9807694588
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مند
سوشل میڈیا پر اکثر ایسے آڈیو ویڈیو میسیج وائرل ہوتے رہتے ہیں جن کو دیکھ کر غصہ آجانا فطری ہے۔ لیکن ان پر بغیر سوچے سمجھے ردعمل ظاہر کرنا نقصان دہ ہے۔ گذشتہ دنوں غازی آباد ضلع کے لونی کا ایک ویڈیو وائرل ہوا جس میں ایک بزرگ شخص کی پٹائی اور اس کی داڑھی کاٹنے کی تصویریں ہیں۔ ظاہر ہے مجرمانہ نوعیت کے اُن نوجوانوں کی جنہوں نے اس حرکت کو انجام دیا، ان کو سپورٹ نہیں کیا جاسکتا۔ ان کی یہ حرکت قابل مذمت ہے۔پولیس نے واقعے کو انجام دینے والے کچھ لڑکوں کو گرفتار کرکے جیل بھیج دیا ہے اور دیگر مجرموں کی تلاش جاری ہے۔ ابتدائی جانچ کے بعد مقامی پولیس نے میڈیا کو بتایا کہ یہ معاملہ فرقہ وارانہ نہیں بلکہ مسلم بزرگ تعویذ اور گنڈہ بنانے کا کام کرتے تھے۔ واقعہ کو انجام دینے والے لڑکوں سے بھی کسی کام کیلئے انہوں نے کچھ رقم لی تھی، لیکن ان کا کام نہیں ہوا جس سے ناراض نوجوانوں نے انہیں نامعلوم جگہ پر لے جاکر پہلے مارا پیٹا اور پھر ان کی داڑھی کاٹ لی۔
اسی ضمن میں متاثرہ فریق کا کہنا ہے کہ وہ ایسا کوئی کام نہیں کرتے تھے جیسا الزام مجرموں کے ذریعے ان پر لگایا گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ کہیں جارہے تھے کہ راستے میں وہ لڑکے مل گئے اور زبردستی انہیں سنسان جگہ پر لے جاکر مارا پیٹا اور داڑھی کاٹ دی، ساتھ ہی جئے شری رام کے نعرے لگوائے۔ اس پورے معاملے میں دو مسلم نوجوانوں کے بھی شامل ہونے کی اطلاع ہے۔ سچ کیا ہے، غیرجانبدارانہ جانچ کے بعد ہی پتہ چل سکے گا۔ مگر ایسے معاملات کی آڈیو ویڈیو اور میسیج وغیرہ سوشل میڈیا پر وائرل کرنا نہایت ہی غیرذمہ دارانہ حرکت ہے جو ملکی مفاد میں نہیں ہے۔ اس سے لوگوں کے جذبات بھڑک سکتے ہیں۔ امن و یکجہتی میں نقص پیدا ہوسکتی ہے۔ فرقہ وارانہ فسادات بھی ہوسکتے ہیں، جس میں کتنا جان اور مال کا نقصان ہوگا اس کا اندازہ لگا پانا مشکل ہے۔اس واقعہ پر مناسب طریقہ یہ ہونا چاہئے تھا کہ کچھ ذمہ دار لوگ پولیس کے پاس جاکر ایف آئی آر درج کراتے اور قانونی طور پر سزا دلانے کی کوشش کرتے۔ یہ واقعہ فرقہ وارانہ ہے یا نہیں، یہ تفصیلی جانچ رپورٹ آنے کے بعد ہی پتہ چل سکے گا۔ مذکورہ بالا واقعہ دونوں فرقوں میں نفرت پھیلانے والی حرکت ضرور ہے اور جس طرح سے اس واردات کو انجام دیتے وقت اس کا ویڈیو بناکر وائرل کیا گیا اس سے ملزمین کی دیدہ دلیری ظاہر ہوتی ہے کہ انہیں کسی کا ڈر اور خوف نہیں ہے۔ یہ بہت بڑی مجرمانہ واقعہ ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ ایسے مجرموں پر کم سے کم قومی تحفظ قانون کے تحت کارروائی کرتے ہوئے انہیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا جانا مناسب قدم ہوگا۔
معراج احمد قمر، محافظ قمر فائونڈیشن