غیر مسلم فنکاروں کا منظوم تذکرہ:نازبرداران اردو- Mention of non-Muslim artists: Nazbardaran Urdu

0
184
 Mention of non-Muslim artists: Nazbardaran Urdu
حقانی القاسمی

عبد المنان طرزی نے اپنی کتاب ’ناز برداران اردو‘میں اردو کی اسی تاریخ اور تذکرے کا احیاء اور اعادہ کیا ہے اور یہ ثابت کیا ہے کہ غیر مسلم ادباء و شعرا نے اردو کے جملہ اصناف سخن میں اپنے کمالات کا ثبوت دیا ہے اور اتحاد و یگانگت، رفاقت اور مفاہمت کی اس زبان سے والہانہ محبت اور شیفتگی کا ثبوت دیا ہے جسے وقت اور حالات نے معاندت، مخاصمت، منافرت، اور مغایرت کی زبان بنا دیا ہے۔ پروفیسر طرزی نے اپنے منظوم تذکرے کے ذریعہ اردو زبان کی اس شناختی سیاست (identity politics)کی مکمل تردید کر دی ہے جس نے اس زبان کے کردار ، اقدار اور معیار کو مسخ اور مجروح کیا ہے جب کہ یہ وہ زبان ہے جو کسی بھی مذہب یا قوم کی شناخت کی علامت نہیں ہے کیوں کہ اگر یہ مسلم آئیڈنٹٹی سے جڑی ہوتی تو ہندوستان کے سارے مسلمان صرف اردو زبان بولتے، لکھتے اور پڑھتے۔ پنجابی، مراٹھی ، تیلگو، تمل، ملیالم اور کنڑ جیسی زبانوں سے مکمل پرہیز کرتے ۔ جب کہ ان علاقوں کے مسلمانوں کی ذہنی مناسبت اردو کی بہ نسبت اپنی علاقائی زبانوں سے زیادہ ہے اوراگر اردو اسلام یا مسلمان کی علامت ہوتی توبنگلہ زبان کی بنیاد پر بنگلہ دیش جیسا مسلم اکثریتی ملک وجود میں نہ آتا۔ اتنی بدیہی حقیقت کے باوجود اسے مسلمانوں سے جوڑ دینا بہت بڑا المیہ ہے۔ اتنی بات تو سبھوں کو معلوم ہے کہ اردو اور ہندی کا تنازعہ لسانیات سے نہیں بلکہ معاشی مفادات اور مراعات سے جڑا ہوا تھا۔ صرف جلب منفعت اور لسانی ادعائیت اور نرگسیت کے لئے ان دونوں زبانوں کے مابین تفریق اور تقسیم کا سیاسی کھیل کھیلا گیا جب کہ دونوں زبانوں کی ترکیب اور ترتیب ایک جیسی ہے اور دونوں کا قالب سنسکرت ہے اور یوں بھی زبان کا رشتہ جغرافیائی علاقے سے ہوتا ہے مذہب سے نہیں۔ دنیا کی ساری بڑی زبانیں انگریزی، فرانسیسی، لاطینی، چینی، جاپانی، روسی، جرمن وغیرہ اپنے جغرافیہ سے پہچانی جاتی ہیں وہاں کے مذاہب سے نہیں۔ ڈاکٹر تاراچند نے بہت قیمتی بات لکھی ہے کہ ’’یورپ اور امریکہ میں کروڑوں عیسائی ہیں ان میں سے سوائے انے گنے لوگوں کے کسی کو عیسائی دھرم کی اصلی بھاشا کا گیان نہیں ہے ۔ حضرت عیسیٰ مسیح عبرانی بولتے تھے اس میں انجیل کی پرانی اور نئی کتابیں ہیں مگر انگلستان ، فرانس اور جرمنی اتیا بدیشوںکے عیسائیوں کو کبھی یہ گھبراہٹ نہیں ہوئی کہ بائبل کے عبرانی میں نہ ہونے کے کارن ان کے دھرم میں کوئی دربلتا آئی ہو۔ چین میں کروڑوں بد ھ اور مسلمان ہیں نہ بدھ پالی جانتے ہیں جو ان کے دھرم کی پستکوں کی بھاشا ہے نہ مسلمان عربی لیکن دونوں اپنے اپنے مذہب میں پکے ہیں۔ ہندی میں اگر فارسی عربی کی پُٹ دے دی جائے تو ہندی دھرم کی ہان نہیں ہو سکتی اور اردو اگر ہندی کے لفظ اختیار کر لے تو اسلام خطرے میں نہیں پڑ جائے گا۔ ‘‘حقیقت یہی ہے کہ اردو ہندی کی حریف نہیں بلکہ حلیف ہے اور اٹھارویں صدی تک یہ ہندو مسلمان کی مشترکہ زبان رہی ہے۔ جیسا کہ مورخین نے تاریخی وثائق اور شواہد کی روشنی میں تحریر کیا ہے ۔ ہندی اور اردو میں تفریق دراصل تجارتی ذہن کی زائیدہ پولیٹکل پرسپشن اور کلچرل ڈائنامکس کی تبدیلی کا نتیجہ ہے۔ اردو کو مغلوں کے جبر سے جوڑ کر مسلم تشخص عطا کر دیا گیاجب کہ یہ وہ زبان ہے جس کی تشکیل اور تجمیل میں ہندوستانی عوام کا اہم رول رہا ہے اور یہ زبان ہند لمانی تہذیب کی علامت ہے۔ اسی زبان میں سناتن دھرم کا بیشتر لٹریچر ہے۔ مہابھارت، رامائن، بھگوت گیتا اور اپنشد کے سب سے زیادہ ترجمے اسی زبان میں ہوئے ہیں۔
عبد المنان طرزی نے اسی امتزاجی زبان کے جمال وکمال میں غیر مسلموں کے کردار پر ایک منظوم کلامیہ پیش کیا ہے۔ انھوںنے کتاب کا آغاز آتش بہاول پوری سے کیا ہے اور ہنر پورن سنگھ پر اس کا اختتام ہوا ہے ۔ آتش وہ شاعر ہیں جنھوں نے شمع فروزاں اور نذر اقبال جیسی کتاب لکھی اور ہنر وہ بالغ نظر شاعر و صحافی ہیں جو رسالہ چمن (امرتسر) کے مدیر رہے۔ ’الف‘اور ’ہ‘کے درمیان اس کتاب میں سینکڑوں نام ایسے ہیں جو بہت مشہور ہیں۔مگر بہت سے نام ایسے بھی ہیں جن سے ایک بڑا حلقہ ناواقف ہے۔ عبدالمنان طرزی نے اس کتاب میں جگن ناتھ آزاد، ستیہ پال آنند، جمنا داس اختر، اوپندر ناتھ اشک، راجندر منچندا بانی،پنڈت برج موہن دتا تریہ کیفی، بلراج کومل، بلراج مینرا، بلراج ورما، بلونت سنگھ، تیج بہادر سپرو، پریم چند، جوش ملسیانی، جوگندر پال، جینت پرمار، چکبست،چندر بھان خیال، خوشتر گرامی، دیا نارائن نگم، دیوندر ستیارتھی، دیویندر اسر، راجندر سنگھ بیدی، راج نارائن راز، رام بابو سکسینہ، رالف رسل، رتن ناتھ سرشار،رام لعل، کنور مہندر سنگھ بیدی، سرور جہاں آبادی، سریندر پرکاش، مہاراجہ سر کشن پرشاد، نریش کمار شاد، شانتی رنجن بھٹا چاریہ، کرشن کمار طور، ظفر پیامی، فراق گورکھپوری، فکر تونسوی، کرشن چندر، کیول دھیر، کمار پاشی،کالی داس گپتا رضا، سمپورن سنگھ گلزار، گلزار دہلوی، گوپال متل، گوپی چند نارنگ، گیان چند جین، مالک رام، آنند نارائن ملا، پنڈت دیا شنکر نسیم، نند کشور وکرم، حکم چند نیر جیسے مشاہیر کا ذکر کیا ہے۔تووہیں آتش بنارسی، بابو اودھ بہاری بیدل، پرکاش ناتھ پرویز، جذب عالم پوری، جوہر بلگرامی، منشی بھاونی پرشاد حسرت، خلش گیاوی، دیا بریلوی، ذوق آسارام، رتن پنڈوری، روز امرتسری، سامی جبل پوری، دھرمیندر ناتھ سرمست،صابر نو بہار سنگھ، گیانی نہال سنگھ عفیف،کشتہ گیاوی، امرسنگھ منصور، ناز مرادآبادی، نہال لکھنوی، بھگوتی پرشاد ہمراز،سادھو سنگھ ہمدرد وغیرہ کا ذکر کیا ہے۔ان کے منظوم تذکرے کا یہ طور و طرز دیکھئے کہ کتنی خوب صورتی سے صرف چار مصرعوںمیں ساری کیفیات اور کوائف کو سمیٹنے کی کوشش کی ہے۔
نام سمپورن مشہور گلزار سے
فلمی دنیا کے ہیں اک جوشاعر بڑے
واسطہ رکھتے فکشن نگاری سے بھی
پایا اعزار ساہتیہ اکادمی
(گلزار سمپورن سنگھ)
ایک خاتون لدمیلا وسئیلوا
کام جن کا ہے تحقیق اور ترجمہ
آپ عیسائی ہیں ماسکو میں مقیم
جلوہ اردو کی جیسے ہیں وہ حریم
(لدمیلا وسئیلوا)
مالک رام بھی نام ہے ایک بڑا
کی ادارت بھی تحقیق بھی تذکرہ
آپ بیشک ہیں غالب شناس اک بڑے
ان کو اردو کی دولت گراں جانیے
(مالک رام بویجہ)
بیدی راجندر سنگھ ایک ایسی ذات تھی
فن کی میلی سی چادر میں ہے دل کشی
کام نکلا نہیں دانہ و دام سے
علتوں سے نجات ہم کہاں پا سکے
(راجندر سنگھ بیدی)
ودیا کانپوری تھیں ایک شاعرہ
ہے جہاںِ سخن میں بڑا مرتبہ
شعری مجموعے آئے ہیں دو آپ کے
پایا شعر ادب نے وقار آپ سے
(ودیا کانپوری)
عبد المنان طرزی نے اپنے اس منظوم تذکرے میں بہت خوب صورت تجربے کیے ہیں۔ کہیں تصنیفات وتالیفات تو کہیں مقامات تو کہیں اعزازات کا ذکر کیا ہے ۔ شاعری میں شخصیت نگاری آسان نہیں ہوتی کیوں کہ عروضی زنجیروںمیں ذہن جکڑا ہوا ہوتا ہے۔عبد المنان طرزی کو اس تجربے میں کتنی تکلیف اور تکلف سے گزرنا ہوا ہوگا اس کا اندازہ وہی لوگ لگا سکتے ہیں جن کے پائوں شاعری کی خاردار راہوںمیں لہو لہان ہوئے ہوں گے ۔
نثر میں غیر مسلم قلم کاروں کے تعلق سے بہت سے ایسے تذکرے لکھے گئے ہیں مگر شاید یہ پہلا منظوم تذکرہ ہے۔ عبد المنان طرزی نے کتاب میں شامل تمام شخصیات کے قلمی نام ، اصل نام اور تصنیفات و تالیفات کا بھی اندراج کیاہے۔ گو کہ یہ اندراجات تشنہ اور نا مکمل ہیں اور بہت سے اہم نام بھی چھوٹ گئے ہیں۔ مگرپھر بھی بہت سی تفصیلات کا علم ہو جاتا ہے ۔اس کتاب میں گلگرسٹ، گارساں دتاسی، ڈنکن فاربس، ڈاکٹر فیلن، جا ن ٹی پلاٹس،جان شیکپئر، منشی چرنجی لال وغیرہ کا بھی ذکر شامل ہوتا تو زیادہ اچھا ہوتا کیوں کہ ان شخصیات نے ا ردو زبان میں اساسی نوعیت کے کام کئے ہیں۔ انھوں نے لغات اور محاورات کی ترتیب و تدوین جیسے مشکل معرکے سر کئے ۔
نازبردارانِ اردو غیر مسلم قلم کاروں پر کام کرنے والوں کے لئے حوالہ جاتی حیثیت کی حامل ہے۔ انھوں نے مختلف اصناف کے حوالے سے قلم کاروںکی درجہ بندی کی ہے۔ کچھ یہی طرز دیوی پرشاد بشاش اجمیری خلف منشی نتھن لال بہجت نے تذکرہ آثارالشعرائے ہنود میں اختیار کیا تھا۔ 524ہندو شاعروں پر مشتمل بشاش کے اس تذکرے میں ولدیت، قومیت ، سکونت، زمانہ اور تصنیفات کی تفصیل درج کی گئی تھی ۔
عبدالمنان طرزی کا یہ کام بہت اہم ہے اور یہ کام ایک فرد نہیں بلکہ ادارے کے کرنے کا ہے۔ کیوں کہ یہ ایسا موضوع ہے جس پر مبسوط اور مر بوط تحقیقی کام کی ضرورت ہے تاکہ تمام اہم ناموں کا استقصاء ہو سکے۔ خاص طور پر علاقائی سطح پر جو تذکرے ترتیب دیئے گئے ہیں انھیں بھی نظر میں رکھنے کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں شرف الدین یکتا کی بہار سخن (جودھ پور کے شعراء کا تذکرہ)،تذکرہ شعرائے جے پور (مولانا احترام الدین شاغل) تذکرہ شعرائے اودے پور(شاہد عزیز)، تذکرہ معاصر شعرائے جودھ پور(شین کاف نظام) 27 جلدوں پر مشتمل تذکرہ شعرائے اترپردیش (عرفان عباسی)، ہفت رنگ (شاہد میر)، تذکرہ شعرائے بیکانیر (عزیز آزاد)، تذکرہ شعرائے کوٹہ (عقیل شاداب)، تذکرہ شعرائے کانپور (سلیم عنایتی، فاروق جائسی)، سخنورانِ شاہجہاںپور(مبارک شمیم)، تذکرہ سخنوران بڑودا(ظہیر صبا قادری)، چہرہ چہرہ(محبوب انور)، گوالیار اور اردو زبان و ادب(ڈاکٹر قمر گوالیاری) ، سہسرام اور اردو شاعری (ڈاکٹر شمیم ہاشمی)، تذکرہ شعرائے سیتا پور (اسماء رفعت حسین)، تذکرہ غیر مسلم شعرائے اردو سیتاپور(وسیع سیتاپوری)، صد سالہ صحافت : ضلع بجنور (شکیل بجنوری)، تذکرہ شعرائے سہسوان (مرتبہ: حنیف نقوی)تذکرہ شعرائے بہرائچ (نعمت بہرائچی)، تذکرہ شعرائے بدایوں (شہید بدایونی) وغیرہ کا مطالعہ کیا جائے تو اور بھی بہت سے نام سامنے آئیں گے۔ خاص طور پر پانچ جلدوں پر مشتمل لالہ سری رام کے خمخانہ جاوید میں بھی بکثرت ہندو شاعروں کے نام اور کلام موجود ہیں۔ قومی اور علاقائی سطح پر لکھے گئے ایسے تمام تذکروں کا بالاستیعاب مطالعہ کرنے کے بعد ہی یہ اہم کام پایۂ تکمیل کو پہنچ سکتا ہے۔ جس کے بہت مفید نتائج سامنے آئیں گے اور اردو زبان و ادب کے تعلق سے ذہنوں میں تعصبات کا جو زہر ہے ا سے ختم کرنے میں اس سے بہت مدد ملے گی اور یہاں یہ ذکر ضروری ہے کہ جن غیرمسلم قلم کاروں نے اس تعلق سے تذکرے یا کتابیں تحریر کی ہیں ان کے پیش نظر بھی انہی غلط فہمیوں اور بدگمانیوں کا ازالہ رہا ہے۔ جگدیش مہتہ درد نے اپنی کتاب ’اردوکے نان مسلم شعراء و ادیب‘ میں واضح طور پر یہ لکھا ہے کہ:
’’میرا مقصد یہ تھا اردو کے نان مسلم شعراء وادیب حصہ اول اور حصہ دوم لکھنے کا کہ اردو کے مخالفوں کی طرف سے وقتاً فو قتاً جو یہ گھناؤنا بے بنیاد الزام لگایا جاتا ہے کہ یہ مسلمانوں کی زبان ہے اس کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جھوٹا ثابت کیا جائے۔ دوسرا جو لوگ اردو زبان سے نفرت کرتے ہیں یا اس کے وجود سے انکار کرتے ہیں وہ ہندوستان کی مشترکہ اور رنگا رنگ تہذیب اور قومی ایکتا سے حقیقت میں انکار کرتے ہیں۔ ایسا کرکے وہ اردو زبان سے دشمنی نہیں کرتے بلکہ ہندوستان سے دشمنی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ ‘‘
حصہ اول میں انھوں نے یہ بھی لکھا تھا کہ :
’’اردو کے نان مسلم شعراء وادیب اس لئے مرتب کرنی پڑی کہ جن ہندو اور مسلم لیڈروں اور ادیبوں کی آنکھوں پر تعصب کی موٹی تہہ جم گئی ہے اور وہ اردو زبان کو مسلمانوں کی زبان کہتے ہیں ان کو بتلایا جائے کہ اردو زبان کو پروان چڑھانے میں ہندو مسلم سکھ عیسائی اینگلو انڈین اور انگریز شاعروں و ادیبوں یعنی سب کا برابر کا حصہ ہے۔ اور یہ حسین زبان مشترکہ ہے۔ اس زبان کے ذریعہ ہندو مسلم ،سکھ ،عیسائی شاعروں اور ادیبوں نے ملک کے لوگوں کو انقلاب کے لئے تیار کیا تھا اور اسی زبان کی تخلیقات نے ہمیں آزادی سے ہمکنار کیا۔‘‘
عبد المنان طرزی نے بھی شاید اسی مقصد کے تحت یہ منظوم تذکرہ تحریر کیا ہے۔ یہ یقینا بہت اہم کام ہے جس کی پذیرائی حال میں بھی ہوگی اور مستقبل میں بھی۔ اس کتاب کے بین السطور میں بہت کچھ وہ بھی پنہاں ہے جسے ہم اس وقت اچھی طرح محسوس کر پائیں گے جب اس زبان کا قافیہ تنگ سے تنگ تر کر دیا جائے گا، جب متعصبانہ سیاست اور Langauge Prochialism اس کی حقیقی شناخت اور کردار کو مکمل طور پر مسخ کردے گی تب اس جیسی کتاب کی ہمیں شدید ضرورت محسوس ہوگی۔
آج جب اردو کے خلاف متعصبانہ رویہ عام ہے اور غیر مسلموںکی نسل اردو سے نابلد ہوتی جا رہی ہے اور مسلمانوں کا رشتہ بھی اس زبان سے کمزور ہوتا جا رہا ہے اور یہ خوف بھی ستا رہا ہے کہ کہیں انیتا دیسائی کے انگریزی ناول “In Custody” میں ظاہر کیا گیا یہ خدشہ سچ نہ ثابت ہو جائے کہ تقسیم ہند کے بعد یہ زبان زندہ نہیں رہے گی۔ شاعری کی زبان بن کر ایک خاص حلقے میں سمٹ جائے گی۔اس سے پہلے کہ وہ وقت آئے ہمیںمزید حساس بیدار اور با شعور ہونے کی ضرورت ہے کیوں کہ اگر یہ زبان کمزور ہوتی گئی تو ہماری مشترکہ تہذیب بھی ناتواں ہوتی جائے گی کیوں کہ اردو صرف ایک طبقے کی نہیں بلکہ ہندوستان کے سبھی طبقات کی زبان ہے یہ صرف لکھنو اور دہلی کے اہل زبان یا اشرافیہ مسلمان کی نہیں بلکہ پورے ہندوستان کی ہے جو اویس احمد ادیب کی کتاب ’اردو زبان کی نئی تحقیق‘کے مطابق آریوں کے ساتھ ہندوستان آئی تھی۔ اور سنسکرت ہندوستان کی اولین اردو تھی۔ یہ زبان نہ تو فارسی کی شاخ ہے اور نہ عربی کا ثمر بلکہ ہندوستانیت کا محورو مظہر ہے۔ بقول جگدیش مہتہ درد :
’’اردو کا چہرہ صدیوں کی شاندار روایات سے تابندہ ہے۔ آنکھوں میں وہ جادو جس نے خراسان و قندھار سے لے کر بنگالے تک لوگوں کو مسحور کیا۔ چہرے پر صبح بنارس کی تازگی، لبوں میں لکھنؤ کی حلاوت، گفتگو میں نرمی، پیکر میں رنگینی شام اودھ کی، یہ ہے ہماری آپ کی اور سب کی زبان ۔‘‘
اور اس زبان کو زندہ رکھنا ہم سب کا فرض ہے۔ ہمیں اسی کشادہ قلبی اور رواداری کا ثبوت دینا ہوگا جو ماضی میں ہمارا وطیرہ رہا ہے۔ ہم نے اردو زبان کو فرقہ وارانہ تعینات سے ہمیشہ پاک رکھا۔ آج بھی ہمیں اسے فرقہ وارانہ لسانی سیاست سے دور رکھنا ہوگا۔ غیر مسلموں کے ساتھ مسلمانوں کا ذہن بھی اس زبان کے باب میں تعصب اور عدم رواداری سے پاک صاف رہا ہے۔یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں نے کبھی غیر مسلم فن کاروں کے ساتھ امتیاز یا تعصب نہیں برتا بلکہ ان کے افکار ، اقدار حتیٰ کہ اساطیر کے ساتھ بھی جذباتی ہم آہنگی کا ثبوت دیا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو شاید یہ مشہور اشعار نہ مسلمانوں کی زبان پر ہوتے اور نہ تحریری اور تقریری حوالوں میں شامل ہوتے جو غیر مسلموں نے کہے ہیں۔ آج بھی یہ اشعار اور مصرعے زبان زد خاص و عام ہیں:
آخر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
(مہتاب رائے تاباں)
دل کے آئینے میں ہے تصویرِ یار
جب ذرا گردن جھکائی دیکھ لی
(موجی رام موجی)
غزالاں تم تو واقف ہو کہو مجنوں کے مرنے کی
دیوانہ مرگیا آخر کو ویرانے پہ کیا گزری
(رام نارائن موزوں)
کوئی معشوق ہے اس پردۂ زنگاری میں
(منو لال صفا)
اب جگر تھام کے بیٹھو میری باری آئی
(مادھو رام جوہر)
نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم
(گھنشیام لال عاصی)
کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے
(دیا شنکر نسیم)
زندگی کیا ہے عناصر میں ظہور ترتیب
موت کیا ہے انھیں اجزا کا پریشاں ہونا
(چکبست)
یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ مسلمانوں نے اردو زبان کو اپنا اجارہ نہیں سمجھا بلکہ ہر اچھے خیال اور ہر اس فرد کی قدر کی جس کا اردو زبان سے جذباتی رشتہ رہا ہے۔ یہ زبان نہ تو اذان ہے نہ ناقوس ، نہ یہ ایمان ہے نہ مسلمان، نہ یہ مذہب ہے نہ تہذیب، یہ تہذیبی امتزاجیت کاخوب صورت مظہر اور محبت کا استعارہ ہے ۔ اردو کا کوئی مذہب تو نہیں مگر اس کا مذہب محبت اور انسانیت ضرور ہے۔ اور اس زبان پر قربان ہونے والے ایسے بھی ہیں جو علی الاعلان یہ کہتے ہیں کہ میں اپنا مذہب چھوڑ سکتا ہوں مگر اپنی زبان اردو نہیں۔ (جسٹس آنند نارائن مُلا)
لسانی سیاست کچھ لوگوں کی ذہنیت ضرور بدل سکتی ہے مگر یہ سماجی اور تاریخی حقیقت کبھی نہیں بدل سکتی کہ اردو ہماری گنگا جمنی تہذیب کی خوب صورت زبان ہے اور اس زبان سے عشق کرنے والوں میں ہندوستان کے تمام طبقات کے لوگ شامل ہیں۔ پروفیسرکنہیا لال کپور نے بڑی قیمتی بات لکھی ہے کہ:
’’یہ خوبصورت زبان ہندوستانی اور اسلامی تہذیب کے امتزاج سے وجود میں آئی۔ یہ مشترکہ تہذیب کی نشانی تھی۔ ا س کی سرپرستی ہر مذہب کے لوگوں نے کی۔ مگر آزادی کے بعد یہ فرقہ پرستوں کے بھینٹ چڑھ گئی۔‘‘
مجھے پتہ نہیں کہ اس زبان کے لیے مسلمانوں نے کوئی شہادت دی ہے یا نہیں لیکن مجھے یہ ضرور معلوم ہے کہ اردو زبان کی خاطر جن دو لوگوں نے جام شہادت نوش کیا ان کے نام پنڈت دیو نارائن پانڈے اور کامریڈ جے بہادر سنگھ ہیںاور میں سمجھتا ہوں کہ عبد المنان طرزی کی یہ کتاب ہزاروں غیر مسلم شیدائیان اردو کے ساتھ ساتھ ان شہیدان اردو کو بھی بہترین خراج محبت ہے۔
Cell:9891726444

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here