9807694588
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مند
راج محمد آفریدی (پشاور پاکستان)
جو مقام اردو ادب کے مردانہ ادیبوں میں سعادت حسن منٹو کو ملا ہے ،وہی مقام خواتین ادبا میں عصمت چغتائی کو نصیب ہوا ہے۔ عصمت چغتائی نے افسانہ نگاری، ناول نگاری،ناولٹ نگاری،انشا پردازی،خاکہ نگاری، رپورتاژ نگاری اور ڈراما نگاری میں خوب نام کمایا۔
جو مقام اردو ادب کے مردانہ ادیبوں میں سعادت حسن منٹو کو ملا ہے ،وہی مقام خواتین ادبا میں عصمت چغتائی کو نصیب ہوا ہے۔ عصمت چغتائی نے افسانہ نگاری، ناول نگاری،ناولٹ نگاری،انشا پردازی،خاکہ نگاری، رپورتاژ نگاری اور ڈراما نگاری میں خوب نام کمایا۔
عصمت چغتائی نے اس دور میں عورت لکھاریوں کو پہچان دی جب خواتین اپنے جذبات ،احساسات و نفسیاتی عوامل کی پیش کش کے لیے مردانہ عینک استعمال کرتی تھیں۔معاشرہ نسوانی تخلیق کاروں کے لیے لکیر کھینچتا کہ اس سے آگے نہیں بڑھنا مگر باغی چغتائی اس دائرے سے نکل کر مردوں کی حدود کو بھی عبور کر گئی۔انہوں نے معاشرے کی ایسی سچی تصویر کھینچی کہ سیدھا منٹو کے ساتھ کٹہرے میں کھڑی ہوگئی۔
لفنگا،جوانی،لحاف،جانی دشمن، بھول بھلیاں،ننھی کی نانی، چوتھی کا جوڑا،کیسی بیوی کیسا شوہر، پہلی لڑکی،یار،دل کی دنیا ، ضدی، ٹیڑھی لکیرجیسی تخلیقات کی مالکن نے اردو ڈراما نگاری پر بھی بھرپور توجہ دی ہے جسے ان کی افسانہ و ناول نگاری نے دبا کے رکھ دیا ہے۔
عصمت چغتائی نے برنارڈ شا سے متاثر ہوکر ڈراما نگاری کا آغاز کیا۔ان کے ڈراموں میں افسانوی رنگ نمایاں ہے۔جو موضوعات ان کے افسانوں اور ناولوں میں زیر بحث آئے تھے،تقریباً وہی ان کے ڈراموں میں بھی پیش ہوئے۔اسی یکسانیت اور افسانوی تکنیک کے سبب ان کا نام ڈراما نگاری میںاہمیت کا حامل نہیں۔
عصمت چغتائی نے ڈراما نگاری کے میدان میں ناکامی کو نظر انداز کرکے متعدد ڈرامے لکھے اور اردو ڈراما کو بے باک اور نازک عنوانات پیش کرنے کے قابل بنایا۔عصمت کے ڈرامے ان کے افسانوی مجموعوں میں شائع ہوچکے ہیں۔افسانوی مجموعہ’’ چوٹیں‘‘ میں ’’عورت اور مرد ‘ ‘کے عنوان سے ڈراما چھپ چکا ہے۔’’دوزخ‘‘میں اسی عنوان سے ڈراما شامل ہے۔اسی طرح ’’کلیاں‘‘ میں تین ڈرامے ’’ انتخاب‘‘،’’سانپ‘‘ اور’’فسادی‘‘ شامل ہیں۔
عصمت چغتائی کے ڈراموں کا مجموعہ ’’شیطان‘‘کے نام سے چھپ چکا ہے۔اس میں شامل ڈراموں کے نام یہ ہیں:
شیطان، خواہ مخواہ، تصویریں،دلہن کیسی ہے؟، شامت اعمال ، دھانی بانکپن۔
عصمت چغتائی کا ڈراما ’’عورت اور مرد‘‘میں معاشرے کے اعلیٰ طبقات کا ذکر ہے ۔جس میں ہمیںخود کو اعلیٰ مخلوق کہنے والوں کی سیاسی چالوں،کمزوریوں ،جھوٹ،فریب اور منافقت کا بیان ملتا ہے۔
ڈراما ’’انتخاب‘‘صرف چار سین پر مشتمل مختصر ڈراما ہے۔اس میں لڑکے لڑکیوں کی آزادانہ میل جول کا ذکر ہے۔
اسی طرح عصمت چغتائی کا ڈراما ’’سانپ‘‘ایک ایکٹ کا ڈراما ہے ۔اس میں جدید ترین معاشرے کو طنز کا نشانہ بنایا گیا ہے۔عصمت نے جدید تعلیم یافتہ لڑکی کو سانپ کہا ہے جو بھائیوں سے کھلم کھلا ہر بات کا اظہار کرتی ہے اور اس کے دوستوں سے افئیر چلاتی ہے۔اس ڈرامے میں جنس مخالف کے لیے جنسی کشش کے احساس کو بیان کیا گیا ہے۔
’’فسادی‘‘ ایک ایکٹ کا ڈراما ہے جس میں کل آٹھ سین ہیں۔اس ڈرامے میں عصمت چغتائی نے بزرگوں کے پہلے سے رشتے طے کرنے کی مخالفت کی ہے ۔اس کے ساتھ انہوں نے نئی نسل کو یہ پیغام دیا ہے کہ وہ ایسے رشتوں سے انکار کرنا سیکھیں اور خود کی پسند پر زور دیں۔
عصمت چغتائی نے ڈراما ’’شیطان‘‘ میں آزاد خیالات کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی ہے۔یہ ڈراما اپنے مکالموں کی وجہ سے ان کے باقی ڈراموں مناسبت سے بہتر ڈراما ہے۔ڈراما ’’خواہ مخواہ‘‘ ایک رومانوی ڈراما ہے۔’’تصویریں‘‘ جنسی آمیزش پر مبنی ایک نفسیاتی ڈراما ہے۔’’دلہن کیسی ہے؟‘‘ ایک مزاحیہ ڈراما ہے جس میں دلہن کی تلاش کا سلسلہ مزاحیہ انداز میں پیش کیا گیا ہے۔’’دھانی بانکپن‘‘ہندو مسلم فسادات پر مبنی تین سین کا مختصر ڈراما ہے۔نسائیت کی علمبردار عصمت چغتائی نے اپنے ڈراما ’’ڈھیٹ‘‘ عورت کی برتری کا ذکر کیا ہے۔ اس ڈرامے کا ایک مکالمہ ملاحظہ ہو :
وہ: ’’عورت خواہ کتنا ہی بلند مرتبہ پالے ،بڑے سے بڑا کام انجام دے لیکن
پھر بھی وہ عورت ہے،ایک کمزور ہستی۔‘‘
میں: ’’تھوڑی دیر کیلئے مانو کہ میں یقین نہیں کرتی ،تب؟‘‘
وہ: ’’تمہارے ماننے اور نہ ماننے سے کیا ہوتا ہے ۔دنیا کہتی ہے ،بڑے بڑے
علمائے دین اور فلسفیوں کے قول دیکھ لو۔‘‘
میں: ’’میں تب بھی نہ مانوں تو؟‘‘
وہ: ’’تو یہ تمہاری زبردستی ہے۔‘‘
میں: ’’تمہیں کامل یقین ہے کہ یہ میری زبردستی ہے؟‘‘
وہ: ’’اور نہیں تو کیا۔‘‘
میں: ’’تو تم مان گئے کہ میں زبردست ہوں ۔اب تو یقین ہوا کہ ہماری کمزوری
کی ساری افواہیں غلط ہیں۔‘‘
مجموعی لحاظ سے عصمت چغتائی کو بہترین ڈراما نگاروں کی فہرست میں شامل نہیں کیا جاتا ۔اس کی کئی وجوہ ہیں۔ایک تو وہ مکمل افسانہ نگار تھیں۔افسانہ نگاری و ناول نگاری میں انہوں نے اتنی شہرت حاصل کررکھی تھی کہ دوسری اصناف کی جانب نقادوں نے توجہ دینا ہی مناسب نہیں سمجھا ۔انہوں نے متعدد ڈرامے لکھے مگر وہ افسانوی رنگ سے باہر نہ نکل سکی۔اس کے ساتھ ان کے غیر متنوع موضوعات اور اس میں یکسانیت نے ان کے ڈراموں کو غیر متاثر کن بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔عصمت چغتائی کے ڈرامے مختصر ہونا بھی اس کی ناکامی کا سبب بناکیونکہ ناظرین و قارئین کامختصر ڈراموں میں دلچسپی پیدا ہونا مشکل امر ہوتا ہے۔انہوں نے زیادہ تر ڈراموں میں جنسیت اور آزاد معاشرہ کی عکاسی کی تھی جو اس دور میں ہضم ہونے والی نہیں تھی اور نہ ہی لوگ گھر وںمیں ایسے موضوعات پر مبنی کتابیں رکھنے کے قائل تھے۔اس کے ساتھ انہوں نے مکالموں اور کرداروں پر خاص توجہ نہیں دی جو ان کی ناکامی کی ایک وجہ بنی۔اس کے باوجودعصمت چغتائی نے اردو ڈرامے کی ترویج میں اپنا حصہ ڈالا جو ایک خوش آئند بات ہے کہ معروف ادبا نے ڈراما نگاری کو ایک خاص ادبی صنف جانا۔
ضضض
لفنگا،جوانی،لحاف،جانی دشمن، بھول بھلیاں،ننھی کی نانی، چوتھی کا جوڑا،کیسی بیوی کیسا شوہر، پہلی لڑکی،یار،دل کی دنیا ، ضدی، ٹیڑھی لکیرجیسی تخلیقات کی مالکن نے اردو ڈراما نگاری پر بھی بھرپور توجہ دی ہے جسے ان کی افسانہ و ناول نگاری نے دبا کے رکھ دیا ہے۔
عصمت چغتائی نے برنارڈ شا سے متاثر ہوکر ڈراما نگاری کا آغاز کیا۔ان کے ڈراموں میں افسانوی رنگ نمایاں ہے۔جو موضوعات ان کے افسانوں اور ناولوں میں زیر بحث آئے تھے،تقریباً وہی ان کے ڈراموں میں بھی پیش ہوئے۔اسی یکسانیت اور افسانوی تکنیک کے سبب ان کا نام ڈراما نگاری میںاہمیت کا حامل نہیں۔
عصمت چغتائی نے ڈراما نگاری کے میدان میں ناکامی کو نظر انداز کرکے متعدد ڈرامے لکھے اور اردو ڈراما کو بے باک اور نازک عنوانات پیش کرنے کے قابل بنایا۔عصمت کے ڈرامے ان کے افسانوی مجموعوں میں شائع ہوچکے ہیں۔افسانوی مجموعہ’’ چوٹیں‘‘ میں ’’عورت اور مرد ‘ ‘کے عنوان سے ڈراما چھپ چکا ہے۔’’دوزخ‘‘میں اسی عنوان سے ڈراما شامل ہے۔اسی طرح ’’کلیاں‘‘ میں تین ڈرامے ’’ انتخاب‘‘،’’سانپ‘‘ اور’’فسادی‘‘ شامل ہیں۔
عصمت چغتائی کے ڈراموں کا مجموعہ ’’شیطان‘‘کے نام سے چھپ چکا ہے۔اس میں شامل ڈراموں کے نام یہ ہیں:
شیطان، خواہ مخواہ، تصویریں،دلہن کیسی ہے؟، شامت اعمال ، دھانی بانکپن۔
عصمت چغتائی کا ڈراما ’’عورت اور مرد‘‘میں معاشرے کے اعلیٰ طبقات کا ذکر ہے ۔جس میں ہمیںخود کو اعلیٰ مخلوق کہنے والوں کی سیاسی چالوں،کمزوریوں ،جھوٹ،فریب اور منافقت کا بیان ملتا ہے۔
ڈراما ’’انتخاب‘‘صرف چار سین پر مشتمل مختصر ڈراما ہے۔اس میں لڑکے لڑکیوں کی آزادانہ میل جول کا ذکر ہے۔
اسی طرح عصمت چغتائی کا ڈراما ’’سانپ‘‘ایک ایکٹ کا ڈراما ہے ۔اس میں جدید ترین معاشرے کو طنز کا نشانہ بنایا گیا ہے۔عصمت نے جدید تعلیم یافتہ لڑکی کو سانپ کہا ہے جو بھائیوں سے کھلم کھلا ہر بات کا اظہار کرتی ہے اور اس کے دوستوں سے افئیر چلاتی ہے۔اس ڈرامے میں جنس مخالف کے لیے جنسی کشش کے احساس کو بیان کیا گیا ہے۔
’’فسادی‘‘ ایک ایکٹ کا ڈراما ہے جس میں کل آٹھ سین ہیں۔اس ڈرامے میں عصمت چغتائی نے بزرگوں کے پہلے سے رشتے طے کرنے کی مخالفت کی ہے ۔اس کے ساتھ انہوں نے نئی نسل کو یہ پیغام دیا ہے کہ وہ ایسے رشتوں سے انکار کرنا سیکھیں اور خود کی پسند پر زور دیں۔
عصمت چغتائی نے ڈراما ’’شیطان‘‘ میں آزاد خیالات کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی ہے۔یہ ڈراما اپنے مکالموں کی وجہ سے ان کے باقی ڈراموں مناسبت سے بہتر ڈراما ہے۔ڈراما ’’خواہ مخواہ‘‘ ایک رومانوی ڈراما ہے۔’’تصویریں‘‘ جنسی آمیزش پر مبنی ایک نفسیاتی ڈراما ہے۔’’دلہن کیسی ہے؟‘‘ ایک مزاحیہ ڈراما ہے جس میں دلہن کی تلاش کا سلسلہ مزاحیہ انداز میں پیش کیا گیا ہے۔’’دھانی بانکپن‘‘ہندو مسلم فسادات پر مبنی تین سین کا مختصر ڈراما ہے۔نسائیت کی علمبردار عصمت چغتائی نے اپنے ڈراما ’’ڈھیٹ‘‘ عورت کی برتری کا ذکر کیا ہے۔ اس ڈرامے کا ایک مکالمہ ملاحظہ ہو :
وہ: ’’عورت خواہ کتنا ہی بلند مرتبہ پالے ،بڑے سے بڑا کام انجام دے لیکن
پھر بھی وہ عورت ہے،ایک کمزور ہستی۔‘‘
میں: ’’تھوڑی دیر کیلئے مانو کہ میں یقین نہیں کرتی ،تب؟‘‘
وہ: ’’تمہارے ماننے اور نہ ماننے سے کیا ہوتا ہے ۔دنیا کہتی ہے ،بڑے بڑے
علمائے دین اور فلسفیوں کے قول دیکھ لو۔‘‘
میں: ’’میں تب بھی نہ مانوں تو؟‘‘
وہ: ’’تو یہ تمہاری زبردستی ہے۔‘‘
میں: ’’تمہیں کامل یقین ہے کہ یہ میری زبردستی ہے؟‘‘
وہ: ’’اور نہیں تو کیا۔‘‘
میں: ’’تو تم مان گئے کہ میں زبردست ہوں ۔اب تو یقین ہوا کہ ہماری کمزوری
کی ساری افواہیں غلط ہیں۔‘‘
مجموعی لحاظ سے عصمت چغتائی کو بہترین ڈراما نگاروں کی فہرست میں شامل نہیں کیا جاتا ۔اس کی کئی وجوہ ہیں۔ایک تو وہ مکمل افسانہ نگار تھیں۔افسانہ نگاری و ناول نگاری میں انہوں نے اتنی شہرت حاصل کررکھی تھی کہ دوسری اصناف کی جانب نقادوں نے توجہ دینا ہی مناسب نہیں سمجھا ۔انہوں نے متعدد ڈرامے لکھے مگر وہ افسانوی رنگ سے باہر نہ نکل سکی۔اس کے ساتھ ان کے غیر متنوع موضوعات اور اس میں یکسانیت نے ان کے ڈراموں کو غیر متاثر کن بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔عصمت چغتائی کے ڈرامے مختصر ہونا بھی اس کی ناکامی کا سبب بناکیونکہ ناظرین و قارئین کامختصر ڈراموں میں دلچسپی پیدا ہونا مشکل امر ہوتا ہے۔انہوں نے زیادہ تر ڈراموں میں جنسیت اور آزاد معاشرہ کی عکاسی کی تھی جو اس دور میں ہضم ہونے والی نہیں تھی اور نہ ہی لوگ گھر وںمیں ایسے موضوعات پر مبنی کتابیں رکھنے کے قائل تھے۔اس کے ساتھ انہوں نے مکالموں اور کرداروں پر خاص توجہ نہیں دی جو ان کی ناکامی کی ایک وجہ بنی۔اس کے باوجودعصمت چغتائی نے اردو ڈرامے کی ترویج میں اپنا حصہ ڈالا جو ایک خوش آئند بات ہے کہ معروف ادبا نے ڈراما نگاری کو ایک خاص ادبی صنف جانا۔
ضضض
Also read