اسلامی معاشرہ اور خواتین:ماضی اور حال- Islamic Society and Women: Past and Present

0
270

 

 Islamic Society and Women: Past and Present
ڈاکٹر محمد اقتدار حسین فاروقی

ایک مرد کی تعلیم کے معنی ایک فرد کی تعلیم کے ہیں جبکہ ایک عورت کی تعلیم کے معنی ایک خاندان کی تعلیم کے ہیں۔
ہر شخص جو خدا کی ذات پر ایمان رکھتا ہے اورمذہب کو زندگی کا ضروری حصہ مانتا ہے وہ یہ دعویٰ یقینا کرتا ہے کہ اس کے دین میں مرد اور عورت کو برابر کا حصہ دیا گیا ہے اور سماج میں ان کے درمیان کسی قسم کی تفریق کو ناپسندکیا گیا ہے۔ لیکن مسئلہ یہ نہیں ہی کہ آیامختلف ادیان میں عورت کا حق مردوں کے برابر ہے یانہیں بلکہ اصل سو ال یہ ہے کہ کیادنیا کے مختلف معاشروں میں دین کے اصولوں پرعمل پیرا ہو کر مردوں نے عورت کواس کاحق دیا ہے اور صنف کی بنیاد پر کسی قسم کی تفریق سے گریز کیا ہے؟ تاریخی حقائق اس سچائی کے اشارے پیش کرتے ہیں کہ پچھلے دو ہزار سال کے دوران دنیا کے سبھی معاشرتی نظام میں عورت کو اس کا دینی اور سماجی حق دینے میں رکاوٹیں پیدا کی جاتی رہی ہیں۔ کبھی یہ رکاوٹیں روایتی تقاضوں کی بنا پر پیدا کی گئیں تو کبھی غلط اندازے سے دینی اصولوں کو اپناکر۔ پچھلے چند سو سال کی تاریخ تو یقینی طور سے عورت پر مظالم کی تاریخ ہے جس سے شاید ہی کوئی معاشرہ بری الذمہ ہو۔ اسلامی معاشرہ میں بھی عورت کا درجہ پندرہویں صدی عیسوی کے بعد بہت کچھ کم کردیا گیا۔ دینی اوردنیاوی علوم سے دور رکھ کر اسے بڑی حد تک گھروں کی چہار دیواری میں قید کردیا گیا۔ اس کے سماجی حقوق سلب کر لئے گئے لیکن اس روش کے باوجود اسلامی معاشرہ کاحال دنیا کے دوسرے معاشروں کی نسبت شاید بہتر ہی تھا۔ عورت کی تذلیل جس حد تک دنیا کے بیشتر معاشرتی نظام کی جاتی رہی اس حد تک شاید اسلامی معاشرہ میں نہ کی گئی۔ اس سچائی کو ایڈوڈاٹیا (Edward Atiya) تسلیم کرتے ہوئے لکھتا ہے۔
’’اسلامی معاشرہ میںعام طور سے مسلمان عورت (بیوی) کی حالت یورپ کی عیسائی معاشرہ سے ہمیشہ سے بہتر تھی اور یہ حال اس وقت تک رہا جب تک کہ عورت کے تحفظ کا حالیہ (1920) قانون یورپ میں نافذ نہ ہوگیا‘‘۔
ہیٹی، گتھری اور برائون جیسے دیگر یورپی مورخین کانظریہ ہے کہ اسلامی معاشرہ کا زوال پندرہویں صدی میں شروع ہوا اور اسی دور میں الف لیلیٰ کی کہانیاں کچھ اسی طرح لکھی گئیں جن میں عورت کو ایک چالاک شخصیت کا روپ دیا گیا۔ عورت کی اس تصویر نے اس کو بڑا نقصان پہونچایا۔
اسلام کے وجود میں آنے کے بعد یعنی ساتویں صدی عیسوی سے لیکر پندرہویں صدی عیسوی تک کے اسلامی معاشرہ کا جائزہ لیاجائے تو پتہ چلتا ہے کہ ان دنوں عورت سماج کا اتنا ہی اہم حصہ تھی جتنا کہ مرد۔ تقریباً آٹھ سو سال کی اسلامی تاریخ خواہ وہ عرب کی ہو،اسپین کی ہو، مصر کی ہو، مراکش کی ہو یا پھر ایران وبخارا کی، یہ ثابت کرتی ہے کہ روز مرہ کے معمولات میں عورت نہایت مثبت رول ادا کرتی تھی اور علم کی دولت سے مالا مال تھی۔ اس صورت کی اصل وجہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ ارشادات تھے جنہوںنے مسلمان عورتوں میں خوداعتمادی اور آزادی کی ایک لہر پھونک دی تھی۔
اسلام سے قبل دنیا کے دوسرے معاشروں کی طرح عرب معاشرہ میں بھی عورت کی پیدائش باعث شرم اور تردد تھی۔ پیدائش کے فوراً بعد ہی اسے دفن کردینا عربوں کا ایک معمول بن چکا تھا اور یہ جرم اس حد تک بڑھ گیا تھاکہ اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعہ سے تنبیہ فرمائی۔
’’اور جب قیامت کے دن زندہ گاڑی ہوئی لڑکی سے پوچھا جائے گا کہ وہ کس گناہ پر قتل کی گئی‘‘(سورہ تکویر۔ آیت 9-8)
قرآنی تنبیہ نازل ہونے کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے برتائو اور ارشادات سے مسلمانوں میںایسا ماحول پیدا فرمایا کہ عورت بے خوف ہوگئی۔ مدینہ اور مکہ میں وہ اپنی بات کہتی، اپنا حق جتاتی اور مردوں کے شانہ بشانہ اشاعت اسلام کے کاموں میں حصہ لیتی اس کی خوشی کی انتہا نہ رہی جب اس نے حضور کی زبان مبارک سے یہ سنا کہ ’’جو شخص بیٹی اور بیٹے میں فرق نہیں رکھتا اس کے لئے اللہ جنت کا دروازہ کھول دیتا ہے (ابودائود) اور پھر حضور اکرم نے یہ بھی تو ارشاد فرمایا کہ ’’جس کسی نے اپنی تین (کئی) لڑکیوں کو پرورش کی اور ان کے ساتھ حسن سلوک کیا اس کے لئے جنت یقینی ہے‘‘۔ (ابو دائود، ترمذی)
ا رشادات کے علاوہ رسول کریم کے اسوہ حسنہ نے عورت کواس کا صحیح مقام دلوایا۔ بخاری ومسلم کی متعدد احادیث اس حقیقت کی روشن مثالیں ہیں۔ خوشی اور پریشانی کے وقت ہمیشہ عورت حضور کے قریب رہی یہ کون نہیں جانتا کہ جب رسول پر پہلی وحی نازل ہوئی اور اس کے نتیجہ میں بے چینی اور فکر آپ میں پیداہوئی اسے رفع کرنے اور رسالت پر ایمان لانے والی ہستی بھی ایک خاتون کی تھی (بخاری)۔ معراج کا واقعہ ہوا اور آپ پر ایک خاص کیفیت طاری ہوئی تو اس کی اطلاع بھی حضور نے سب سے پہلے ایک خاتون کو دی۔ (سیرت رسول ابن ہشام) یہ واقعہ بھی سب کے علم میں ہے کہ نبی کریم زندگی کے آخری لمحات میں آپ کا سر مبارک جس زانو پر تھاوہ زانو بھی ایک خاتون کاتھا۔ (بخاری)
حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ نبی کریم اپنی صاحبزادی حضرت فاطمہ زہرا سے بے پناہ محبت فرماتے اور وہ جب بھی آپ کے پاس آتیں تو آپ ان کے سر کا بوسہ لیتے اور اپنے پاس ہی بٹھاتے۔(بخاری ،مسلم)
اسلامی تاریخ کے واقف کار بخوبی جانتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور مبارک میں عورتوں نے اسلام کی ترویج وترقی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ حضرت ام سلمیٰ جنک احد اور جنگ حنین میں شریک تھیں۔ بخاری کی ایک حدیث کے مطابق حضرت ربیعہ بنت معوذ فرماتی ہیں ’’ہم نبی کے ساتھ جہاد میں حصہ لیتے، اپنی قوم کو پانی پلاتے اور مقتولین ومجروحین کو میدان جنگ سے لاتے‘‘ حضرت ام عطیہ نے فرمایا کہ ’’میں نے سات جہادوں میںحصہ لیا اورمجروحین کی مرہم پٹی (تیمارداری) کی۔ (مسلم)
ابن اسحاق (سیرت رسول) کا قول ہے کہ خیبر کی جنگ میں عورتوں نے بڑی تعداد میں حصہ لیا .۔انصاری صحابیہ ام امارہ نے جنگ احد میں نہایت بہادری کا مظاہرہ کیا اورنبی کریم کی حفاظت میں حصہ لیتی رہیں (سیرت رسول۔ ابن ہشام)۔ مختلف جہادوں میں جنگی سامان (تیر وغیرہ) اوردوائوں کومیدان جنگ میں پہنچانے کا کام عورتوں کے سپرد تھا (ابودائود) ۔رسول اللہ کی پھوپھی حضرت صفیہ بھی جنگ احد میں شریک تھیں۔ انہوں نے غزوہ خندق میں بھی حصہ لیا۔ غزوہ قدسیہ میں حضرت حسینہ اپنے چار بیٹوں کے ساتھ شریک تھیں۔ حضرت ام عامرہ نے جنگ احد کے علاوہ جنگ خیبر اورجنگ حنین میں بھی حصہ لیا۔ حضرت انس بن مالک سے مروی ایک حدیث میں بیان ہوا ہے کہ نبی کریم جہاد کے سفر کے دوران انصار عورتوں کو اپنے ساتھ لے جاتے جہاں وہ مجاہدین کو پانی پلاتیں اور زخمیوں کی مرہم پٹی کرتیں (مسلم) ۔غرضیکہ نہ جانے کتنی خواتین کے نام ہیں جودور نبوی میں نہایت اہم تھے اورجو اسلامی تاریخ کاحصہ بن چکے ہیں۔ حضور اکرم کے زمانہ کے حالات بھی متعدد خواتین کے بیانات سے واضح ہوتے ہیں۔ بخاری اور مسلم سمیت صحاح ستہ کی نہ جانے کتنی احادیث خواتین کے نام سے مروی ومنسوب ہیں۔ ان میں سر فہرست نام حضرت عائشہ کا ہے جن کی بیان کردہ دو ہزار سے زیادہ احادیث حضور کے معمولات پر بہت اہم روشنی ڈالتی ہیں۔
عورتوں کی آزادی کا سلسلہ دور محمدی میں پروان چڑھا اور یہ خلفاء راشدین کے دور سے لے کر تابعین اور تبع تابعین کی معرفت ہوتا ہوا اسپین اور بغدادکی خلافت تک کچھ اس طرح پہونچا کہ چہار جانب عورت کی شخصیت کی چھاپ نظر آنے لگی۔۔ تجارتی منڈی کا کام بھی خواتین کودیا جانے لگا۔ عطر کی تجارت میں حضرت اسماء نام کی ایک خاتون نے بڑی شہرت حاصل کی۔ حضرت عبداللہ بن مسعود کی اہلیہ نے بھی بڑے پیمانہ پر تجارت کا کام شروع کردیا۔ چھوٹی اور بڑی تجارت میں عورتوں کی دلچسپی کا سلسلہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں شروع ہوگیا تھا جس کا ایک اشارہ بخاری کی اس حدیث سے ہوتا ہے جس میںحضرت سہیل بن سعد سے منسوب بیان کے مطابق ایک خاتون جمعہ کے دن چقندر کا سالن پکاتیں اور بعد نماز جمعہ مسجد کے دروازے پر اسے فروخت کرکے نمازیوں کی خاطر کرتیں۔
خلافت راشدہ کے دور میں عورتوں کا رول اور اس کی اہمیت کا اندازہ مرغاب کی جنگ سے بخوبی لگایا جاسکتا ہی جب کہ اسلامی فوجوں کا مرغاب میں پڑائو تھا اور فارس کی فوج نے ان پر زبردست حملہ کر دیا۔دن بھر خوں ریز جنگ ہوتی رہی اوراسلامی فوج کی شکست کے آثار نمایاں ہونے لگے۔ موقع کی نزاکت کا احساس کرتے ہوئے مسلمان عورتیں اپنے خیموں سے باہر نکل آئیں اور اپنی اوڑھنیوں کو جھنڈا بنا کر میدان جنگ میں کود پڑیں نتیجہ میں مسلمانوں کی ممکنہ شکست فتح میں بدل گئی اور یہ فتح اسلامی تاریخ کا ایک اہم موڑبن گئی۔
صحابہ کرام کی بیویاں کتنااثر ورسوخ رکھتی تھیں اس کی مثال فارس کی ایک اورجنگ سے دی جاسکتی ہے جب حضرت سعد بن وقاص کی قیادت میں اسلامی فوجیں مجوسیوں سے بر سر پیکار تھیں۔ حضرت سعد کے خیمہ کے باہر محجن نامی سپاہی زنجیروں میں جکڑا پڑا تھا جس کو حضرت سعد نے اس بات کی سزا دی تھی کہ اسلام قبول کرنے کے بعد بھی اس نے شراب نہ چھوڑی تھی۔ محجن خیمہ سے جنگ کا منظر دیکھ رہا تھا اور یہ شعرکہتا جا تا تھا جس کا مفہوم کچھ اس طرح تھا۔
میرے ساتھی جنگ میں بہادری سے لڑ رہے ہیں کاش میں ان کے ساتھ ہوتا اور تلوار کے جوہر دکھاتا۔
یہ شعر سن کر حضرت سعد کی بیوی سلمیٰ خیمہ سے باہر آئیں اورمحجن کی زنجیریں اس شرط پر کھول دیں کہ وہ جنگ میں شریک تو ہو لیکن شہید نہ ہونے کی صورت واپس آکر پھر زنجیریں ڈلوالے۔ محجن نے اس شرط پر قسم کھائی اورمیدان جنگ کا رخ کیا۔ اس نے دشمنوں پر شدید حملہ کیا اورجنگ کاپانسہ پلٹنے میں معاون ہوا۔ لڑائی کے دوران حضرت سعد نے محجن کو دیکھا اور متعجب ہوئے کہ وہ میدان جنگ میں کیسے آگیا۔ دیر شام کو وہ خیمہ میں واپس ہوئے تو وہاں محجن کو زنجیروں میں پایا۔ حضرت سلمیٰ نے پورا واقعہ سنایا اور بغیر حضرت سعد کی اجازت کے جنگ کے انتہائی نازک موڑپر محجن کو آزاد کردینے کے اپنے عمل کا جواز پیش کیا۔حضرت سعد خاموش ہوگئے۔ یہ تھی ایک عورت کی ہمت اور اہمیت، اسلامی فوج کے سپہ سالار کے سامنے۔
دینی معاملات میں بھی عورتیں نمایاں رول ادا کرتی رہیں۔ حضرت زینب اپنے دور میں علم فقہ کی نہایت اہم ہستی مانی جاتی تھیں اورلوگ ان سے دینی مسائل معلوم کرتے۔ انہوں نے جس دلیری سے ملعون یزید کے دربار اس پر لعنت بھیجی تھی وہ اسلامی تاریخ کا ایک اہم واقعہ ہے حضرت رابعہ بصری (وفات ۸۰۱ء) بھی ایک زبردست دینی شخصیت تھیں اور اسلامی تاریخ میںحضرت حسن بصری کے بعد دوسری اہم صوفی بزرگ تصور کی جاتی تھیں۔
خلافت عباسیہ اوراسپین کی خلافت کے دوران عورت غالباً سماجی اہمیت کے اعتبار سے اسلامی معاشرہ میں معراج پر پہونچ چکی تھی۔ بغداد اور قرطبہ کی دس لاکھ آبادی کے شہروں میںبارہ سال کی ہر لڑکی لکھناپڑھنا جانتی تھی۔ علم کے اس تابناک دور کی بابت ڈونالڈ کیمبل (Donald Cambell) رقم طراز ہے۔
When Caliphs of Baghdad and Cardova endowed and fostered education amongst their subject to the extent that every boy and girl of twelve could read and write, Barons, Lords and their ladies of Europe were scarcely able to write their names.(Arab Medicine)
ترجمہ : جب بغداد اور قرطبہ کے خلفاء تعلیم کو عام کرنے میں لگے ہوئے تھے اور وہاں بارہ سال کی ہر لڑکی اور لڑکا پڑھنا لکھنا جانتے تھے۔ اس وقت یورپ کے امراء اور رئوساء اوران کی عورتیں بہ مشکل اپنا نام لکھ سکتی تھیں ۔
دور وسطیٰ کے اسلامی معاشرہ میںعورت کی چھاپ پر اگر روشنی ڈالی جائے تواس کے لئے دفتر کے دفتر در کار ہوں گے۔ عہد عباسیہ میں شہزادیوں کا خلافت کے سیاسی اور سماجی امور میں برابر کا دخل ہواکرتا تھا۔ ہارون رشید کی والدہ خیزران اور بیوی زبیدہ دونوں ہی امور مملکت میں حصہ لیتی تھیں۔ زبیدہ اچھی شاعرہ تھیں اور ادبی محفلوں میں شرکت کرتیں۔ خلیفہ مقتدر کی والدہ عدالت عالیہ کی صدر تھیں اوراہم فیصلے صادر کیا کرتی تھیں۔ خلیفہ مامون کے دور میں ایک ہزار سات سو خواتین حکومت کے محکمہ ڈاک وجاسوسی میں ملازم تھیں۔ ان عورتوں کو غیر اسلامی علاقوں میں تاجر سیاح اور طبیب کی حیثیت سے بھیجا جاتا تھا جہاں رہ کر وہ اس علاقہ کے سیاسی اورمعاشی حالات نیز جنگی صلاحیتوں کی بابت پتہ لگاتی تھیں۔ خلیفہ الامین کے دور خلافت میں عورتوں کی بڑی تعداد سرکاری ملازمت میں تھی۔ یہ عورتیں خاص قسم کاسرکاری لباس زیب تن کرتیں اورسر پر سلک کاصافہ باندھتی تھیں اورمردوں کے شانہ بشانہ کام کرتی تھیں۔ دور فاطمی میں مصر کے اسپتالوں میں مریضوں کے لئے ایک طرف قراء ت سنانے کا انتظام تھا تودوسری جانب ہلکی موسیقی سنائی جاتی اور عورتیں نرسنگ کا کام کرتیں۔ فاطمی دور ہی میںحرہ نام کی خاتون یمن کی گورنر بنائی گئی تھیں۔
اسپین کا اسلامی دور یورپ کی تاریخ کا درخشاں دور کہلاتا ہے۔ وہاں کی عورت اتنی باصلاحیت اورعلمی اعتبار سے اتنی بلند تھی کہ یورپ کے دوسرے علاقوں کی عورتیں ان پر رشک کرتیں اوران کی نقل کرنا فخر کی بات سمجھتیں۔ عائشہ نام کی ایک خاتون جو قرطبہ کے پرنس احمد کی صاحبزادی تھیں فن خطابت اور فلسفہ میںاپنی مثال آپ تھیں۔ لبنیٰ نام کی خاتون مشہور فلسفی تھیں اورخلیفہ الحکم کی پرائیوٹ سکریٹری تھیں۔ اشبیلہ کے یعقوب انصاری کی بیٹی مریم عربی نیز عبرانی زبانوں پر عبور رکھتی تھیں اور فن خطابت میں ماہر ہونے کی بناپر اسلامی دنیا میں خوب جانی جاتی تھیں۔ عہد وسطیٰ کے اسلامی معاشرہ میںعورت کی شخصیت کی بہترین نشوونما ہونے کا علم یورپ کی قوموں کو بخوبی تھا۔ وہ جانتے تھے کہ اس معاشرہ کی پرورش پائی ہوئی ہر عورت خواہ وہ مسلمان ہو یا یہودی، نصرانی ،یامجوسی، سب ہی علم کی دولت سے مالالا مال تھیںاور تہذیب میں لاثانی۔،مذہب کی بنیادپر مسلم اورغیر مسلم عورتوں میںکسی قسم کا فرق رکھنا اسلامی شعار کے خلاف سمجھا جاتا تھا۔ یورپین مورخین لکھتے ہیں کہ صلیبی جنگوں کے درمیان عیسائی سپاہی یہ خواہش رکھتے تھے کہ ان کی شادیاں ان عیسائی عورتوں سے ہوجائیں جو اسلامی ماحول میں پرورش پا چکی ہوں۔ یہ تھا دور وسطیٰ کا اسلامی معاشرہ اور اس کا آزادانہ ماحول۔
دور وسطیٰ کے اسلامی معاشرہ کا مقابلہ جب پچھلے دو سو سال کے مسلم معاشرہ سے کیا جاتا ہے تودل دکھتا ہے، شرم محسوس ہوتی ہے۔ کہاں عہد عباسی کی تعلیم یافتہ عورت اورکہاں موجودہ معاشرہ کی علم سے بیگانہ عورت جس کی بابت یہ روش اپنائی گئی کہ مسلمان عورت کے حق میں ہے کہ وہ عصری علوم سے دور رہے اور اگر علم حاصل کرے بھی تو پڑھنا جانے لکھنا نہ جانے۔ یہ تک کہہ دیا گیا ’’تعلیم سے لڑکیوں میں بے حیائی پیدا ہوتی ہے بس انہیں بہشتی زیور پڑھا دینا چاہئے‘‘۔ (اردو ہفت روزہ ( لکھنئو)میں شائع ایک معروف رہنما کا مضمون۔ اگست 1996ء)
1901ء میںکئے گئے سروے سے یہ حقیقت واضح بھی ہوئی کہ ایک سوہندوستانی عورتوںمیں صرف دو عورتیں لکھنا پڑھنا جانتی تھیں۔ مسلمان عورتوں میں یہ تناسب دو سے بھی کم تھا۔ اللہ اللہ۔ ازمنہ وسطیٰ میں عورتوں کی خواندگی سو فیصد اور بیسویں صدی میں کم وبیش ایک فیصد۔ افسوس اور حیرت تواس بات پر ہے کہ انیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے اوائل میں جن مسلم دانشوروں نے ہندوستان میں عورتوں کی تعلیم کی خاطر مدارس کھولنے چاہے ان پرخوب لعن طعن کی گئی اور ایسا مطعون کیا گیا کہ ان میں سے زیادہ تر دل برداشتہ ہوکر ہمت ہار بیٹھے۔ بیسویں صدی کے شروع میں ایسے ہی ایک ذی علم مسلمان نے لکھنؤ میں ایک نسواں اسکول کھولا تو ان کے خلاف سخت باتیں کہی گئیں اورمشورہ دیا گیا کہ ایسے آدمی کے جنازہ میں مسلمانوں کو شرکت نہ کرنی چاہئے۔اس مشورہ پر اپنے تاثر کا اظہار کرتے ہوئے موصوف نے ایک دلچسپ شعر پڑھا اور ہمت نہ ہارے۔
کھا جائیں گے سگ لاش ہماری پس مردن
گر اٹھ نہ سکے گی تو پڑی بھی نہ رہے گی
بیسویں صدی ختم ہونے کو ہے لیکن عورتوں کی تعلیمی حالت کوئی بہت امید افزا نہیں کہلائی جاسکتی ہے۔1980 کے سروے کے مطابق ہندوستان میں پانچ سو مسلمان عورتوں میں صرف ایک عورت گریجویٹ تھی۔ ایک خبر رساں ایجنسی کے بموجب عرب دنیا کی سات کروڑ عورتوںمیں سے پانچ کروڑ عورتیں آج بھی ناخواندہ ہیں۔ (انگریزی روزنامہ۔ نومبر ۱۹۹۵ء)
موجودہ معاشرہ میں عورت کو ناخواندہ رکھنے اور کمتر بنانے کی ذمہ داری غالباً مسلمانوں کے ہر طبقہ پر آتی ہے۔ مسلمان دانشور، دولت مند حضرات، زمیندار اور تعلقدار، امراء اور رئوساء اور دینی وسماجی رہنما، غالباً سبھی اس حالت زار کے ذمہ دار ہیں۔
ماضی قریب میں نہ جانے کتنے قانون بنے جن میں عورتوںکو ان کے شرعی حق سے محروم کر دیاگیا لیکن نہ توکوئی واویلہ ہوا نہ کوئی تحریک چلی۔ تعلقداری قانون کے تحت مسلمان عورت جائداد کے حقوق سے محروم ہوئی۔ زمینداری قانون کے تحت اس کا حق زراعتی زمین سے خارج کردیا گیا قوم تماشائی بنی رہے نہ جانے کیوں؟ پچھلی چندصدیوںسے نکاح- طلاق- -مہر- حق جائیداد-تعلیم-اور نہ جانے کتنے معاملات میں شریعت اسلامی کی خلاف ورزی ہوتی رہی ہے، عورت خاموشی سے یہ سب کچھ برداشت کرتی آرہی ہے اس اثناء میں نہ کوئی تنظیم سامنے آئی اور نہ کسی ادارہ نے پچاس فیصد آبادی کی زبوں حالی پر قوم کو متوجہ کیا۔ نہ جلسے ہوئے، نہ احتجاجی جلوس نکالے گئے۔
لکھنؤ کا ایک دینی رسالہ ندائے ملت (جولائی ۱۹۹۶ء) اس ضمن میں (اداریہ میں) یوں لکھتا ہے ’’خواتین کی تعلیم کے رول کے متعلق علماء کا طرز فکر انتہائی غیر حقیقت پسندی کا ہے۔ آج تک ان کا نقطۂ نظر اس مسئلہ میں واضح نہیں ہے۔ ان کی تحریروں سے نہ تودین کا موقف ظاہر ہوتا ہے اورنہ جدید تقاضوں کے سلسلہ میں کسی قسم کی رہنمائی ملتی ہے‘‘۔
’’مسئلہ کف افسوس ملنے کا نہیںہے نہ محض داد فریاد کا۔ مسئلہ یہ ہے کہ تمام جدید علوم اور دینی تقاضوں کو سامنے رکھ کر تعلیم کواتنا موثر بنایاجائے جو اسلام کے فروغ کا معاون ہو اور ایک لمحہ کے لئے یہ احساس پیدا نہ ہو کہ اسلام کوئی ماضی کی چیز تھی اوراب وہ دور جدید کاساتھ دینے سے قاصر ہے‘‘۔
بہر حال وقت آگیا ہے کہ ہم حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے اس قول پر دھیان دیں کہ۔
’’علم مومنوں کی کھوئی ہوئی بھیڑ (بکری) ہے اسے واپس لو (حاصل کرو) خواہ وہ منکروں سے ہی کیوں نہ ملے‘‘۔ اور یاد رہے کہ علم وراثت ہے (کھوئی ہوئی بھیڑ ہے) سارے مسلمانوں کی۔ خواہ وہ مرد ہوںیا عورت۔ کیونکہ نبی کریم کا ارشاد ہے۔
’’علم فرض ہے ہر مسلمان مرد اور عورت پر‘‘۔ (راوی حضرت انس بن مالک ۔ ابن ماجہ ۔ بیہقی)
امریکہ کے ایک دانشور محمد یحییٰ کا کہنا ہے کہ- ـــــ ـاسلام کی شروعات میں مسلم سماج میں عورتوں کا جو عروج تھا وہ دنیا کے کسی دوسرے سماج میں نہ تھا۔ افسوس کہ آج کی اسلامی دنیا میں عورتوں کے حقوق کی پامالی ایک عام بات ہوگئی ہے۔
،سوڈان کے دانشورڈاکٹر حسن عبداللہ الترابی کا نظریہ ہے کہ- شریعت کے وہ احکام جو آزادیٔ نسواں کے متعلق ہیں ان کو یکسر نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ آج کی زوال شدہ مسلم سوسائٹی میں اسے وراثت میں وہ حصہ بھی نہیں ملتا ہے، جو شریعت کے عین مطابق ہے۔عورت کو سماجی انقلاب لانے سے روکا جاتا ہے۔ چنانچہ آج ایک ایسے انقلاب کی ضرورت ہے، جس میں عورت کو وہ آزادی ملے، جو اسلامی تعلیمات کے عین مطابق ہو۔
آج ہمیںاس سچائی کو تسلیم کر لینا چاہئے کہ ماضی بعید کے اسلامی معاشرہ میں جو اہمیت اور حیثیت خواتین کی تھی وہ ماضی قریب میں گھٹتی رہی اور زمانہ حال میں بہت کم ہو گئی۔نہایت افسوس کا مقام ہے کہ آج اکیسویں صدی کے ترقی پسند سماج میں عورت سے متعلق اسلامی احکامات کی بابت عوام اور خواص میں شدید اختلافات پائے جاتے ہیں۔ قرآنی ارشادات بہ سلسلہ آزادی نسواں پر تکلیف دہ بحثوں کا سلسلہ جاری ہے ۔ فوری طلاق (Instant Divorce) جیسے مسئلہ پر میڈیا میں ایسی بحثیں چھڑی ہوئی ہیں جو عام لوگوں پر تآثر دیتی ہیں کہ اسلامی معاشرہ نئے اقتصادی اور سماجی نظام سے ہم آہنگ ہونے سے قاصر ہے۔ میڈیا کی یہ بحثیں تکلیف دہ بھی ہیں۔ عبرت انگیز بھی اور بعض اوقات شرمناک بھی۔ کافی عرصہ سے مختلف مسالک کے درمیان دینی اختلافات کا سلسلہ تو چل ہی رہا تھا ۔ اب تو یہ اختلافات ممالک کے درمیان میں بھی بتائے جا رہے ہیں۔ جو دینی عمل ایک ملک میں جائز بتایا جا رہا ہے وہ دوسرے ملک میں ناجائز قرار دیا جا رہا ہے۔ دینی اعتقادات فاصلوں کے ساتھ بدلے جا ر ہے ہیں۔ عام مسلمان پریشان بھی ہے اور کسی حد ناراض بھی ہے۔اسکی سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ وہ کس مسلک اور کس ملک یا علاقہ کے احکامات کی پیروی کرے
دنیا کے بیشتر ممالک اور علاقے سائنسی ترقیات کی منزلیں طے کر رہے ہیں اور مسلم علاقے بے معنی بحثوں میں وقت ضائع کر رہے ہیں۔ مولانا ابوالحسن علی مرحوم نے بھی مسلمانوں کے انحطاط کی وجہ بھی ان لا یعنی بحثوں کو بتائی تھی اور فرمایا تھا کہ ’’ ـ مسلمان ان مباحث میں جن کا دین وآخرت میں کوئی فائدہ نہ تھا صدیوں تک دردسری کرتے رہے اور ان علوم اور تجربوں کی طرف توجہ نہ کی جو انکے لئے کائنات کی طبعی قوتیں مسخر کردیتے اور اسلام کی مادی اور روحانی تسلط تمام عالم پر (پھر سے) قائم کردیتے۔‘‘۔ مولانا موصوف نے یہ بھی فرمایا تھا کہ۔۔ ـــــ ’’ مسلمانوں نے وقت کی قدر نہ کی اور مبا ھث میں صدیا ںضائع کر دیں۔ وہ اپنی علمی روش بھول گئے اور سائنس اور ٹکنالوجی میں پیچھے رہ گئے چناچہ مغر ب نے انہیں غلام بنا دیا‘‘۔۔ انہوں نے یہ مشورہ بھی دیا تھا کہ ’’ اب ضرورت ہے کہ مسلمان اپنی بھولی ہوئی تحقیقی روش کو اپنائیں اور مفید و با مقصد طریقہ پر سائنس و صنعت کو فروغ دیں اور علمی وسائنسی سرگرمیوں کی ہمت افزائی کریں۔ تحقیق وجسجتو اور تجربہ و مشاہدہ کے میدان میں آگے بڑھنے کی کوشش کریں‘‘
انحطاط اسلامی کا موجودہ حال تو یہ ہے کہ کچھ عرصہ قبل اردو کے ایک روزنامہ نے جلی حروفوں میں عبرت انگیز خبر شائی کی کہ ۔۔ دنیا میں جو قوم علمی یعنی سائنسی اعتبار سے بلند تر مقام پرہے وہ قوم یہود ہے اور جو قوم پست تر مقام پر ہے وہ قوم مسلم ہے۔۔
بہر حال اب وقت آ گیا ہے کہ ہم دینی مسائل پر بحثوں کا راستہ ترک کریں، الزام تراشی کا سلسلہ ختم کریں، مسلکی اور ملکی بنیاد پر دینی اختلافات کو نظر انداز کرتے ہوئے دین حق کے اس راستے پر چلیںجس پر چلتے ہوئے دور ماضی میں ہم نے سماج میںعورت کو برابری کا درجہ دیا تھا ۔
(ماخذ۔ دنیائے اسلام کاعروج و زوال از ڈاکٹر اقتدار فاروقی)

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here