آئیے تاریخی شہر طائف کی سیر کیجیے

0
1781

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه ذیل ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

[email protected] 

9807694588(موسی رضا)


سفرنامہ نگار: عاصم طاہر اعظمی

سفر: آپ کو بے اختیار چھوڑ دیتا ہے اور پھر آپ کو کہانی سنانے والا بناتا ہے(ابنِ بطوطہ) جزیرۃ العرب کے اس سفر میں پہلے ہی دن سے یہ خواہش تھی کہ یہاں کے جتنے بھی تاریخی مقامات ہیں ان تمام کی زیارت کروں اور الحمد للہ حتی الامکان کر بھی رہا ہوں انھیں مقامات کی ایک مظبوط کڑی تاریخی شہر طائف بھی تھا عیدالفطر کے تیسرے دن صبح مولانا عبدالاوّل صاحب نے یہ مسرت آمیز جملہ کہا کہ ارے طائف چلنا ہے میں نے جواب دیا کیوں نہیں کیا ترتیب ہے آدھے ہی گھنٹے بعد ہمارا چار نفری قافلہ(مولانا عبدالاوّل صاحب مرزا پور طاہر بھائی مرزا پور عیاض بھائی کھنڈواری اور بندہ ناچیز) تاریخی شہر طائف کی طرف رواں دواں تھے جدہ سے تقریباً دو گھنٹے چلنے کے بعد تاریخی شہر طائف ہماری نظروں کے سامنے تھا ۔

دنیا کے چند وہ بڑے مقامات جو اپنی تہذیب و تمدن اور تاریخ کے حوالے سے جانے جاتے ہیں طائف شہر بھی ان میں سے ایک ہے یہ شہر آج تک اپنی ہزاروں سالہ قدیم تہذیب و تمدن کو سنبھالے ہوئے ہے طائف چاروں طرف سے بلند و بالا سنگلاخ پہاڑیوں سے ڈھکا ہوا، زرخیز باغات، اور ہیبت ناک پہاڑیوں سے مزین علاقہ ہے جو سطح سمندر سے تقریبا 6 ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ہونے کی وجہ سے خوشگوار حد تک سرد اور سیاحتی مقام کا درجہ رکھتا ہے
طائف شہر میں موجود تاریخی محلات اور پرانی عمارتیں بھی سیاحوں کو اپنی طرف کھینچنے کا ایک بڑا سبب ہیں طائف میں قدیم اور جدید فن تعمیر کے نمونے ایک ساتھ دیکھنے کو ملتے ہیں

طائف شہر کو اس کی خوب صورتی، سحر انگیز قدرتی مناظر پُر فضا مقامات کی دلہن” اور “گلاب کا شہر” جیسے خطابات سے نوازا گیا ہے سب سے پہلے طائف کی سیر و سیاحت کا مشہور مقام (الشفا) پہنچے جہاں موسم انتہائی خوشگوار اور معتدل تھا تقریباً ایک گھنٹے گھومنے کے بعد ظہر کی نماز وہیں پڑھ کر طائف شہر کی طرف روانہ ہوئے جہاں پر وقاص احمد سنوارہ کافی دیر سے ہم لوگوں کے منتظر تھے پہنچتے ہی والہانہ استقبال کیے انھیں کے یہاں ہم لوگوں کا کھانا بھی تھا وہیں پر موجود ڈاکٹر جابر صاحب نے اپنے کلام سے شعر و شاعری کی محفل کو سجا کر ہم لوگوں کی تھکن کو دور کیا ساٹھ پلس ہونے کے باوجود بھی جذبہ نوجوانوں والا تھا ان کے کلام کو سبھی لوگوں نے پسند کیا بعدہ بہترین دسترخوان لگا اور ہم لوگوں نے کھانا تناول فرمایا پھر اس کے بعد وقاص احمد کے ساتھ طائف کے ان مقامات کی طرف بڑھے جہاں پر آپ صل اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس پر دشمنانِ اسلام نے مصائب و آلام کے پہاڑ توڑے تھے ۔
بعثت نبوی کا 10 واں سال شوال المکرم کا مہینہ تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فریضہ تبلیغ کے لیے پیدل طائف پہنچے،

وہ ہادی جو نہ ہوسکا غیر اللہ سے خائف
چلا اک روز مکے سے نکل کر جانبِ طائف

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ تھے ، دس دن یہاں قیام فرمایا، عوام و خواص کے سامنے دین اسلام پیش کیا، لیکن ان بدقسمتوں کی بدنصیبی تو دیکھیے کہ انہوں نے آپ کی دعوت کو نہ صرف ٹھکرایا بلکہ نہایت گستاخانہ رویہ اپناتے ہوئے آپ کا مذاق اڑایا

ًاس کے بعد ان حرماں نصیبوں نے طائف کے اوباشوں اور آوارہ گردوں کوآپ کے پیچھا لگا دیا کوئی تالی بجاتا، کوئی سیٹی بجاتا، کوئی جملے کستا، کوئی ہلڑ بازی کرتا، شور مچاتے ہوئے آپ کو طائف کی گلیوں میں لے آئے یہاں دونوں طرف لوگ صف بنائے پتھر ہاتھوں میں لیے کھڑے تھے، جب آپ کا گزر وہاں سے ہوا تو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پتھر مارنا شروع کیے، سر مبارک سے لے کر پاؤں مبارک بلکہ نعلین مبارک تک آپ لہولہان ہو گئے، پنڈلیوں اور گھٹنوں پر گہرے زخم آئے بدن مبارک سے خون مبارک بہتا بہتا قدموں تک پہنچا قدموں سے رستا ہوا نعلین مبارک تک پہنچ گیا نعلین اور قدمین آپس میں خون کی وجہ سے چمٹ گئے حضرت زید بن حارثہ آپ کو بچانے کے لیے کبھی آگے آتے کبھی دائیں بائیں اورکبھی پیچھے ان کا بھی سر لہولہان ہو گیا پتھروں کے برستی بارش میں کبھی آپ بیٹھ جاتے تو طائف والے آپ کی بغلوں میں ہاتھ ڈال کر آپ کو دوبارہ کھڑا کر دیتے چند قدم چلتے پھر بیٹھ جاتے اور وہ دوبارہ آپ کی بغلوں میں ہاتھ ڈال کر کھڑا کرتے اور پتھر برساتے

کس درد المناک ہے طائف کا وہ منظر
دشمن نے جہاں آپ پے برسائے ہیں پتھر

یہ بھی پڑھیں

اسوان: زر کی سرزمین

ذرا چشمِ تصور سے سوچیے کہ دنیاوی شان و شوکت والے خانوادہ بنو ہاشم کے اس چشم و چراغ سے ہورہا تھا کہ جس کے مرحوم دادا عبدالمطلب عربوں کے سردار تھے، اگر آپ صل اللہ علیہ وسلم بددعا کردیتے تو خالقِ ارض و سما طائف کی اینٹ سے اینٹ بجا کر اہلِ طائف کو آنے والی نسلوں کے لیے نشانِ عبرت بنا دیتے

لیکن یہاں سے اٹھے قرن الثعالب پہاڑی سامنے تھی چلے گئے اوپر نظر اٹھائی بادل نے آپ پر سایہ کیا ہوا تھا بادل پر نظر جمائی تو اس میں جبرئیل امین جلوہ افروز تھے اور عرض کیے یارسول اللہ !اللہ تعالیٰ نے سن لیا دیکھ لیا آپ نے جو کچھ فرمایا انہوں نے جیسا سلوک کیا سب کا سب دیکھ اور سن لیا یہ میرے ساتھ ملک الجبال(پہاڑوں کی نگرانی پر مقرر فرشتہ) موجود ہیں آپ حکم دیجیے یہ تعمیل کریں گے ملک الجبال نے عرض کیے : مجھے اللہ تعالیٰ نے بھیجا ہے آپ جو چاہیں حکم کریں میں تعمیل کروں گا آپ حکم دیں مکہ کی دونوں طرف کے پہاڑوں کو ملا کر ان تمام بے ادب اور گستاخوں کو پیس ڈالوں؟

آپ صلی اللہ علیہ وسلم آزمائش کے دوہرائے پر کھڑے تھے ایک آزمائش اہل طائف نے آپ پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے دوسری آزمائش کہ جبرئیل امین اور ملک الجبال ان کو پیس ڈالنے کی فرمائش کے منتظر کھڑے ہیں پہلا امتحان تھا صبر وضبط تحمل و برداشت اور استقلال کا دوسرا امتحان تھا دعویٰ رحم و کرم کا فراخی حوصلہ اور وسعت ظرفی کا اللہ کریم نے آپ کو دونوں میں کامیاب فرمایا دریا دلی والے دل رحمت میں کرم کی ایک موج اٹھی اور اہل طائف کی قسمت کے سفینے کو پار لگا دیا فرشتوں کو جواب دیا اگر یہ بد نصیب ایمان نہیں لائے تو کیا ہوا میں ان کی آنے والی نسل سے ہرگز ناامید نہیں ہوں مجھے اللہ کی ذات پر مکمل یقین اور بھروسہ ہے کہ وہ ان کی نسلوں میں ایسے لوگ پیدا فرمائے گا جو اللہ کی توحید کے قائل اور شرک سے بیزار ہوں گے۔

اللہ رے کیا خوب ہے وہ شان پیمبر
زخموں سے بدن چور ہے اور لب پے دعا ہے
وہ نور ھدی نور ھدی نور ھدی ہے

عصر کا وقت قریب تھا وقاص احمد نے کہا کہ قریب میں عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے نام سے موسوم ایک بہترین و تاریخی مسجد ہے پہلے وہاں چلتے ہیں نماز پڑھ کر اس کو دیکھتے ہیں یہ طائف شہر کی مشہور مساجد میں سے ایک ہے طائف شہر کے بالکل وسط میں واقع ہے ۔

ابن ہشام کے قول کے مطابق مسجد عبداللہ بن عباس اس جگہ تعمیر ہوئی ہے جہاں حصارِ طائف میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خیمہ نصب ہوا تھا اس مسجد کے قریب ہی محاصر طائف کے شہدا بھی دفن کیے گئے تھے کاتبِ وحی حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ بھی یہیں مدفون ہیں مسجد ابن عباس کا کتب خانہ ترکی دور میں ہزاروں بے مثل مخطوطات پر مشتمل تھا اب بہت کم مخطوطے باقی ہیں

مسجد اور مکتبہ کے درمیان ایک احاطے میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اور بعض دوسرے حضرات کی قبریں ہیں احاطے میں داخل ہونے کی اجازت نہ تھی باہر سے ہی فاتحہ خوانی کرکے دو کتبے دکھے اس کی طرف بڑھے ایک پر مکتبہ کا تعارف تھا اور دوسرے پر حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے مختصر حالات تحریر تھے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی اور اُم المؤمنین حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کے بھانجے تھے ہجرت سے تین سال قبل بنوہاشم کی محصوری کے دوران شعب ابی طالب میں آپ کی ولادت ہوئی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت ان کی عمر صرف تیرہ سال تھی اتنی چھوٹی سی عمر میں وہ علم وحکمت کے ایسے نکات بیان فرماتے تھے کہ بڑے بڑے صحابہ دنگ رہ جاتے تھے یہ نتیجہ تھا خداداد صلاحیتوں، ذاتی محنت اور سب سے بڑھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دُعاؤں کا آپ نے ان کی خدمت اور حسنِ ادب سے خوش ہوکر انہیں دُعا دی تھی: اے اللہ! اسے حکمت عطا فرما اور علم تفسیر سکھا اے اللہ! اس کا سینہ علم وحکمت سے بھردے یہ دُعا رنگ لاکر رہی۔

پھر اس کے بعد ہم لوگوں کا قافلہ مسجد عدّاس کی طرف روانہ ہوا۔یہ مسجد حضرت عداس رضی اللہ عنہ کے نام سے موسوم ہے جہاں پر نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم نے آرام فرمایا تھا عداس عتبہ بن ربیعہ کے غلام تھے انھوں نے آپ صل اللہ علیہ وسلم کو کھانے کے لیے انگور پیش کیا آپ نے کھانے سے پہلے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھا اس کو سن کر وہ اتنا متاثر ہوا کہ مشرف بإسلام ہوگیا

وہاں سے فارغ ہونے کے بعد’مسجد الکوع‘ کی طرف بڑھے جو جبل ابو زبیدہ کے پہاڑوں اور گلستانوں کے بیچ ایک ایسی تاریخی مسجد موجود ہے جو دیکھنے والوں کو کئی صدیاں پیچھے لے جاتی ہے۔

صدیوں سال قبل بنائی گئی مسجد الکوع مملکت کی قدیم مساجد میں سے ایک ہے صدیاں بیت جانے کے بعد آج بھی اس مسجد کی شان وشوکت پوری آب وتاب کے ساتھ موجود ہے

جہاں پر مسجد الکوع تعمیر کی گئی ہے وہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر طائف کے دوران کچھ دیر قیام فرمایا تھا اس مسجد کو’مسجد الموقف‘ کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم طائف کے سفر کے دوران یہاں کچھ دیر رکے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ٹیک بھی لگائی اسی جگہ پر مسجد الکوع بنائی گئی۔

اس مسجد کی زیارت کرنے والے آج بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلے سفر طائف کی المناک یادوں میں کھو جاتے ہیں وہاں سے نکلنے پر ہماری اگلی منزل رُدّف پارک تھا جو انتہا سے زیادہ بڑا اور خوبصورت تھا جو ہر طائف آنے والے کو اپنی طرف کھینچتا ہے راستے میں بہترین برف باری کا انجوائے کرتے ہوئے وہاں پہنچے لیکن افسوس سبھی گیٹ بند ہوچکے تھے اندر جانے کی اجازت نہ مل سکی پھر اس کے بعد مولانا عبدالاوّل صاحب کے دوست کے یہاں گئے موسم انتہا سے زیادہ خوبصورت اور معتدل تھا ان کے دوست نے موسم کو دیکھتے ہوئے پکوڑی سے ہمارا استقبال کیا سبھی حضرات خوب لطف اندوز ہوتے ہوئے کھائے پھر عشاء کی نماز پڑھ کر وہاں سے جدہ کی طرف رخصت ہوئے عیاض بھائی کی بہترین ڈرائیوری سے تقریباً دو گھنٹے بعد اپنے روم پر پہنچ گئے الحمد للہ اس طرح ہمارا یہ یادگار سفر بہترین یادوں کے ساتھ مکمل ہوا

7860601011

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here