عبدالعزیز
گزشتہ اتوار (7 مارچ) کو دو الگ الگ جگہوں کے انتخابی جلسوں میں وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی کی تقریریں ہوئیں۔ وزیر اعظم کی تقریر بریگیڈ پریڈ گراؤنڈ کلکتہ میں جبکہ ممتا بنرجی کی تقریر سلی گوڑی میں ہوئی۔ دونوں کی تقریریں جس نے بھی پڑھی یا سنی ہوں گی اگر اس میں ذرا بھی حق و صداقت کا عنصر ہوگا تو یہ کہے بغیر نہیں رہے گا جھوٹ اور سچ کا مقابلہ تھا۔ مودی جی اپنا اور اپنی پارٹی کا بکھان نہایت بے شرمی سے کر رہے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ ؎ ’بے حیا باش ہرچہ خواہی کن‘ (بے حیا ہوجاؤ جو جی میں آئے کرو)۔ مودی جی جو کچھ گجرات اور ہندستان میں نہیں کرسکے وہ سب کچھ بنگال میں کرنے کیلئے بلند و بانگ دعوے کر رہے تھے۔ مثلاً یہاں کے لوگوں کو روزگار دینے کی بات کر رہے تھے۔ 2014ء میں انھوں نے ہر سال 2 لاکھ لوگوں کو روزگار دینے کا وعدہ کیا تھا مگر دو ہزار بھی ملازمتیں بھی نوجوانوں کو فراہم نہیں کرسکے بلکہ 45 سال میں پہلی بار سب سے زیادہ ہندستان میں بے روزگاری ہوئی۔ اس سے بڑا جھوٹ کیا ہوسکتا ہے کہ جو شخص سات سال میں بھی اپنا وعدہ پورا نہ کرسکے وہ نہایت بے حیائی اور ڈھٹائی کے ساتھ بنگال کے نوجوانوں کو تعلیم اور روزگار دینے کی بات کرے۔ اسی کو کہتے ہیں آنکھوں میں دھول جھونکنا۔ بے کاری اور بے روزگاری اس قدر بڑھ گئی ہے کہ مودی جی کے اس وعدے کو آخر کون بھول سکتا ہے مودی جی کے سوا۔ امیت شاہ سے جب اس کے بارے میں پوچھا گیا تھا تو انھوں نے اسے جملہ بازی سے تعبیر کیا۔ مودی جی نے ہر ایک شہری کے کھاتے میں 15 لاکھ روپئے دینے کی بات کہی تھی مگر کسی کو ایک روپیہ بھی نہیں دے سکے۔ کیا یہ وعدہ خلافی کہلائے گی یا سفید جھوٹ یا دھوکہ بازی۔ نوٹ بندی کے موقع پر انھوں نے ڈھیر سارا جھوٹ بولا۔ سب سے بڑا جھوٹ تویہ تھا کہ کالا دھن ختم ہوجائے گا اور دہشت گردی بھی ختم ہوجائے گی۔ نہ کالا دھن ختم ہوا اور نہ دہشت گردی ختم ہوئی۔ ایک بڑا وعدہ انھوںنے یہ کیا تھا کہ اگر دو مہینے میں نوٹ بندی سے جو پریشانی لاحق ہے وہ ختم نہیں ہوئی تو مجھے کسی چوراہے پر بلاکر جوتوں سے خبر لینا۔ پریشانی تقریباً چھ ماہ سے زائد لاحق رہی ۔ نہ وہ کسی چوراہے پر آئے اور نہ جوتے سے ان کی کسی سنے خبر لی۔’ نوٹ بندی‘ سے ڈیڑھ سو سے زائد لوگ ہلاک ہوئے اور لوگوں کو بے شمار پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ معیشت میں بھی نوٹ بندی سے گراوٹ آئی۔ مودی جی نے بنگال کو ’سونار بانگلا‘ بنانے کی بھی بات کہی۔
اس وقت ملک میں جو مہنگائی کا عالم ہے اس سے جو پریشانی میں لوگ مبتلا ہیں یا رسوئی گیس کی قیمت 900 روپئے تک ہوگئی ہے۔ غریب آدمی کیلئے سلنڈر گیس خریدنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ موصوف نے سلنڈر گیس یا پٹرول و ڈیزل کی قیمتوں میں جو اضافہ ہوا ہے اس پر کوئی بات نہیں کی، لیکن اسکوٹی پر سوار ہوکر ممتا جی کا احتجاج یاد رہا۔ منہ بنابناکر اور ہاتھ لہرالہرا کر ممتا بنرجی کا مذاق اڑا رہے تھے۔ کسی نے سچ کہا ہے کہ مودی جی کی ایکٹنگ بھی لاجواب ہوتی ہے۔ اگر وہ ایکٹر ہوتے تو شاید سب سے بڑے ایکٹر کہلاتے۔ جس نے بھی یہ بات کہی ہے اس میں سچائی ہے لیکن اگر وہ فلموں کے ایکٹر نہیں بن سکے تو سیاسی میدان میں ان کی ایکٹنگ لاجواب ہے اور اس وقت ہندستان میں وہ سب سے بڑے سیاسی ایکٹر ہیں۔ جھوٹ اور نقلی کردار ادا کرنے میں ان کا جواب نہیں۔ مودی جی نے ’تولابازی‘ یا سنڈیکیٹ کی بات کہی ہے۔ ممتا بنرجی نے صحیح جواب دیا ہے کہ ہندستان میں سب سے بڑے تولا باز یا سنڈیکیٹ مودی اور شاہ ہیں۔ دونوں کی تولا بازی کا یہ حال ہے کہ بی جے پی کے لوگ بھی ان سے بات نہیں کرسکتے۔
ممتا بنرجی نے بار بار ’اَوسلی پریورتن‘ (اصل تبدیلی) کی بات پر مودی کو منہ توڑ جواب دیا ہے ۔ ممتا بنرجی نے جواب میں کہا ہے کہ اصل پریورتن دہلی میں ہوگا۔ بہت جلد مودی کی لٹیا ڈوبے گی۔ انھوں نے دوسری بات یہ کہی ہے کہ ’مودی جی ہندستان کو بیچ رہے ہیں‘۔ ’لال قلعہ،انڈین ریلوے، ایئر انڈیا، بی ایس این ایل ، کول انڈیا‘ سب کو کچھ اس طرح بیچ رہے ہیں کہ لوگ اب کہہ رہے ہیں کہ “India for Sale” (ہندستان برائے فروخت)۔ ممتا بنرجی نے یہ کوئی نئی بات نہیں کہی بلکہ یہ بات ہر کسی کی زبان پر ہے۔
ممتا بنرجی نے کووڈ وائرس کی بدنظمی پر سوال کیا ہے کہ کورونا یا کووڈ کے جب لوگ زیادہ شکار ہورہے تھے تو مودی جی کا پتہ نہیں تھا، صرف بھاشن دے رہے اور تقریر کر رہے تھے اور میں سڑکوں اور اسپتالوں میں کووڈ مریضوں کی دیکھ بھال میں لگی ہوئی تھی۔ صرف ویکسین کے ذریعے اپنا نام روشن کر رہے تھے۔ بہار میں مفت ویکسین دینے کی بات کر رہے تھے اور اب ویکسین پر اپنا نام لکھواکر لوگوں کو دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مودی اور یوگی ہر چیز کا نام بدلنے میں مشاق اور ماہر ہیں۔ انڈیا کا نام بدلنا باقی ہے۔ مودی جی کے منہ سے عورتوں کی حفاظت اور تحفظ کی بات کچھ اچھی نہیں معلوم ہوتی ہے۔ جس پارٹی کے لوگ خود زانی ہوں اور زناکاروں کے دفاع اور حفاظت میں آواز بلند کرتے ہوں خود مودی جی بھی اپنی بیوی کے معاملے میں کیا کچھ ہیں اور کیا کچھ کر رہے ہیں کون نہیں جانتا۔ شادی کرنے کے بعد ’یشودا بین‘ کو اس کے گھر چھوڑ آنے کے بعد پھر کبھی اس کا منہ دیکھنا گوارا نہیں کیابلکہ شادی شدہ ہیں یا نہیں اس راز کو بھی چھپائے رکھا۔ انتخابی فارم میں 2014ء میں اگر خالی جگہ کو جہاں شادی شدہ یا غیر شادی شدہ لکھنا تھا اسے پُر نہیں کرتے تو شاید دنیا کو معلوم نہیں ہوتا کہ ’یشودا بین‘ نام کی کوئی خاتون بھی ہے جس سے مودی کی شادی ہوئی ہے۔ ممتا بنرجی نے مودی جی کو اس معاملے میں بھی زبردست پٹخنی دی ہے۔ ممتا بنرجی نے کہاکہ جن ریاستوں میں بی جے پی کی حکومتیں ہیں مثلاً اتر پردیش، گجرات اور مدھیہ پردیش میں وہاں عورتوں کے ساتھ زیادتی، بربریت، عصمت دری سب کچھ روا ہے۔ اور بنگال جہاں عورتیں آزادی سے دن اور رات میں ایک جگہ سے دوسری جاسکتی ہیں وہاں کے بارے میں عورتوں کے عدم تحفظ کی بات کر رہے ہیں‘‘۔
ممتا بنرجی نے مزید کہاکہ اس وقت میں جس جلسہ کو میں خطاب کر رہی ہوں اس میں سامعین کی تعداد 50 ہزار کے لگ بھگ ہے اور اس میں 80 فیصد عورتیں ہیں ۔ ممتا بنرجی نے مودی کو زبردست چیلنج کیا ہے اور اسی طرح کا چیلنج ہے جس طرح اروند کجریوال نے دہلی انتخابات کے موقع پر مودی اور شاہ کو کیا تھا۔ کجریوال نے ایک انتخابی جلسہ میں چیلنج کیا تھا کہ دہلی میں بی جے پی کے پاس وزیر اعلیٰ کیلئے کوئی چہرہ نہیں ہے۔ تو میں چاہتا ہوں کہ مودی اور شاہ میں سے جو بھی چاہے وہ آکر دہلی کے مسائل پر مجھ سے ڈیبیٹ (بحث) کرے۔ کجریوال کے چیلنج کو کسی نے قبول نہیں کیا۔ مغربی بنگال میں بھی بی جے پی نے وزیر اعلیٰ کیلئے کوئی چہرہ پیش نہیں کیا ہے۔ مودی کا چہرہ ہی پیش کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس لئے ممتا کا چیلنج بجا ہے کہ وہ مودی کے اندر جرأت ہو تو اس چیلنج کو قبول کریں اور ڈیبیٹ میں حصہ لیں۔ دیکھا جائے تو مودی بریگیڈ گراؤنڈ سے بول رہے تھے اور ممتا سلی گوڑی کے ہاشمی چوک سے مجمع عام کو خطاب کر رہی تھی اور یہ ایک چیلنج تھا۔ ان کی تقریریں قومی اخباروں نے شائع کی ہیں اور دونوں کی تقریروں کا اگر موازنہ کیا جائے تو ممتا کی تقریر سچائی پر مبنی ہے اور مودی جی کی تقریر جھوٹ کا ایک پلندہ ہے۔
کرپشن (بدعنوانی): مودی جی نے کرپشن کی بات بار بار کہی ہے لیکن مودی جی بھول گئے کہ ترنمول سے جو لوگ گئے ہیں وہ ’ناردا اور شاردا‘ گھوٹالے میں ملوث تھے۔ موکل رائے ترنمول کانگریس کے نمبر 2لیڈر تھے اور کرپشن میں سب سے آگے تھے۔ آج وہ مودی -شاہ کے ساتھ کھڑے ہیں۔ شوبھندو ادھیکاری بھی کرپشن میں مبتلا تھے، آج وہ مغربی بنگال میں بی جے پی کے سب سے بڑے لیڈر ہیں۔
پی ایم یا لوکل لیڈر: انگریزی روزنامہ ’دی ٹیلیگراف‘ نے آج (8مارچ)لکھا ہے کہ ’’وزیر اعظم نے تقریر کرتے ہوئے اپنی چیئر کے وقار اور عزت کا اور سنجیدگی کا ذرا بھی خیال نہیں کیا۔ ایسا لگتا ہے کہ جان بوجھ کر انھوں نے غفلت برتی، شاید اس لئے کہ یہ جلسہ سیاسی یا انتخابی تھا لیکن شاید ان کو اندازہ نہیں ہورہا تھا اپنے آپ کو لوکل لیڈر میں تبدیل کررہے تھے۔ان کی تقریر سے یہ امپریشن بھی ہورہا تھا کہ ہندستان کے وزیر اعظم نہایت مایوسی اور گھبراہٹ میں اسمبلی الیکشن جیتنے کیلئے غیر معیاری اور حد سے زیادہ گری ہوئی بات کررہے تھے:
PM or local leader?
“Modi was oblivious to the gravitas of his chair or deliberately overlooked it because the event was political.The speech did give the impression that the Prime Minister of India had reduced himself to a state-level leader busy attacking the incumbent in his desperation to win an Assembly election.” (The Telegraphe. 8.3.2021)
دادا نہیں تو دادو: مشہور کرکٹر اور ہندستانی ٹیم کے سابق کیپٹن سورو گنگولی (داد) کو بی جے پی میں شامل کرنے کیلئے کئی سال سے مودی اور شاہ ایڑی اور چوٹی کا زور لگا رہے تھے۔ ان کو ہر طرح کا لالچ دے رہے تھے۔ ’بی سی سی آئی‘ کا صدر بھی ان کو اسی مقصد کیلئے بنایا گیا تھا۔ بعض ذرائع کا کہنا تھا کہ ان کو وزیراعلیٰ کے امیدوار کے چہرے کے طور پر پیش کرنے کی بات بھی ہورہی تھی۔ دادا نے بی جے پی کی پیشکش کو ٹھکرا دیا۔ جب دادا نہیں ملے تو 70 سال کے دادو متھن چکرورتی کی طرف مودی شاہ کی نظر گئی۔ گزشتہ روز دادا کے چاہنے والوں کو دادو پر ہی اکتفا کرنا پڑا۔ ’ٹیلیگراف‘ نے لکھا ہے کہ ’’دادا نہیں ملے تو دادو کو بریگیڈ گراؤنڈ کے اسٹیج پر دکھایا گیا۔ ان کے علاوہ بھی بہت سے ہاتھی جو ترنمول کانگریس سے بی جے پی میں شامل ہوئے ہیں وہ بھی اسٹیج کے ارد گرد تھے مگر ان ہاتھیوں کو دکھایا نہیں گیا‘‘۔ بہر حال سچ اور جھوٹ کا مقابلہ تھا۔ سچ کہا جائے تو سچ کی جیت ہوئی اور جھوٹ کی جو ہمیشہ پسپائی ہوتی ہے وہ چیز دیکھنے کو ملی۔
E-mail:[email protected]
Mob:9831439068