حافظ بلال شاہد
علم ایک ایسی چیز ہے جو انسان کو مہذب بناتا ہے اسے اچھے اور برے میں فرق سکھاتاہے۔علم اور معلومات میں وہی فرق ہے جو information اور knowledge میں ہے۔کوئی بھی مشہور عظیم شخص کب پیدا ہوا، کہاں پیدا ہوا، اس کی قوم نسل رنگ وغیرہ کیا ہے، اس کی ابتدائی زندگی کہاں گزری اس نے کہاں سے تعلیم حاصل کی۔ یہ سب باتیں اس کے بارے میں معلومات تو فراہم کرسکتی ہیں لیکن اس کی ذات و شخصیت اور اعلیٰ مقام حاصل کرنے میں اس کی کامیابی کے بارے میں جاننے کے لئے علم کی مدد درکار ہوگی۔ اسی طرح کسی بھی شے مثلًا راکٹ کے بارے میں یہ معلوم ہونا کہ اس کی ایک مخصوص شکل و ہیئت ہوتی ہے اور وہ خلا میں جاتا ہے محض معلومات ہیں۔ راکٹ کن سائنسی اصولوں کے تحت بنایا جاتا ہے اور کیسے آسمان کی طرف پرواز کرتا ہے یہ علم سے ہی جانا جاسکتا ہے۔ علم ایک ایسا خزانہ ہے جس کی چوری کا کوئی خوف نہیں ہوتا اور استعمال سے کم بھی نہیں ہوتا۔ حضور اکرم نے ارشاد فرمایا:
مہد سے لہد تک کی علم کی تلاش میں لگے رہو۔
ایک اور جگہ ارشاد فرماتے ہیں کہ:
علم حاصل کرو خواہ اس کے لئے تمہیں چین ہی کیوں نہ جانا پڑے۔
حقیقتاً علم ایک ایسی قوت ہے جو دنیا کی تمام تر قوتوں سے افضل ہے اور جس کے زوال کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ قدرت کے سربستہ رازوں کا انکشاف علم ہی کی بدولت ہوا۔ علم کی وجہ سے دنیا کی تمام وسعتیں آج کے انسان کے سامنے سمٹ گئیں ہیں۔ دوریاں قربتوں میں بدل گئی ہیں، انسان ہوا پر قابو پاچکا ہے۔ فضا میں پرواز کرسکتا ہے۔ آج کا انسان خلاءکی وسعتوں پر حاوی ہے، چاند پر اپنی فتح کا جھنڈا گاڑھ چکا ہے، علم ہی کی بدولت وہ مظاہرِ قدرت جنہیں وہ پوجتا تھا۔ آج اس کی خاکِ راہ ہیں، علم ہی کا کرشمہ ہے کہ جس پر عمل کرکے آج ہم گھر بیٹھے دیگر ممالک کے حالات سنتے اور دیکھتے ہیں اور مزید معلومات حاصل کررہے ہیں۔
یہ علم کا فیض ہے کہ انسان کا نام مرنے کے بعد بھی روشن رہتا ہے۔ ہمارے اور دیگر اقوام کے عظیم قائدین نے علم کے ذریعے ہی قوم کی سچی اور پرخلوص خدمت کی ہے اور آج بھی ان کے نام زندہ و جاوید ہے۔ بزرگانِ دین بھی علم کی شمع سے لوگوں کو سیدھی ار سچی راہ دکھاتے رہے۔ علم کی بدولت ایجادات اور انکشافات کا ایک لامتناہی سلسلہ وجود میں آیا ہے جس کا دوسرا کنارہ نظر سے دور اور بعید از قیاس ہے۔ دنیا کی تمام تر ترقی علم پر منحصر ہے۔ علم ہی دراصل ایک انسان کو انسانی صلاحیتوں سے نوازتا ہے۔ جس کی بدولت انسان نیکی اور بدی میں تمیز کرسکتا ہے۔ علم ہی وہ ذریعہ ہے جس کی بدولت انسان دوسرے انسانوں پر سبقت لے جاتا ہے۔ ایک زمانہ تھا جب انسان بجلی کی گرج سے ڈرتا تھا اور آج وہی انسان اس پر قابو پاچکا ہے۔ اسے اپنے قبضے میں کر چکا ہے۔ بجلی کو کئی اہم کاموں میں استعمال کیا جارہا ہے۔ علم کی بدولت انسان نے اطپنے لئے تفریح طبع کی سہولتیں بھی پیدا کرلیں ہیں۔ علم ایسا نور ہے جس سے جہالت اور گمراہی کی تاریکیاں دورہوجاتی ہیں۔ علم کی بدولت انسان کی چشمِ بصیرت روشن ہوجاتی ہے جس کی بدولت اس میں نیکی و بدی اور حق باطل کا شعور پیدا ہوتا ہے۔ علم ایسا بیش بہا جوہر۔ علم سے انسان کے اطوار شائستہ اور اخلاق پاکیزہ بن جاتے ہیں۔ وہ دل و دماغ کو جہالت کے گہرے اندھیروں اور گہرائیوں سے نکال کر اس مقام تک پہنچا دیتا ہے۔ جہاں حسد و بغض، دشمنی اور لالچ کا گزر نہیں ہوتا۔ بلکہ انسان کو نیکی، خلوص، فیاضی اور دوستی جیسی عظیم صفات عطا کرتا ہے۔
دنیا کی یہ تمام تر ترقی علم ہی کی بدولت ہے علم کی بدولت ہی آج کا انسان خلاءکو مسخر کررہا ہے۔ علم انسان کو جرات، ہمت، استقلال، تدبر و بردباری اور ہر قسم کی عقدہ کشائی کی صلاحیت بخشتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسان نے دنیا کا چپہ چپہ چھان مارا، قطبِ شمالی سے لیکر قطب جنوبی تک زمین کو رندتا چلا گیا۔ علم ہی انسان کو باعزت، باوقار اور عظیم تر بناتا ہے اسی کی بدولت انسان اپنی اور دوسروں کی خدمت کرتا ہے۔ اب تک جتنے بھی بڑے آدمی گزرے ہیں وہ علم ہی کی بدولت ہی کمالِ عروج پر پہنچے، بڑے بڑے مراتب حاصل کئے۔ غرض سقراط ہو یا بقراط، بوعلی سینا ہوں یا فردوسی آج بھی ان کا نام عزت و احترام کے ساتھ لیا جاتا ہے۔ کیونکہ یہ حضرات علم کے سمندر کے مانند تھے اور ایسی دولت کے مالک تھے جسے ہر کوئی حاصل کرنا چاہتا ہے تھا لیکن محنت اور کاوش کے بغیر اس کا حصول ناممکن تھا اور آج بھی ناممکن ہے اس لئے کہ:
جس طرح سورج کی کرنیں رات کے اندھیرے کو پھاڑ کر دنیا کو روشن کرتی ہیں اسی طرح علم کا سمندر لاعلم لوگوں کو علم دیتا ہے- اس دنیا میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو لوگوں کی رہنمائی کرتے ہیں -صحیح راستے کی تلاش میں ان کی مدد کرتے ہیں ۔
لیکن بڑے افسوس کی بات ہے کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو علم حاصل کرنے میں شرم محسوس کرتے ہے کہ لوگ کیا کہیں گے اتنی عمر میں علم حاصل کرنا لیکن یہ سوچ بالکل غلط ہے علم کسی عمر کی محتاج نہیں ہوتی۔اگر انسان ٹھان لے اور اپنے رب کی رضا کے لئے محنت کرے تو اس کے لئے سارے راستے آسان ہو جاتے ہیں ایسا ہی ایک معاملہ کرناٹکا کے ایک بھٹکر شہر کی رہنے والی ایک ضعیف عورت جن کی عمر 63 سال ہے جنہوں 63 سال کی عمر میں 3 سال میں قرآن مجید کو حفظ کیا۔اس قرآن کو حفظ کرنے کے دوران سب سے اہم بات یہ رہی کہ جب انہوں قرآن کو حفظ کرنا شروع کیا تو ان کے شوہر کا انتقال ہوگیا لیکن پھر بھی ان کا قرآن کے لئے جذبہ کم نہیں ہوا ۔ہم سب کو معلوم ہے کہ دنیا کی جتنی مذہبی کتابیں ہیں ان میں سے سب سے اہم کتاب قرآن مجید ہے ۔ اگر یہ ضعیف عورت یہ سوچتی کہ لوگ کیا کہیں گے تو آج یہ خاتون اس مقام پر نہیں پہنچتی۔اور ہمارا کیا سوچ ہے( Thinking ) کہ لوگ کیا کہیں گے۔ایک چھوٹی سی کوشش میری طرف سے کہ جو بھی شخص چاہے وہ نوجوان ہو، یا ضعیف ہو اگر قرآن مجید کو پڑھنا چاہتے تو آپ ہمارے سینٹر پر آ سکتے ہیں جو کہFree Cost ہے۔