مولوی خدا بخش- Maulvi Khuda Bakhsh

0
342

[email protected]

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔


Maulvi Khuda Bakhsh
فاروق ارگلی
دبستانِ عظیم آباد کی عظمت کا بلند ترین مینار‘ یہ عنوان اگر کسی فردِ وحید پر صادق آتا ہے تو وہ ہیں، مشرقی دنیا کے مہتم بالشان کتب خانہ ’خدا بخش اورینٹل لائبریری پٹنہ‘ کے بانی مولوی خدابخش خان۔ یہ محض ایک لائبریری نہیں، ایک سرچشمہ ہے علوم و فنون اور دانش و حکمت کا جو سوا سو برسوں سے جاری ہے اور یقینا ہمیشہ جاری رہے گا۔ دنیا کا یہ عظیم الشان کتب خانہ یادگار ہے جس کا معترف صرف دبستانِ عظیم آباد، ارضِ بہار، سرزمینِ برصغیر ہند،پاک، بنگلہ دیش ہی نہیں، سارا زمانہ ہے۔ مولوی صاحب کا شمار تاریخ کی ان غیرمعمولی شخصیات میں ہوتا ہے جن کی حیات، عمل اور کارنامے دوام حاصل کرلیتے ہیں، وہ پورے ہندستان بالخصوص ملتِ اسلامیہ کے ناقابل فراموش ہیں۔ان کی خدمات متقاضی ہیں کہ اس پیکرِ علم و عمل کو یاد کریں، اس کا ذکر بار بار کریں، نصاب کی کتابوں میں شامل کرکے نئی نسل کو آگاہ کریں، شعروادب کی شخصیات کی طرح اس کو تحقیق کا موضوع بنائیں۔ ہمارا یہ عمل اس مقدس فریضہ کی ادائیگی میں ایک قدم ہوگا جو مدینۃ العلم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت اسلامیہ پر نافذ فرمایا ہے کہ ’’علم کا سیکھنا ہر مسلم مرد عورت پر فرض ہے۔‘‘

راقم السطور نے دبستانِ عظیم آباد کے اُردو زبان و تہذیب کے مشاہیر کے تذکار و آثار پر یہ سلسلۂ مضامین شروع کیا ہے، سات صدیوں سے زیادہ کی طویل یہ وقیع تاریخ ایک لامحدود کہکشاں ہے جس میں انگنت ماہ و انجم اپنی تابانیوں سے مختلف ادوار کو روشن کررہے ہیں۔ اُجالوں کی اس نورانی انجمن میں مولوی خدا بخش اپنی نرالی شان اور انفرادی تنویر کے ساتھ سب سے الگ، سب سے نمایاں اور سب سے ممتاز نظر آتے ہیں، چہ جائیکہ وہ کوئی بڑے شاعر تھے، نہ ادیب اور نہ دانشور، نہ وہ کسی ریاست کے حکمراں، نہ سیٹھ نہ ساہوکار، البتہ علم سے محبت، ملت کا درد اور ایمان کی دولت نے انھیں وہ قوت بخش دی اور ایسا عظیم کارنامہ کرگئے جس کی توفیق اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کو ہی عطا فرماتا ہے۔
مولوی خدا بخش خاں کو علم و دانش سے محبت اپنے والد جناب محمد بخش خاں سے وراثت میں ملی۔ محمد بخش خاں کے بارے میں مذکور ہے کہ ان کے جدِاعلیٰ قاضی ہیبت اللہ صدیقی علمائے اسلام کی اس کمیٹی کے رکن تھے جو فتاویٰ عالمگیری کی تدوین کے لیے حضرت شاہ عبدالرحیم محدث دہلویؒ کی سربراہی میں شہنشاہ اورنگ زیب عالمگیرؒ نے قائم کی تھی۔ عالمگیر کے انتقال کے بعد زمانۂ زوال و انتشار میں قاضی صاحب دہلی سے ترکِ وطن کرکے بہار پہنچے اور بمقام اوکھی (چھپرہ، ضلع سارن) میں سکونت اختیار کی تھی۔
خدا بخش کے والد اور ان کا کنبہ اس وقت چھپرہ میں مقیم تھا، جہاں 2؍اگست 1842ء کو خدابخش کی ولادت ہوئی۔ پیدائش کے تھوڑے ہی دن بعد ان کا خاندان بانکی پور منتقل ہوکر آگیا۔ یہاں والد بزرگوار کی نگرانی کے مطابق ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی۔ محمد بخش اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے ماتحت چلنے والے عدلیہ نظام میں وکیل تھے۔ ظاہر ہے کہ وہ انگریزوں کے قوانین کے ماہر تھے۔ غدر سے تین سال قبل 1854ء میں پٹنہ کے انگریز ڈسٹرکٹ جج مسٹر ٹراورس سے محمد بخش صاحب کا دوستانہ تعلق تھا، انھوں نے بچے خدا بخش کی ذہانت کو دیکھتے ہوئے اسے پٹنہ ہائی اسکول میں داخل کرانے کا مشورہ دیا۔ خدا بخش کی اسکولی تعلیم اسی اسکول میں جاری تھی کہ 1857ء کا انقلاب برپا ہوگیا، جس نے تقریباً سارے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ 1859ء میں پٹنہ ہائی اسکول نیست و نابود ہوگیا تو ان کے روشن خیال والد نے انھیں تعلیم پوری کرنے کے لیے کلکتہ بھیج دیا۔ وہاں نواب امیر علی خاں نے سرپرستی کی اور اپنے گھر میں بڑی محبت سے رکھا۔ تین سال کلکتہ میں رہ کر انھوں نے 1861ء میں انٹرنس پاس کیا۔ وہ کلکتہ یونیورسٹی میں داخل ہوکر آگے کی تعلیم جاری رکھنا چاہتے تھے لیکن کلکتہ کی آب و ہوا ان کی صحت کے موافق نہیں تھی اور وہ اکثر بیمار رہنے لگے۔ مجبوراً وہ بانکی پور واپس آگئے اور قانون پڑھنے لگے۔ اس زمانہ میں لاء میں داخلہ کے لیے گریجویشن کی شرط نہیں تھی، وہ قانون کی تعلیم میں مصروف ہی تھے کہ ان کے والد کی صحت اس طرح خراب ہوئی کہ وہ معذور ہوگئے، وکالت سے جو آمدنی تھی مسدود ہوگئی، گھر بدحالی کا شکار ہوگیا، لیکن ان آزمائشی حالات میں بھی خدابخش نے ہمت نہیں ہاری، وہ تعلیم کے ساتھ ساتھ دوسرے محنت کے کام کرکے کسی نہ کسی طرح گھر کا خرچ چلاتے، بالآخر انھوں نے قانون کی سند حاصل کرلی۔ سب سے پہلے انھوں نے نائب منصب کی خالی جگہ کے لیے درخواست دی جس میں کامیابی نہ ملی۔ کچھ دن بعد ڈسٹرکٹ جج کی عدالت میں پیشکار کے منصب پر ان کا تقرر ہوگیا۔ کچھ ہی عرصہ گزرا کہ انھیں انگریز ڈسٹرکٹ جج سے نااتفاقی کی بنا پر ملازمت چھوڑنی پڑی، اس کے بعد انھیں ڈپٹی انسپکٹر آف اسکولز کی ملازمت ملی لیکن حالات ایسے ہوئے کہ یہ نوکری بھی ترک کرنی پڑی۔ کئی برس طرح طرح کی پریشانیوں کا سامنا کرتے ہوئے آخر 1868ء میں انھوں نے پٹنہ کی عدالت میں وکالت شروع کی۔ اس پیشے میں ان کی لیاقت اور محنت رنگ لائی، ایک کے بعد ایک مقدمات میں کامیابی سے ان کی دور دور تک شہرت ہوگئی، روپے کی بارش ہونے لگی، ضلع کے نامور وکیلوں میں ان کا شمار ہونے لگا۔
خدا بخش کے والد محمد بخش کو شروع سے ہی قلمی کتابیں جمع کرنے کا شوق تھا۔ وہ خود ایک صاحبِ علم و فضل انسان تھے، ان کے پاس 1400 نایاب مخطوطے موجود تھے جو انھیں اپنے بزرگوں سے وراثت میں ملے تھے۔ انھوں نے اس خاندانی وراثت کی پوری زندگی حفاظت کی۔ وہ ان کتابوں کی چھوٹی سی لائبریری کو کتب خانہ محمدیہ کہتے تھے جن سے کوئی بھی استفادہ کرسکتا تھا۔ دراصل وہ کتب خانہ محمدیہ کے نام سے ایک بڑی لائبریری بنانے کا عزم رکھتے تھے۔ زندگی کے آخری ایام میں انھوں نے بیٹے خدا بخش کو وصیت کی کہ ’’ان کتابوں میں اضافہ کرکے ایک کتب خانہ قائم کرکے قوم کو وقف کرنا ان کا خواب تھا جو پورا نہ ہوسکا، پیارے بیٹے! اگر تم میری یہ خواہش پوری کرسکو تو میری روح کو سکون ملے گا۔‘‘
والد کے انتقال کے بعد سعادت مند بیٹے نے باپ کی وصیت کو زندگی کا مقصد بنالیا۔ خدا بخش نے وکالت کے میدان میں زبردست کامیابی حاصل کی۔ وہ ہزاروں روپیہ کمانے لگے، اسی کے ساتھ کتابیں جمع کرنے کا شوق بھی جوان ہوتا گیا۔ انھوں نے جو بھی اچھی کتاب جہاں اور جس قیمت پر ملی خرید لی اور والد کی خاندانی کتابوں کا ذخیرہ بڑھتا چلا گیا۔ 1880ء میں وہ پٹنہ کی عدالت میں سرکاری وکیل مقرر ہوئے، ان کی بے پناہ لیاقت، سماجی و ملّی خدمات کے اعتراف میں برطانوی حکومت نے انھیں ’خان بہادر‘ کا اعزاز دیا۔ یہ اس زمانے میں کسی بھی ہندستانی کے لیے بہت بڑا اعزاز سمجھا جاتا تھا۔ خدا بخش ایک پابند شریعت اور عبادت گزار انسان تھے، ان کی دینی زندگی اور اسلامی وضع قطع کی وجہ سے ہی انھیں لوگ مولوی صاحب کہہ کر مخاطب کرتے تھے۔
خان بہادر مولوی خدا بخش نے 27برسوں تک وکالت کی اور اس پیشے میں کامیابی کے پرچم نصب کردیئے۔ انھوں نے خوب دولت کمائی، لیکن جو کچھ کمایا کتابوں پر صرف کردیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب غدر کے ہنگاموں میں اودھ اور دہلی کے وہ عظیم الشان کتب خانے برباد ہوچکے تھے جن میں مغل سلاطین نے علم و حکمت کی انمول کتابیں جمع کی تھیں، مسلمانوں کی یہ سب سے بڑی علمی، تہذیبی اور دینی دولت بے دردی سے لوٹی گئی، کچھ نایاب کتابیں، مصوری اور خطاطی کے شاہکار نمونے تلف ہوگئے۔ زیادہ تر انگریزوں نے لوٹ کر اپنے ملک بھیج دیا۔ کچھ ہمہ شمہ اور چور ڈاکوؤں کے ہاتھ لگیں۔ ان عظیم الشان علمی خزانوں کی تباہی کا خدا بخش کے ذہن پر گہرا اثر پڑا تھا۔ والد مرحوم کی وصیت کے ساتھ ساتھ یہ ملّی جذبہ بھی شدید تر ہوتا گیا۔ اب انھوں نے ٹھان لیا تھا کہ جیسے بھی ہو وہ ایک ایسا عظیم الشان کتب خانہ قائم کریں گے جس میں قرآن کریم، تفاسیر و تراجم، سیرتِ مطہرہ، اسلامی تاریخ، فقہ، شریعت اسلامی، فلسفہ، صوفیا و صالحین سے متعلق اہم کتب کے علاوہ یہ علم و فن کے نادر مخطوطے جمع ہوں گے اور 1890ء میں ان کے ارادے کی تکمیل ہوگئی۔ انھوں نے 80ہزار روپیہ خرچ کرکے لائبریری کی شاندار دو منزلہ عمارت تعمیر کرائی۔ اب تک ہزارہا کتابوں کا ذخیرہ جمع ہوچکا تھا جس پر لاکھوں روپے صرف ہوچکے تھے۔ کتب خانہ پورے اہتمام کے ساتھ قائم ہوگیا، جس پر انھوں نے اپنی زندگی کی ساری پونجی صرف کردی تھی۔
14؍جنوری 1891ء کو خان بہادر خدا بخش صاحب نے اپنی عمر بھر کی محنت سے تیار کتب خانہ ایک وقف نامہ کے ذریعہ باقاعدہ عوام کے لیے وقف کردیا۔ 5؍اکتوبر 1991ء کو اورینٹل پبلک لائبریری کے طور پر اس کا افتتاح سرچارلس ایلیٹ کے ہاتھوں عمل میں آیا۔ وقف کی شرائط میں یہ التزام تھا کہ لائبریری کی تولیت اور انتظامیہ کے سربراہ وہ خود ہوں گے اور ان کے بعد ان کے ورثا یہ ذمہ داری نبھاتے رہیں گے۔ ان کی غیرمعمولی خدمت کے اعتراف میں انھیں انگریز حکومت نے ’سی آئی ای‘ کے خطاب سے بھی سرفراز کیا۔ یہ خطاب اس عہد میں راجوں نوابوں اور بہت بڑی شخصیتوں کو دیا جاتا تھا اور معاشرے میں بہت بڑی بات سمجھی جاتی تھی۔
وکالت اور زندگی کی مصروفیات کے ساتھ کتابوںسے جنون کی حد تک عشق بڑھتا رہا۔ خان بہادر خدا بخش کی لیاقت اور کامیابیوں کی شہرت نظام دکن تک پہنچی، نظام نے انھیں تین سال کی مدت کے لیے ریاست کے چیف جسٹس کے عہدے کی پیشکش کی جسے انھوں نے قبول کرلیا۔ اپنے انصاف کے لیے وہ دکن کے خواص و عوام کے محبوب جج ثابت ہوئے۔ عہدے کی مدت ختم ہونے پر آپ پٹنہ واپس آگئے۔
کتابیں جمع کرنے کے سلسلے میں نواب رامپور ان کے حریف ثابت ہوئے تھے، وہ انگریزوں کے پسندیدہ اور وفادار والی ریاست تھے، ان کے پاس دولت کی کمی نہیں تھی، وہ اپنی ناموری کے لیے یہ کررہے تھے، جبکہ خدابخش نیک نیتی سے دین اور ملت کی خدمت کے لیے کمربستہ تھے۔ انھیں اپنی مقدس مہم کے دوران بارہا یہ ادراک ہوا کہ ان کے نیک عزائم کے ساتھ تائید غیبی شامل ہے۔ انھیں محمد مکی نامی ایک عرب کی خدمات حاصل ہوگئیں جو قدیم عربی مخطوطات کا ماہر عالم تھا، مولوی خدابخش نے ان صاحب کو پچاس روپے ماہوار اور کمیشن کے عوض کتب خانہ کا ملازم رکھ لیا جس کی ڈیوٹی تھی کہ وہ تمام ممالک اسلامیہ میں نادر کتابیں تلاش کرے اور کتب خانے کے لیے خریداری کرے۔ یہ بہت بڑی کوشش تھی جس میں سینکڑوں نایاب اور لاثانی کتابیں ان کو حاصل ہوئیں۔ انھوں نے پورے ملک میں یہ اعلان کردیا تھا کہ جو بھی کوئی کتاب فروخت کرنے کے لیے پٹنہ لائے گا اس کی خرید ہو یا نہ ہو، کتب خانہ انھیں دوطرفہ کرایہ آمدورفت ادا کرے گا۔ یہ ترکیب کارگر رہی، دوردراز سے کتابیں لے کر پٹنہ پہنچنے والوں کا تانتا لگ گیا۔ بہت سے ایسے واقعات بھی مولوی صاحب کو پیش آئے جنھیں انھوں نے صد فیصد غیبی امداد تسلیم کیا۔
ایک بار حیدرآباد میں وہ گاڑی سے گزر رہے تھے، ایک جگہ انھوں نے کتابوں کا ڈھیر لگا دیکھا، وہ گاڑی سے اُتر کر وہاں پہنچے اور پورے ڈھیر کی قیمت دریافت کی، وہ ایک چالاک کباڑی تھا، اس نے کہا، ویسے تو ان کتابوں کو میں تیس روپے میں بیچ ڈالتا لیکن آپ قدردان لگتے ہیں اس لیے بیس روپے لوں گا، مولوی صاحب نے بیس روپے میں وہ ڈھیر خرید لیا۔ اس میں ایسی اہم کتابیں تھیں کہ نظام حیدرآباد نے چار سو روپیہ میں خریدنا چاہا لیکن انھوں نے معذرت کرلی۔
پٹنہ کے انگریز ڈسٹرکٹ جج نے مسٹر ایلیٹ نے مولوی خدا بخش سے ایک نایاب مخطوطہ ’قصائد کمال الدین اصفہانی‘ عاریتہ مانگ لیا، بعد میں ان کی نیت خراب ہوگئی اور کئی بار تقاضہ کرنے کے باوجود واپس نہیں کی۔ ایک دن جب جج صاحب کو ولایت روانہ ہونا تھا، انھوں نے اپنی پسندیدہ کتابیں ایک صندوق میں بند کیں اور باقی کتابیں دوسرے صندوق میں بھر کر وہیں چھوڑ دیں۔ وہ جب ولایت پہنچے تو معلوم ہوا کہ اصل کتابوں کا صندوق ہندستان میں ہی رہ گیا اور بیکار کتابیں لے آئے۔ وہ اصل کتابیں پھر خان بہادر کے پاس فروخت ہونے پہنچیں اور ان کی کتاب بمعہ اعلیٰ ترین کتابوں کے پھر کتب خانہ کی رونق بن گئی۔
ایک بار کتب خانہ سے بہت سی کتابیں چوری ہوگئیں۔ چور ایک جلد ساز تھا جو کتابیں فروخت کرنے لاہور پہنچا اور ایک کتب فروش کو اونے پونے بیچ آیا۔ اس تاجر کتب نے یہ سوچ کر کہ پٹنہ کے خان بہادر صاحب ان کی اچھی قیمت دیں گے لہٰذا وہ کتابیں لے کر پٹنہ آیا۔ مولوی صاحب نے مناسب قیمت دے کر اپنی کتابیں خرید لیں، انھیں چور کا پتہ بھی لگ گیا جسے کیے کی سزا ملی۔
عظیم تاریخ داں یدوناتھ سرکار اس دَور کے ان تمام ملکی و غیرملکی اسکالرس میں شامل تھے جنھوں نے خدا بخش صاحب کی زندگی میں اس عظیم الشان لائبریری سے استفادہ کیا اور مولوی صاحب سے جن کی رسم و راہ رہی، یدوناتھ سرکار نے خدا بخش سے ان کی وہ باتیں اپنے مضمون میں درج کی تھیں جن میں مولوی صاحب نے اپنے دو خوابوں کا ذکر کیا ہے۔ یہ یدوناتھ سرکار کا بیان ہے، لیکن مولوی خدا بخش کے بیان اور اپنے آقا و مولیٰ کے نام پاک کی وابستگی پر ان باتوںکو صد فیصد درست اور سچی مانتے ہیں۔ یدوناتھ سرکار بیان کرتے ہیں کہ مولوی خدا بخش نے انھیں بتایا کہ ’’شروع میں قلمی نسخے بہت دھیرے دھیرے آتے تھے، لیکن ایک رات ایک اجنبی خواب میں میرے پاس آیا، اور بولا کہ اگر تم کتابیں چاہتے ہو تو میرے ساتھ آؤ، میں اس کے پیچھے پیچھے چلا اور لکھنؤ کے امام باڑہ کی طرح ایک پرشکوہ عمارت میں پہنچ گیا، مگر پھاٹک پر اس اجنبی کا انتظار کرنے لگا جو میرے ساتھ آیا تھا اور اندر چلا گیا تھا، کچھ دیر بعد وہ اجنبی باہر آیا، مجھے ایک کمرے میں لے گیا، جس میں ایک نقاب پوش اپنے دوستوں کے ساتھ بیٹھے تھے۔ اس اجنبی نے میری طرف اشارہ کرکے کہا ’’یہ شخص قلمی نسخے لینے آیا ہے۔‘‘ اس نقاب پوش نے جواب دیا ’’انھیں سب دے دو۔‘‘ اس کے کچھ عرصہ بعد ہی میرے پاس قلمی نسخے بے تحاشہ آنے لگے۔‘‘
اس خواب کو خدا بخش کی زبان سے بیان کرچکنے کے بعد ڈاکٹر سرکار نے قوسین میں لکھا ہے کہ رویت پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی تھی۔
دوسرا خواب ڈاکٹر سرکار کے مضمون میں اس طرح آیا ہے: ’’اس شب میں نے خواب میں دیکھا کہ میری لائبریری کی بغل کی گلی میں بہت سارے لوگ جمع ہیں، جب میں اپنے گھر سے باہر آیا تو لوگ مجھے دیکھ کر چلانے لگے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم آپ کی لائبریری میں تشریف لائے ہیں اور آپ انھیں لائبریری دِکھانے کے لیے وہاں گئے بھی نہیں، میں جلدی سے قلمی نسخوں کے کمرے میں گیا۔ میں جب وہاں پہنچا تو آپ تشریف لے جاچکے تھے، لیکن حدیث کے دو قلمی نسخے ٹیبل پر کھلے پڑے تھے، لوگوں نے مجھ سے کہا کہ حضورؐ یہی حدیثیں مطالعہ فرمارہے تھے۔‘‘ (مقالہ از محمد بدیع الزماں، فکر و نظر، علی گڑھ، 37، 2000-9، بحوالہ ’مولوی خدا بخش: حیات اور کارنامے‘ شائع کردہ خدا بخش اورینٹل لائبریری، ایڈیشن 2001ء، ص152)
خدا بخش اورینٹل لائبریری کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ مولوی خدا بخش کی زندگی میں ہی یورپ کے کئی بڑے ماہرین علومِ مشرقیہ نے وہاں آکر استفادہ کیا، لارڈ کرزن جب لائبریری کا معائنہ کرنے پٹنہ آیا تو اس نے خوشی اور حیرت کا اظہار کرتے ہوئے یہ شعر پڑھا:
اگر فردوس بر روئے زمیں است
ہمیں است و ہمیں است و ہمیں است
علامہ شبلی نعمانی دو بار پٹنہ آئے اور لائبریری کے نادر و نایاب تاریخی مخطوطوں اور دستاویزوں کا مطالعہ کیا۔ ’دیدۂ سکندی‘ رام پور 1891ء میں شائع اپنے تاثراتی مضمون میں انھوں نے لکھا ہے:
’’ممالک اسلامیہ میں جو مقامات اسلامی تصنیفات کے مخزن سمجھے جاتے ہیں وہ حرمین، قاہرہ، دمشق اور قسطنطنیہ ہیں۔ قاہرہ کے کتب خانہ ’خدیو‘ کی فہرست تین جلدوں میں شائع ہوئی ہے۔ قسطنطنیہ میں کم از کم 60 کتب خانے ہیں، جن میں سے اکثر کی فہرستیں ’کشف الظنون‘ (مطبوعہ لندن) کے اخیر میں ہیں۔ حرمین کے کتب خانے ہم نے خود دیکھے ہیں اور ان سے فائدہ بھی اُٹھایا ہے۔ ہندوستان میں بھی چند عمدہ کتب خانے ہیں۔ اگرچہ ان کتب خانوں کی حیثیتیں اور خصوصیتیں مختلف ہیں، اس وجہ سے ان میں موازنہ نہیں ہوسکتا تاہم اجمالاً یہ کہا جاسکتا ہے کہ مولوی خدا بخش کا کتب خانہ جس کا ہم ذکر کررہے ہیں اپنی خصوصیتوں کے لحاظ سے روم، مصر، عرب اور ہند کے نامور کتب خانوں کی صف میں جگہ پانے کے قابل ہے۔‘‘
(جاری)

خدا بخش اورینٹل لائبریری کے خزانہ میں بیش بہا اضافہ اس عہد کے بہت سے رؤسا اور اہل علم اصحاب کے تعاون سے بھی ہوا جنھوں نے اپنے ذاتی کتب خانے لائبریری کو تحفے میں عطا کردیئے۔ لائبریری میں دنیا کی بہترین کتابوں کا شاندار کلیکشن دیکھ کر برٹش میوزیم نے لاکھوں پونڈ کے عوض خریدنا چہا تھا، جس سے مولوی صاحب نے کہا تھا ’’میں ایک غریب آدمی ہوں، انھوں نے جس رقم کی پیشکش کی تھی وہ تو ایک غیرمعمولی رقم تھی لیکن میں پیسے کی خاطر اس سے دستبردار نہیں ہوسکتا ہوں جس کے لیے میرے باپ نے اور میں نے اپنی زندگیاں وقف کردیں۔‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ آبدیدہ ہوگئے تھے۔
اس لائبریری کی یہ تاریخ ہے کہ جس دن سے مولوی خدا بخش کے والد محمد بخش نے اپنی نجی کتابوں کے ذخیروں سے چھوٹی سی لائبریری شروع کی تھی مشاہر عہد کی آمد شروع ہوگئی تھی۔ بعد میں خدابخش لائبریری کے قیام کے بعد تو لارڈ ڈلٹن، لارڈ منٹو، علامہ شبلی، سر ظفراللہ، لارڈ ریڈنگ، جون سمن، لارڈ ارون، جی سی بوس، گاندھی جی، نواب حبیب الرحمن شیروانی، راجہ محمودآباد، سی وی رمن، لارڈ ماؤنٹ بیٹن جیسی شخصیات نے بانی کتب خانہ کو ہدیہ تبریک پیش کیا۔ مسٹر کیب بیل ان کے قریبی دوست تھے، انھیں کی وساطت سے سر چارلس لائل لائبریری آئے تھے۔ سر چارلس نے ہی 1891ء میں لائبریری کا افتتاح کیا تھا۔ وہ عربی، فارسی اور اُردو کے زبردست عالم تھے۔ پنڈت جواہر لعل نہرو 1953ء میں لائبریری دیکھنے پٹنہ آئے تھے، انھوں نے کہا ’’فن کے ان حسین شہ پاروں کو دیکھ کر عجیب خوشی کا احساس ہوا، انھوں نے (مولوی خدا بخش نے) ہندوستان کی تاریخ کے ایک دور کو جاوداں کردیا ہے۔
خدا بخش لائبریری میں اسلامی علوم، طب یونانی، تذکرے، تصوف، تقابلِ ادیان، عہد وسطیٰ کی تاریخ، جنوبی، مشرقی ایشیائی تاریخ، قرونِ وسطیٰ کے سائنسی علوم، تحریک آزادی اور قومی یکجہتی کا ادب، اُردو، فارسی اور عربی ادبیات وہ موضوعات ہیں جو اس کے دائرۂ اختصاص میں آتے ہیں۔ اس کا خطی ذخیرہ بیس ہزار سے اوپر ہے جبکہ مطبوعات تقریباً دو لاکھ ہیں۔ مزید برآں مجلد رسائل تقریباً ساڑھے سینتیس ہزار ہیں۔ شہنشاہ اکبر، تغلق، شاہجہاں اور شاہ عالم کے دور کے آٹھ سو سکے بھی یہاں موجود ہیں۔ ان کے علاوہ مائکرو فلمز، مائکرو فشز، سلائڈز، ویڈیو اور آڈیوکیسٹس خاصی تعداد میں ہیں۔ یہاں کئی نادر اُصطرلاب بھی محفوظ ہیں۔ 1965ء میں مخطوطات 8487 اور مطبوعہ کتابیں 41411 تھیں جبکہ 13مارچ 1999ء تک قلمی ذخیرے کی تعداد 21101 اور مطبوعات 195538 تھیں۔ 34سال کے عرصے میں کتابوں کی تعداد میں ایک غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے۔
لائبریری کا قلمی ذخیرہ ہی اس کا طرۂ امتیاز ہے۔ بعض مخطوطات تو یہاں ایسے نادر و نایاب ہیں کہ دنیا میں کہیں اور نہیں ملتے۔ شاہوں اور نوابوں کے اہم مخطوطات اس لائبریری میں موجود ہیں۔ عہد وسطیٰ کے بعض وہ مخطوطات جن پر بادشاہوں کے دستخط اور مہریں ثبت ہیں یہاں کی زینت ہیں۔ اکبری دَور کے دلکش فن پارے اور خطاطی کے حسین نمونے، ایرانی، کشمیری اور راجستھانی دبستانِ فن کی تصویریں دیکھ کر بے ساختہ واہ نکلتی ہے، کہاں تک ان کا ذکر ہو۔ دفتر کے دفتر سیاہ ہوجائیں مگر ان کا قصہ تمام نہ ہوگا۔ صرف چند نوادر کا مختصر تعارف پیش کیا جاتا ہے۔
l یہاں قرآن شریف کے بعض بہت ہی نایاب نسخے ہیں۔ خلافت عباسیہ کا ایک بے حد مشہور خطاط یاقوت مستعصمی کے ہاتھ کا لکھا ہوا نہایت ہی خوبصورت قرآن شریف کا نسخہ جس پر اس کے دستخط ہیں اور 668ھ درج ہے۔ یہ خطاطی کا بہترین نمونہ ہے۔
l قرآن شریف کا ایک بہت بڑی تقطیع پر لکھا ہوا نہایت ہی مرصع اور مطلا نسخہ، شروع کے دو صفحات بیحد مزین ہیں۔ بین السطور فارسی میں ترجمہ خط نستعلیق میں ہے۔
l قرآن شریف کا ایک اور قدیم نسخہ جو خط کوفی میں ہے، جگہ جگہ سے حروف اُڑ گئے ہیں، اس میں اعراب نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ خط کوفی میں سورۂ ابراہیم کی صرف تین آیتیں ہرن کی کھال پر لکھی ہوئی ہیں اور فریم کی ہوئی ہیں۔ قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دونوں صحابہ کے زمانہ کے لکھے ہوئے ہیں۔
l ایک قدیم ترین نسخہ ’الرسالۃ القشریہ‘ ہے جس کی کتابت مصنف کی زندگی میں ہوئی۔ اس پر 438ھ درج ہے۔ فارسی میں بہت نایاب نسخے یہیں محفوظ ہیں۔
l ’تاریخ خاندانِ تیموریہ‘ نستعلیق میں لکھا ہوا دنیا کا واحد نسخہ ہے۔ یہ تیمور سے اکبر کے بائیسویں سال جلوس تک کی تاریخ ہے۔ اکبر کے دربار کے مشہور مصوروں کی بنائی ہوئی ایک سو بتیس تصویریں اس میں شامل ہیں۔ مصوری کا ایک بے مثال نمونہ۔ ہر تصویر کے نیچے تصویر بنانے والے اور رنگ بھرنے والے کا نام درج ہے۔
l ’بادشاہ نامہ‘ دو جلدوں میں ہے۔ یہ شاہجہاں کی مکمل تاریخ ہے۔ پچیس انتہائی خوبصورت تصویروں پر مشتمل ہے، مصوری کا انمول نمونہ ہے۔ اس میں چند عمارتوں کی تصویریں بھی شامل ہیں۔ آخری تصویر میں شاہجہاں کا جنازہ تاج محل جاتا دِکھایا گیا ہے۔ جارج پنجم اور ان کی ملکہ 1911ء میں جب دہلی دربار میں آئے تو ان کے ملاحظہ کے لیے یہ پیش کیا گیا اور ان دونوں نے اس پر دستخط کیے۔
l ’شہنشاہ نامہ‘ فاتح قسطنطنیہ سلطان محمد ثانی کی تاریخ ہے۔ شاہجہاں کے زمانے میں یہ نسخہ ہندوستان پہنچا۔ اس پر مغل بادشاہوں اور شہزادوں کے اتنے دستخط ہیں کہ یہ صفحہ بھر گیا ہے۔ اس پر شاہجہاں کی بیٹی جہاں آرا بیگم کے بھی دستخط ہیں جو کسی اور نسخے پر نہیں ملتے۔
l محمود غزنوی کی مدح میں فردوسی کے ’شاہنامہ‘ کا بہت ہی خوبصورت مصور قلمی نسخہ۔ کابل و کشمیر کے گورنر علی مراد خاں نے شاہجہاں کے حضور اسے بطور تحفہ پیش کیا تھا۔
l جامی کی مشہور کتاب ’یوسف زلیخا‘ جسے عبدالرحیم خان خاناں نے بیس ہزار روپے خرچ کرکے جہانگیر کے لیے تیار کرائی تھی۔
l ’دیوانِ حافظ‘ جو خاندانِ مغلیہ میں فال نکالنے کے لیے استعمال ہوتا تھا، اس پر ہمایوں اور جہانگیر کی تحریر اور دستخط ہیں۔
l ’سفینۃ الاولیا‘ داراشکوہ کی تصنیف ان کے اپنے ہاتھ کی لکھی ہوئی ہے۔
l جہانگیر کا ’جہانگیر نامہ‘ نایاب کتاب ہے جسے انھوں نے اپنے دربار کے سب سے بڑے کاتب سے لکھوایا اور گولکنڈہ کے بادشاہ قطب شاہ کو تحفتاً دیا تھا۔ اورنگ زیب کے زمانے میں جب گولکنڈہ فتح ہوا تو ان کے بیٹے شہزادہ سلطان محمد کے قبضے میں یہ کتاب آئی، اس کے پہلے صفحے پر سلطان محمد کے دستخط ہیں۔ اس کا عکسی ایڈیشن مع مقدمہ لائبریری سے شائع ہوگیا ہے۔
ٖl الزہراوی کی ’کتاب التصریف‘ 1190ء میں لکھی گئی۔ یہ عمل جراحت پر مصور نسخہ ہے۔ اس میں جراحت کے جو آلات دِکھائے گئے ہیں وہ آج بھی استعمال کیے جاتے ہیں۔
l مصحفی کے آٹھویں دیوان کا واحد نسخہ صرف خدا بخش لائبریری میں دستیاب ہے۔
شریمد بھاگوت گیتا، پران اور مہابھارت کے فارسی تراجم محفوظ ہیں۔ پالی اور سنسکرت میں کئی سو بھوج پتر موجود ہیں۔ ان کے علاوہ کثیر تعداد میں مشاہیر کے خطوط بھی محفوظ ہیں۔ مثلاً علامہ اقبال، ڈاکٹر راجندر پرساد، مولانا ابوالکلام آزاد، اکبر الٰہ آبادی، محمد علی جوہر، ڈاکٹر ذاکر حسین اور جوشؔ ملیح آبادی کے خطوط اُردو زبان میں دستیاب ہیں۔ مطبوعہ ذخیرہ بھی کچھ کم اہم نہیں ہے۔ انیسویں صدی کے ربع ثالث کے بعض اُردو کے پرچے اور اخبار موجود ہیں۔ اُردو، انگریزی، عربی اور فارسی میں تذکرے سینکڑوں کی تعداد میں دستیاب ہیں۔ قرآنیات، حدیث و فقہ پر بڑی تعداد میں کتابیں لائبریری کی زینت میں اضافہ کررہی ہیں۔ (حبیب الرحمن چغانی، سابق ڈائریکٹر خدا بخش لائبریری)
خدابخش اورینٹل لائبریری کی اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے 1969ء میں حکومت ہند نے 1969ء میں پارلیمنٹ میں قانون بناکر اس کو قومی ادارہ کی حیثیت دے دی۔ قانون کے تحت یہ ایک خودمختار ادارہ ہے جس کے چیئرمین ریاست بہار کے گورنر ہوتے ہیں۔ لائبریری میں 20ہزار سے زائد عربی فارسی کے قدیم مخطوطات اور ڈھائی لاکھ کے قریب مطبوعات محفوظ ہیں۔ لائبریری میں وقت کے ساتھ مسلسل اضافہ ہوتا رہا ہے۔ چھوٹی بڑی لائبریریوں کی کتابیں بھی یہاں کے ذخیرے میں شامل کی جاتی رہی ہیں۔ اُردو ادب کی نامور شخصیات کے کلیکشن خاص طور پر اُردو طلبا اور محققین کے لیے گراںبہا تحفہ کی حیثیت رکھتے ہیں، جیسے ’بہارِ شریعت‘ کا مدرسہ عزیزیہ کلیکشن، پٹنہ کی درگاہ سلیمانیہ کا کلیکشن، پروفیسر اختر اورینوی کا کلیکشن، آل انڈیا ریڈیو پٹنہ کا کلیکشن، مولانا سعید اکبرآبادی کا کلیکشن، اے آر قدوائی کا کلیکشن وغیرہ۔ ادارہ میں مطالعہ و تحقیق کے لیے یہاں آنے والوں کو ہر ممکن سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔ محققین کو ان کے مطالبے پر ہر طرح کی کتابوں کی مائکرو فلم اور فوٹو اسٹیٹ کا یہاں فراہم کرنے کا اہتمام سالہاسال سے کیا جاتا رہا ہے، لیکن کمپیوٹر کی ایجاد کے بعد یہ خدمت بہت آسان ہوگئی ہے۔ ساتویں آٹھویں دہائی میں لائبریری کو عالمی معیار کے مطابق ترقی یافتہ بنانے میں لائبریری کے ڈائریکٹر ڈاکٹر عابد رضا بیدار اور ان کے دست راست مسٹر حبیب الرحمن چغانی نے تاریخ ساز کردار ادا کیا۔ ڈاکٹر عابد رضا بیدار نے بطور ڈائریکٹر اپنی 25سالہ مدتِ کار کے دوران تصوف، طب، قرآنیات، ہندی الاصل مذاہب کے علاوہ برِّصغیر میں اُردو مخطوطات پر تاریخ ساز سیمینار منعقد کیے۔ انھوں نے اُردو میں دانشوری، درسی کتابوں میں کھلواڑ، مخطوطات کی تدوین، ہندوستان سے اُپجے مذاہب اور ہند ازبیک تاریخی رشتے کے موضوع پر بیحد اہم مذاکرات کرائے۔ انھوں نے اپنے تحقیقی کاموں کے لیے استنبول، سعودی عرب، پیرس، تاشقند، کراچی، لینن گراڈ، مانچسٹر، باکو، اصفہان، شیراز، انقرہ، قونیہ، تہران، مشہد، دبئی، لندن، آکسفورڈ، ماسکو، قاہرہ اور گلاسگو وغیرہ شہروں کا سفر کیا جہاں انھوں نے عالمی سطح کے علمی اجتماعات وغیرہ میں حصہ لینے کے ساتھ ساتھ وہاں کی درسگاہوں اور کتب خانوں وغیرہ کاجائزہ لیا اور قیمتی تحقیقی مواد بھی حاصل کیا۔ ڈاکٹر عابد رضا بیدار نے اُردو تحقیق کے معیار کو تخلیقی اور علمی سطح پر نئی جہت عطا کی۔ انھوں نے ’ہندوستان میں اسلام‘ کی صورتِ حال پر 20وقیع کتابیں، ہندو ازم پر 12 کتابیں، جین مت، سکھ مذہب اور بدھ ازم پر ایک ایک تحقیقی و معلوماتی کتاب مرتب کی۔ بہت بڑی تعداد میں انھوں نے نادر و نایاب قدیم مخطوطات کی دریافت کی اور انھیں عصری معیار پر مدون کیا۔ ہندوستان کی تحریک آزادی کی دستاویزوں اور حقائق پر مبنی 6 کتابیں، اُردو، عربی، فارسی مخطوطوں کی 20 فہرستوں کی تدوین، پانچ اہم شخصیتوں کی سوانحی کتابیں، پروفیسر سیّد حسن عسکری اور قاضی عبدالودود کے ریسرچ پیپرس پر مبنی بارہ جلدیں، ہندوستانی مذاہب، ادب و تہذیب پر 25 کتابیں دَیا نرائن نگم کے مشہور عالم جریدہ ’زمانہ‘ سے منتخب کر کے شائع کیں۔ اسی طرح سہ ماہی ’ہندوستانی‘ سے مذہب، فلسفہ، تمدن اور سماجیات پر 7 جلدوں پر مشتمل انتخاب شائع کیا۔ مولانا ابوالکلام آزاد، علامہ اقبال اور سرسیّد احمد خاں کی شخصیات اور کارناموں پر مبنی متعدد کتابیں شائع کیں۔ خدابخش لائبریری کو عالمی معیار پر منظم اور تمام جدید خوبیوں اور سہولتوں سے مرصع کرنے کے لیے انھوں نے آڈیوویژول، آڈیوکلیکشن اور ویڈیو لائبریری سسٹم کا آغاز کیا۔ انھوں نے الیکٹرانک وسائل سے لائبریری کو پوری طرح لیس کرنے میں شبانہ روز محنت کی۔ آج خدا بخش لائبریری ان تمام سائنسی اور تکنیکی سہولتوں سے مزین ہے جو مغربی دُنیا کی بڑی بڑی لائبریریوں کا طرۂ امتیاز ہیں۔
ادارہ میں ملک کی بڑی یونیورسٹیوں کے طلباء اور اسکالرز کے لیے خصوصی اہتمام ہے۔ لائبریری اُردو ادب اور تہذیب کے فروغ کے میدان میں بھی نمایاں خدمات انجام دے رہا ہے۔ لائبریری کے زیر اہتمام نہایت اہم علمی ادبی موضوعات پر بین الاقوامی اہمیت کے سیمینار، ورکشاپ اور مشاعروں اور مختلف موضوعات پر خصوصی لیکچرز کا اہتمام ہوتا رہتا ہے، جن میں دنیائے اُردو کے نامور دانشوروں کو مدعو کیا جاتا ہے۔ اشاعتی میدان میں لائبریری نے اُردو ادب کی گرانقدر کتابیں بہت بڑی تعداد میں شائع کرکے بڑا کام کیا ہے۔ لائبریری کے اشاعتی زمرے میں سب سے زیادہ اہم وہ سلسلہ ہے جس کے تحت عالمی اہمیت کی قدیم کتابوں کے تنقیدی ایڈیشن شائع کیے جاتے ہیں۔ ادارے کی حصولیابیوں اور سرگرمیوں کے بارے میں اطلاعات فراہم کرنے کے لیے ’خدابخش لائبریری جرنل‘ کے نام سے نہایت معیاری سہ ماہی جریدہ کی اشاعت 1977ء سے جاری ہے۔ اب اکیسویں صدی میں یہ سہولت ادارے کی ویب سائٹ پر بھی آسانی سے دستیاب ہے۔
یہ مختصر تذکرہ محض مشتے نمونہ از خروارے لائبریری مخطوطات، قدیم دستاویزات اور نایاب کتابوں کا بہت بڑا خزانہ ہے جس کی فہرست کئی جلدوں میں درج ہے۔
اسلامی تہذیب، دینی اقدار و روایات کے پاسدار خان بہادر مولوی خدا بخش اپنی نجی زندگی میں ایک راست گو، انسانیت نواز، غریبوں کے ہمدرد، خوش خلق انسان تھے، مذہبی تعصب اور تنگ نظری انھیں چھو بھی نہیں گئی تھی۔ ہندو عوام و خواص میں ان کا بہت احترام تھا۔ خدا بخش کے والد محمد بخش نے انھیں بتایا تھا کہ انھوں نے ایک برہمن خاتون کا دودھ پیا تھا۔ اپنے والد کی رضائی ماں کے احترام میں مولوی خدا بخش نے کبھی گائے کا گوشت نہیں کھایا، ان کی کوششوں سے کئی بار ہندو مسلم تنازعات ختم ہوئے اور شہر میں امن و آشتی کا ماحول پیدا ہوا۔
جہاں تک ان کے علم و فضل کا تعلق ہے اس کا اندازہ اس لیے محال ہے کہ لائبریری آنے والی شاید ہی کوئی اہم کتاب جو انھوں نے فراہم کی ان کے مطالعے سے بچی ہو۔ مولوی صاحب نے عربی فارسی مخطوطات کی ایک ضخیم فہرست ’محبوب الباب‘ کے عنوان سے لکھی جو 500صفحات پر محیط ہے، اس کتاب میں کتابوں اور ان کے مصنّفین کا تنقیدی جائزہ پیش کیا ہے، ایسا وقیع علمی کام وہی کرسکتا ہے جس کا مطالعہ وسیع تر ہو۔ آخر عمر میں انھیں شعرگوئی کا شوق بھی ہوگیا تھا، استاد الشعراء شاہ الفت حسین فریاد عظیم آبادی ان کے دوستوں میں تھے، عبدالغفور شہباز، شاد عظیم آبادی اور اس عہد کے مشاہیر سے ان کے قریبی روابط تھے۔ 1902ء میں نواب عشرتی کے تاریخ ساز ہفت روزہ مشاعرے میں مولوی صاحب بھی شریک تھے۔ انھوں نے مشاعرے میں شعروسخن کے موضوع پر عالمانہ خطبہ ارشاد کیا تھا۔
ان کی ذاتی زندگی بیحد باوقار تھی۔ انھوں نے تین نکاح کیے، تیسری بیگم راضیہ خاتون جمیلہ نامور شاعرہ گزری ہیں، ان کے آٹھ دیوان شائع ہوئے جو لائبریری میں موجود ہیں۔ محترمہ پر مستقل مضمون الگ سے تحریر کیا ہے۔
ورق تمام ہوا اور مدح باقی ہے۔ سطور بالا میں خان بہادر خدا بخش کی حیات اور کارناموں کی اِدھر اُدھر سے بس چند مختصر جھلکیاں ہی پیش کرسکا ہوں۔ قارئین کو اس عظیم المرتبت شخصیت کے بارے میں ضرور تفصیل سے مطالعہ کرنا چاہیے۔
مولوی خدا بخش 3اگست 1908ء کو دُنیائے فانی سے رخصت ہوئے۔ مزار عظیم الشان لائبریری کے احاطہ میں واقع ہے۔ علم سے بڑی کوئی دولت نہیں، مرحوم کا ادارہ یقینا ایک صدقۂ جاریہ ہے جو اپنے مؤسس کے جنتی ہونے کی ضمانت ہے۔qq

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here