9807694588
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مند
دوسری اور آخری قسط
خدا بخش اورینٹل لائبریری کے خزانہ میں بیش بہا اضافہ اس عہد کے بہت سے رؤسا اور اہل علم اصحاب کے تعاون سے بھی ہوا جنھوں نے اپنے ذاتی کتب خانے لائبریری کو تحفے میں عطا کردیئے۔ لائبریری میں دنیا کی بہترین کتابوں کا شاندار کلیکشن دیکھ کر برٹش میوزیم نے لاکھوں پونڈ کے عوض خریدنا چہا تھا، جس سے مولوی صاحب نے کہا تھا ’’میں ایک غریب آدمی ہوں، انھوں نے جس رقم کی پیشکش کی تھی وہ تو ایک غیرمعمولی رقم تھی لیکن میں پیسے کی خاطر اس سے دستبردار نہیں ہوسکتا ہوں جس کے لیے میرے باپ نے اور میں نے اپنی زندگیاں وقف کردیں۔‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ آبدیدہ ہوگئے تھے۔
اس لائبریری کی یہ تاریخ ہے کہ جس دن سے مولوی خدا بخش کے والد محمد بخش نے اپنی نجی کتابوں کے ذخیروں سے چھوٹی سی لائبریری شروع کی تھی مشاہر عہد کی آمد شروع ہوگئی تھی۔ بعد میں خدابخش لائبریری کے قیام کے بعد تو لارڈ ڈلٹن، لارڈ منٹو، علامہ شبلی، سر ظفراللہ، لارڈ ریڈنگ، جون سمن، لارڈ ارون، جی سی بوس، گاندھی جی، نواب حبیب الرحمن شیروانی، راجہ محمودآباد، سی وی رمن، لارڈ ماؤنٹ بیٹن جیسی شخصیات نے بانی کتب خانہ کو ہدیہ تبریک پیش کیا۔ مسٹر کیب بیل ان کے قریبی دوست تھے، انھیں کی وساطت سے سر چارلس لائل لائبریری آئے تھے۔ سر چارلس نے ہی 1891ء میں لائبریری کا افتتاح کیا تھا۔ وہ عربی، فارسی اور اُردو کے زبردست عالم تھے۔ پنڈت جواہر لعل نہرو 1953ء میں لائبریری دیکھنے پٹنہ آئے تھے، انھوں نے کہا ’’فن کے ان حسین شہ پاروں کو دیکھ کر عجیب خوشی کا احساس ہوا، انھوں نے (مولوی خدا بخش نے) ہندوستان کی تاریخ کے ایک دور کو جاوداں کردیا ہے۔
خدا بخش لائبریری میں اسلامی علوم، طب یونانی، تذکرے، تصوف، تقابلِ ادیان، عہد وسطیٰ کی تاریخ، جنوبی، مشرقی ایشیائی تاریخ، قرونِ وسطیٰ کے سائنسی علوم، تحریک آزادی اور قومی یکجہتی کا ادب، اُردو، فارسی اور عربی ادبیات وہ موضوعات ہیں جو اس کے دائرۂ اختصاص میں آتے ہیں۔ اس کا خطی ذخیرہ بیس ہزار سے اوپر ہے جبکہ مطبوعات تقریباً دو لاکھ ہیں۔ مزید برآں مجلد رسائل تقریباً ساڑھے سینتیس ہزار ہیں۔ شہنشاہ اکبر، تغلق، شاہجہاں اور شاہ عالم کے دور کے آٹھ سو سکے بھی یہاں موجود ہیں۔ ان کے علاوہ مائکرو فلمز، مائکرو فشز، سلائڈز، ویڈیو اور آڈیوکیسٹس خاصی تعداد میں ہیں۔ یہاں کئی نادر اُصطرلاب بھی محفوظ ہیں۔ 1965ء میں مخطوطات 8487 اور مطبوعہ کتابیں 41411 تھیں جبکہ 13مارچ 1999ء تک قلمی ذخیرے کی تعداد 21101 اور مطبوعات 195538 تھیں۔ 34سال کے عرصے میں کتابوں کی تعداد میں ایک غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے۔
لائبریری کا قلمی ذخیرہ ہی اس کا طرۂ امتیاز ہے۔ بعض مخطوطات تو یہاں ایسے نادر و نایاب ہیں کہ دنیا میں کہیں اور نہیں ملتے۔ شاہوں اور نوابوں کے اہم مخطوطات اس لائبریری میں موجود ہیں۔ عہد وسطیٰ کے بعض وہ مخطوطات جن پر بادشاہوں کے دستخط اور مہریں ثبت ہیں یہاں کی زینت ہیں۔ اکبری دَور کے دلکش فن پارے اور خطاطی کے حسین نمونے، ایرانی، کشمیری اور راجستھانی دبستانِ فن کی تصویریں دیکھ کر بے ساختہ واہ نکلتی ہے، کہاں تک ان کا ذکر ہو۔ دفتر کے دفتر سیاہ ہوجائیں مگر ان کا قصہ تمام نہ ہوگا۔ صرف چند نوادر کا مختصر تعارف پیش کیا جاتا ہے۔
l یہاں قرآن شریف کے بعض بہت ہی نایاب نسخے ہیں۔ خلافت عباسیہ کا ایک بے حد مشہور خطاط یاقوت مستعصمی کے ہاتھ کا لکھا ہوا نہایت ہی خوبصورت قرآن شریف کا نسخہ جس پر اس کے دستخط ہیں اور 668ھ درج ہے۔ یہ خطاطی کا بہترین نمونہ ہے۔
l قرآن شریف کا ایک بہت بڑی تقطیع پر لکھا ہوا نہایت ہی مرصع اور مطلا نسخہ، شروع کے دو صفحات بیحد مزین ہیں۔ بین السطور فارسی میں ترجمہ خط نستعلیق میں ہے۔
l قرآن شریف کا ایک اور قدیم نسخہ جو خط کوفی میں ہے، جگہ جگہ سے حروف اُڑ گئے ہیں، اس میں اعراب نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ خط کوفی میں سورۂ ابراہیم کی صرف تین آیتیں ہرن کی کھال پر لکھی ہوئی ہیں اور فریم کی ہوئی ہیں۔ قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دونوں صحابہ کے زمانہ کے لکھے ہوئے ہیں۔
l ایک قدیم ترین نسخہ ’الرسالۃ القشریہ‘ ہے جس کی کتابت مصنف کی زندگی میں ہوئی۔ اس پر 438ھ درج ہے۔ فارسی میں بہت نایاب نسخے یہیں محفوظ ہیں۔
l ’تاریخ خاندانِ تیموریہ‘ نستعلیق میں لکھا ہوا دنیا کا واحد نسخہ ہے۔ یہ تیمور سے اکبر کے بائیسویں سال جلوس تک کی تاریخ ہے۔ اکبر کے دربار کے مشہور مصوروں کی بنائی ہوئی ایک سو بتیس تصویریں اس میں شامل ہیں۔ مصوری کا ایک بے مثال نمونہ۔ ہر تصویر کے نیچے تصویر بنانے والے اور رنگ بھرنے والے کا نام درج ہے۔
l ’بادشاہ نامہ‘ دو جلدوں میں ہے۔ یہ شاہجہاں کی مکمل تاریخ ہے۔ پچیس انتہائی خوبصورت تصویروں پر مشتمل ہے، مصوری کا انمول نمونہ ہے۔ اس میں چند عمارتوں کی تصویریں بھی شامل ہیں۔ آخری تصویر میں شاہجہاں کا جنازہ تاج محل جاتا دِکھایا گیا ہے۔ جارج پنجم اور ان کی ملکہ 1911ء میں جب دہلی دربار میں آئے تو ان کے ملاحظہ کے لیے یہ پیش کیا گیا اور ان دونوں نے اس پر دستخط کیے۔
l ’شہنشاہ نامہ‘ فاتح قسطنطنیہ سلطان محمد ثانی کی تاریخ ہے۔ شاہجہاں کے زمانے میں یہ نسخہ ہندوستان پہنچا۔ اس پر مغل بادشاہوں اور شہزادوں کے اتنے دستخط ہیں کہ یہ صفحہ بھر گیا ہے۔ اس پر شاہجہاں کی بیٹی جہاں آرا بیگم کے بھی دستخط ہیں جو کسی اور نسخے پر نہیں ملتے۔
l محمود غزنوی کی مدح میں فردوسی کے ’شاہنامہ‘ کا بہت ہی خوبصورت مصور قلمی نسخہ۔ کابل و کشمیر کے گورنر علی مراد خاں نے شاہجہاں کے حضور اسے بطور تحفہ پیش کیا تھا۔
l جامی کی مشہور کتاب ’یوسف زلیخا‘ جسے عبدالرحیم خان خاناں نے بیس ہزار روپے خرچ کرکے جہانگیر کے لیے تیار کرائی تھی۔
l ’دیوانِ حافظ‘ جو خاندانِ مغلیہ میں فال نکالنے کے لیے استعمال ہوتا تھا، اس پر ہمایوں اور جہانگیر کی تحریر اور دستخط ہیں۔
l ’سفینۃ الاولیا‘ داراشکوہ کی تصنیف ان کے اپنے ہاتھ کی لکھی ہوئی ہے۔
l جہانگیر کا ’جہانگیر نامہ‘ نایاب کتاب ہے جسے انھوں نے اپنے دربار کے سب سے بڑے کاتب سے لکھوایا اور گولکنڈہ کے بادشاہ قطب شاہ کو تحفتاً دیا تھا۔ اورنگ زیب کے زمانے میں جب گولکنڈہ فتح ہوا تو ان کے بیٹے شہزادہ سلطان محمد کے قبضے میں یہ کتاب آئی، اس کے پہلے صفحے پر سلطان محمد کے دستخط ہیں۔ اس کا عکسی ایڈیشن مع مقدمہ لائبریری سے شائع ہوگیا ہے۔
ٖl الزہراوی کی ’کتاب التصریف‘ 1190ء میں لکھی گئی۔ یہ عمل جراحت پر مصور نسخہ ہے۔ اس میں جراحت کے جو آلات دِکھائے گئے ہیں وہ آج بھی استعمال کیے جاتے ہیں۔
l مصحفی کے آٹھویں دیوان کا واحد نسخہ صرف خدا بخش لائبریری میں دستیاب ہے۔
شریمد بھاگوت گیتا، پران اور مہابھارت کے فارسی تراجم محفوظ ہیں۔ پالی اور سنسکرت میں کئی سو بھوج پتر موجود ہیں۔ ان کے علاوہ کثیر تعداد میں مشاہیر کے خطوط بھی محفوظ ہیں۔ مثلاً علامہ اقبال، ڈاکٹر راجندر پرساد، مولانا ابوالکلام آزاد، اکبر الٰہ آبادی، محمد علی جوہر، ڈاکٹر ذاکر حسین اور جوشؔ ملیح آبادی کے خطوط اُردو زبان میں دستیاب ہیں۔ مطبوعہ ذخیرہ بھی کچھ کم اہم نہیں ہے۔ انیسویں صدی کے ربع ثالث کے بعض اُردو کے پرچے اور اخبار موجود ہیں۔ اُردو، انگریزی، عربی اور فارسی میں تذکرے سینکڑوں کی تعداد میں دستیاب ہیں۔ قرآنیات، حدیث و فقہ پر بڑی تعداد میں کتابیں لائبریری کی زینت میں اضافہ کررہی ہیں۔ (حبیب الرحمن چغانی، سابق ڈائریکٹر خدا بخش لائبریری)
خدابخش اورینٹل لائبریری کی اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے 1969ء میں حکومت ہند نے 1969ء میں پارلیمنٹ میں قانون بناکر اس کو قومی ادارہ کی حیثیت دے دی۔ قانون کے تحت یہ ایک خودمختار ادارہ ہے جس کے چیئرمین ریاست بہار کے گورنر ہوتے ہیں۔ لائبریری میں 20ہزار سے زائد عربی فارسی کے قدیم مخطوطات اور ڈھائی لاکھ کے قریب مطبوعات محفوظ ہیں۔ لائبریری میں وقت کے ساتھ مسلسل اضافہ ہوتا رہا ہے۔ چھوٹی بڑی لائبریریوں کی کتابیں بھی یہاں کے ذخیرے میں شامل کی جاتی رہی ہیں۔ اُردو ادب کی نامور شخصیات کے کلیکشن خاص طور پر اُردو طلبا اور محققین کے لیے گراںبہا تحفہ کی حیثیت رکھتے ہیں، جیسے ’بہارِ شریعت‘ کا مدرسہ عزیزیہ کلیکشن، پٹنہ کی درگاہ سلیمانیہ کا کلیکشن، پروفیسر اختر اورینوی کا کلیکشن، آل انڈیا ریڈیو پٹنہ کا کلیکشن، مولانا سعید اکبرآبادی کا کلیکشن، اے آر قدوائی کا کلیکشن وغیرہ۔ ادارہ میں مطالعہ و تحقیق کے لیے یہاں آنے والوں کو ہر ممکن سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔ محققین کو ان کے مطالبے پر ہر طرح کی کتابوں کی مائکرو فلم اور فوٹو اسٹیٹ کا یہاں فراہم کرنے کا اہتمام سالہاسال سے کیا جاتا رہا ہے، لیکن کمپیوٹر کی ایجاد کے بعد یہ خدمت بہت آسان ہوگئی ہے۔ ساتویں آٹھویں دہائی میں لائبریری کو عالمی معیار کے مطابق ترقی یافتہ بنانے میں لائبریری کے ڈائریکٹر ڈاکٹر عابد رضا بیدار اور ان کے دست راست مسٹر حبیب الرحمن چغانی نے تاریخ ساز کردار ادا کیا۔ ڈاکٹر عابد رضا بیدار نے بطور ڈائریکٹر اپنی 25سالہ مدتِ کار کے دوران تصوف، طب، قرآنیات، ہندی الاصل مذاہب کے علاوہ برِّصغیر میں اُردو مخطوطات پر تاریخ ساز سیمینار منعقد کیے۔ انھوں نے اُردو میں دانشوری، درسی کتابوں میں کھلواڑ، مخطوطات کی تدوین، ہندوستان سے اُپجے مذاہب اور ہند ازبیک تاریخی رشتے کے موضوع پر بیحد اہم مذاکرات کرائے۔ انھوں نے اپنے تحقیقی کاموں کے لیے استنبول، سعودی عرب، پیرس، تاشقند، کراچی، لینن گراڈ، مانچسٹر، باکو، اصفہان، شیراز، انقرہ، قونیہ، تہران، مشہد، دبئی، لندن، آکسفورڈ، ماسکو، قاہرہ اور گلاسگو وغیرہ شہروں کا سفر کیا جہاں انھوں نے عالمی سطح کے علمی اجتماعات وغیرہ میں حصہ لینے کے ساتھ ساتھ وہاں کی درسگاہوں اور کتب خانوں وغیرہ کاجائزہ لیا اور قیمتی تحقیقی مواد بھی حاصل کیا۔ ڈاکٹر عابد رضا بیدار نے اُردو تحقیق کے معیار کو تخلیقی اور علمی سطح پر نئی جہت عطا کی۔ انھوں نے ’ہندوستان میں اسلام‘ کی صورتِ حال پر 20وقیع کتابیں، ہندو ازم پر 12 کتابیں، جین مت، سکھ مذہب اور بدھ ازم پر ایک ایک تحقیقی و معلوماتی کتاب مرتب کی۔ بہت بڑی تعداد میں انھوں نے نادر و نایاب قدیم مخطوطات کی دریافت کی اور انھیں عصری معیار پر مدون کیا۔ ہندوستان کی تحریک آزادی کی دستاویزوں اور حقائق پر مبنی 6 کتابیں، اُردو، عربی، فارسی مخطوطوں کی 20 فہرستوں کی تدوین، پانچ اہم شخصیتوں کی سوانحی کتابیں، پروفیسر سیّد حسن عسکری اور قاضی عبدالودود کے ریسرچ پیپرس پر مبنی بارہ جلدیں، ہندوستانی مذاہب، ادب و تہذیب پر 25 کتابیں دَیا نرائن نگم کے مشہور عالم جریدہ ’زمانہ‘ سے منتخب کر کے شائع کیں۔ اسی طرح سہ ماہی ’ہندوستانی‘ سے مذہب، فلسفہ، تمدن اور سماجیات پر 7 جلدوں پر مشتمل انتخاب شائع کیا۔ مولانا ابوالکلام آزاد، علامہ اقبال اور سرسیّد احمد خاں کی شخصیات اور کارناموں پر مبنی متعدد کتابیں شائع کیں۔ خدابخش لائبریری کو عالمی معیار پر منظم اور تمام جدید خوبیوں اور سہولتوں سے مرصع کرنے کے لیے انھوں نے آڈیوویژول، آڈیوکلیکشن اور ویڈیو لائبریری سسٹم کا آغاز کیا۔ انھوں نے الیکٹرانک وسائل سے لائبریری کو پوری طرح لیس کرنے میں شبانہ روز محنت کی۔ آج خدا بخش لائبریری ان تمام سائنسی اور تکنیکی سہولتوں سے مزین ہے جو مغربی دُنیا کی بڑی بڑی لائبریریوں کا طرۂ امتیاز ہیں۔
ادارہ میں ملک کی بڑی یونیورسٹیوں کے طلباء اور اسکالرز کے لیے خصوصی اہتمام ہے۔ لائبریری اُردو ادب اور تہذیب کے فروغ کے میدان میں بھی نمایاں خدمات انجام دے رہا ہے۔ لائبریری کے زیر اہتمام نہایت اہم علمی ادبی موضوعات پر بین الاقوامی اہمیت کے سیمینار، ورکشاپ اور مشاعروں اور مختلف موضوعات پر خصوصی لیکچرز کا اہتمام ہوتا رہتا ہے، جن میں دنیائے اُردو کے نامور دانشوروں کو مدعو کیا جاتا ہے۔ اشاعتی میدان میں لائبریری نے اُردو ادب کی گرانقدر کتابیں بہت بڑی تعداد میں شائع کرکے بڑا کام کیا ہے۔ لائبریری کے اشاعتی زمرے میں سب سے زیادہ اہم وہ سلسلہ ہے جس کے تحت عالمی اہمیت کی قدیم کتابوں کے تنقیدی ایڈیشن شائع کیے جاتے ہیں۔ ادارے کی حصولیابیوں اور سرگرمیوں کے بارے میں اطلاعات فراہم کرنے کے لیے ’خدابخش لائبریری جرنل‘ کے نام سے نہایت معیاری سہ ماہی جریدہ کی اشاعت 1977ء سے جاری ہے۔ اب اکیسویں صدی میں یہ سہولت ادارے کی ویب سائٹ پر بھی آسانی سے دستیاب ہے۔
یہ مختصر تذکرہ محض مشتے نمونہ از خروارے لائبریری مخطوطات، قدیم دستاویزات اور نایاب کتابوں کا بہت بڑا خزانہ ہے جس کی فہرست کئی جلدوں میں درج ہے۔
اسلامی تہذیب، دینی اقدار و روایات کے پاسدار خان بہادر مولوی خدا بخش اپنی نجی زندگی میں ایک راست گو، انسانیت نواز، غریبوں کے ہمدرد، خوش خلق انسان تھے، مذہبی تعصب اور تنگ نظری انھیں چھو بھی نہیں گئی تھی۔ ہندو عوام و خواص میں ان کا بہت احترام تھا۔ خدا بخش کے والد محمد بخش نے انھیں بتایا تھا کہ انھوں نے ایک برہمن خاتون کا دودھ پیا تھا۔ اپنے والد کی رضائی ماں کے احترام میں مولوی خدا بخش نے کبھی گائے کا گوشت نہیں کھایا، ان کی کوششوں سے کئی بار ہندو مسلم تنازعات ختم ہوئے اور شہر میں امن و آشتی کا ماحول پیدا ہوا۔
جہاں تک ان کے علم و فضل کا تعلق ہے اس کا اندازہ اس لیے محال ہے کہ لائبریری آنے والی شاید ہی کوئی اہم کتاب جو انھوں نے فراہم کی ان کے مطالعے سے بچی ہو۔ مولوی صاحب نے عربی فارسی مخطوطات کی ایک ضخیم فہرست ’محبوب الباب‘ کے عنوان سے لکھی جو 500صفحات پر محیط ہے، اس کتاب میں کتابوں اور ان کے مصنّفین کا تنقیدی جائزہ پیش کیا ہے، ایسا وقیع علمی کام وہی کرسکتا ہے جس کا مطالعہ وسیع تر ہو۔ آخر عمر میں انھیں شعرگوئی کا شوق بھی ہوگیا تھا، استاد الشعراء شاہ الفت حسین فریاد عظیم آبادی ان کے دوستوں میں تھے، عبدالغفور شہباز، شاد عظیم آبادی اور اس عہد کے مشاہیر سے ان کے قریبی روابط تھے۔ 1902ء میں نواب عشرتی کے تاریخ ساز ہفت روزہ مشاعرے میں مولوی صاحب بھی شریک تھے۔ انھوں نے مشاعرے میں شعروسخن کے موضوع پر عالمانہ خطبہ ارشاد کیا تھا۔
ان کی ذاتی زندگی بیحد باوقار تھی۔ انھوں نے تین نکاح کیے، تیسری بیگم راضیہ خاتون جمیلہ نامور شاعرہ گزری ہیں، ان کے آٹھ دیوان شائع ہوئے جو لائبریری میں موجود ہیں۔ محترمہ پر مستقل مضمون الگ سے تحریر کیا ہے۔
ورق تمام ہوا اور مدح باقی ہے۔ سطور بالا میں خان بہادر خدا بخش کی حیات اور کارناموں کی اِدھر اُدھر سے بس چند مختصر جھلکیاں ہی پیش کرسکا ہوں۔ قارئین کو اس عظیم المرتبت شخصیت کے بارے میں ضرور تفصیل سے مطالعہ کرنا چاہیے۔
مولوی خدا بخش 3اگست 1908ء کو دُنیائے فانی سے رخصت ہوئے۔ مزار عظیم الشان لائبریری کے احاطہ میں واقع ہے۔ علم سے بڑی کوئی دولت نہیں، مرحوم کا ادارہ یقینا ایک صدقۂ جاریہ ہے جو اپنے مؤسس کے جنتی ہونے کی ضمانت ہے۔
qq