مسرور ایجوکیشنل سوسائٹی کے زیراہتمام منظر زیدی کے مجموعۂ کلام کا اجرا
لکھنؤ۔15مارچ، مسرور ایجوکیشنل سوسائٹی کے زیر اہتمام سینٹ روز پبلک اسکول ،گڑھی پیرخاں، ٹھاکرگنج میں انجینئرمنظر زیدی کے مجموعۂ کلام ’’ غزل کی چھاؤں‘‘کا اجراعمل میں آیا۔ تقریب اجرا کے صدر،روزنامہ صحافت کے اڈیٹر امان عباس ،مہمان خصوصی ڈاکٹراکبرعلی بلگرامی اور مہمان اعزازی نیر مجیدی و عبدالباسط خاںتھے۔ نظامت کا فریضہ خوش فکرشاعر شکیل گیاوی نے انجام دیا۔تقریب کاآغاز سوسائٹی کے روح رواں ڈاکٹر منصورحسن خاںکے نعتیہ کلام سے ہوااور اظہار تشکر ڈاکٹر ثروت تقی نے کیا۔ اس موقع پر شکیل گیاوی اور اکبر علی بلگرامی نے اپنے مبسوط مقالہ سے منظرزیدی کی شعری شخصیت کو اجاگر کیا۔ڈاکٹر ہارون رشید نے مقالہ نگاروں کی تحریر کی روشنی میں ’’غزل کی چھاؤں‘‘پرگفتگو کرتے ہوئے کہا کہ منظر زیدی کامجموعہ کلام عہدحاضر کی بہترین شاعری کا مجموعہ ہے۔انکی غزلوں میں شاعری کے تمام اسراروروموز پنہاں ہیں۔
صدرتقریب امان عباس نے کہاکہ ’’غزل کی چھاؤں‘‘کے خالق منظر زیدی بے شمار مبارکباد کے مستحق ہیں کہ وہ غزل کی روایت کو آگے بڑھارہے ہیں۔ ان کی شاعری میں شاعری کے بیشتر اصناف کا التزام ہے۔ سادہ اور سلیس زبان میں نئے موضوعات کوپرتاثیر بنانامنظر زیدی کا کمال فن ہے۔مجھے امید ہے ان کی شاعری اہل ادب میں قدر کی نگاہ سے دیکھی جائے گی۔ آگ کے اڈیٹر اکبر علی بلگرامی نے کہا کہ منظرزیدی کی شعری زبان آسان اور سہل امتناع کا بہترین نمونہ ہے۔ان کا کلام خیالات کے تصادم سے پاک اور نئے موضوعات کا گنجینہ ہے۔شکیل گیاوی نے کہا 1970سے آج تک منظر زیدی اردو شعروادب کے فروغ میں کوشاںہیں۔ ان کی شاعری ملک ہی میں نہیں بلکہ بیرون ملک میں بھی احترام کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے۔ خصوصی طور پر شریک ہونے والوںمیں محمد اجمل خاں، اسد حسین، علی امان، عرفان مہدی وغیرہ تھے۔
تقریب میں شریک شعرانے اپنے منتخب کلام سے محفل کو پرتپاک بنایا جن کے اشعار کا انتخاب حسب ذیل ہے۔
سکون دل بھی ضروری ہے زندگی کے لیے
قدم یہ سوچ سمجھ کر اٹھالیا میں نے
کچھ اس قدر غم دوراں کی دھوپ تیز ہوئی
غزل کی چھاؤں میںبستر لگا لیا میں
نیر مجیدی
سفر حیات کا دشوار ہے طویل بھی ہے
غزل کی چھاؤں میںمنظر قیام کرتے چلیں
انجینئر منظر زیدی
چراغ ہم نے جلائے کہ تیرگی کم ہو
کہو تو دل بھی جلا دیں جو روشنی کم ہو
ڈاکٹر ہارون رشید
غفلت میںیہ قدم بھی اٹھایا نہ جائیگا
ہم سے چراغ عشق بجھایا نہ جائے گا
وصی جونپوری
اس کی مرضی پہ جان دیتا ہوں
موت اب زندگی کی وادی ہے
شاہد لکھنوی
شاید مرا فراق گوارا نہیں انھیں
بیگم کاہاتھ میرا گریباںہے آج کل
عارف محمود آبادی
پھسلے ہو تو اب خود کو سنبھالو یارو
اس برف کے دریا کو ابالو یارو
شکیل گیاوی
منصورؔ نہ سوچا تھا وقت ایسا بھی آئے گا
ہر سمت لہو میں کیوں اک ڈوبا نظارا ہے
ڈاکٹرمنصورحسن خاں
اس دن سے میرے قلب و جگر خیریت سے ہیں
جب سے سنا ہے وہ بھی ادھر خیریت سے ہیں
قمر سیتاپوری
دھیرے دھیرے یہ شناسائی چلی جاتی ہے
آنکھ کیا ہے مری بینائی چلی جاتی ہے
نیلو فر نیلؔ فرخ آبادی
جو تاثر مری بے زبانی میںتھا
وہ کہاںاس کی شعلہ بیانی میں تھا
عقیل غازی پوری
دشمنوں کی طرح ملتے ہو چلے جاتے ہو
دوستی میں یہ مرے یار نہیں ہوتا ہے
ابرار صارمؔ