مشاہیر کے خطوط:سلطان اختر کے نام – Letters from celebrities: In the name of Sultan Akhtar

0
223

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

Letters from celebrities: In the name of Sultan Akhtar

سولاپور (مہاراشٹر) میں اردو کے بعض ایسے متوالے ہیں جو مختلف عنوانات پر سیمینار کرکے ، ڈرامے سٹیج کرواکر ، غزل گائیکی کے پروگرام اور کل ہند مشاعرے منعقد کرکے اردو شعر و ادب کو روشناس خلق کروانے کے جتن کرواتے رہتے ہیں۔ ایسے ہی جیالوں سے زبان و ادب زندہ ہے۔ انہی میں ایک نمایاں نام جناب سلطان اختر کا ہے۔
سلطان اختر کو مشاہیر کے نام خطوط لکھنے کا شوق ہے جواباً مشاہیر نے بھی انہیں جواب باصواب سے سرفراز فرمایا۔ یہ کتاب ایسے ہی مشاہیر کے خطوط پر مبنی ہے۔ اس کتاب سے خط کتابت کی اہمیت کا انداز ہ ہوتاہے۔ مرزا غالبؔ اور علامہ اقبالؔ کے کلام کے ساتھ ساتھ ان کے مکاتب انہیں سمجھنے میںبہت مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ سرسید، حالیؔ، شبلی ، اکبر الہ آبادی، امیرمینائی، مشفق خواجہ (خامہ بگوش) وغیرہ وغیرہ کے خطوط ادب کا بہت بڑا سرمایہ ہیں ان خطوط کی روشنی میں مکتوب نگار کو سمجھنے میں اور اس کی ذہنیت تک رسائی میں مدد ملتی ہے۔ میں نے اپنی کتاب ’’مشاہیر کے حوالے سے ‘‘ (۲۰۱۵ء) میں بڑی صاف گوئی سے مدلل لکھا کہ ’’بعض مشاہیر نے اپنے قلم سے خود اپنی قبریں بھی کھودی ہیں۔‘‘
سلطان اختر کی ایک پہچان تو یہ ہے کہ انہوںنے عباس خان کے افسانوں کا مجموعہ ’’آٹھ آنے کی مٹھاس‘‘ اپنے یہاں چھپوا کر ملک بھر کے شاعروں ، ادیبوں کو بھیجا۔ اسی طرح پٹنہ کے ایک نقاد و عروض داں سکندر احمد پر سولاپور میں ایک عالمی سیمینار ۱۴؍نومبر ۲۰۱۵ء کو کروایا جس میں حیدرآباد سے ناچیز رئوف خیر ؔ کو مدعو کیاتھا تو نیویارک سے ڈاکٹر عبدالقادر فاروقی تشریف لائے۔ اس سیمینار میں پہلی دفعہ جناب سلطان اختر کا دیدار ہوا۔ میں نے اپنا مقالہ ’’عروض کا سکندر‘‘ پیش کیا تھا۔ بعد میں سکندر احمد پر لکھے ہوئے کچھ اور مقالے منگواکر سلطان اختر نے کتابی شکل میں شائع کر دیے۔ مجھے نہیں معلوم سلطان اختر نے اپنی تخلیقات کا بھی کوئی مجموعہ کبھی شائع کیا۔ لگتا ہے وہ خدمتِ خلق ہی میں مصروف ہیں۔
اس کتاب میں دل چسپی کے بہت سامان ہیں۔ انتساب سے لے کر آخری صفحے کے اشتہار تک کتاب خود کو پڑھواتی ہے۔ بھارتیہ اردو وکاس فائونڈیشن سولاپور کے زیر اہتمام 2019ء میں شائع ہونے والی 146 صفحات پر مشتمل اس کتاب کی قیمت دوسو روپئے ہے۔ اس کا انتساب ہے ’’محترم المقام ڈاکٹر نذیر فتح پوری صاحب اور ان کی اہلیہ مرحومہ کے نام جن کی شفقت نے حوصلہ بخشا۔‘‘ ابتداء میں شناس نامہ کے تحت سلطان اختر کا اور تعارف نامہ کے عنوان سے بعض مکتوب نگاروں کا مختصر سا تعارف دیا گیا ۔
سب سے پہلے ڈاکٹر محمد ہاشم قدوائی کے تعلق سے لکھا گیا ہے کہ آپ چونتیس (34) سال شعبۂ سیاسیات علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے وابستہ رہے اور چھیانوے (96) برس کی عمر میں دہلی میں انتقال کر گئے۔ نذیر فتح پوری کے تعلق سے لکھا گیا ہے کہ آپ سینتیس (37) سال سے سہ ماہی ’’اسباق‘‘ شائع کر رہے ہیں۔ آپ اسّی (80) کتابوں کے مصنف ہیں۔ آپ کی شخصیت پر ۲۰ سے زائد کتابیں لکھی جا چکی ہیں۔ آپ کو بیرونی ملک سے (کذا) اعزازی Ph.D.۔ اور D.Lit. کی ڈگری سے نوازاگیا۔
اودے پور سے خلیل تنویر نے لکھا سلطان اختر اپنا نام بدل لیں کیوںکہ پٹنہ کے سلطان اختر مشہور شاعر ہیں۔ مزے کی بات یہ کہ اس کتاب میں ایک خط اموڑ(گجرات) کے سلطان اختر کا بھی ہے جو سولاپور کے سلطان اختر کے نام 29؍اکتوبر 2014ء کو لکھا گیا ہے۔ (ملاحظہ ہو صفحہ 51) اپریل ۲۰۲۱ء میں پٹنہ کے سلطان اختر کا انتقال ہو گیا۔ بعض شاعروں نے میر ، غالبؔ، فراقؔ ، فرازؔ تخلص اختیار کیا ہے۔ بہادر شاہ ظفر جیسے مشہور شاعر کے باوجود اردو ادب میں کئی ظفورؔ دکھائی دیے ہیں۔ ظفر صدیقی، ظفرفاروقی ، ظفر عثمانی ، ظفر علوی،ظفر دہلوی، ظفر گورکھپوری ، ظفر مرادآباد ی وغیرہ۔
زیباؔ جون پوری کو سلطان اختر نے صاحبہ سمجھ کر نامۂ خلوص لکھا انہوں نے جواباً فرمایا کہ وہ صاحبہ نہیں بلکہ صاحب ہیں اور ثناء اللہ نام ہے۔ وہ ثنا جون پوری بھی ہو جائیں تو خوش گمانوں کو دھوکا ہوتاہے۔
اس کتاب میں شامل ہفت وار ’’ہماری زبان‘‘ سے وابستہ محمد عارف خان صاحب کے خط مورخہ2 ؍مارچ 2010ء سے پتہ چلتا ہے کہ سلطان اختر نے سولاپور کے ایک بے مثال محقق و مورخ سید شاہ غازی الدین ایڈوکیٹ کا ایک انٹرویو وہاں چھپنے کے لیے بھیجا تھا جسے چھاپنے سے یہ کہہ کر معذرت کر لی گئی کہ زندہ ادیبوں پر ’’ہماری زبان‘‘ میں مضامین شائع نہیں کیے جاتے۔ افسوس ۔۔۔ کیسی کڑی شرط اردو رسائل و جرائد نے طے کر رکھی ہے۔ مجھے سولاپور میں غازی الدین ایڈوکیٹ سے شرفِ نیاز حاصل ہوا تھا۔ غازی صاحب نے اورنگ زیب عالم گیر، شیواجی ، مہاتما جوتی باپھُلے اور امبیڈکر بابا صاحب بھیم رائو پر دادِ تحقیق دے کر تاریخ کے مستند حوالوں سے ان کی خدمات کا بھرپور جائزہ لے کر ضخیم کتابیں لکھیں۔
اس کتاب میں ڈاکٹر لطیف سبحانی (اورنگ آباد) کا خط بہت چونکانے والا ہے۔
’’مولانا ناطق (گلائوٹھوی) نے کبھی بھی اپنی شاعری یا تقریر یا مضامین میں حضرت تاج الدین اولیا ؒ کا ذکر نہیں کیا۔ ‘‘
ناگپور کے ڈاکٹر محمد اظہر حیات کا ایک مضمون ناطق گلاٹھوی کے تعلق سے انجمن ترقی اردو ہند کے ترجمان ہفت وار ہماری زبان (دہلی) کے 15 تا 21 ؍ مئی 2016ء کے شمارے میں شائع ہوا ہے کہ ظہور الدین حسن ناطق گلائوٹھوی 11؍نومبر 1886ء کو وارث پورہ کامٹی ناگپور میں پیدا ہوئے۔ انہوںنے اپنی شاعری کو تصوف اور فلسفے کی بھول بھلیوں میں نہیں پھنسایا۔ وہ (ناطقؔ) 1921 ء سے1950 ء تک یعنی تیس سال تک ناگپور کارپوریشن کے رکن رہے۔ انہوںنے ابتدا میں شیخ الہند مولانا محمود الحسن سے دیوبند میں درسِ حدیث بھی لیا تھا۔ ان کی وفات 27؍مئی 1969ء کو ہوئی۔
مولانا ناطق ایک راسخ القعدہ مسلمان تھے کہ دارالعلوم دیوبند کے فارغ تھے۔ پھر تیس سال (1950ء ۔۔1921ء) تک ناگپور کارپوریشن کے ممبر بھی تھے۔
جناب قیصر واحدی کا خط بھی حق گوئی و بے باکی کی مثال ہے۔ انہوںنے لکھا کہ ’’فارسی اساتذہ اپنی روٹی روزی بچانے کے لیے مجبور و غریب لوگوں کو پڑھا کر ان کے مستقبل سے کھیل رہے ہیں۔‘‘
بیشتر کالجوں میں مسلمان بچوں کو اردو پڑھنے سے روکنے میں فارسی و عربی کے اساتذہ پیش پیش رہتے ہیں یہ کہہ کر عربی و فارسی میں صد فی صد نمبر ہم دیا کرتے ہیں یہ الگ بات کہ طلبہ عربی یا فارسی سیکھ ہی نہیں پاتے۔ اس طرح اردو کی ترقی میں ایسے ہی اساتذہ رکاوٹ بنے ہوئے ہیں جو محض اپنے شعبے کی بقا اور اپنی بقا کی خاطر اردو کا قتلِ عمد کیا کرتے ہیں۔
جناب قیصر واحدی نے اپنے خط میں یہ بھی لکھا کہ ان کے افسانوں کا مجموعہ ’’شہر کا زہر‘‘ مکمل طور پر تیار ہے مگر اسے شائع کرنے سے معذور ہیں۔ کامٹی کے ہندی والے اسے ہندی رسم الخط میں چھپوانا چاہتے ہیں مگر قیصر واحدی کو یہ گوارا نہیں۔ ان کی اردو دوستی کو سلام ۔ وہ کسی اکاڈمی سے مالی تعاون لے سکتے ہیں ۔ اس طرح کے شعر و ادب کے مجموعے اردو اکاڈمیوں کی مہربانی سے دھڑادھڑ شائع ہو رہے ہیں۔
مختصر یہ کہ ’مشاہیر کے خطوط ۔۔سلطان اختر کے نام‘‘ بہت دل چسپ ، بہت معلوماتی کتاب ہے۔ اس سے پتہ چلتہ ہے کہ ادب کی قدآور شخصیتوں سے سلطان اختر رابطے میں رہے اور ان ہستیوں نے ان کے خلوص کی پذیر ائی کی۔
9440945645
ضضض

 

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here