھے تھے۔اس لئے ان کو پسند کرتے تھے۔ کتنے دن تو انکار کر دیا تھا ابّا نے۔ پھر دیکھتے رہے دیکھتے رہے، پھر کہنے لگے کہ لڑکا بہت اچھا ہے۔ اے ہماری اماں کو بہت پسند تھے یہ ۔مگر ہم لوگ اس وقت بہت چھوٹے تھے۔ شادی کا کوئی سوال نہیں تھا۔
عارف:تو آپ کی جب شادی ہوئی تو آپ کی اماں تھیں؟
والدہ:نہیں امّاں کے پانچ برس کے بعد شادی ہوئی۔ تین برس کے بعد تو ابّا کادوسرا نکاح ہوا ہے۔ اس کے دو سال کے بعد تو ہماری شادی ہوئی۔
عارف:آپ کے ابّا اپنے آپ کو حافظ لکھتے تھے؟
والدہ:تھے۔ لکھتے نہیں تھے، حافظ تھے۔
عارف:اور یہ مسجد بھی انھیں کی ہے؟
والدہ:یہ ہمارے دادا پردادا کی بنائی ہوئی ہے۔
عارف:اور یہ جو قبرستان تھا؟ (لکھنئو میں کھجوا نامی مقام پر)
والدہ:سب انھیں لوگوں کا تھا۔ دادا پردادا کی تھی یہ جائداد پوری۔
عارف: تو کیسے معلوم ہوا آپ کے ابّا سیّد تھے؟
والدہ: ہمارے پاس شجرہ تھا۔ نہ معلوم کیا ہوا۔ لوگ لے گئے، کیا کِیا۔ ہمارے والد سید تھے ماں ضرور شیخ تھیں۔
عارف: تو خواجہ ناظم الدین وغیرہ سب شیخ ہیں؟
والدہ:وہ تو اپنی طرف سے شیخ ہیں بھئی۔ وہ شیخ ہیں اپنے ڈھاکہ سے۔۔۔
عارف:میرا مطلب ہے ڈھاکہ فیملی؟
والدہ:ہاں کلکتے میں سب شیخ ہیں ہمارے وہاں۔
عارف:خواجہ کیوں لکھتے ہیں؟
والدہ:ادھر سے میل ہے نا سب اپنے آپس میں۔۔۔اب نورالدین ماموں تھے، ان کے باپ خواجہ تھے۔ وہ خواجہ ہی رہے۔ بیگم خالہ خواجہ ہی تھیں۔ نورالدین اور بیگم خالہ دونوں سگے بہن بھائی تھے۔ باپ وہیں کے تھے ۔ ماں کلکتے کی تھیں۔ باپ ڈھاکے کے تھے۔
عارف:مراد ماموں کے والد تو بعد میں بہت تباہ ہو گئے تھے؟
والدہ:بالکل تباہ، وہ اپنی ذات سے ہوئے۔ شراب اور رنڈی کے پیچھے۔ عیّاشی کی انھوں نے، اور شراب۔ اسی میں سارا کاروبار چوپٹ ہوا۔ ان کے باپ نے دس لاکھ روپیہ نقد چھوڑا تھا۔ کئی لاکھ روپئے کی تو جائداد چھوڑی تھی۔ اور انھیں نے سب تباہ کردیا، میموں کے پیچھے۔ سب چوپٹ ہو گیا۔ جانور مر رہے ہیں یہ شراب پئے اپنے میں مست ہیں۔ میموں کے ساتھ گھوم رہے ہیں۔ جانور مر رہے ہیں کچھ پروا ہی نہیںہے۔ نوکروں پر چھوڑ رکھا ہے۔ لاکھوں کا نقصان ہوا۔ شراب پی کر گئے جہاز میں۔ ایک لاکھ روپئے کے نوٹ رکھے تھے ان کی جیب میں کسی نے نکال لئے۔ ان کو خبر ہی نہیں۔
عارف:کہاں گئے تھے جہاز میں؟
والدہ:ارے بھئی مال تیار ہوتا تھا تو جاتے تھے دیکھنے جہاز میں۔جب جانور بھرتے تھے۔ کسی نے نکال لئے۔
شراب کے پیچھے تباہ ہوگئے۔ لڑکے کے لئے کچھ نہیں چھوڑا۔ اب جو کچھ چھوڑا بھی وہ بھی ختم ہو گیا۔
عارف:لیکن ان کی شادی تو اچھی جگہ ہوئی؟
والدہ:کس کی؟
عارف:مراد ماموں کی!
والدہ:ہاں شادی تو اچھی جگہ ہوگئی۔ اچھا جو جائداد ہے ، پورے خاندان کا اس میں حصّہ ہے۔ ہماری امّاں کا بھی حصّہ ہے۔ مقدمے بازی اب چل رہی ہے۔
عارف: چل رہی ہے؟
والدہ: ہاں ان سے چل رہی ہے، کریم ماموںسے۔ان کے ہاتھ میں سب آگیا ہے۔ان کے کوئی اولاد تو ہے نہیں۔ ان سے چل رہی ہے مقدمے بازی۔ ان کے پاس لاکھوں کروڑوں کی جائداد ہے۔
عارف: وہ کیسے دیں گے۔ اب چلا گیا؟
والدہ:نہیں، چلا کیسے گیا۔ کئی لاکھ روپیہ تو ان کا بنک میں ہے۔ ہمارے ماموں لگتے ہیں۔ ان سے مقدمہ چل رہا ہے۔
عارف: مراد ماموں کے سسرے تو فیروزالدین تھے؟
والدہ: ہاں۔ مرگئے۔۔۔انھیں کا تو سوسائٹی سنیما ہے۔(کلکتّہ میں) کافی بزنس وغیرہ تھی؟ کروڑ پتی تھے۔ بہت بڑے سیٹھ تھے۔
عارف: اور مریم نانی جو تھیں؟ مراد ماموں کی ساس ، تو انھوں نے دوسری شادی کی تھی؟
والدہ: ہاں۔ پہلی شادی، ان کے میاں مر گئے تھے کمسنی میں۔ پھر ان سے کی تھی۔فیروزالدین صاحب سے۔
عارف: سنا بہت خوبصورت تھیں؟
والدہ:بہت خوبصورت تھیں۔ حسین تھیں۔ خوبصورت کیا حسین تھیں۔اسی پر تو وہ عاشق ہو گئے تھے، فیروزالدین ۔
عارف: خیر خوبصورت تو ننھی آپا بھی تھیں؟
والدہ: ہاں ارے اب یہ بڑھاپا ان کا ہے۔ جوانی میں بہت اچھی تھیں۔ ان کے تو کہاںکہاں فوٹو لئے گئے تھے ۔
پہلا نمبر آ گیا تھا ان کا۔
(ننھی آپا کو مس کلکتے کا خطاب ایک بار ملا تھا) ان کی جو بہن ایک تھیں ڈھاکہ میں مری تھیں، بڑی بہن، وہ سب سے
زیادہ خوبصورت تھیں۔سنتے ہیں ان کی ماں بہت خوبصورت تھیں۔
عارف:اچھا یہ بتائیے کہ ہمارا جو بھائی تھا اس کا نام کیا تھا؟
والدہ: اس کا نام تھا معین الدین1
عارف: کتنا بڑا تھا جب اس کا انتقال ہوا؟
والدہ: دس مہینے کا۔
عارف: کیسے انتقال ہوا؟
والدہ:چیچک نکلی تھی ۔ آٹھ دن کے اندر مر گیا، اچھا خاصا۔
عارف: سنتے ہیں بہت خوبصورت تھا؟
والدہ: بہت حسین، بہت خوبصورت۔ وہ اپنے دادا پر سنا ہے پڑ گیا تھا۔ تمھارے دادا جو تھے بہت خوبصورت تھے۔قمرالدین صاحب وہ ہمارے ہی نام کے تھے۔ وہ سنا بہت خوبصورت تھے۔ ویسے تمھاری دادی بھی بہت اچھی تھیں۔ جوانی میں بہت اچھی ہوں گی۔ بہت خوبصورت۔
عارف: اور ہماری دادی کے والد تھے نواب منصرم الدولہ ، جو واجد علی شاہ کے وزیر تھے؟
والدہ: وزیر تھے۔ ہاں وہ تمھاری دادی کے والد تھے۔
عارف: اچھا ہماری بہن کا انتقال کب ہواتھا؟
والدہ: تمھارے پاپا کے زمانے میں ہوا تھا۔
عارف: کتنی بڑی تھی؟
والدہ: پانچ برس کی تھی۔ ایسی ہی کچھ تھی۔
عارف: اس کے بار ے میں کچھ یاد ہے؟
والدہ: اس کے وہ دانہ نکلا تھا ایک گٹے پر ۔ وہ بڑھتا گیا ۔ اسی میں پورا پیر اس کا سڑ گیا۔ وہاں حیدرابادمیں کالج میں لے کے ہم رہے تھے۔ بہت علاج کیا مگر اسے Tetanus (ٹیٹنس) ہو گیا ۔ بڑی پیاری ، بہت ہی خوبصورت تھی۔ اور باتیں ایسی کرتی تھی کہ کیا بتائیں۔ باپ تمھارے بہت چاہتے تھے۔ بے حد چاہتے تھے۔ جب کوئی چیز لائیں تو پہلے اس کے لئے لائیں گے۔ ہم سے لڑائی ہوتی تھی۔ہم کہتے تھے کہ یہ کیا، آپ لڑکے کے لئے کیوں نہیں لائے۔ کہنے لگے کہ بھئی وہ سامنے بولتی ہے، بات کرتی ہے کہ ہم مجبور ہو جاتے ہیں۔ہم نے کہا نہیں غلط بات ہے۔ ہم لینے نہیں دیں گے۔ تو پھر دونوں کے لئے ، تمھارے لئے اس کے لئے لاتے تھے۔
عارف: سنا اس کے مرنے کا ان پر بہت اثر ہوا؟
والدہ: بہت۔ عاشق تھے اس کے۔ یہاں تک کہ سونے کی انگوٹھی موٹی سی پہنے تھے۔ جس وقت انھوں نے قبر میں اس کو لٹالا ہے، کہنے لگے کہ میں لٹائوں گا کوئی اور نہیں، تو وہ انگوٹھی وہیں رکھ دی۔سڑی ہو گئے تھے تمھارے باپ۔ یہ سمجھو ایک مہینہ تمھارے باپ نے نہ کھانا ٹھیک سے کھایا نہ کچھ۔ نہ داڑھی بنائی نہ کچھ۔ پاگل ہو رہے تھے۔ سب کہہ رہے تھے ننھے بھائی، رشیدہ وہیں تھیں حیدراباد میں۔ کہنے لگیں کہ غضب ہے ان کا دماغ نہ وہ ہوجائے۔ ڈاکٹروں نے کہا ان کو بہلائیے۔ بہت شاک پڑا بچّی کا۔ بہت یعنی بھولتے نہیں تھے۔ وہی تو مردے کی وہ فوٹوجو انھوں نے لوایا تھا وہ اپنے پاس رکھے کا۔ بہت یعنی بھولتے نہیں تھے۔ وہی تو مردے کی وہ فوٹوجو انھوں نے لوایا تھا وہ اپنے پاس رکھے رہتے تھے۔ جو ہم نے تمکو بھی نہیں دیا۔ ختم کردیا ہم نے۔
عارف: ختم کیوں کر دیا۔ وہ مجھے دے دیجئے۔
والدہ: نہیں، ختم کردیا مردے کا فوٹورکھنا پاس میں منحوس ہے۔ بیٹا غلط بات مت کرو۔ وہ ہم نے رکھا ہی نہیں، تمھیں دیں کیا۔انھیں کو ہم روکا کرتے تھے، مگر مانتے نہیں تھے۔ کہتے تھے: نہیں مجھے تسکین رہتی ہے اس سے۔ انھیں کو روکا کرتے تھے۔ تمھیں ہم کیسے دے دیں۔ کچھ اللہ کی طرف سے جو جو برا تھا وہ ہوا۔
عارف: اچھا بہن کا نام کیا تھا؟
والدہ: ایک تھوڑی نام تھا۔ ابّا نے تو اس کا نام شمس النسا رکھا تھا۔ اور اس کا نام وہ ان کی بہو کا کیا نام تھا حیدراباد کی جو بہو تھیں۔۔۔
عارف: ویسے آپ نے بے بی۔۔۔؟
والدہ: نام تو وہی تھا جو نظام کی بہو کا تھا، نیلو فرؔ۔
عارف: جب انتقال ہوا تو کیا عمر تھی؟
والدہ: پانچ ، چھ برس کی تھی۔ چھوٹی سی تھی۔ بلکہ تم اس کو بہت چھیڑتے تھے۔ چھیڑتے کیا تھے اس کے کپڑے پکڑتے تھے۔ وہ بہت بھنّاتی تھی، کیونکہ وہ صاف رہتی تھی۔فراک چھو لیتے تھے تو چلّاتی تھی۔
عارف: ہمارے پاپا کا انتقال کب ہوا، کیسے ہوا؟
والدہ: اس کے بعد ہارٹ فیل ہوا۔
عارف: اچھا امّی، آپ انگرڈ (میری اہلیہ) اور نرگس (میری بیٹی) سے کچھ کہنا چاہیں گی؟
والدہ: ان سے کہنا کیا چاہیں گے۔ ہمارا دیکھنے کو بہت دل چاہتا ہے ان کو۔ مگر اب کیا کریں مجبور ہیں۔ اب اگلے سال ملاقات ہوگی یا نہیںہوگی اللہ جانے۔ کیونکہ ہماری حالت ایسی ہے کہ جتنی ڈاکٹر طاقت کی دوائیں دے رہے ہیں اتنے ہی ہم کمزور ہو رہے ہیں۔ بیٹھ سکتے نہیں زیادہ۔ تھوڑی دیر میں چکّر آتا ہے۔
عارف: آپ کو نرگس یاد ہے؟
والدہ:یاد کیوں نہیں مجھے۔ ارے یاد ہے۔ پاگل ہو گیا ہے۔ (ہنستے ہوئے) پاگل پن کی باتیں مت کرو۔ ہم مار دیں گے۔ ہمیں یاد نہ ہو گی۔ماشہ اللہ سے وہ آئی تھی تو سمجھو گلے لپٹنا، چمٹنا۔ اچھی خاصی بڑی سی آئی تھی۔ اسی کے بعد تو تم نے شادی کی اس کی۔ مگر غلط شادی کی۔ ہندوستان میں کرتے تو سب سے میل جول رہتا۔ اب کیا ہے۔ کچھ بھی نہیں۔اپنے سب چھٹے ہوئے ہیں۔ کون اس کا عزیز ہے وہاں پر۔ صرف ننھیال ہے۔ تمھارا والا وہاں کون ہے۔ غلط کی تم نے اس کی شادی۔ ہندوستان میں کرتے تو ٹھیک تھا۔ سب ملتے جلتے رہتے۔ اس کو بھی معلوم ہوتا کہ عزیز ہیں، ددھیالی۔
عارف: تو اس کا شوہر پسند نہیں آیا؟
والدہ: ہم ان کو دیکھیں وہ ہمیں دیکھیں۔ ہے تو بہت نیک سیدھا مگر وہی ہے کہ اب کیا بتاویں کہ وہ ہمیں دیکھیں ہم انھیں دیکھیں۔ نہ ہم ان سے بات کر سکتے ہیں نہ وہ ہم سے بات کر سکتے ہیں۔ ویسے تو بہت نیک معلوم ہوتا ہے۔ سیدھا بھی ہے۔ ہمیں اچّھا بھی لگا۔ خوبصورت ہے ۔ پیارا ہے۔
عارف: (اس گفتگو کے دوران میرا خالہ زاد بھائی جاوید پاس بیٹھا ہو ا تھا۔ میں نے اس کی طرف اشرہ کرتے ہوئے پوچھا)
جاوید سے اچّھا ہے؟
(والدہ نے ہنس کر جواب دیا)
والدہ:تم سے اچّھا ہے۔
ضضضض

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here