کرشن چندراور انشائیہ نگاری – Krishna Chandra and Insha’Allah

0
590

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔


Krishna Chandra and Insha'Allah
کرشن چندر

ترقی پسند افسانہ نگار کرشن چندراردو کے چند اہم اولین افسانہ نگاروں میں شمار کئے جا تے ہیں۔افسانہ نگار کی حیثیت سے شناخت قائم کرنے والے اس فنکار نے اپنی تخلیقی صلاحیت کے نقوش جن اصناف پرثبت کئے ان میں افسانہ ،ناول ،ڈراما، طنز و مزاح اوررپورتاژبھی ہیں۔کرشن چندر کی تقریباً سبھی تخلیقات تخیل آفرینی،حقیقت پسندی اور جدت طرازیسے مزین ہیں۔مزاح کی ہلکی پھلکی چاشنی،طنزیہ اندازِ نگارش اور افسانوی تخیل کرشن چندر کی تحریر اور اسلوبِ بیان کے خاص لوازم ہیں ۔وہ ایک جدت طراز ادیب ہیں،مفکر ہیں،جو لکھتے ہیں۔دل کی گہرائیوں سے سوچتے ہیںپر خلوص لہجے میںاسے بیان کر تے ہیں ۔
کرشن چندر کو جہاں ایک کامیاب مزاح نگار تسلیم کیا جا تا ہے وہیںاس کے مضامین میںپائی جانے والی انوکھی سوچ ،لطافت اور رومانی انداز ،جس کے ڈانڈے گلابی اردو اور ادبِلطیف سے جا ملتے ہیں ،ان کی مقبولیت کا ایک اہم سبب ہے اور اسی برتے پر انھیں انشائیہ نگار کہا جاتا ہے جبکہ انشائیہ ایک صنف کی حیثیت سے بیان اور فکر کی کچھ اوروسعت طلب کر تا ہے ۔ طنز و مزاح کی مکمل نمائندگی کر نے والے یہی عناصر ہیںجن کے سبب کرشن چندر کی تحریریں انشائیہ کے سا تھ مکمل انصاف نہیں کر پا ئی ہیں۔اس پہلو پر غور کر نے سے پہلے ہم کرشن چندر کے ظریفانہ ادب پر نظر ڈالتے چلیں ۔
پطرس بخاری نے ظرافت نگاری کے جس اسلوب کی بنیاد ڈالی تھی اسے بعد میں آ نے والے ادیبوںنے ہاتھوںہاتھ لیا ۔اس میں نئے رنگ و آہنگ کا اضافہ ہوا ،سیاست اور سماجی زندگی کے نئے اقتباسات اس میںشامل ہو ئے ،معاشرتی زندگی کی عکاسی،زندگی کی ناہمواریوں کو ترچھی نظرسے دیکھنے کا انداز اور اس منظر نامہ کو شو خ رنگوں سے سجانے والے مزاح نگاروں کی ترجیحات اورمتنوع موضوعات پر نگاہ ڈالیںتو محسوس ہو تا ہے کہ پطرس بخاری ایک ریلوے جنکشن کی مانندہیں، جہاں سے مختلف سمتوں میں ظرافت نگاروں کے قدموںکی گلکاری کے نشانات دکھائی دیتے ہیں۔
آزادیِ ہند کے بعد رونما ہو نے والی انقلابی تبدیلیوں نے ہمارے ادیبوں کو سماجی حقیقت نگاری کے کام پر لگا دیا۔ترقی پسند ادیب کی حیثیت سے یہ کرشن چندر کا وظیفہ حیات ہی تھا کہ اس کے وسیلے سے وہ سماجی نا ہمواریوں اور نا انصافیوں کو بے نقاب کریںاس کام کے لئے طنز و مزاح ایک زبردست کا رگر ہتھیار تھا ۔کرشن چندر کا افسانہ نگاری کے ساتھ طنز و مزاح کی وادی میں نکل آنا ان کے اس مشن کا فطری تقاضا تھا جسے ہم ترقی پسندی کے نام سے جانتے ہیں ۔
طنز و مزاحکا یہ انداز دراصل ان تابڑ توڑ حملوں سے عبارت تھا جس کا حدف بے درد زمانہ ،سامراجیت،بیوروکریسی اور سیاست تھی ۔اس، قبیل کے طنز و منزاحنگاروں نے عوام کی حالتِ زار کو شگفتگی کے ذریعے نمایاں کیا،ان تمام ستم ظریفیوں کو جن سے اس ملک کی عوام دوچار تھی ظرافت کیدائرے میں سمیٹ لیا ۔اس قافلہ میں شامل ادیبوںمیںکرشن چندر ، ،کنہیا لال کپور، فکر تونسوی، ابراہیم جلیس،عاتق شاہ ۔خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔فکر و نظر ،اندازِتحریر اور بر تائو کے اعتبار سے ان میں سماجی حسیت ایک قدرِ مشترک کی حیثیت رکھتی ہے۔
کرشن چندر کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ اس نے طنزیہ مضامین کے چھوٹے چھوٹے پیمانوں سے ساقی گری پر اکتفا نہ کرتے ہو ئے ایک گدھے کی سرگزشت، ایک گدھے کی واپسی اور،ایک گدھا نیفا میں جیسی خالص ظریفانہ تصانیف کے ذریعے اردو ظرافت کو ایک بڑا کینواس مہیا کردیا جس میں اس عہد کے بھارت کی وہ تصویر ابھر ی جس میں خواب و حقیقت ،شوخی و شرارت ،سنجیدگی و قطیعت اور مبالغہ جیسے متضاد عناصر باہم دست و گریباںہیں۔ان مزاحیہ ناولوںکے علاوہ کرشن چندر نے بچو ںکے لئے لکھے گئے ناول الٹا درخت اور چڑیوںکی الف لیلیٰ نیز اپنے مشہور ڈرامے دروازے کھول دو اور دیگر ڈراموںمیں بھی مزاح کا بھرپور اظہار کیا ہے ۔کرشن چندر دیگر ترقی پسند مزاح نگاروںسے یوںبھی مختلف ہے کہ اس کے ہاںطنز سے زیادہ مزاح کی فراوانی ہے ،محض تضادات کی دریافت سے مزاح پیدا کرنے کے بجائے ،کرشن چندر مضحکہ خیز صورتِحال کے انکشاف کو مزاح کی بنیاد بناتا ہے ۔
اس سلسلے میں ڈاکٹر صفدررقمطراز ہیں:
کرشن چندر سطحی تضادات کے بیان سے مزاح پیدا کر نے کی کو شش نہیںکر تے جو ہم رات دن مشاہدہ کر تے ہیں بلکہ جو باتیںبظاہر مضحک نہیں معلوم ہو تیں ،ان کے گرد ایسی فضا خلق کر تے ہیں جن میں ان باتوں کا مضحک پہلو روشن ہو جا تاہے ۔یہ تخلیقی رویہ اردو طنزو مزاح نگاروں میں ناپید نہیں تو کمیاب ضرور ہے ۔مثلاً وٹامن غذا کا ایک اہم جزو ہے مگر غذا کے ایسے حصوںمیں پا ئے جاتے ہیں جو مصنف کے لئے پر کشش نہیں چنانچہ لکھتے ہیں ۔
وٹامن سیب کے گودے میں نہیں سیب کے چھلکے میں ہو تا ہے ۔ناشپاتی کے خول میں ہو تا ہے ۔سنگترے کے ریشوں میں ہو تاہے ۔آم کے روئیں میں ہو تا ہے ۔ڈاکٹر لوگ اصرار کر تے ہیں کہ روٹی پکاتے وقت گیہوںکے آٹے سے بھوسی کو الگ نہیں کر نی چاہئے ۔۔۔۔چنانچہ میں اپنے مہمانوں کو جواکثر وٹامن کے عاشق ہو تے ہیں بڑی آئو بھگت کر تا ہوں ،خود سیب کا گودا کھاتا ہوں انھیںچھلکے کھانے کو دیتا ہوں۔خود چاول کھاتا ہوں ،ان کے لئے بھوسے کی روٹی میز پر رکھتا ہوں ،( وٹامن)۔
کرشن چندر کی تخلیقات انسانی دوستی ،سماجی شعور اور ترقّی پسندتحریک کے معتقدات کی عکاسی کے علاوہ اپنے منفرد اسٹائل شگفتگی ،لطافت اور شاعرانہ نثر کے سبب بھی پہچانی جاتی ہیں۔ کرشن چندر کے ہاں تخیل عقلیت پسندی ، رومانیت اور عصری زندگی کے حقائق کا شعور جیسے متضاد عناصر نے مل کر اظہار کی سطح پر لطیف اور شاعرانہ نثر کا منفرد اسلوب پیدا کیا ۔ اس کے طرزِتحریر کی اسی خصوصیت کے متعلق ڈاکٹر گیان چند لکھتے ہیں ۔
اگر شعری نثر کی کو ئی صنف مانی جائے تو کرشن چندر کی نثر اس کا سب سے خوش آ ئند نمونہ ہوگی ۔مقصدیت کے ساتھ ادب ِلطیف کی شعریت کو سمودینا کرشن چندر ہی کا کارنامہ تھا۔
ڈاکٹر گیان چند کی یہ رائے کرشن چندر کی ابتدائی طنزیہ و مزاحیہ تحریروں پر تو صادق آتی ہے خصوصاً کرشن چندر کے مضامین کا مجموعہ ہوائی قلعے جو 1940میں شائع ہوا تھا ۔ ادبِ لطیف کی شعریت اور انشائی ادب کے کامیاب نمونے پیش کر تاہے لیکن اس کے بعد جوں جوںاس کی تحریروں میں مقصدیت بڑھتی گئی لطافت کا یہ عنصر کم ہو تا گیا۔ مخصوص زاویہ نگاہ کے اثر ،عصری زندگیوں کی ناہمواریوںاور سرمایہ داری کی قباحتوںکو بے نقاب کر نے کے مشن نے کرشن چندر کے ہاتھوں میں طنز کا نشتر تھما دیا۔
اگر کو ئی مجھے یہ بتادے کہ وہ دن کے کتنے بجے نہاتا ہے تو میںوثوق سے بتا سکتا ہوںکہ مکمل تہذیب یافتہ ہو نے کے لئے اسے ابھی کتنے مدارج اور طے کر نے ہیں ۔مثال کے طور پر صبح چار بجے کون نہاتا ہے ؟
پوربیا،بنیا،میونسپلٹی کی سڑکوںپر پانی چھڑکنے والا مہتر ۔
صبح چھے بجے ۔۔ڈاکیہ ،دفتر کا بابو،پولس کا سپاہی ۔
آ ٹھ بجے ۔۔پروفیسر،کالج کا لڑکا۔
دس بجے۔۔صاحب بہادر ،لیڈر،
بارہ بجے۔۔منسٹر،مجسٹریٹ،رئیسِ اعظم ۔
اس طرح جوں جوںآپ مدارج طر کرتے جائیں گے آ پ دیکھیں گے کہ نہانے میںوقت کم صرف ہو رہا ہے ۔
طنز کے بے رحم آلہ کو کرشن چندر نے ایک گدھے کی سرگزشت اور اسی سلسلے کی تخلیقات میں کامیابی کے ساتھ آ زمایا ۔ہوائی قلعے کی لطافت گھٹتی گئی ۔یہ لطافت انشائیہ کی بنیادی خصوصیت ہے ، اسی لئے سلیم اختر نہ صرف کرشن چند ر بلکہ دیگر ترقی پسند ظرافت نگاروں کو بھی انشائیہ نگار ماننے سے انکار کر تے ہیں،لکھتے ہیں:
ترقی پسند ادیبوں نے جہاں طنز کو بے حد ترقی دی اور کرشن چندر ،سعادت حسن منٹو ،کنہیا لال کپور اور ان کے بعد ابراہیم جلیس وغیرہ کی صورت میں صاحبِ طرز طنز نگار پید اکئے وہاں ایک بھی کام کا انشائیہ نگار نہیں ملتا ۔یہی نہیں بلکہ غیر ترقی پسند ادیبوں جیسے پطرس ،رشید احمد صدیقی ،عظیم بیگ چغتائی ،شوکت تھانوی ،چراغ حسن حسرت ،عبدالعزیز فلک پیما ،حاجی لق لق کے ہاں بھی مزاح اور مزاح تو ہے مگر وہ تحریر نہیں جسے خالص انشائیہ کہا جا تا ہے ۔
یہ سچ ہے کہ اردو میںانشائیہ نگاری کی جو تحریک ابھری جس کے تحت ڈاکٹر وزیر آغا کی رہنمائی میںمخصوصانداز کی تحریریں منظرِ عام پر آئیں۔اس سلسلے میں ممتاز مفتی کے مضامین کا مجموعہ غبارے اوروزیر آغا کے انشائیوں کا مجموعہ خیال پارے کواس صنف کی نمائندگی کا شرف حاصل ہے ۔
کرشن چندر نے اس انداز کے انشائیے نہیں لکھے لیکن ہمارے ہاں جن خصوصات کی بنا پر کسی تحریرکو انشائیہ قرار دینے کا رواج عام ہے وہ خوبیاںہو ائی قلعے میںموجود ہیں۔
اے جگدیش ودھان نے اپنی کتاب میں ہوائی قلعے کو انشائی نما مضامین کا مجموعہ قرار دیا ہے ۔
اس سلسلے میںبشیر سیفی لکھتے ہیں:
۔ہوائی قلعے ان کا پہلا انشائیہ ہے جو رسالہ ہمایوںمیں شائع ہوا۔
۔بدصورتی ،رونا،آنکھیں،ہوئی قلعے،ایسے مضامین ہیںجنھیںانشائیہ کہنے میں تامل نہیںہو نا چاہئے ،غلط فہمی ،گانا،جان پہچان،باون ہاتھی ،میں بھی انشائیہ کی خوبیاں موجودہیں۔ان مضامین میںمزاح کے ساتھ موضوع کو نئے زاویے سے دیکھنے کی کوشش کی گئی ہے اور یہی چیز ان مضامین کو مزاحیہ مضامین کے دائرے سے نکال کر انشائیہ کی سر حد میں لے جا تی ہے ۔
کرشن چندر کے ہاںانشائیے کے نام پر فقط اسلوب کی چاشنی ہی نہیں ہے بلکہ وہ بنیادی عناصر بھی موجود ہیں جن کا تعلق فکر و فن سے ہے اور ان ہی سے انشائیہ کا اندرونی تار و پود تشکیل پا تاہے ۔ ان عناصر سے مراد آزادیِ فکر ،تنوع ،تخیل آفرینی اور ندرتِ خیال ہے ۔ کرشن چندر کی تحریریں عام طور پر رومانی فضامیں سانس لیتی ہے ۔ خیالات کی پھسلتی ہو ئی ردا متنو ع عناصر سے دل کش تصویریں ابھارتی ہے ۔ ایک لڑکی بگھارتی ہے دال میں لکھتے ہیں ۔
پہلی بار جب اس دال کی کٹوری میری تھالی میں آئی تو میں نے آ ہستہ سے چمچہ ڈال کر ٹٹولا کچھ پتہ نہ چلا کون سی دال ہے پھر انگلی پھیر کر معلوم کر نے کی کوشش کی ناکام رہا۔ناچار نیکر پہن کر کٹوری میں اتر گیا گھنٹہ بھر کی ناکام شناوری کے بعد پیندے میںکہیں سے دال کا ایک دانہ ملا۔اس دال میں دانہ کم ہو تاہے پانی زیادہ ۔
آ ب ودانہ کی ترکیب غالباً اسی گجراتی دال نے سجھائی ہے ۔ پھر وہ جملہ بھی یاد آ یا کہ دانے دانے پر لکھاہے کھانے والے کا نام ۔غالباً ایسی ہر کٹوری پر دال کا ایک دانہ ڈال دیا جاتاہے اور ڈالنے سے پہلے اس پر مہمان کا نام چھاپ دیا جاتا ہے یا چپکا دیا جاتاہے۔
تس پر میں نے صبر کیااور کٹوری اٹھا کر دال کا سارا پانی پی لیااور پینے کے بعد خدا کا شکر ادا کیاکہ اپنے حصّے میں یہی دانہ پانی مقسوم تھا۔
جس مضمون سے یہ اقتباس ماخوذہے وہ کرشن چندر کی آ خری تحریر ہے ۔
ہوائی قلعے میں وارداتِ قلبی بڑے لطیف پیرائے میں بیان ہو ئی ہے ۔ میں کا صیغہ ان مضامین میںمشاہدات و تجربات سے حیرت انگیز نتائج اخذکر کے مسرت بہم پہنچاتا ہے بعد میں جب کرشن چندر کے اندر کمٹمنٹ کی روح داخل ہوئی انشائیہ زوال پذیر ہو گیا اور میں کی زبانی آپ بیتی کے بجائے جگ بیتی نشر ہونے لگی اس کا ذریعہ اظہار سماجی طنز تھا۔انشائیہ کی داخلی کیفیت کو مخصوص زاویہ نگاہ اور مقصدیت نے نیست و نابود کر دینے کی حد تک نقصان پہنچایا تاہم کرشن چندر کی تحریریںاپنی طبعی خصوصیات کے سبب بعض انشائی عناصر کو آ خر تک نبھاتی رہیں۔
وائی قلعے میں شامل ایک مضمون غسلیات کا ایک اقتباس درج ذیل ہے ۔
بہت سے بچوں کا نفسی تجزیہ کر نے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچاہوںکہ نہانے کی رسم پتھر کے زمانہ بلکہ اس سے بھی بہت پہلے زمانہ کی یاد گار ہے جب کہ اس کرہ ارض پر صرف پانی ہی پانی تھا۔آہستہ آ ہستہ اس پانی میںمچھلیاں،مینڈک ،گھڑیال اور مگر مچھ پیداہوئے اور تخلیقِ حیات کے مختلف منازل طے کر تے ہوئے مختلف انواع ارتقائی درجوںکے بعد انسان کی موجودہ صورت کو پہنچے ،چنانچہ آ ج بھی بیسویں صدی کا بچّہ جب ٹب میںپڑے پڑے چلا اٹھتا ہے تو یقیناً پانی کے ٹھنڈے ہو نے کی شکایت نہیں کر تا بلکہ اس آبی زمانہ کے وحشی رسم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتا ہے جس کے نام سے ڈارون کانام ہمیشہ کے لیے وابستہ ہے ۔
۰رابطہ9579591149:

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here