حکیم سید مہدی نقوی
بی۔ یو۔ ایم۔ ایس، علیگ (طبیب)
علم طب کا موضوع جسم انسانی ہے۔ اس علم میں صحت یا تندرستی برقرار رکھنے اور بیماری کو دور کرنے کے بارے میں بحث کی جاتی ہے۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ ظہور اسلام کے ساتھ ہی علم طب مسلمانوں کے درمیان رائج ہوا کیونکہ رسول اکرم حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ’’العلم علمان علم الادیان و علم الابدان‘‘ یعنی علم کی دو قسمیں ہیں (۱) علم دین (۲) علم بدن یعنی علم طب ۔
لیکن اس علم کی باقاعدہ تدوین یونانیوں کے ہاتھوں عمل میں آئی ۔ یونانیوں کا خیال تھا کہ اسقلپس (EXLEPIUS)اس علم کا موجد تھا اس نے اپنی اولاد کو زبانی اس علم کی تعلیم دی اور وصیت کی کہ یہ علم اس خاندان سے باہر نہ جائے اقلیدس، افلاطون اور سولن جیسے عظماء کا تعلق اسی خاندان سے تھا مگر بقراط ایسا حکیم تھا جس نے علم طب پر اسقلپس خاندان کی اجارہ داری کو چیلنج کیا اور اسے عام کیا۔
فروغ طب میں مسلمانوں کا حصہ :
یہ حقیقت ہے کہ علم طب کی داغ بیل یونانیوں نے ڈالی مگر اسے بام عروج تک مسلمانوں نے پہونچایا ڈاکٹر ماگس میر ہوف (Dr. MAXMEYERHOF)رقمطراز ہیں:
’’صلیبی جنگوں میں مسلمان حکماء عیسائی حکیموں پر ہنستے تھے کیونکہ مسلمان حکماء عیسائی حکیموں کی معلومات کو بالکل ابتدائی اور پست سمجھتے تھے۔ عیسائیوں نے بو علی سینا ، جابر بن حیان، حسن بن ہیثم اور رازی کی کتابوں کا لاطینی میں ترجمہ کیا اگر چہ ان کے ترجمے کرنے والوں کے نام معلوم نہیں مگر ترجمے اب بھی موجود ہیں۔ سولہویں صدی میں ابن رشد اور بو علی سینا کی کتابوں کا لاطینی میں ترجمہ ہو اتھا اور یہ ترجمے اٹلی اور فرانس کی یونیورسٹیوں میں باقاعدہ پڑھائے جاتے تھے ۔‘‘) مغربی تمدن کی ایک جھلک بحوالہ میراث اسلام، ص: ۱۳۲)
مسلمان اطباء نے اپنی سعی اور کوشش سے اس علم کو جو فروغ دیا اسے فراموش نہیں کیا جا سکتا چیچک کا علاج کہ جس سے دنیا نا آشنا تھی اسے ابن رُشد نے تلاش کیا اور اس مرض کے سلسلے میں مکمل تحقیق کی اور ایک کتاب ’’الکلیات فی الطب‘‘ لکھی یہ دنیا کی پہلی کتاب تھی جس میں چیچک کے بارے میں اہم طبی معلومات جمع کر دی گئی تھیں۔
بعد میں جتنی بھی ریسرچ ہوئی اس میں ابن رشد کی اس کتاب سے استفادہ کیا گیا ۔ عام طور پر یہ پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے کہ مغربی سائنس داں ایڈورڈ جیز نے دنیا کو چیچک کے مرض سے بچایا۔ در حقیقت یہ کارنامہ ابن رشد نے انجام دیا ہے۔
آپریشن کرنے میں بھی مسلمانوں کو اعلیٰ مہارت حاصل تھی ابو القاسم زہراوی (متولد ۹۳۶ء)نے اس فن میں ایک کتاب ’’التصریف‘‘ کے عنوان سے لکھی جو طب کے موضوع پر ایک مستند کتاب مانی جاتی ہے یہ کتاب تیس جلدوں پر مشتمل ہے اس کی تین جلدیں آپریشن کے بارے میں ہیں۔ اس کتاب کی خصوصیت یہ ہے کہ ابو القاسم زہراوی نے خود مختلف آپریشن کئے ان کا تفصیل سے ذکر کیا بعض آپریشن تو بہت ہی مشکل تھے اور بعض آپریشنوں سے اس وقت لوگ بالکل ناواقف تھے۔ کتاب التصریف میں دانتوں، آنکھوں، حلق، مثانے کے آپریشن، ٹوٹی ہوئی ہڈی کو جوڑنے، اترے ہوئے پٹھوں اور جوڑوں کو بٹھانے، خراب عضو کو کاٹنے اور ہر قسم کے پھوڑوں کو چیرنے کا ذکر ہے۔
زہراوی نے سر کے آپریشن کا خاص طور پر ذکر کیا ہے۔ داغنے کے مختلف آلات اور ان آلات کے استعمال کا طریقہ بھی بتایا ہے۔ اس کتاب میں آپریشن کے ان آلات کی تصویریں اور خاکے بھی دئیے ہیں جو انھوں نے خود ایجاد کئے اور انھیں آپریشن میں استعمال کیا ۔ اس کتاب کی ایک طویل عرصے تک یورپ کی یونیورسٹیوں میں تدریس جاری رہی عربی زبان سے سب سے پہلے اس کا ترجمہ ۱۴۹۷ عیسوی میں لاطینی زبان میں ہوا اس کے بعد فرانسیسی اور پھر انگریزی زبان کے قالب میں ڈھالا گیا آج بھی اس کتاب کو دنیائے طب میں اعلیٰ مقام حاصل ہے۔۱؎
۱؎ ہمارے عظیم سائنس داں ، ص: ۲۱
علم طب کا انسائیکلو پیڈیا کتاب ’’القانون‘‘ جو بو علی سینا کا علمی شاہکار ہے جس پر مسلمان جتنا فخر کریں اتنا کم ہے ڈاکٹر میر ہوف اس کتاب کے بارے میں لکھتے ہیں :
’’دنیائے اسلام میں یہ کتاب ایک شاہکار سمجھی جاتی ہے پندرہویں صدی کے آخر میں یورپ میں یہ کتاب سولہ مرتبہ ترجمے کرکے چھاپی گئی جس میں پندرہ مرتبہ لاطینی زبان میں اور ایک مرتبہ عبرانی زبان میں طبع کی گئی اور سولہویں صدی میں بیس مرتبہ سے زیادہ چھاپی گئی۔ اس بات سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ بو علی سینا کی کتاب قانون کو کتنی اہمیت حاصل ہے۔ ‘‘
لاطینی اورعبرانی زبان میں بھی اس کتاب کی شرحیں لکھی گئی ہیں سترہویں صدی کے نصف آخر میں یہ کتاب متعدد بار شائع کی گئی اور عرصۂ دراز تک اس کتاب کا شمار درسی کتابوں میں ہوتا رہا اور شاید اب تک طب کی کسی بھی کتاب کو اتنا رواج نہیں ملا جو اسے ملا۔ ۲؎
۲؎ میراث اسلام ، ص: ۱۱۱
بو علی سینا کو ریاضی اور علم فلکیات میں بھی مہارت حاصل تھی انھوں نے ہمدان میں رصد گاہیں بھی تعمیر کرائیں انکی دوسری تصنیف کتاب الشفاء ہے جو معلومات کا خزانہ ہے۔
دنیائے طب میں ایک درخشاں چہرہ محمد بن زکریا رازی کا ہے جن کی ایجادات سے طب کو بڑا فروغ ملا۔ رازی ہی نے مریض کو بے ہوش کرنے میں افیون کااستعمال اور مرض سکتہ میں بادکش کی ایجاد انہی کی ایجاد ہے۔ اس طرح آپ نے آنکھوں اور جلد کے امراض میں پارے کا مرہم اور دوسری دوائیں ایجاد کیں۔
زکریا رازی کا امتیاز یہ ہے کہ آپ نے چیچک اورخسرہ کو الگ الگ مرض قرار دیا اور اپنے تجربات کی روشنی میں ان امراض کے سلسلے میں ایک گرانقدر کتاب لکھی جو اس موضوع پر پہلی کتاب تسلیم کی گئی اس کتاب کا دنیا کی مختلف زبانوں میں ترجمہ ہوا۔ ویل ڈورانٹ (WILLDURANT) زکریا رازی کے بارے میں لکھتے ہیں :
’’مشہور ترین اور مقدم ترین اسلامی حکیم محمد بن زکریا رازی نے دوسو سے زیادہ کتابیں اور رسالے لکھے ان میں زیادہ تر کتابیں علم طب سے متعلق ہیں اور بہت زیادہ سود مند ہیں ان کتابوں میں بھی دو کتابیں تو نہایت ہی لا جواب ہیں۔ ‘‘
(۱) آبلہ و سرخک:-اس کتاب کا ابتداً لاطینی زبان میں اور اس کے بعد یورپ کی دوسری زبانوں میں ترجمہ ہوتا رہا۔ ۱۴۸۹ء سے ۱۸۶۶ء تک یعنی چار صدیوں میں چالیس مرتبہ اس کا ترجمہ مختلف زبانوں میں کرکے شائع کیا گیا۔
(۲)الحاوی الکبیر:- یہ کتاب رازی کی پوری زندگی کے مطالعہ اور طبی تجربوں کا خلاصہ ہے اس کتاب میں علم طب کے تمام مسائل کا ذکر موجود ہے یہ کتاب بیس جلدوں پر مشتمل ہے۔اس کی پانچ جلدیں تو صرف آنکھوں کی بیماری سے متعلق ہیں۔ ۱۲۷۹ء میں اس کتاب کا ترجمہ لاطینی زبان میں
ہوا اور صرف ۱۵۴۲ء میں یہ کتاب پانچ مرتبہ شائع ہوئی۔ دنیا میں علم طب کا سب سے بڑا ماخذ اس کتاب کو سمجھا جاتا ہے اور ان نو کتابوں میں سے ایک کتاب یہ بھی تھی جس کی بنا پر پیرس کی یونیورسٹی کو ۱۳۹۴ء میں ایک کتبخانہ بنانا پڑا۔ ۱؎
۱؎ مغربی تمدن کی ایک جھلک، ص: ۱۵۵
عہد قدیم میں طب کے طلباء اپنی تعلیم بقراط کی کتاب سے شروع کرتے تھے پھر ابن اسحاق کی کتاب پر آتے تھے اس کے بعد زکریا رازی کی کتاب پڑھتے تھے اور آخر میں بو علی سینا کی کتاب القانون پڑھ کر فارغ التحصیل مانے جاتے تھے۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد استاد سے اجازت لے کر علاج کرنے کا آغاز کرتے تھے لیکن اس سے پہلے ہر طبیب کے لئے محتسب کو یہ اطمینان دلانا ضروری ہوتا تھا کہ وہ مریض کا صحیح علاج کر سکتا ہے بارہویں صدی عیسوی تک یہی سلسلہ جاری رہا۔
جڑی بوٹیوں کی دریافت اور ان کی خصوصیات کے بارے میں ابن بیطار کو ایک خاص مقام حاصل ہے عصر حاضر میں بھی جڑی بوٹیوں سے تیار کی جانے والی کوئی دوا ایسی نہیں جس کی تیاری میں ابن بیطار کی ریسرچ شامل نہ ہو۔ ابن بیطار کو جڑی بوٹیوں سے خاص دلچسپی تھی وہ ایک عرصے تک ایسی بوٹی کی تلاش میں رہے جو انسانی لاش کو سڑنے اور گلنے سے بچا سکے انھیں وادی نیل میں اس بوٹی کے ملنے کی امید تھی لیکن وہ وہاں نہ مل سکی وہاں سے آپ قاہرہ چلے گئے وہاں کچھ عرصے قیام کے بعد صحرائے سینا سے ہوتے ہوئے لبنان پہونچے وہاں پہاڑی علاقوں میں ان کو تین سو کے قریب ایسی جڑی بوٹیاں ملیں جن کا ذکر کسی کتاب میں بھی نہیں تھا۔ آپ نے بیروت میں مقیم رہ کر ان جڑی بوٹیوں پر ریسرچ شروع کی اور اس ریسرچ کی روشنی میں ایک کتاب لکھنا شروع کی جس کا نام ’’الجامع فی الادویۃ المفردۃ‘‘ رکھا جو سولہویں صدی عیسوی تک نباتات کے علم پر سب سے مستند کتاب مانی جاتی تھی اسے جڑی بوٹیوں کا انسائیکلو پیڈیا کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا کیونکہ اس میں چار سو سے زائد دوائوں پر تحقیقی تجربات تحریر کئے ہیں اور دو سو سے زیادہ ایسے پودوں کا ذکر ہے جن کا تذکرہ اس سے پہلے کسی کتاب میں نہیں ملتا ۔ نباتات پر ریسرچ اور تجربے سے نہ صرف دوا سازی کے علم میں اضافہ ہوا بلکہ معاشرتی تہذیب و تمدن پر بھی اس کے اچھے اثرات مرتب ہوئے۔
دنیائے طب میں علی بن طبری کی اہم تصنیف ’’فردوس الحکمۃ‘‘ کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے یہ کتاب طب اسلامی اور طب ہندی کی معلومات کا عظیم ذخیرہ ہے اس میں نفسیات ، فلکیات، موسم کی تبدیلی اور حیوانات کے علوم کو بھی زیر بحث لایا گیا ہے۔ یہ کتاب تین سو ساٹھ ابواب اور ساٹھ حصوں پر مشتمل ہے۔
پہلے حصہ- میں فلسفیانہ بحث ہے۔
دوسراحصہ- میں حمل، عصبی بیماریوں، آنکھوں کی روشنی اور اختلاج قلب کا ذکر ہے۔
تیسرا حصہ- غذا کے اثرات پر مشتمل ہے۔
چوتھا حصہ- اس میں سر سے پائوں تک کی تمام بیماریوں کا ذکر ہے۔ فصد کھولنے، نبض دیکھنے کے اصول وغیرہ بتائے ہیں۔
اس کتاب کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ گیارہ سو سال پہلے لکھی گئی تھی اب تک موجود ہے اور ساری دنیا میں مقبول ہے۔ رازی اور بو علی سینا جیسے عظیم اطباء نے بھی اس سے استفادہ کیا اور آج تک اس کی مقبولیت میں کوئی کمی نہیں آئی۔
دنیائے طب کا نامور نام بو علی الحسن بن ہیثم (متوفی ۱۰۴۳ء)کا ہے جنھیں آنکھوں کے علاج میں اعلیٰ دستگاہ حاصل تھی آپ کی تصنیف
’’المناظر‘‘ کا ایک باب آنکھوں سے متعلق ہے جس میں آنکھ کی اندرونی بناوٹ کی تشریح کی ہے اور ایسے نکات پیش کئے ہیں جن سے ماہرین چشم نا واقف تھے۔
ابن ہیثم لکھتے ہیں کہ آنکھ کا بیرونی حصہ ایک دبیز پردے پر مشتمل ہوتا ہے جسے صلبیہ کہتے ہیں اس پردے کے سامنے کا حصہ شفاف ہوتا ہے اسے قرنیہ کہتے ہیں روشنی کی شعاعیں اسی حصے سے داخل ہوتی ہیں۔
آپ نے ثابت کیا ہے کہ آنکھ سے نکلنے والی نظر کی کرنوں کا کوئی وجود نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ روشنی جب کسی جسم پر پڑتی ہے تو اس کی کچھ شعاعیں اس جسم کی مختلف سطحوں سے پلٹ کر فضا میں پھیل جاتی ہیں ان میں سے بعض شعاعیں دیکھنے والے کی آنکھ میں داخل ہو جاتی ہیں جن کے سبب سے وہ شیٔ آنکھوں کو نظر آنے لگتی ہے ۔
یہ حقیقت ہے کہ آنکھوں کے علم کے سلسلے میں ابن ہیثم کے نظریات ندرت کے حامل ہیں جس کی وجہ سے انھیں ماہرین بصریات کا پیشوا کہا جاتا ہے۔ ۱؎
۱؎ ہمارے عظیم سائنسداں، ص: ۴۶
طب کے میدان میں ایک معتبر نام ابن النفیس (متولد ۱۲۱۳ء) کا ہے ان کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے انسانی جسم میں خون کی گردش کی دریافت کی جدید میڈیکل سائنس تین صدیوں کے بعد اس سے واقف ہوئی۔ آپ پہلے حکیم تھے جنھوں نے پھیپھڑوں کی ساخت کو صحیح طریقے پر بیان کیا اور انسانی جسم میں دوران خون کے بارے میں تفصیل سے بتایا اور دل کے عمل اور خون کی شریانوں کے بارے میں بھی نئی معلومات سے آشنا کرایا ۔ طب کے موضوع پر آپ کی ضخیم تصنیف ’’الشامل فی الطب‘‘ ہے جسے آپ مکمل نہیں کر پائے تھے۔
اس امر سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ مسلمان بہت سے علوم میں اپنے معاصرین سے آگے نظر آتے ہیں جس سے اہل یورپ کی آنکھیں بھی خیرہ ہو گئیں۔ جب مسلمان یورپ میں گئے تو اس وقت اہل یورپ وبائی میکروبات سے ناواقف تھے اسپین والوں کا خیال تھا کہ میروب وبائی ایک آسمانی بلا ہے جو گناہگار بندوں کی تنبیہ کے لئے آسمان سے نازل ہوتی ہے لیکن مسلمان اطباء نے ثابت کیا کہ طاعون ایک متعدی مرض کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔ ۲؎
۲؎ مغربی تمدن کی ایک جھلک ، ص: ۱۵۵
جہاں تک ہندوستان میں طب یونانی کے فروغ کا سوال ہے تو اس سلسلے میں حکیم اجمل خاں کی نا قابل فراموش خدمات ہیں۔ آپ نے طب قدیم کو جدید تحقیق کی روشنی سے ہم آہنگ کرنے کے لئے دہلی میں طبیہ کالج قائم کیا جس سے ہندوستان میں طب نے ارتقائی مراحل طے کئے اور بڑی تعداد میں طلاب نے اس ادارہ میں تعلیم حاصل کرکے علم طب کی خدمت انجام دی۔
یہ وہ تحقیقات ہیں جن سے دنیائے طب میں مسلمانوں کے تابناک ماضی کا اندازہ ہوتا ہے جسے دیکھ کر ہر مسلمان کا سر فخر سے اونچا ہوتا ہے کہ ہمارے ہی بزرگ اطباء تھے جنھوں نے طب کو بام عروج پر پہونچایا۔
مگر آج بہت افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ جس علم کو ہمارے اطباء نے فروغ دیا آج ہم ہی اس علم کے انحطاط کا سبب بن رہے ہیں جائے تاسف ہے کہ آج ہمارے معاصرین طب یونانی کی تعلیم حاصل کرتے ہیں مگر اپنے نام کے آگے لفظ ’’حکیم‘‘ لکھنے میں توہین محسوس کرتے ہیں اور فخریہ طور پر لفظ ’’ڈاکٹر‘‘ کااستعمال کرتے ہیں شاید ان حضرات کو نہیں معلوم کہ ’’حکیم‘‘ کتنا مقدس اور عظیم لفظ ہے جو الٰہی کتاب قرآن مجید میں بھی استعمال ہوا اور اللہ تبارک وتعالیٰ کے اسماء میں بھی شامل ہے۔
ذرا سوچئے کہ اگر ہم ہی اس لفظ کے استعمال سے گریز کریں گے تو ا سکے استعمال کی کس سے توقع رکھتے ہیں۔ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ
زیادہ سے زیادہ لفظ حکیم کا استعمال کریں تاکہ معاشرہ میں یہ لفظ رائج ہو اور اس کے اعتبار میں اضافہ ہو۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ہمارے بزرگ جہاں تک تحقیقی کام چھوڑ کر گئے ہیں علم طب کو اس سے آگے بڑھایا جائے نئی نئی تحقیقات سے اس علم کے دامن کو بھر دیا جائے تاکہ علم طب مرور زمانہ کے ساتھ ترقی کی طرف گامزن رہے اور وہ امراض جنھیں لا علاج محسوس کیا جاتا ہے اس کا علاج بزرگوں کی تخلیقات میں تلاش کیا جائے تاکہ علم طب میڈیکل سائنس کے ہمقدم ہو کر ارتقائی مراحل طے کرے۔
مگر ایسا ہو نہیں رہا ہے۔ دنیائے طب میں ایک سناٹا ہے علم سے نابلد افراد نے اطباء کی جگہ لے لی جو ایک نسخہ نہیں لکھ سکتے وہ ’’حکیم حاذق‘‘ بنے ہوئے ہیں۔ اس مقدس علم کا استعمال پیشے کے طور پر کیا جا رہا ہے، پروپیگنڈہ اس کی ترویج کا ذریعہ بن رہا ہے۔ جھوٹے اور بے بنیاد وعدہ کرکے اس علم کے اعتبار کو کم کیا جا رہا ہے۔
روحانیت اور معنویت جو اس علم کی بنیاد تھی اس کی جگہ شہرت و ناموری نے لے لی ہے عہد قدیم میں یہ علم روحانیت کے ذریعہ پہچانا جاتا تھا اور طبیب کا احترام بھی اس کی روحانیت کے اعتبار سے کیا جاتا تھا۔
مگر یہ زمانے کی ستم ظریفی ہے کہ آج طبیب کا احترام اس کی شہرت اور ناموری کی بنیاد پر ہو رہا ہے جس کی جتنی زیادہ شہرت اتنا بڑا حکیم ۔ اس سے بحث نہیں کہ ان کا مبلغ علمی کیا ہے روحانیت اور عبادت میں کس درجہ پر فائز ہے۔
ضضضض
Also read