قدیم ہندوستان کے کتب خانے- Libraries of ancient India

0
542

 

 

Libraries of ancient India

 

زین البشر انصاری
قدیم ہندوستانی تہذیب و تمدن کی تاریخ قابل فخر ہے۔ علم و سائنس کے شعبہ میں یہ ملک زمانہ قدیم سے ہی پوری دنیا میں مشہور رہا ہے۔ ہر دور میں یہ ملک اپنی تہذیبی و علمی وراثت کی بنا پر دوسرے ملکوں کی دلچسپی کا مر کز رہا ہے۔ ویدک زمانہ ، بودھ زمانہ اور زمانہ وسطیٰ یعنی مغلیہ دور میں بے شمار مشہور و معروف کتب خانہ کا پتہ چلتا ہے۔ جہاں پر ملکی و غیر ملکی عالموں کا جمگھٹ لگا رہتا تھا۔یہ لوگ یہا ں کے کتب خانوں سے علم حاصل کرتے تھے اور ساتھ ہی ساتھ ہندوستان کی قدیم زبانوں کا مطالعہ بھی کرتے تھے۔
کتابون کی عزت و عظمت قدیم ہندوستان سے ہی ہو تی چلی آرہی ہے۔ قدیم ہندوستان کی تاریخ کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ پروہت، اچاریہ ، رشی منی ہی قدیم زمانے میں کتابوں کے رکھوالے اور محافظ تھے۔ اس کام کو وہ لوگ بہت ذمہ داری اور دلچسپی سے کرتے تھے۔ ہندوستان کی ایک قدیم کتاب میں لکھا ہے کہ’’ ایک گرو کے دس ہزار چیلے ہوتے تھے۔ وہ ان شاگردوں کو پڑھنے ، لکھنے ،کھانے پینے اور رہنے سہنے کا انتظام کرتے تھے‘‘۔ یہ گرو ہی ان شاگردوں کو ہر طرح کے علم کی درس دیا کرتے تھے۔
پہلے جب حروف ایجاد نہیں ہوئے تھے تو لوگ اپنے خیالات کا اظہار منظوم پیرایہ میں زبانی یاد کیا کرتے تھے۔ اس کی اصل وجہ یہ تھی کہ نظم یا شعر لوگوں کو نثر کے مقابلے میں زیادہ آسانی سے یاد ہو جاتے ہیں۔ کوئی ویدک رشی ایک مصرع یا منتر کہہ کر دیا کرتے تھے جو تھوڑے ہی وقت میں ہزاروں شاگردوں کے حافظہ میں محفوظ ہو جا یا کر تا تھا پھر وہ باپ سے بیٹے اور استا د سے شاگرد کے پاس پشت در پشت چلا آتا تھا۔ اس لیے یہ اگر چہ یہ کہا جائے تو بے جانہ ہوگا کہ’’ پرانے زمانے میں رشی منی ایک قسم کے چلتے پھرتے کتب خانے تھے‘‘۔
اس کے بعد نشان یا تصاویر سے مشہور واقعات کو تحریری شکل دینے کا طریقہ رائج ہوا۔ سندھ تہذیب کے مراکز موہنجوداڑو اور ہڑپا کی کھدائی سے ایسے ثبوت ملے ہیں جو آج بھی میوزیم میں محفوظ ہیں۔ان اس وقت کی قدیم تہذیب کا پتہ چلتاہے۔
دھرم ستر کے وقت سے حروف کا ایجاد ہوا ۔ پانینی کے قواعد سے معلوم ہو تا ہے کہ اس سے پہلے بھی حروف کو کسی ورق پر لکھنے اور کتابی شکل دینے کا طریقہ رائج تھا۔ پانینی سے پہلے بھی پٹل ،پتر، ستر اور گرنتھ وغیرہ الفاظ کا استعمال ہوتا تھا۔ جس سے اندازہ لگا یا جا تا ہے کہ اس کے قبل سے ہی درخت کی چھال یا پتے پر لکھنے کا رواج تھا۔ اسی وجہ سے کتاب کے ایک ورق کو پٹل ،پتر، کانڈ وغیرہ کہا گیا بھر جب کئی پٹل یا کانڈ ایک ساتھ گانتھ کر رکھے گئے تو اس کو گرنتھ کا نام دیا گیا۔ لیکن قدیم زمانے کی کتاب اور جدید زمانے کے کتاب میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
پہلے تال پتر، تاڑ کے پتے، بھوج پتر’’بکل ‘‘وغیرہ پر لکھنے کا رواج تھا جو آج بھی پوتھی کے نام سے مشہور ہے۔ وہ سب پوتھیاں جہاں رکھی جاتی تھیں اسے ’’گرنتھ کٹی ‘‘کہتے تھے۔ ہر مذبی رہ نما شاہوں اور امیروں کے یہاں مندریا مٹھ میں اس طرح کی گرنتھ کٹی رہتی تھی۔
پانینی کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ اس زمانے میں پوتھی کو دیکھ کر طالب علم کو سبق یاد کر نا منع تھا ، عام لوگوں کی آسانی کے لیے محرر لوگ مطلوبہ گرنتھ کی نقل کر دیا کرتے تھے۔
قدیم عہد میں وید کو تحریری شکل دینے کی اجازت نہیں تھی۔ لیکن جب وید کے بہت سارے منتروں کو یاد رکھنے میں پریشانی ہو نے لگی تو رشیوں نے اسے تحریری شکل میں دینے کا فیصلہ کیا لیکن یہ بتانا مشکل ہے کہ کس رشی نے کس منتر کو تحریری شکل دیا ہے۔ اس زمانے میں کرشن، دیبائن وید ویاس نے الگ الگ وید منتروں کو جمع کر کے اس کے حصے کیے اس کے بعد ہی شاید وید کو جلد بندی کی گئی اور ایسا مانا جا تا ہے کہ اسی زمانے سے ہی ہر ایک وید کو ایک الگ نام دے دیا گیا اور اس کو مزید کئی حصوں میں بانٹ دیا گیا۔ مہابھارت کے زمانے میں وید شاستر کے لکھنے کا پتہ چلتا ہے۔
اگرچہ پانینی کے پہلے کئی کتابیں لکھی گئیں لیکن گرنتھ گار لفظ کے استعمال کا پتہ نہیں ملتا ہے۔ بودھ اور جین دھرم کی تبلیغ اور اشاعت کے نتیجہ میں کتاب لکھنے اور کتب خانہ کھولنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ جس سے کی عوام کو تعلیم یافتہ بنا یا جا سکے۔ اور اپنے مذہب کی تبلیغ کا کام بہ آسانی کر سکیں ۔ آپسی مذہبی رسہ کشی کے سبب سبھی اپنے اپنے مذہب کی تبلیغ کرنے اور دوسرے مذاہب کی برائی میں لگے ہوئے تھے ۔ ایسی صوت حال کو دیکھتے ہوئے سبھی مذاہب کے مطالعہ کے لیے کتابوں کو جمع کرنے کی ضرورت پیش آئی۔ اسی مقصد کے پیش نظرکتابیں لکھی گئیں اور جمع کی گئیں۔ قدیم بودھ مذہب کی کتابوں کے مطالعہ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ’’کتابوں کو جمع کر نا ثواب کا کام ما نا جا تا تھا۔ بودھ اور جین مٹھوں میں سبھی مذاہب کی ہزاروں کتابیں جمع تھیں۔
مشہور سیاح ہوینگ سانگ نے جب ہندوستان کی سیاحت کی سفر کیا تھا اس وقت یعنی ساتویں صدی عیسوی میں ان نے نالندہ (بہار) میں ہزاروں کتابو ں کا مطالعہ کیا تھا۔ ہندوستان سے اپنے ملک واپس جاتے وقت اس نے ۲۴ گھوڑوں پر لاد کر مہایان خیالات کے ۱۲۴ ستر اور ۲۰ ۵جلدوں میں مختلف کتابیں لے گیا تھا جو آج بھی چین اور جاپان کے کئی مٹھوں میں ہندوستانی کتابیں مو جود ہیں۔ ڈاکٹر آمیش مشرا کے مطابق ’’ ہندوستان میں سب سے پہلے کنشک کے زمانے میں بودھ گرنتھوں کو جمع کر کے ایک جگہ رکھے جانے کا تذکرہ ملتا ہے۔ کنشک کا زمانہ ۲۸ ویں صدی عیسوی ما نا جا تا ہے۔ کنشک کے زمانہ میں بودھ بھکشوئوں میں اختلاف ہو گیا تھا اس لیے کنشک نے ایک جلسہ کیا اور اس موقع پر پارسیوں کی مدد سے تمام بودھ گرنتھوں کو جمع کیا اور انھیں تامر پتر پر لکھوا کر ایک قلعہ میں بند کر ادیا۔‘‘
راجہ بھوج کا کتب خانہ بہت مشہور تھا۔ اس کتب خانہ کے لائبریرین مشہور شاعر وان بھٹ تھے۔ لیکن اس لائبریری کااستعمال بہت کم لوگ ہی کر پاتے تھے۔ قدیم ادب کے مطالعہ سے پتا چلتا ہے کہ شاعر اعظم وان بھٹ کا ذاتی کتب خانہ بھی کافی بڑا تھا جس میں بہت سے قلمی نسخے اور نادر و نابات کتابیں اور منتر موجود تھے۔ جوہندوستان کی تاریخ کا اہک اہم حصہ تھا۔ ہندوستان کے قدیم کتب خانوں میں ’’ٹکشلا،وکرم شیلا،ولبھی وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔
گاندھارراج کی راجدھانی ٹکشلا میں ٹکشلا یونیورسٹی کی لائبریری بہت مشہور تھی۔ جہاں پر علم نجوم ،علم زراعت،علم تیر اندازی، منطق ، مصوری، مویشیوں کے پالنے وغیرہ کی بے شمار قیمتی کتابیں موجود تھیں۔ دور دراز ملکوں سے لوگ یہاں تعلیم حاصل کر نے کے لیے آتے تھے۔نالندہ یونیورسٹی لائبریری کی شہرت اس زمانے میں پوری دنیا میں تھی ۔ چنانچہ بیرونی ملک سے بے شمار طالب علم حصول علم کے لیے یہاں آکر بر سوں رہا کر تے تھے۔ بودھ بھکشوں کا یہ تو اڈہ ہی تھا۔ لائبریری کو دھرم گج کے نام سے پکارا جا تا تھا۔ اس لائبریری کی عمارت ۹ منزلہ تھی۔ ہر منزل پر ۳۰۰ کمرے تھے۔ اس کے تین حصے تھے۔ ۱۔ تنودھی ۔ ۲۔ رتن ساگر ۳۔ تن رنجک کے نام سے مشہور تھے۔ اس کتب خانہ میں قیمتی کتابوں کا ذخیرہ تھا۔ زیادہ تر مذہبی کتابیں تھیں۔یہ کتب خانہ خاص کر عالموں اور محققوں کے لئے رات بھر کھلا رہتا تھا۔ جو مذہبی کتابوں کے مطالعہ میں مصروف رہتے تھے۔ اتی سنگ نامی چینی عالم نے بھی نالندہ کتب خانہ میں تقریبا دس برس رہ کر قریب ۴۰۰ سنسکرت کی کتابوں کو جمع کیا جس میں تقریبا ۵ لاکھ نظم تھے۔ مشہور سیاح فاہیان نے لکھا ہے کہ’’ نالندہ ایک عظیم تعلیمی مرکز تھا اور وہاں کے کتب خانے میں ہزاروں طالب علم نقل تیار کرنے کا کام کرتے تھے۔
نالندہ کی کھودائی میں ملنے والے دیو پاسل دیواکے تامر پتر سے پتہ چلتا ہے کہ جاوا کے راجا بل پتر دیو نے بھارت کے ہم عصر راجا دیو پال سے درخواست کی تھی کہ نالندہ میں ایک نئے مٹھ کی مالی مدد کے لیے وہ پانچ گائوں عطیہ دیں۔ چنانچہ اس گائوں سے حاصل شدہ رقم نالندہ لائبریری کی کتابوں کی نقل کرانے پر خرچ ہوتی تھی۔ فاہیان اپنے ملک لوٹتے وقت اس لائبریری سے مختلف مضامین سے متعلق ۶۵۷ کتابوں کو نقل کرا کر اور ۵۲۰ قلمی نسخے اپنے ساتھ لے گیا تھا۔ اس سب باتوں کے مدنظر رکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ نالندہ کی لائبریری سب سے اچھی لائبریری تھی ۔ جہاں دنیا کے کونے کونے سے لوگ آکر تعلیم حاصل کیا کر تے تھے۔ ہوں سر دار مہر کل نے سب سے پہلے اس لائبریری کو نقصان پہنچا یا۔ اس کے بعد ۱۲۰۵عیسوی میں بختیار خلجی نے اس کو پور ا جلا دیا جس سے لائبریری کا وجود ختم ہو گیا۔ کہا جاتا ہے کہ یہ لائبریری چھ مہینے تک جلتی رہی تھی۔ اس بات سے بھی لائبریری کی وسعت کا اندازہ لگا یا جا سکتا ہے۔
پال کے زمانہ میں وکرم شیلا یونیورسٹی کا کتب خانہ بھی اس طرح اپنے کثیر مجموعے کے لیے مشہور تھا۔ یہ یونیورسٹی بھاگل پور ضلع کہلگائوں اسٹیشن کے پاس گنگا کے کنارے خوبصورت پہاڑی پر واقع تھی۔ اس کی بنیاد مگدھ کے پال خاندا ن کے راجا دھر م پال نے رکھی تھی۔ اس کتب خانہ کی تاریخ نالندہ یونیورسٹی کے اوسان کے زمانے سے شروع ہو تی ہے۔ اس وقت تنتر وگیان آکرتی وگیان اور جادو وغیرہ مضامین کا زیادہ غلبہ تھا۔ اسی وجہ سے وکرم شیلا میں تانترک کتابوں کے لکھنے اور جمع کرنے پر زور دیا گیا۔ وکرم شیلا یونیورسٹی کی ایجوکیشنل کمیٹی پر وکرم شیلا کتب خانہ کی دیکھ بھال کی ذمہ داری تھی۔ کتابوں کی نقل کرنے کا کام بھکشو،استاد اور شاگرد کر تے تھے۔ اس کے علاوہ اس کام کے لیے محرر کی بھی بحالی کی جاتی تھی۔ رائل سانکر تائن کے مطابق’’وہاں کے سب سے بڑے عالم دیپنکر شری گیان تھے۔ جو آتش کے نام سے مشہور تھے۔ ان کی لیاقت سے متاثر ہو کر تبتی راجا نے کچھ دنوں کے لیے انھیں اپنے پاس بلا لیا تھا۔ واپسی میں انھیں انعام کے طور پر ۲۰۰ قلمی نسخے کی نقل شدہ کاپیاں انھیں تحفہ میں دی۔ وکرم شیلا کتب خانہ کی ایک خاصیت یہ تھی کہ اس کے دیواروں پر تصاویر لگے ہوئے تھے۔
پال راجائوں کے زمانہ میں نالندہ کے قریب اودنت پوری نام کی جگہ میں (موجودہ بہار شریف) بودھ مذہب اور ہندو مذہب کی ہزاروں کتابیں جمع تھیں۔ منہاج کی طبقاتِ ناصری پڑھنے سے معلوم ہو تا ہے کہ ’’محمد خلجی نے جب بہار پر حملہ کیا تو اس وقت بھی وہاں بودھ یونیورسٹی موجود تھی اور بڑی تعداد میں بودھ بھکشوں وہاں رہتے تھے۔ اس یونیورسٹی کی لائبریری میں ہزاروں کتابیں موجود تھیں جہاں پر بدھ بھکشو رہ کر اپنے مذہب کی کتابیں پڑھا کر تے تھے۔ ۱۱۳۷ء کے حملے میں بہار کے بہت سے بدھ مذہب کی کتب خانے تباہ و برباد ہوگئے۔جو نادر و نایاب کتابیں بچ گئی تھیں انھیں کئی پنڈت نیپال لے کر چلے گئے۔ آج بھی نیپال کے کتب خانوں میں بد ھ مذہب کی قدیم کتابیں موجود ہیں۔
بہت سے حکمرانوں نے مل کر اس قدیم ہندوستان کے کتب خانوں کو تباہ کر دیا اور اس میں جو عمدہ نادر و نا یاب کتابیں تھیں سب بر باد ہو گئیں۔تاریخ فرشتہ کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ فیرزو تغلق نے جب نگر کوٹ پر حملہ کیاتو اس وقت جوالا مکھی کے مندر میں ایک بڑا گرنتھ کٹی تھا۔ اس کٹی میں ۱۳۰۰ بیش قیمتی ہندو گرنتھ موجود تھے جس میں سے فیروز تغلق نے فلسفہ ، جوتش اور جاتک وغیرہ کی کچھ کتابوں کا فارسی میں ترجمہ کر وا یا تھا۔
تزک ِ بابری میں لکھا ہے کہ ’’غازی خاں کے گرنتھ کٹی میں بڑی تعداد میں مذہبی کتابوں کو دیکھ کر شہنشاہ بابر بہت خوش ہوا تھا۔ طبقات ناصری کے مطابق بختیار خلجی کے حملے کی وجہ سے بر باد ہونے والی کتابوں میں صرف کچھ کتابیں ہی بچ پائیں تھیں جس کو کچھ بھکشو تبّت لے کرچلے گئے تھے۔
کاٹھیاواڑ کے پاس واقع ولبھی یونیورسٹی کا کتب خانہ کافی بڑا تھا۔ اس لائبریری کو اس کے ہمعصر راجائوں کی سر پرستی حاصل تھی جس سے اس لائبریر ی کو کافی رقم موصول ہو جاتی تھی۔ ولبھی کتب خانہ پر ہین فرقے کے بھکشوئوں کا اثر تھا۔ ہوان سانگ اور اتی سانگ نے بھی اس لائبریری سے استفادہ کیا تھا۔ جن ملکوں کے ساتھ ہندوستان کے تجارتی تعلقات تھے ان کے ساتھ ولبھی کا بھی تعلق رہا ہے کیونکہ ولبھی سمندر کے کنارے واقع تھا۔ ۵۵۹ء؁ میں راجا گہے سین نے اس لائبریری کی کتابوں کی خریدار اور متفرق اخراجات کے لیے خاص عطیہ سے نوازا تھا۔ مذہبی کتابوں کے علاوہ ادویات، آرٹ آف سرپپنٹ چار منگ اور اکائنٹ وغیرہ کی کتابیں تھیں۔ یہاں کئی منطق عالموں کا بھی قیام تھا۔ یہ لائبریری بھی اندرونی فساد اورباہر ی حملے کی وجہ سے تباہ و برباد ہو گئے۔
ہوانگ سانگ کے مطابق وسط ہندوستان کے بہت سارے مٹھوں میں منظم لائبریری موجود تھے۔ ۱۱ویں صدی میں حیدر آباد میں نگئی نام کے ایک جگہ میں ایک بڑے مندر سے منسلک ایک یونیورسٹی تھی جس میں ویدک ادب کے دو سو طالب علم تھے۔ سمرتی کے دو ،سو شاعری کے ایک سو اور فلسفہ کے باون طالب علم تھے ۔ اس ادارے میں ایک بڑی لائبریری بھی تھی۔ ۱۲ ویں صدی میں پاٹن کے چالوکیہ خاندان کے راجائوں کے وقت میں ایک بہت بڑی لائبریری کے ہونے کا تذکرہ ملتا ہے۔
اس کے علاوہ پورے ملک یعنی ہندوستان کے مٹھوں اور مندروں سے بے شمارہ چھوٹے بڑے کتب خانے منسلک تھے۔ پران کے مطابق شیو،وشنواور شوریے کے ان مندروں میں کتابوں کے پڑھنے اور پڑھانے کا انتظام کر نے والے کو تحفے کے طور پر گائے ،زمین اور سونے چاندے کے سکے وغیرہ دیے جاتے تھے۔
ان تاریخی شواہد ہے پتا چلتا ہے کہ قدیم ہندوستان میں لائبریری کی تاریخ کافی مستحکم اور منور رہی ہے اور ایسا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مستقبل میں بھی لائبریری کے اس شعبہ میں بے پناہ اضافہ ہوگا۔ لائبریری اپنی خدمات کے ذریعہ سے عوام الناس کو اپنے قدیم ہندوستان کے تاریخ کے متعقلق مواد لوگوں کے فراہم کرنے میں کامیاب ہورہی ہے اور قدیم وراثت کو یکجا کر کے تحفظ کا کام کررہی ہے۔ حکومت وقت کو اس طرف بھی متوجہ ہونا چاہئے کہ موجودہ زمانے میں جو بھی اسکول کالج شاپنگ مال وغیرہ میں کتب خان کی بنیاد ڈالے اور وہاں پر ایک تربیت یافتہ لائبریرین کی تقرری کرے۔ جس سے روزکار کے مواقع میں اضافہ ہوگا اور عوام الناس میں تعلیم عام ہو جائے گی۔ ایک بہتر ہندوستان کی تعمیر کرنے میں یہ لائبریری اپنا اہم رول زمانہ قدیم سے کرتی چلی آرہی ہیں اور مستقل میں بھی کرتی رہیں گی ۔
لائبریرین : برینس کانونٹ کالج، لکھنؤ

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here