دکن کی مشہور مہ لقاء بائی چندہ کا شمارآصف جاہی دور سلطنت میں بااثر خواتین میں ہوتا تھا۔ سنہ 1802 میں حیدرآباد کے دوسرے آصف جاہی سلطان میر نظام علی خان کے دربار میں فارس کے نئے برس کی تقریب کے دوران فوجیوں اور درباریوں کو تحائف، القاب اور گرانٹ کے ساتھ اعزاز سے نوازنے کے لئے ایک خاص پروگرام منعقد کیا گیا۔ جس میں متعدد مردوں کے علاوہ ایک 34 سالہ خاتون چندہ بی بی المخاطب مہ لقا بائی کو ان کی نمایاں خصوصیات اور صلاحیتوں کی بنا پر ’مہ لقا‘ کے شاہی خطاب سے نواز کیا گیا۔ مہ لقاء بائی دکن کی سب سے زیادہ بااثر خاتون ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہترین شاعرہ، سیاسی مشیر، کامیاب سپاہی، گھوڑ سوار اور تعلیم نسواں کی علم بردار تھی۔ ان خیالات کا اظہار دکن آرکائیو کے بلاگر و مورخ جناب صبغت خان نے کیا۔
دکن آرکائیو کی جانب سے ’ہیریٹیج واک‘ کے دوران انڈین نیشنل ٹرسٹ فار آرٹ اینڈ کلچرل ہیریٹیج (INTACH) حیدرآباد چیاپٹر کی کنوینر محترمہ انورادھا ریڈی نے اپنی گفتگو کے دوران کئی تاریخی حقائق سے واقف کروایا۔ جناب صبغت خان نے بتایا کہ مہ لقاء بائی چندہ کو اردو شاعری میں پہلی خاتون صاحبِ دیوان شاعرہ کا اعزار حاصل ہے۔ مہ لقاء کی وفات کے بعد ’گلزارِ مہ لقاء‘ کے عنوان سے ان کا دیوان شائع کیا گیا۔ مہ لقا ء کی پیدائش کے بعد ان کے والد نے انھیں بے گھردیا تھا، اسی دوران میر نظام علی خان آصف جاہ دوم کے وزیراعظم میر موسی خان شہید المعروف رکن الدولہ نے ان کی پرورش کی۔ مہ لقاء نے فن موسقی و رقص اکبراعظم کے دربار کے مشہور موسیقار تان سین کے پوترے خوش حال خان سے سیکھا اور ان میں انتہا درجہ کی مہارت حاصل کی۔ انھیں امراء العزام کا بھی اعزاز حاصل تھا۔ وہ شاہی دربار میں رقص و سرود کی محفلوں میں سب کا دل جیت لیا کرتی۔ مہ لقابائی کو شاہی دربار کی جانب سے حفاظتی دستے کے طور پر کئی باڈی گارڈ فراہم کیے گئے تھے۔مہ لقاء بائی 4؍اپریل 1768 کو پیدا ہوئی۔ ان کی والدہ کانام راج کنور بائی تھا۔ راج کنور بائی کے شوہر آصف جاہی دور سلطنت میں خاصی اثر و رسوخ رکھتے تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ شہنشاہ محمد شاہ کے دور میں ان کے نانا احمد آباد میں مغلیہ دور میں ایک بہترین منتظم تھے۔ ان کی شاعری میں محبت، وفاداری کے ساتھ ساتھ سازش اور دشمنی کے موضوعات شامل ہیں۔سید حسن علی نے لکھا ہے کہ’ مہ لقا ء بائی چندا اپنے عہد کی ایک اچھی شاعرہ تھی۔ اس کی شاعری کے استاد نواب میر ابوالقاسم موسوی المخاطب بہ میر عالم تھے۔ چندا بی بی غزل کی شاعرہ تھی۔ اس کی غزل پانچ مصرعوں پر مشتمل ہوتی تھی۔ ہر غزل کے آخری مصرعہ میں حضرت علی مرتضی کرم اللہ وجہ کی مداح سرائی کرتی تھی اور ان سے استعنات طلب کرتی تھی۔ اسے بنی کریمﷺ و اہلبیت اطہار سے والہانہ محبت ومودت تھی۔ چندا کے چند شعر پیش ہیں‘ (روزنامہ سیاست۔ حیدرآباد29؍مئی 2015)۔ مہ لقاء کی شاعری کے ضمن میں ڈاکٹر راحت سلطانہ نے اپنے ایک مضمون مہ لقا ء بائی چندا: اردو کی پہلی نسائی آواز میں لکھا ہے کہ ’’مہ لقا ء بائی چندا صنف غزل کی رسیا تھی۔ اس کے دیوان میں غزل کے علاوہ کوئی اور صنف نہیں ملتی۔ ہر غزل میں اس نے پانچ شعر کا التزام روا رکھا ہے اس کی وجہ غالباً پنج تن سے عقیدت ہے۔ اس کے دیوان میں جملہ 125 غزلیں ہیں۔ چندا کا کلام اس کے مشاہدات، تجرباتِ زندگی اور قلمی واردات کی ترجمانی کرتا ہے۔ سادگی بیان، لطافت زبان اور نغمگی و موسیقیت اس کے کلام کی نمایاں خصوصیات ہیں‘‘۔ چند شعر ملاحظہ ہوں:
عالم تری نگہ سے ہے سرشار دیکھنا
میری طرف بھی ٹک تو بھلا یار دیکھنا
خورشید رو قسم ہے یہ زلفوں کی تونے کل
وعدہ کیا تھا دن کا مگر رات ہوگئی
ہماری چشم نے ایسا کمال پایا ہے
جدھر کو دیکھئے آتا ہے تو نظر ہم کو
چندا نے اپنے تجربات زندگی اور مشاہدات کو نسوانی زبان میں بڑے سلیقے سے پیش کیا ہے۔ درجِ ذیل اشعار کی نسائیت اور داخلی رنگ قابل داد ہے:
جو پوچھے ہجر کی حالت مری وہ بے وفا ہنس کر
تصدق ہوکے کہہ باآہِ سرد و چشم تر قاصد
سوجان سے ہوگی وہ تصدق مرے مولا
چندا کی جوکونین میں امداد کرو گے
مری نازک مزاجی کی خبر رکھتا نہیں ہرگز
وہ سنگیں دل نہیں ممکن کسی کا ہوکبھی عاشق
سرفرو ہرگز نہ ہوچندا کسی سے دہر میں
یہ جناب مرتضیٰ کی ہے کنیزی کا غرور
شاہ و گدا تو دنگ ہوے رقص پر ترے
عاشق ہے نیم جان‘ نئی لئے میں تان بھر
حسن کے شعلے سے تیرے جب کہ ٹپکے ہے عرق
شرم سے بس ابر کے دامن میں ہے تر آفتاب (ماہنامہ سب رس،حیدرآباد ۔ ستمبر۔2012)
میر نظام علی خان آصف جاہ دوم جب بھی سفر کرتے مہ لقاء کو بھی اپنے قافلہ میں خصوصیت کے ساتھ شریک سفر کرتے تھے۔ اس دور میں مہ لقاء کا ایک گھر ’حسہ رنگ محل‘ نامپلی میں بھی تھا، جہاں آج لڑکیوں کا کالج واقع ہے۔ انھیں ایڈیک منٹ کی جائیدادیں شاہی دربار کی طرف سے عطا کی گئی تھی۔ موجودہ انگلش اینڈ فارن لینجویجس یونیورسٹی(EFLU) کے کیمپس میں مہ لقا کے نام سے ایک باؤلی بھی واقع ہے۔ اس کے علاوہ مہ لقاء بائی کے نام سے یونیورسٹی کیمپس میں ایک وسیع و عریض ہاسٹل بھی ہے۔مہ لقا ء بائی کی آخری آرام گاہ گوہ مولا علی کے دامن میں اپنی والدہ راج کنوار بائی کی قبر کے قریب واقع ہے۔ ان کی مزار نہایت ہی خوب صورت، نقش و نگار سے مزین اور نفیس تعمیری شاہکار کا اعلی نمونہ ہے۔ واضح رہے کہ دکن آرکائیو حیدرآباد کے چند متحرک نوجوانوں کا ایسا گروپ ہے، جس کا مقصد دکن سے متعلق تاریخی حقائق کو عام کرنا ہے۔ اس کے ذریعے دکن کی درست معلومات اور تاریخی واقعات سے واقف کرایا جاتا ہے اور اسے عام کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ گروپ دکن کے متنوع تاریخی ورثے کو ڈیجیٹل طور پر محفوظ رکھنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ اس کے علاوہ نایاب مخطوطات، پرانی تصاویر اور آرکائیو کو اس کے ذریعے محفوظ کیا جارہا ہے۔ سماجی رابطہ کے مختلف ذرائع فیس بک، انسٹاگرام کے علاوہ ویب سائٹ https: //thedeccanarchive.in/ پر دکن آرکائیو سے رابطہ کیا جاسکتا ہے۔