وقار رضوی
آج جب لوگ یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ مسلمان کا حکومت میں ایک جگہ کام کرنا دشوار ہے ۔ایسے میں کوئی تین تین جگہ اہم عہدوں پر فائز ہو تو سوال تو اُٹھے گا ہی اور اگر یہ اہلیت پر ہے تو پھر موجودہ سرکار سے خوف ،ہر وقت رونا اور کسی بھی طرح کی تنقید بے معنی ہے۔
کون ہے جو کروڑوں کی اُردو اکادمی میں نہ جانا چاہتا ہو، اور گیا بھی لیکن چند مہینوں میں ہی واپس چلا گیا جب کسی سے پوچھا کہ ابھی تو آپ گئے تھے اور ابھی اتنی جلدی پھر واپس آگئے تو سب نے بس یہی کہا کہ یار اوپر والوں کی ڈیمانڈ اتنی زیادہ رہتی ہے کہ اسے پورا کرپانا میرے بس کی بات نہیں۔
ہوسکتا ہے یہ بالکل بے بنیاد ہو لیکن سوال تو اُٹھتا ہی ہے کہ جہاں کوئی چھ مہینے نہ رُک پارہا ہو وہاں کوئی دسیوں سال سے کیسے موجود ہے اور ایک جگہ نہیں ایک ہی وقت میں تین تین جگہ۔ جو باتیں اودھ نامہ میں لکھی گئیں وہ اودھ نامہ کی اپنی خبر نہیں نہ اپنی کوئی رائے ہے بلکہ لوگوں کے خیال، تجربے اور آپ بیتی ہیں ۔
کیونکہ نہ جانے کتنے پروگرام میں جو ایک ہی مہینے میں، ایک ہی مہینے میں کیوں ایک ہی دن میں صرف اس لئے ہوئے کہ پیسہ بچ گیا تھا اور اسے خرچ کرنا تھا اور ایک ہی دن میں تین تین پروگراموں میں جو الگ الگ سوسائٹی کے تھے ان سب میں سرکاری افسر ڈائس پر تھے اور ڈائس کے مہمان بھی ایک ہی تھے،
اب ہمیں نہیں معلوم، لیکن کوئی تعجب نہیں کہ ہر سوسائٹی نے ایک ہی ٹکٹ کا پیسہ الگ الگ اکادمی سے لیا ہو۔ یہ سب افواہ بھی ہوسکتی ہے لیکن کیا ٹرانس پیرنسی کوئی غلط چیز ہے کیا یہ مطالبہ غلط ہے کہ اگر آپ صاف شفاف ہیں تو آپ نظر بھی آئیں۔
کہتے ہیں کہ ایسی جگہ پر حکومت اپنا نمائندہ اس لئے تعینات کرتی ہے کہ وہ وہاں بدعنوانیوں پر نظر رکھے، اسے روکے نہ کہ اس کا ساجھے دار بنے، اردو اکادمی کے آئین میں صاف طور پر لکھا ہے کہ فائنینس آفیسر، ٹریزری کا کوئی سینئر آفیسر ہوگا لیکن اس آئین کے برخلاف اسی شعبہ بھاشا سے فائنینس آفیسر بھی تعینا ت ہے جہاں سے سکریٹری صاحب آئے ہیں، ہمارا ان کا کوئی ذاتی اختلاف نہیں۔
کیونکہ اردو اکادمی سے اللہ کی فضل سے ابھی تک ہمارا کوئی ذاتی کام نہیں پڑا، لیکن اخبار کی دنیا میں رہنے کے جتنے فائدے ہیں تو نقصان بھی اتنے ہی جیسے ہر مولوی کو جیسا پہلے سمجھتا تھا آج ویسا نہیں ۔ایسے ہی سب اردو والے اردو کے فروغ کیلئے واقعی کوشاں ہیں ایسا بھی نہیں کیونکہ اردو کا زوال ہی اردو والوں کی وجہ سے ہے۔
سابق سکریٹری، شاہ نواز قریشی جو نہ صرف اردو اکادمی کے سکریٹری رہے بلکہ انفارمیشن ڈپارٹمنٹ جیسے اہم محکمہ میں ڈپٹی ڈائرکٹر بھی رہ چکے ہیں، وہ جب سکریٹری تھے تو فل ٹائم سکریٹری تھے، ان کا یہ کہنا کہ سکریٹری خود کوئی فیصلہ نہیں لے سکتا، اس کو تو مجلس عاملہ کی میٹنگ میں لئے گئے فیصلوں کانفاذ کرنا ہوتا ہے جبکہ ممبر تو کچھ اور کہہ رہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ سکریٹری صاحب سارے مالیاتی فیصلے پہلے ہی لے لیتے ہیں اور بعد میں صرف اس کو منظوری کے لئے کمیٹی کے سامنے پیش کرتے ہیں،
اس وقت اراکین کے پاس اس کو منظور کرنے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہوتا، کہتے ہیں کہ اسی بات کو لے کر مارچ کی میٹنگ میں اراکین نے اعتراض کیا جس کے چلتے زوردار ہنگامہ ہوا جس کے تحت میرٹھ یونیورسٹی کے پروفیسر جمشید اسلم پوری نے کچھ زیادہ ہی ناراضگی ظاہر کردی۔
نتیجتاً وہ اور الہ آباد یونیورسٹی کی پروفیسر شبنم حمید دونوں اب اس جگہ پر نہیں ہیں جو دو نئے آئے ان کو ڈیڑھ لاکھ کے ایوارڈ میں ٹریپ کرلیا گیا۔
آج لوگ خوفزدہ ہیں کہیںایسا نہ ہو کہ اردو اکادمی کی بدعنوانیوں کو اُجاگر کرنے کے چکر میں سرکار اُردو اکادمی کو ہی نہ ختم کردے، حالانکہ یہ ممکن نہیں لیکن تمام بزرگ اور تجربے کار دانشوروں کے احترام میں اس تحریک کو اس شرط کے ساتھ ختم کرتے ہیں کہ سبھی صاحب قلم اردو اکادمی یا کوئی بھی ادارہ جس کو حکومت سے مالی مدد ملتی ہے مجبور کریں کہ وہ اردو فروغ کے لئے ایسا قدم اٹھائے کہ ہماری نئی نسل اردو سے بیگانہ نہ رہے۔ ٔٔٔ٭٭٭
Also read