بد نصیبی- misfortune

0
212

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔


  1. وزیر احمد مصباحی [بانکا]
    دامودر پور گاؤں کی وہ گلی جو دائیں جانب نکل کر ہائی وے سے جاملتی ہے وہیں سڑک کنارے حامد اپنے جگری دوست ندیم کا انتظار کر رہا تھا۔ حامد تقریباً ایک گھنٹے سے ندیم کے انتظار میں آنکھیں گاڑےکبھی روڈ کی طرف دیکھتا اور کبھی گلی کو موٹی موٹی نظروں سے نہارتا۔ آخرکار مزید آدھے گھنٹے بعد ندیم کی آمد ہوئی اور پھر دونوں خوشی خوشی گاؤں کے باہر لگنے والے “سنیچر بازار” کی طرف چل دئیے۔
    بازار سے واپسی پر ندیم نے اپنے پڑوسی “خالد” کی والدہ کا تذکرہ چھیڑ دیا:
    ندیم: خالد کی امی بڑی نیک سیرت خاتون ہے۔ مگر۔۔۔! حامد: مگر۔۔۔مگر، کیا؟ ندیم!
    ندیم: دیکھ حامد! بیٹے کو ہمیشہ اپنے والدین کی خدمت و فرمانبرداری کرتے رہنی چاہیے، آخر یہ والدین کی نیک تربیت اور درست تعلیم ہی تو ہوتی ہیں جو زندگی کے ہر موڑ پر ہمارے کام آتی ہیں۔
    حامد: بھائی! آپ کو جو بھی کہنا ہے صاف صاف اور واضح لفظوں میں کہیں۔
    ندیم: میں تو صاف لفظوں میں ہی کہہ رہا ہوں یار! بھلا بتائیں کہ کون ایسا بیٹا ہوگا جو اپنی ماں کو کو بڑھاپے کی حالت میں، جب کہ گوناگوں بیماری اور ہاتھ پاؤں کی کمزوری کی وجہ سے انھیں قدم قدم پر دوسروں کی ضرورت ہو؛ گھر سے باہر نکال دے، بیٹا ان کی جانب نظر عنایت نہ کرے، کیا مذہب اسلام اس کی اجازت فراہم کرتا ہے؟
    حامد: بھائی! ہو سکتا ہے ان کی والدہ کی بھی غلطی رہی ہو، جبھی تو خالد ایسا رویہ اختیار کر رہا ہے۔
    ندیم: ایسا کچھ نہیں ہے بھائی!!! ماں کبھی بھی اپنی اولاد کا بدخواہ نہیں ہو سکتی۔ ان کا دل تو پیار و محبت کا گنجینہ ہوتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو کیا یوں ہی والدین کی عظمت سے متعلق قرآن کریم میں “اور تیرا رب فیصلہ کر چکا ہے اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ نیکی کرو، اور اگر تیرے سامنے ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انھیں اف بھی نہ کہو اور نہ انھیں جھڑکو اور ان سے ادب سے بات کرو۔ ” جیسے عظیم الشان مفہوم پر مشتمل آیت کریمہ نازل ہو جاتی!!!۔
    حامد و ندیم کے مابین ابھی یہ گفتگو چل ہی رہی تھی کہ حامد کا گھر قریب آگیا، مغرب کی اذان بھی ہونے والی تھی۔ جھٹ سے حامد نے سلسلہ گفتگو منقطع کرتے ہوئے حامد سے “خدا حافظ” کہا اور گھر کی طرف چل دیا۔ اندر حامد کی اماں حامد کا انتظار کر رہی تھیں، یہ دیکھتے ہوئے حامد اپنی ماں کے گلے سے لگ گیا اور بے اختیار حامد کے منہ سے یہ کلمہ نکل گیا: ” اماں!!! اللہ کریم کبھی آپ کو ہم سے جدا نہ کرے”۔
    دوسرے دن صبح جیسے ہی سورج نمودار ہوا؛ حامد و ندیم بھی حسب معمول اپنی اپنی ضروریات سے فارغ ہو گیے اور پھر ندیم نے اپنے جگری دوست سے کل کا موضوع سلجھانے کے لیے اس کے گھر کی جانب کا رخ کر لیا۔ ابھی وہ حامد کے دروازے پر بھی نہیں پہنچا تھا کہ گاؤں کی “جامع مسجد” سے بطور اعلان یہ سنسنی خیز خبر نشر ہوئی کہ:” آج خالد کی والدہ کا انتقال پر ملال ہو گیا ہے”۔ حامد نے سنتے ہی کلمۂ استرجاع کا ورد کیا اور پھر ندیم کے ساتھ مل کر خالد کے گھر کی طرف چل دئیے۔
    اب تک خالد کے دروازے پر بھیڑ اکٹھی ہو چکی تھی، اندر سے آہ و بکا کی آوازیں آ رہی تھیں اور گاؤں کے بڑے بوڑھے افراد انھیں دلاسہ دلانے کا کام کر رہے تھے، سب لوگ کلمہ طیبہ زور زور سے پڑھ رہے تھے اور کچھ نوجوان مرحومہ کی تکفین و تدفین سے متعلق مشورہ کر رہے تھے، کیونکہ خالد پردیس گیا ہوا تھا اور گھر میں کوئی ذمہ دار فرد بھی نہیں تھا۔[اگرچہ ان کی والدہ اب تک دوسرے کے گھر میں رہ رہی تھیں] فوراً ہنگامی میٹنگ بلائی گئی اور کافی غور و فکر کے بعد یہ نتیجہ طے پایا کہ جب خالد گھر پہنچ جائے گا تو تدفین کا عمل انجام میں لایا جائے گا۔
    اپنے اپنے سسرال میں رہنے والی خالد کی دو بہنیں بھی یہ خبر سنتے ہی پہنچ چکی تھیں۔ سب غم کے مارے نڈھال تھیں۔۔۔مگر،،،۔۔۔خالد کی چھوٹی بہن کو اس بات پر بھیانک غصہ تھا کہ: “جس بھائی نے بڑھاپے کے عالم میں ماں کو گھر سے نکال دیا اور انھیں خاطر میں نہیں لایا، آج انتقال کے بعد جنازہ کی تدفین میں خالد کا انتظار کیوں کیا جارہا ہے؟”۔
    ندیم و حامد اپنی اشکبار آنکھوں سے یہ تمام منظر دیکھ رہے تھے۔ آخر کار دو دن بعد خالد بس کے ذریعہ پردیس سے واپس آیا، اس کے چہرے پر بھی پریشانی کی لکیریں نمایاں تھیں، جلدی جلدی تدفین کا کام عمل میں لایا گیا۔ خالد‌ نے ماں کی نعش کی چارپائی پکڑ کر خوب آہ و زاری کی۔۔۔مگر۔۔۔مگر اب بھی کچھ لوگ آپس میں یہ باتیں کر رہے تھے کہ :”اب خالد کے رونے سے کیا ہوگا، جب جنت کمانے کی باری تھی تو اس وقت کمائی نہیں اور خود اپنے ہاتھوں سے ماں کو گھر سے نکال دیا تھا۔ کیا اس طرح رونے دھونے سے اب خالد کے گناہ معاف ہو جائیں گے؟”۔
    حامد و ندیم نے بھی یہ باتیں سُنیں، اس سے قبل کے ندیم حامد سے گزشتہ کل کی بحث کی گتھیاں سلجھاتا حامد نے خود ہی بڑھ کر ندیم کے سامنے کھلے دل سے یہ اعتراف کیا کہ: ” بھائی! ماں واقعی ماں ہوتی ہے، ہمیں زندگی بھر ان کی خدمت کرنی چاہیے، یہ بڑی انمول دولت ہے۔ اللہ کریم ہم سب کو اپنی والدہ کے ساتھ خالد جیسا عمل کرنے سے بچائے، آمین”۔
    شعبہ تحقیق: جامعہ اشرفیہ مبارک پور
    ضضض
Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here