کافی ہاؤس میں بائیں بازو اور دائیں بازو کی لڑائی – Left-wing and right-wing fighting in a coffee house

0
123

کیا نظریات کی جنگ میں مودی پرستوں کی جیت ہوگی؟

عبدالعزیز
کالج اسٹریٹ کلکتہ کے ایک مشہور راستے کا نام ہے۔ اس کی شہرت کئی وجہوں سے ہے۔ ایک بڑی وجہ تو یہ ہے کہ کلکتہ یونیورسٹی اسی علاقے میں ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اس علاقے میں ہر قسم کی کتابوں کی دکانیں ہیں۔ یہاں ایک ’کافی ہاؤس‘ ہے جو بہت پرانا ہے۔کافی ہاؤس میں طلبہ کے علاوہ ادیب، شاعر اور دانشورمجتمع ہوتے ہیں۔ چائے یا کافی پر یہاں کا چرچا مشہور ہے۔ ہر نظریے اور آئیڈولوجی کے لوگ بحث و مباحثے میں حصہ لیتے ہیں۔ سابق وزیر اعلیٰ بدھا دیب بھٹا چاریہ جیسے لوگ بھی اپنی طالب علمی کے زمانے میں کافی ہاؤس کی بحثوں میں شریک ہوتے تھے۔
دو تین روز پہلے بایاں بازو اور دایاں بازو کے طلبہ میں جم کر لڑائی ہوئی۔ ممکن ہے اس لڑائی میں ترنمول کانگریس کے طلبہ نے بھی شرکت کی ہو۔ کافی ہاؤس کے آس پاس پوسٹر لگے ہوئے تھے “No Vote for BJP” (بی جے پی کیلئے کوئی ووٹ نہیں)۔ کافی ہاؤس کی سیڑھیوں پر بھی پوسٹر لگے ہوئے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ اچانک آر ایس ایس کی طلبہ تنظیم ’اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد‘ (اے بی وی پی) اور آر ایس ایس کے لوگ کافی ہاؤس میں اچانک گھس گئے اور ’جئے شری رام‘ کے نعرے لگائے اور توڑ پھوڑ شروع کردی۔ مدافعت میں بائیں بازو کے طلبا و طالبات اور بائیں بازو سے متاثر افراد کھڑے ہوگئے اور تشدد پسندوں کو کافی ہاؤس سے بھگانے میں کامیاب ہوئے۔ مگر تشدد پسند کافی ہاؤس کی سیڑھیوں پر اور آس پاس بی جے پی کے خلاف جو پوسٹر لگے ہوئے تھے اسے پھاڑتے ہوئے چلے گئے۔
بی جے پی اور آر ایس ایس کا ایک نظریہ ہے جو ہندوتو کے نام سے جاناجاتا ہے۔ یہ جارح قوم پرستانہ نظریہ ہے۔ ہندو دھرم سے اگرچہ اس نظریے کا کوئی تعلق نہیں ہے لیکن مسلمانوں اور اسلام کے خلاف نفرت پھیلاکر اور فتنہ و فساد برپا کرکے اس کی پرورش 1925ء سے لگاتار ہورہی ہے۔ اس کے لٹریچر میں بھی نفرت کا زہر بھرا ہوا ہے۔ آر ایس ایس کے دوسرے سر سنچالک گروگولوالکر کی کتاب ’’گوشۂ خیالات‘‘ (Bunch of Thoughts) میں درج ہے کہ ’’ہندستان کے تین بڑے دشمن ہیں مسلمان، کمیونسٹ اور عیسائی‘‘۔ اس کتاب میں مولانا ابوالکلام آزاد مہاتما گاندھی کے خلاف بھی بہت سی باتیں لکھی ہوئی ہیں۔ آر ایس ایس کے نظریہ ساز ہٹلر اور مسولینی کے معترف و معتقد ہیں۔ یہ ایک تشدد آمیز نظریہ یا آئیڈولوجی ہے۔ اس کی تربیت اسکولوں، کالجوں اور ساکھاؤں میں دی جاتی ہے۔ 90-95سال میں آر ایس ایس کے لیڈر وں اور کارکنوں کی غیر معمولی محنت اور جانفشانی سے پورے ہندستان میں زبردست فوج تیار ہوگئی ہے۔ جس کے بارے میں موہن بھاگوت نے کہاہے کہ ’’ہندستانی فوج کو دشمنوں کے خلاف تیار ہونے میں اگر تین مہینے درکار ہوں گے تو آر ایس ایس کے تربیت یافتہ افراد تین دنوں میں تیار ہوسکتے ہیں‘‘۔ اس نظریے کے لوگوں کو دائیں بازو (Right Wing)سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
کمیونسٹوں یا سوشلسٹوں کو بائیں بازو (لیفٹسٹ) کے نام سے جانا جاتا ہے۔ نظریے کے لحاظ سے دیکھا جائے تو دائیں بازو کے بعد سب سے بڑی تحریک ہندستان میں بائیں بازو ہی کی ہے۔ کیرالہ میں مارکسی پارٹی کی حکومت ہے۔ مغربی بنگال میں اس کی حکومت 34سال تک تھی۔ تریپورہ میں بھی تقریباً25 سال تھی۔ کمیونسٹ تحریک یا اشتراکی تحریک اس وقت رو بہ زوال ہے۔ اس کے برعکس زعفرانی تحریک مودی کے اقتدار سنبھالنے کے بعد عروج پر ہے۔
مسلمان پورے ملک میں ایک مذہب سے وابستہ ہیں جس کا نام ’’اسلام‘‘ ہے۔ اسلام ایک مذہب نہیں ہے بلکہ دین ہے،لیکن مسلمانوں کے زوال کے بعد بلکہ یہ کہا جائے کہ خلافت کے اختتام کے بعد دین کا تصور محدود ہوتا چلا گیا۔ ہندستان میں بادشاہوں کی حکومت تھی لیکن بادشاہوں کے بجائے صوفیائے کرام اور داعیانِ اسلام کے ذریعے اسلام ہندستان میں پھیلا۔ مالابار کیرالہ کے ایک ضلع کا نام ہے جو ساحل سمندر پر واقع ہے۔عرب سے جو تجار اس علاقے میں داخل ہوئے تجارت کے ساتھ وہ اسلام کی تبلیغ و اشاعت کے کام بھی کرتے تھے۔ ہندستان میں جو پہلی مسجد ہے وہ اسی علاقے میں ہے جسے ایک ہندو راجہ نے مسلمان ہونے کے بعد تعمیر کی تھی۔ سندھ کے علاقے سے محمد بن قاسم فتحیابی کے بعد داخل ہوئے۔اس علاقے سے بھی اسلام منصف مزاج حکمراں کی موجودگی سے اسلام تیزی کے ساتھ پھیلا، لیکن اسلام تحریک یا انقلاب کی شکل میں نہیں پھیل سکا اور نہ ہندستان میں کبھی اسلام کی حکومت قائم ہوئی۔ پہلی تحریک اسماعیل شہیدؒ اور سید احمدؒ بریلوی کی تھی۔ اسے انگریزوں نے ’وہابی تحریک‘ کے نام سے بدنام کرنے کی کوشش کی۔ افغانستان میں انگریزوں کے زمانے میں اس تحریک کے ذریعہ اسلامی حکومت قائم ہوگئی تھی۔ لیکن کچھ افغانیوں کی سازشوں سے یہ حکومت ختم ہوگئی۔ اس تحریک نے انگریزوں کی ناک میں دم کردیا تھا۔ اسی لئے اسے وہابی تحریک کے نام سے بدنام کیا گیا ۔ دوسری اسلامی تحریک سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے جماعت اسلامی بناکر شروع کی جو اس وقت کئی ملکوں میں پائی جاتی ہے۔
ہندستان میں عام مسلمانوں کی اور مسلم تنظیموں کی مہم تو شروع ہوتی ہے اور خدمت خلق کے کام بھی انجام دیئے جاتے ہیں لیکن تحریک یا انقلاب کا جذبہ پیدا نہیں ہوتا۔ بحیثیت مسلمان ایک منتشر ملت یا ایک منتشر جماعت کے جانے جاتے ہیں۔ بائیں بازو، دائیں بازو کے بعد مسلمانوں کی منتشر جماعت بغیر قیادت کے ہندستان میں موجود ہے۔ جس کی نہ کوئی تحریک ہے نہ انقلاب کیلئے کوئی کوشش یا جدوجہد ہے۔
آر ایس ایس سے جو لڑائی ہے وہ بائیں بازو کے لوگ سیاسی میدان میں لڑ رہے ہیں۔ مسلمان محض ووٹ دے کر سیاست کر رہے ہیں۔ مسلم پرستی کے نام سے جو سیاسی جماعتیں مسلمانوں میں موجود ہیں وہ قوم پرستانہ سیاست کر رہی ہیں مگر ان سے انقلاب اور تحریک کوسوں دور ہے۔ ان جماعتوں میں تحریک اور تربیت کا کوئی نام و نشان نہیں ہے۔ میدانِ سیاست یا انتخابی سیاست میں کچھ کامیابی کہیں کہیں ہوسکتی ہے لیکن آر ایس ایس ان کا کوئی مقابلہ نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسد الدین اویسی صاحب کی جماعت تک کو ’ووٹ کٹوا جماعت‘ یا ’بی جے پی کی مددگار تنظیم ‘کے نام سے جانا جاتا ہے۔
کانگریس، ترنمول کانگریس اور اس طرح کی بہت سی جماعتیں جو ہندستان میں موجود ہیں اس میں ہر قسم کے نظریے کے لوگ شریک ہوتے ہیں۔ اسی لئے ان کو “Centrist” پارٹی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ان پارٹیوں میں فرق بہت کم ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انتخاب سے پہلے یا بعد میں بڑی تعداد میں افراد ایک پارٹی سے دوسری پارٹی میں شمولیت اختیار کرتے ہیں۔
کانگریس ایک سینٹریسٹ پارٹی ہے۔ اور اس پارٹی میں مختلف نظریات کے لوگ شامل ہیں۔ اس طرح کی پارٹیاں وقتی اور عارضی طور پر آر ایس ایس اور بی جے کا مقابلہ کرتی ہیں لیکن مستقل مقابلہ ان کے بس کا نام نہیں ہے۔
مغربی بنگال میں امکان تو یہ ہے کہ ترنمول کی تیسری بار حکومت ہوگی، لیکن آر ایس ایس اور بی جے پی نے جوبنگال کو فرقہ پرستی کے رنگ میں رنگ دیا ہے اور بہت سے لوگ زعفرانی تحریک سے متاثر ہوگئے ہیں۔ اس کا مقابلہ ترنمول کانگریس بہت دنوں تک نہیں کرسکتی۔ یہی وجہ ہے کہ بائیں بازو کی پارٹیاں یہ سمجھتی ہیں کہ ترنمول کانگریس فرقہ پرستوں کا مقابلہ نہیں کرسکتی ہے ، کیونکہ ترنمول کانگریس نے فرقہ پرستوں کو مغربی بنگال میں سہولتیں فراہم کی ہیں۔ اور ایک دوسرے کے معاون و مددگار بھی رہی ہیں۔ مغربی بنگال ہو یا کوئی دوسری ریاست ہو کالجوں اور یونیورسٹیوں میں بائیں بازو کے طلبہ ہی آر ایس ایس کی طلبہ تنظیم ’اے بی وی پی‘ کا مقابلہ کر رہے ہیں۔
سینٹریسٹ پارٹی جس کاکوئی مضبوط نظریہ نہیں ہوتا وہ اگر آر ایس سے مقابلہ کرنا چاہے تو رفاہی یا خدمت خلق کے کاموں کے ذریعے کرسکتی ہے۔ جیسے عام آدمی پارٹی نے دہلی میں زعفرانی پارٹی کا اسمبلی کے حالیہ انتخاب میں کیا ہے۔ ترنمول کانگریس کا کام اگر عام آدمی پارٹی کی طرح ہوا ہوتا تو بی جے پی کو شکست دینے میں کم مشکل ہوتی۔ انتخاب کے قریبی زمانے میں ترنمول کانگریس نے خدمت خلق کے بہت سے کاموں کا آغاز کیا جسے ’دیر آید درست آید‘ہی کہا جاسکتا ہے۔ ترنمول کانگریس کو مغربی بنگال میں دو بڑی وجہوں سے کامیابی کے امکانات ہیں۔ پہلے وجہ تو مسلمان ہیں جو بی جے پی کے انسانیت دشمن نظریے کی وجہ سے ترنمول کانگریس کو بڑی تعداد میں ووٹ دیں گے۔ دوسری وجہ یہ ہے بنگال کا وہ کلچر ہے جس میں تہذیب اور تعلیم کی بو باس پائی جاتی ہے۔ اگر یہ دو چیزیں نہیں ہوتیں تو ترنمول کی ہار لکھی ہوئی تھی۔ ترنمول کانگریس عام آدمی پارٹی کی طرح سافٹ ہندوتو کے نقش قدم پر چل رہی ہے جو خطرے سے خالی نہیں ہے۔ آئندہ کیلئے ضروری ہے کہ ترنمول کانگریس کی سافٹ ہندوتو کا چکر چھوڑ دینا ہوگا اور فلاحی و رفاہی کاموں سے زیادہ سے زیادہ زور دینا ہوگا جبھی بی جے پی سے مقابلہ ممکن ہوگا۔
Mob:9831439068

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here