حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی مکی زندگی اور ہندوستانی مسلمان- Mickey’s life of the Holy Prophet and Indian Muslims

0
191

 

 

Mickey's life of the Holy Prophet and Indian Muslims

مسلمہ کے تمام شعبہائے حیات زوال کے دہانے پر ہیں خواہ وہ شعبہ اقتصادی ہو یا معاشی ہو یا تعلیمی ہر میدانِ میں امت کی کارکردگی انحطاط پذیر ہیں اور موجودہ وقت وطنِ عزیز میں مسلمانوں کی یہ صورتِ حال شباب پر ہے جو کہ محتاجِ بیاں نہیں اس کا تجزیہ اس اصول اور طرزِ نظر کے ساتھ کرتے ہوئے کہ آج مسلمان جس بھی ملک میں ہیں خواہ ہندوستان ہو یا بنگلہ دیش ہو یا دنیا کے کس ملک میں رہائش پذیر ہیں اور جس بھی معاشرہ یا ماحول میں جی رہے ہیں اگر غور کریں تو معلوم ہوگا مسلمان دو حیثیتوں سے زندگی کے شب و روز گزار رہے ہیں ایک اقلیتی حیثیت سے تو دوسری اکثریتی حیثیت سے۔ نیپال و چین اور برطانیہ ہندوستان جیسے ملکوں میں مسلمان اقلیتی حیثیت سے ہیں جب کہ سعودیہ عرب و انڈونیشیا اور پاکستان جیسے ممالک میں مسلمان اکثریتی حیثیت سے ہیں اور موجودہ وقت میں مسلمانانِ ہند اور مسلمانان عالم کو جن پریشانیوں اور مسائلوں کا سامنا و سابقہ ہے اس کے حل کے لیے حضور علیہ السلام کی مکی زندگی سوفیصد حل اور کارگر ہے جی ہاں! اس تعلق سے اولا ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی مکی زندگی کو سامنے رکھنے کی ضرورت ہے ۔اس سلسلے میں یہ رہنمائی ملتی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے جب اپنی نبوت کا اعلان کیا تو اس وقت آپ اقلیت میں تھے دینِ اسلام کے قیام لیے جد وجھد کر رہے تھے پھر جیسے جیسے مواقع ملتے گئے آپ نے دینِ اسلام کی دعوت کو عام کیا اور جب تک آپ اقلیت میں رہے آپ نے صبر و تحمل کام لیا اور دھیرے دھیرے افراد سازی کی مشن کو آگے بڑھاتے رہے اور اپنے چند اصحاب کی ذہنی تشکیل و تربیت اور شخصیت کی تعمیر میں لگے رہے تاکہ ایک ایسے اسلامی معاشرہ کا قیام ہو جس کی بنا باہم محبت واخوت کی پر ہو اور سب بھائی بھائی کی طرح ایک دوسرے کے معاون و مددگار ہوںلیکن ایک دن ایسا بھی آیا کہ جب آپ نے بحکم الہی مدینے کی طرف ہجرت فرمائی۔ مقصودِ کلام یہ کہ حضور علیہ السلام کی مکی زندگی ایک سماجی تحریک کی تجدیدی تشکیل ہے کہ اگر قوم مسلم اقلیت میں ہے تو صبر و تحمل اور ضبط سے کام لیں اور افراد سازی کی مہم کو جاری رکھیں موقع محل سے خود کو ثبات قدمی کے اول درجے میں قائم رکھیں، معلوم ہوا کہ موجودہ حالات میں قوم مسلم صبر و ضبط سے کام لیتے ہوئے افراد سازی کے ذریعے اتحاد کے دائرے کو وسیع سے وسیع تر کریں اور اس اصولِ اسلام پر عمل پیراں ہوکر بقائے دینِ متین کے لیے افراد سازی کی مہم کو جاری رکھیں اس طرز سے ایک متحرک سماج کی اصلاحی تحریک و تشکیل ہوتی ہوئی نظر آئے گی اور وقت کا یہی تقاضا ہ بھی ہے۔
سبطین رضا مصباحی۔البرکات

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here