مولانا ارشد مدنی مسلسل ساتویں مرتبہ جمعیۃ علماء ہند کے صدرمنتخب،تعلیمی وظائف کی رقم پچاس لاکھ سے بڑھاکر ایک کروڑکردی گئی،کامیابی وکامرانی کے لئے مسلمان تعلیم کو ہتھیاربنالیں: مولانا ارشدمدنی- Maulana Arshad Madani elected President of Jamiat Ulema-i-Hind for the seventh consecutive time, the amount of scholarships has been increased from five million to one crore

0
131

نئی دہلی;Maulana Arshad Madani elected President of Jamiat Ulema-i-Hind for the seventh consecutive time, the amount of scholarships has been increased from five million to one crore ملک کے موجودہ حالات، قانون وانتظام کی بد تر صورتحال اور مسلمانوں کی تعلیمی حالات پر گہری تشویش کا اظہارکرتے ہوئے جمعیۃعلماء ہندکے صدر مولانا سید ارشد مدنی نے جمعیۃ کے تعلیمی وظائف کی رقم پچاس لاکھ سے بڑھاکر ایک کروڑ روپے کردی۔ یہ اعلان انہوں نے جمعیۃ علماء ہند کے مجلس عاملہ کے ایک اہم اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کیا۔
جمعیۃ کی جاری کردہ ریلیز کے مطابق مرکزی مجلس عاملہ نے ریاستی جمعیتوں کی مجلس عاملہ کی سفارشات کی بنیاد پر آئندہ میعادکی صدارت کے لئے مولانا ارشد مدنی کے نام کا اعلان کردیا۔
مجلس عاملہ سے خطاب میں مولانا ارشدمدنی نے ملک کے موجودہ حالات میں قانون وانتظام کی بد تر صورتحال اور مسلمانوں کی تعلیمی تناسب پر گہری تشویش کا اظہارکیا اور اس کے لئے وظائف کی ضرورت و اہمیت پر روشنی ڈالی اورکہا کہ ہماری اس ادنیٰ سی کوشش سے بہت سے ایسے ذہین اور محنتی بچوں کا مستقبل کسی حدتک سنور سکتا ہے جنہیں اپنی مالی پریشانیوں کی وجہ سے اپنے تعلیمی سلسلہ کو جاری رکھنے میں سخت دشواریوں کا سامنا کرنا پڑرہاہے۔ انہوں نے کہا کہ پورے ملک میں جس طرح کی مذہبی اور نظریاتی محاذ آرائی اب شروع ہوئی ہے اس کامقابلہ کسی ہتھیار یاٹکنالوجی سے نہیں کیا جاسکتا اس سے مقابلہ کا واحد راستہ یہ ہے کہ ہم اپنی نئی نسل کو اعلیٰ تعلیم سے مزین کرکے اس لائق بنادیں کہ وہ اپنے علم اور شعور کے ہتھیارسے اس نظریاتی جنگ میں مخالفین کوشکست سے دوچارکرکے کامیابی اورکامرانی کی وہ منزلیں سرکرلیں جن تک ہماری رسائی سیاسی طورپر محدود اور مشکل سے مشکل تربنادی گئی ہے۔
مولانا مدنی نے کہا کہ آزادی کے بعد آنے والی تمام سرکاروں نے ایک طے شدہ پالیسی کے تحت مسلمانوں کو تعلیم کے میدان سے باہر کردیا، سچرکمیٹی نے اپنی رپورٹ میں کہاہے کہ مسلمان تعلیم میں دلتوں سے بھی پیچھے ہیں، مولانامدنی نے سوال کیا کہ یہ افسوسناک صورتحال کیوں پیداہوئی اوراس کے کیا اسباب ہوسکتے ہیں؟ اس پرہمیں سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مسلمانوں نے خودجان بوجھ کر تعلیم سے کنارہ کشی اختیار نہیں کی،کیونکہ اگر انہیں تعلیم سے رغبت نہ ہوتی تووہ مدارس کیوں قائم کرتے۔ افسوسناک سچائی یہ ہے کہ آزادی کے بعد اقتدارمیں آنے والی تمام سرکاروں نے مسلمانوں کو تعلیمی پسماندگی کاشکار بنائے رکھا انہوں نے شاید یہ بات محسوس کرلی تھی کہ اگر مسلمان تعلیم کے میدان میں آگے بڑھے تو اپنی صلاحیتوں اورلیاقت سے وہ تمام اہم اعلیٰ عہدوں پر فائزہوجائیں گے، چنانچہ تمام طرح کے حیلوں اور روکاوٹوں کے ذریعہ مسلمانوں کو تعلیم کے قومی دھارے سے الگ تھلگ کردینے کی کوششیں ہوتی رہیں، جس کے نتیجہ میں مسلمان تعلیم میں دلتوں سے بھی پیچھے ہوگئے۔
مولانا مدنی نے کہاکہ ہم ایک بارپھراپنی یہ بات دہرانا چاہیں گے کہ مسلمان پیٹ پر پتھرباندھ کر اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوائیں، اور کارزارحیات میں کامیابی کیلئے ہماری نوجوان نسل تعلیم کواپنا اصل ہتھیاربنالے۔ ہمیں ایسے اسکولوں اورکالجوں کی اشدضرورت ہے جن میں مذہبی شناخت کے ساتھ ہمارے بچے اعلیٰ دنیا وی تعلیم کسی رکاوٹ اور امتیازکے بغیر حاصل کرسکیں۔ انہوں نے قوم کے بااثرافرادسے یہ اپیل بھی کی کہ جن کو اللہ نے دولت دی ہے وہ ایسے اسکول قائم کریں، جہاں بچے اپنی مذہبی شناخت کو قائم رکھتے ہوئے آسانی سے اچھی تعلیم حاصل کرسکیں، ہر شہر میں چند مسلمان مل کر کالج قائم کرسکتے ہیں انہوں نے کہا کہ بدقسمتی یہ ہے کہ جو ہمارے لئے اس وقت انتہائی اہم ہے اس جانب ہندوستانی مسلمان توجہ نہیں دے رہے ہیں، آج مسلمانوں کو دوسری چیزوں پر خرچ کرنے میں تو دلچسپی ہے لیکن تعلیم کی طرف ان کی توجہ نہیں ہے، یہ ہمیں اچھی طرح سمجھنا ہوگاکہ ملک کے موجودہ حالات کا مقابلہ صرف اور صرف تعلیم سے ہی کیا جاسکتا ہے۔
مولانا مدنی نے کہا کہ جمعیۃعلماء ہندکا دائرہ کار بہت وسیع ہے اور وہ ہر محاذ پر کامیابی سے کام کررہی ہے، چنانچہ ایک طرف جہاں یہ مکاتیب ومدارس قائم کررہی ہے وہیں اب اس نے ایسی تعلیم پر بھی زوردینا شروع کردیا ہے جو روزگارفراہم کرتاہے، روزگارفراہم کرنے والی تعلیم سے مراد تکنیکی اورمسابقتی تعلیم ہے تاکہ جو بچے اس طرح کی تعلیم حاصل کرکے باہر نکلیں انہیں فوراروزگاراور ملازمت مل سکے، اور وہ خودکو احساس کمتری سے بھی محفوظ رکھ سکیں۔ تعلیم کے تعلق سے جمعیۃ علماء ہند آزادی کے بعد سے ہی انتہائی حساس رہی ہے چنانچہ اس کے اکابرین نے 1954 میں ایک دینی تعلیمی بورڈ قائم کیا تھا جس کا بنیادی مقصد مسلمانوں میں تعلیمی بیداری لانا اور ملک کے طول وعرض میں مکاتب و مدارس قائم کرنا تھا چنانچہ یہ جو ہم پورے ملک میں مکاتب و مدارس کا بچھا ہوا جال دیکھ رہے ہیں یہ انہیں کوششوں کا نتیجہ ہے لیکن اب اس سلسلے میں ہمیں نئے سرے سے مہم شروع کرنی ہوگی، اسی لئے اب ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ جمعیۃعلماء ہند اپنے پلیٹ فارم سے مسلمانوں میں تعلیم کو عام کرنے کی غرض سے ملک گیر سطح پر ایک مؤثرمہم شروع کرے گی اور جہاں کہیں بھی ضرورت محسوس ہوئی تعلیمی ادارے بھی قائم کرے گی اورقوم کے تمام ذمہ اداران کو اس طرف راغب کرانے کی ہر ممکن کوشش بھی اس لئے کہ آج کے حالات میں ہمیں اچھے مدرسوں کی بھی ضرورت ہے اور اچھے اعلیٰ دنیاوی تعلیمی اداروں کی بھی جن میں قوم کے ان غریب مگر ذہین بچوں کو بھی تعلیم کے یکساں مواقع فراہم ہوسکیں۔ جن کے والدین تعلیم کا خرچ اٹھاپانے سے قاصرہیں انہوں نے آگے کہاکہ قوموں کی زندگی میں گھر بیٹھے انقلاب نہیں آتے بلکہ اس کے لئے عملی طورپر کوشش کی جاتی ہے اور قربانیاں دینی پڑتی ہیں۔
اخیر میں مولانا مدنی نے کہا کہ ملک کے موجودہ حالات اقلیتوں خاص طور پر مسلم اقلیت اور دلتوں کے لئے انتہائی خطرناک ہوچکے ہیں، ایک طرف جہاں آئین اور قانون کی بالادستی کو ختم کرنے کی سازش کی جارہی ہے وہیں عدل وانصاف کی روشن روایت کو ختم کردینے کی خطرناک روش اختیار کی جارہی ہے۔ ہندوستان صدیوں سے اپنی مذہبی غیر جانب داری اور رواداری کے لئے مشہور ہے، سیکولرزم اور رواداری نہ صرف ہندوستان کی شناخت ہے بلکہ یہی اس کے آئین کی روح بھی ہے۔ کثیر المذاہب ملک میں کسی ایک خاص مذہب اور خاص سوچ کی حکمرانی نہیں چل سکتی۔ آج ہمارے سامنے سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ ملک کسی خاص نظریے کی بنیاد پر چلے گا یا قومیت کی بنیادپر یا سیکولرزم کے اصولوں پر؟ مولانا مدنی نے کہا کہ یہ ملک سب کا ہے،ہندوستان ہمیشہ سے گنگا جمنی تہذیب کا علمبردار ہاہے،اسی راہ پر چل کر ہی ملک کی ترقی ممکن ہے۔ انہوں نے اخیر میں تمام مسلمانوں سے خاص طور پر یہ اپیل کی کہ وہ جہاں بھی ہوں محبت، امن واتحاد کے پیغامبر بن جائیں،نفرت سے نفرت کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتایادرکھیں نفرت کو صرف محبت سے ہی شکست دی جاسکتی ہے، ورکنگ کمیٹی نے ریاستی،ضلعی اور مقامی یونٹوں کو متوجہ کیا کہ وہ جمعیۃ علماء ہند کے تعمیر ی پروگرام خصوصا اصلاح معاشرہ کے پروگرام کو بطور تحریک چلائیں جس سے معاشرے میں پھیلی ہوئی برائیوں کا سد باب ہوسکے۔
جمعیۃ علماء ہند کی توجہ روز اول ہی سے رہی ہے، مکاتب ومدارس کا قیام کے ساتھ ساتھ عصری و ٹیکنیکل تعلیم حاصل کرنے والے غریب اور ضرورتمند طلبہ کے لئے تعلیمی وظائف دینے کا مسلسل کام جاری ہے اور اس کے بہتر نتائج سامنے آرہے ہیں۔ اس تسلسل کو باقی رکھتے ہوئے اس سال پچاس لاکھ سے بڑھا کر ایک کروڑ روپئے کی رقم تعلیمی وظائف کے لئے مختص کی گئی تھی، جس کے لئے پورے ملک سے تقریبا 600 طلبہ منتخب کئے گئے ہیں،جن میں سے اب تک تقریبا 500 طلبہ کو وظیفہ جاری کر دیا گیا ہے،تا ہنوز یہ سلسلہ جاری ہے۔
واضح رہے کہ ہر دو سال میں جمعیۃ کی ممبر سازی ہوتی ہے، پچھلے ٹرم میں جمعیۃ کے ممبران کی تعداد تقریبا ایک کڑوڑ پندرہ لاکھ تھی جبکہ اس سال اس تعداد میں اضافے کے قوی امکانات ہیں۔ جمعیۃ علماء ہند کی مجلس عاملہ نے آج سے 31/ جولائی تک اس ٹرم کی ممبر سازی کا اعلان کیا ہے۔ شرکاء اجلاس میں صدرمحترم مدظلہٗ کے علاوہ مفتی سید معصوم ثاقب ناظم عمومی جمعیۃ علماء ہند،مولانا حبیب الرحمن قاسمی،مولانا سید اسجد مدنی،مولانا اشہد رشیدی، مولانا مشتاق عنفر،مفتی غیاث الدین، مولانا عبداللہ ناصر، حاجی حسن احمد قادری،حاجی سلامت اللہ، وغیرہ اور مدعوئیین خصوصی بھی شریک ہوئے۔

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here