کیفی اعظمی:احتجاج ومزاحمت کی ایک توانا آواز

0
390

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔


ڈاکٹر نفیس بانو

احتجاجی ومزاحمتی آوازوں میں کیفی اعظمی کی آواز اردو شاعری میں ایک تواناآواز ہے۔ کیفی آعظمی ترقی پسند رجحانات سے پوری طرح وابستہ تھے۔ انھوں نے مزدوروں ،کسانوں ،غریبوں ،بیکسوں کے دکھ درد کو محسوس کیا۔قوم کے گلے میں پڑی ہوئی طوقِ غلامی کو اتار پھینکنے کی تدبیریں سوچیں ۔جاگیردارانہ عصبیت کی سر کوبی کا بیڑا اٹھایا اور صدائے احتجاج بلند کی ۔ ان کی شخصیت میں احتجاج کا بیج بچپن سے ہی پڑ گیا تھا۔ ظلم وجبر ،حق و باطل اور خیر وشر کے تصادم کی دنیا انھیں ان مرثیوں میں نظر آئی جسے وہ گھر کی مجلسوں میں سنتے آئے تھے ۔
سجاد ظہیر ،سردار جعفری اور دیگر ترقی پسند شخصیتوں کی فیضِ صحبت نے ان کے انقلابی اور احتجاجی مزاج پر سونے پہ سہاگے کا کام کیا ۔کیفی اعظمی نے وقت کے تقاضے کو مدِ نظر رکھتے ہوئے افادی و مقصدی شاعری کو ترجیح دی۔ شعری اظہار کے لیے نظم کو ہی وسیلہ بنایا انھوں نے ابتدا غزل سے کی تھی ۔ وہ غزل کے مزاج و آہنگ اوراس کی کلاسیکی روایت سے اچھی طرح واقف تھے ۔کیفی پوری طرح ترقی پسند تحریک سے وابستہ رہے ۔ اسی وابستگی کی وجہ سے انھوں نے اپنے پہلے مجموعہ ’’ جھنکار‘‘میں غزلیں شامل نہ کیں۔یہ کسی پازیب کی جھنکار نہ تھی بلکہ زنجیر کی جھنکار تھی ۔۱۹۴۴؁ء میں منظرِ عام پر آنے والے اس مجموعے کو ترقی پسند تحریک کے قافلہ سالار سید سجاد ظہیر نے اردو شاعری میں ’سرخ پھول ‘کھلنے سے تعبیر کیا تھا۔اس پھول کی مہک مزدوروں و کسانوں کے جھونپڑوں میں پہنچ رہی تھی ۔’جھنکار‘ کی پہلی نظم ’’ ماحول‘‘ میں کیفی کہتے ہیں :
مرے مطرب نہ دے للہ مجھ کو دعوتِ نغمہ
کہیں سازِ غلامی پر غزل بھی گائی جاتی ہے
اور جب کبھی ان کے شعری ساز نے غزل چھیڑی تو اس قسم کی آواز آتی ہے:
وہ میرا گاؤں ہے وہ میرے گاؤں کے چولھے
کہ اس میں شعلے تو شعلے دھواں نہیں ملتا
۔۔۔۔۔
پیڑ کے کاٹنے والوں کو یہ معلوم نہ تھا
جسم جل جائیں گے جب سر پہ نہ سایہ ہوگا
کیفی اعظمی بمبئی کی سیاسی تحریک اور کانپور کی مزدور تحریک سے وابستہ رہے ۔ان کی شاعری میں انسان دوستی اور قومی یکجہتی کی واضح گونج ہے۔’ ان کی زبان فرقہ پرستی کے خلاف نعرہ ٔ احتجاج بلند کرتے نہیں تھکتی ۔ احتجاج ،انقلاب اور بغاوت کے رنگ میں شرابور نظموں میں حقیقتیں’گمراہ ولی عہد ‘ اور بھی دیگر ہیں ۔ہنگامی قسم کی ایک نظم ’موجودہ جنگ اور ترقی پسند عناصر ‘ہے۔کیفی کے یہاں ایسی نظموں کی بھی کمی نہیں جن میں موضوع سیاسی و انقلابی ہے، لہجہ احتجاجی ہے لیکن طرزِ اظہار با لواسطہ ہے۔ موضوع کی سنجیدگی ،گہرائی اور تہہ داری کے ساتھ فکر کی تازگی بھی ہے اورطرزِ ادا کا حسن بھی ہے ۔۱۹۴۴؁ء میں لکھی ہوئی ایک نظم ’خاکے‘ ہے ۔اس نظم کے نیچے وضاحت کر دی گئی ہے کہ یہ نظم گاندھی اور جناح کی ملاقات کے موقع پر لکھی گئی ہے ۔اگر یہ وضاحت نہ کی جاتی تو اس کی معنوی جہات کچھ اور ہوتی ۔ اس نظم کا پہلا مصرع اس طرح
ہے:
ع ’نقوشِ حسرت مٹا کے اٹھنا ،خوشی کا پرچم اُڑا کے اٹھنا ‘
چار اشعار کے بعد ایک مصرع اس طرح آتا ہے :
ع ’سجا لیں سب اپنی اپنی جنت اب ایسے خاکے بنا کے اٹھنا ‘
تین اشعار کے بعد ٹیپ کا مصرع اس طرح ہے:
ع اس انتشارِ چمن کی سو گند بابِ زنداں ہلا کے اٹھنا
پوری نظم میں وقتی ہنگامیت اور خوامخواہ کی چیخ پکار نہیں ہے، نہ برہنہ گفتاری سے کام لیا گیا ہے ،نہ تو سپاٹ لب ولہجہ ہے ۔البتہ آخر کے پھر تین شعر کے آخری ایک مصرع میں موقع کی مناسبت اور حالات کے تقاضے کے تحت سپاٹ لہجہ میں شاعر کہتا ہے کہ ہند اور ہندی کب تک غلام رہیں گے اس کے بعد کے مصرع پر نظم ختم ہو جاتی ہے:
ع ’گلے کا طوق آرہے قدم پر کچھ اس طرح تلملا کے اٹھنا ‘
کیفی کے کشکولِ سخن میں وہ ادب بھی ہے ،جو مستقبل کی صدیوں کے لیے ہے اور وہ ادب بھی جو صرف ایک لمحے کے لیے ہے۔ مجموعہ ’’آوارہ سجدے ‘‘ میں شامل اپنی مشہور نظم ’’ مکان‘‘ انھوں نے مزدوروں کی جھونپڑیوں میں جا کر اور وہیں بیٹھ کر لکھی تھی :
آج کی رات نہ فٹ پاتھ پہ نیند آئے گی
تم بھی اٹھو ،تم بھی اٹھو میں بھی اٹھوں
کوئی کھڑکی اسی دیوار میں کھل جائے گی
ہنگامی موضوع پر مبنی ان کی ایک نظم ’’تلنگانہ‘‘ ہے ۔ان کی بہت سی نظموں کی طرح اس کا انقلابی اور احتجاجی تیور دل کو چھوتا ہے اور ذہن کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتا ہے:
ذرا پکاردو بے چین نو جوانوں کو
ذرا جھنجھوڑدو کچلے ہوئے کسانوں کو
ادھر سے قافلۂ انقلاب گزرے گا
بچھا دو سینۂ گیتی پہ آسمانوں کو
اختر حسین رائے پوری اپنی کتاب ’ادب اور انقلاب ‘ میں لکھتے ہیں :
’’ادیب اپنا سماجی فرض اس وقت تک ادا نہیں کر سکتا جب تک اس طبقے کا ہم نوا اور ہم گوش نہ ہو جائے ‘‘
بلا شبہ کیفی کی احتجاجی سیاسی اور انقلابی نظمیں زبانِ حال سے کہتی ہیں کہ انھوں نے اپنا سماجی فرض پوری دیانت داری سے ادا کیا ہے ۔کیفی نے اپنی نظموں میں شبلی، اقبال ،اسمٰعیل میرٹھی ،حالی ،اکبر اور مولانا ظفر علی خاں کے طرز سے بھی فیض اٹھایا ۔ہنگامی موضوعات پر نظمیں لکھنا وقت کا جبر تھا ۔سیدھا اور سپاٹ لہجہ ،اکہرا مضمون ،بیانیہ وخطابیہ اندازِ بیان دیر پا تاثیر نہیں رکھتے ۔اسی لہجے نے سردار جعفری کو بدنام کیا ۔خود ترقی پسند تحریک تعریض وتنقیص کا نشانہ بنی ،مگر یہ کیا کم ہے کہ ہنگامی موضوعات پر لکھی ہوئی تخلیقات نے اپنے عہد کو متاثر کیا ،وقت کے تقاضے کو پورا کیا ۔
کیفی کے دوسرے مجموعہ’’آخرِ شب‘‘(اشاعت ۱۹۴۸ء)میں فرقہ واریت کے خلا ف ایک مثنوی ’’ خانہ جنگی‘‘ ہے ۔اس مثنوی میںوطنِ عزیز سے محبت کا جذبہ ہے ،سیاسی و سماجی صورتِ حال کی نمایاں جھلک ہے ۔ اپنے مخصوص مزاج وتیور کے اعتبار سے یہ مثنوی اہم ہے ۔فرقہ وارانہ سوچ کے خلاف ہمیشہ آواز بلند کر نے والا شاعر ۶/دسمبر ۱۹۹۲؁ء کو بابری مسجد کی شہادت پر تڑپ اٹھتا ہے فرقہ پرستی کے درد سے بھری ہوئی ان کی نظم ’رام کادوسرابنواس‘وجود میںآتی ہے ۔نظم کے چند ٹکڑے اس طرح ہیں:
’’رام یہ کہتے ہوئے اپنے دوارے سے اٹھے
راجدھانی کی فضا آئی نہ راس مجھے
چھ دسمبر کو ملا دوسرا بنواس مجھے‘‘
کیفی کے یہاں گہرا سماجی اور سیاسی شعور ہے۔ادب اور سیاست کا رشتہ ان کے یہاں مضبوط ہے ۔اختر انصاری نے ایک جگہ لکھا ہے:
’’جب عوام میں سماجی احساس بڑھا اور سیاسی شعور پیدا ہوا اور خود سیاسی مسائل زیادہ اہم اور وزنی ہوگئے تو ادب اور سیاست کا تعلق بھی گہرا اور جان دار ہو گیا ۔ آج کا ادیب اس بات کو اچھی طرح سمجھتا ہے کہ اس کا ادب سیاست کے تقاضوں کو کسی طرح نظر انداز نہیں کر سکتا ۔وہ اس پر مجبور ہے کہ اپنے ادب میں سیاسی حقائق کے لیے جگہ پیدا کرے ۔ یہی نہیں وہ یہ بھی ضروری سمجھتا ہے کہ سیاست اور اس کے ادب کا یہ باہمی تعلق محض شعوری اور دانستہ کوشش کا نتیجہ ہو‘‘۔
اختر انصاری کے اس اقتباس کی روشنی میں کیفی کی ان نظموں کو دیکھنے پر اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے یہاں ادب اور سیاست میں خوبصورت تال میل ہے ،ان دونوں کا’ تعلق بھی گہرا اور جاندار ‘ ہے۔ انھوں نے زندگی کے جلتے اورچبھتے ہوئے خارجی عناصرکورعنائیِ خیال اور احساسِ جمال کی شاعری پر ترجیح دی ۔ احتجاج و مزاحمت کی آواز کو بلند کیا۔
کیفیات و جذبات سے بھر پور،تغزل کی چاشنی کے ساتھ ان کے پہلے مجموعہ جھنکار کی نظموں میںعورت ،رقاصِ ِشرارہ،پہلا سلام،گلدستہ وغیرہ اہمیت کی حامل نظمیں ہیں۔مجموعہ ’آخرِ شب‘ ( ۱۹۴۷)کی نظم نیا حسن، ایک بوسہ،نذرانہ،اجنبی،جیسی نظمیں اپنے اندرشعریت و کیفیت کا حسن رکھتی ہیں ۔ان کی مشہور اور اہم نظم’ عورت‘ رومان اور احتجاج کا رنگ لیے ہوئے ہے :
ع ’اُٹھ مری جان مرے ساتھ ہی چلنا ہے تجھے‘
جب سماجی اور سیاسی شعورکی کرب ناکیاں زندگی کے لطیف احساسات و کیفیات پر حاوی ہو جاتی ہیں تو ’’گلدستہ ‘‘جیسی بہت سی نظمیں عالمِ وجود میں آ جاتی ہیں۔نظم ’گلدستہ‘ کے درج ذیل اشعار اسی نوعیت کے ہیں:
افلاس گزیدہ شاعر یہ رنگین مشاغل کیا جانے
الفت کے گلابی پھندوں کو پابندِ سلاسل کیا جانے
کس طرح سجاتے ہیں گھر کواک اجڑا ہوا دل کیا جانے
یہ رنگ یہ نکہت کی چہلیں اک شعلوں کا حامل کیا جانے
سم ریز ہواؤں کا جھونکا جس وقت کھنڈر میں آئے گا
اے روحِ چمن یہ گلدستہ افسوس کہ مرجھا جائے گا
چند مخصوص ہنگامی اور وقت کے جبر کے تحت کہی ہوئی نظموں کے حوالے سے کیفی اعظمی کی شاعری کا محاکمہ کرنا ان کے ساتھ زیادتی ہوگی ۔کیفی عملِ پیہم اور جہدِ مسلسل کے شاعر ہیں طبقاتی ناہمواری، معاشی بحران،فرقہ پرستی، غریبی اور عورت کی مظلومیت کے خلاف ساری زندگی احتجاج و مزاحمت کی آواز بلند کرتے رہے یہی ان کا مشن تھا۔ یقیناً وہ اپنے مشن میں کامیاب رہے۔
ان کی شاعری وطن پرستی اور وطن دوستی کے جذبے سے سر شار ہے ۔ان کی نظم’ہم‘کا ایک شعر ہے:
اک اک نفس میں بوئے وطن ہے بسی ہوئی
نبضِ وطن میں خون کی صورت رواں ہیں ہم
( اپنی کتاب’ ’ترقی پسند شعری و فکری رویے ‘‘کے ایک طویل مضمون سے ماخوذ )
(بنارس ہندو یونیورسٹی) موبائل: 6390850063
سابق صدر شعبہٗ اردو وسنت کالج ،وارانسی۔

 

 

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here