کیا حکومت پر تنقید ملک سے غداری ہے؟- Is criticism of the government a betrayal of the country?

0
116

Is criticism of the government a betrayal of the country?معصوم مرادآبادی
حال ہی میں ’ ٹول کٹ‘ معاملہ میں ایک23 سالہ دوشیزہ کے خلاف غداری کا مقدمہ قائم ہونے کے بعد ملک میں غداری قانون کی تعبیرو تشریح پر نئی بحث شروع ہوگئی ہے ۔سب کی زبان پر یہی سوال ہے کہ کیا اب اس ملک میں اظہار خیال کی آزادی ایک خواب کی شکل اختیار کرتی جارہی ہے اور ملک میں بولنے، لکھنے اور سوچنے کی آزادی کے دن گنتی کے رہ گئے ہیں۔ سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ موجودہ حکومت جس بڑی تعداد میںشہریوں کو غداری کے مقدمات میں سلاخوں کے پیچھے بھیج رہی ہے ، آخر اس کا اختتام کہاں ہوگا۔ حکومت نے ملک سے غداری کے جو پیمانے مقرر کئے ہیں ان کی رو سے ہروہ شخص غدار وطن قرار دیا جارہاہے جو حکومت کے عوام مخالف فیصلوں پر تنقید کرتا ہے ۔ حالانکہ سپریم کورٹ کی کئی دستوری بنچوں نے واضح طورپر کہا ہے کہ خواہ کتنے ہی سخت الفاظ میںحکومت پر تنقید کیوں نہ کی جائے، اس عمل کو ملک دشمنی نہیں مانا جاسکتا۔حقیقت یہ ہے کہ پچھلے چارسال کے دوران حکومت نے ایسے جتنے بھی مقدمات قائم کئے ہیں ، بیشتر میں اسے منہ کی کھانی پڑی ہے اور یہ عدالتوں میں ٹھہر نہیں پائے ہیں۔لیکن اس کے باوجود ہر روز کسی نہ کسی کو غداری کا ملزم قرار دے کر سلاخوں کے پیچھے بھیجا جارہا ہے ۔حکومت نے گزشتہ دوبرس کے دوران اوسطاً روزانہ 9 لوگوں کو ملک سے غداری کا مجرم گردانا ہے۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ غداری کے مقدمات میں ملزمان کے خلاف الزامات طے ہونے کی شرح 100لوگوں میں سے صرف دوہے۔
ملک دشمنی کی دفعہ 124A (آئی پی سی)کے تحت جن لوگوں پر پولیس نے مقدمات قائم کئے ان میں سے بیشتر شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے)کے خلاف تحریک میں شامل تھے۔یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ شہریت ترمیمی قانون تفریق وتعصب پر مبنی ایک قانون ہے جس میں پڑوسی ملکوں سے نقل مکانی کرکے ہندستان آنے والے لوگوں میںمسلمانوں کے علاوہ سبھی فرقوں کو شہریت دینے کی بات کہی گئی ہے۔ جبکہ ہمارے سیکولر جمہوری دستور میں کہیں بھی شہریت کی بنیاد مذہب کو نہیں بنایا گیا ہے۔ لیکن حکومت نے اپنی مخصوص ذہنیت کو دستوری حیثیت دینے کے لیے آئین میں ایک ایسی ترمیم کی جو سراسر ناانصافی اور مذہبی تعصب پر مبنی تھی۔ اس کے خلاف لوگوں نے اپنے جمہوری حق کا استعمال کرتے ہوئے شاہین باغ کی طرزپر ملک کے مختلف حصوں میں پرامن احتجاجی دھرنے منعقد کئے ۔اس دوران شمال مشرقی دہلی میں منصوبہ بند طریقے سے فساد برپا کرایا گیااور وہ تمام لوگ جو دہلی میں سی اے اے مخالف دھرنوں اور احتجاج میں شریک تھے ، انھیں سنگین دفعات کے تحت گرفتار کرکے جیل بھیج دیا گیا۔ ان میں سے زیادہ تر لوگوں پر دہشت گردی مخالف قانون یو اے پی اے کے تحت کارروائی کی گئی تاکہ وہ ضمانت پر رہا نہ ہوسکیں۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ تقریباً ایک سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود درجنوںلوگ ابھی تک سلاخوں کے پیچھے ہیں۔
قابل غور بات یہ ہے کہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کرنے والوں کے ساتھ جو سلوک روا رکھاگیا تھا، وہی اب کسان تحریک کی حمایت کرنے والوں کے ساتھ بھی کیا جارہا ہے۔کسان تحریک میں حصہ لینے یا اس کی حمایت کرنے والوں کے لیے وزیراعظم نریندر مودی نے ’ آندولن جیوی‘ کی اصطلاح ایجاد کی ہے۔19سالہ گریٹا تھن برگ اور 23 سالہ دشاروی کے سوشل میڈیا پر کئے گئے تبصروں اور تبادلہ خیال کو بھی ملک دشمنی کے معنی پہنا دئیے گئے ہیں اور انھیں ہندوستان کے خلاف ایک بین الاقوامی سازش کا مہرہ قرار دیا جارہا ہے۔حکومت پرالزام ہے کہ وہ کسان تحریک سے لوگوں کی توجہ ہٹانے کے لیے’ ٹول کٹ‘ کا ہوّا کھڑا کررہی ہے۔گزشتہ4 فروری کو دہلی پولیس نے ٹول کٹ بنانے والے نامعلوم لوگوں پر سماجی ، معاشی اور تہذیبی جنگ چھیڑنے کا مقدمہ درج کیا تھا۔ یہ مقدمہ ملک دشمنی ، مجرمانہ سازش اور دیگر دفعات کے تحت درج ہوا۔ اسی معاملے میں پولیس دشا روی سمیت دیگر لوگوں کے خلاف کارروائی کررہی ہے۔مرکزی وزیر مملکت کشن ریڈی کا کہناہے کہ ملک دشمن عناصر ملک میں عدم استحکام پھیلانا چاہتے ہیںاور ملک کی راجدھانی ان کا مرکزی مقام ہے۔ان کا اشارہ کسان تحریک اور ان کے حامیوں کی طرف تھا۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ حکومت کسانوں کا دکھ درد بانٹنے کی بجائے ان میں خالصتانی اور غیرملکی ہاتھ تلاش کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ غیرممالک میں مقیم کئی مشہور لوگوںنے حکومت کے اس رویہ پر تنقید کی ہے۔ ایک برطانوی اخبار نے دشا روی کی گرفتاری کو اظہارخیال کی آزادی پر حملہ قرار دیا ہے، جبکہ کئی ملکوں میں وہاں کے ممبران پارلیمنٹ نے اسے کسانوں کی تحریک کودبانے کی کوشش قرار دیا ہے۔
ًَؓؑقابل ذکر بات یہ ہے کہ پچھلے دوسال میں 6300لوگوں کے خلاف ملک سے غداری کا مقدمات درج ہوئے ہیں۔غیرقانونی سرگرمیوں کی روک تھام سے متعلق قانون یو اے پی اے اور غداری یعنی تعزیرات ہند کی دفعہ 124Aکے سب سے زیادہ معاملے میں2016سے2019کے درمیان درج ہوئے ہیں۔ ان میں اکیلے یو اے پی اے کے تحت 5922معاملے درج ہوئے ہیں۔ سال 2020 میں شہریت ترمیمی قانون کی مخالفت میں 25نارتھ ایسٹ دہلی فسادات کے بعد26، ہاتھرس اجتماعی آبروریزی22 اور پلوامہ حملے کے بعد 27مقدمات غداری کی دفعات کے تحت درج ہوئے ہیں۔ ان میں تقریباً تین ہزار ملزمان نامزد کئے گئے ہیں۔ملک میں سب سے زیادہ غداری کے مقدمات گزشتہ دوسال کے دوران درج ہوئے ہیں جن کی تعداد تقریباً 200 ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ4 فروری کو دہلی پولیس نے ٹول کٹ بنانے والے نامعلوم لوگوں پرحکومت کے خلاف سماجی ، معاشی اور تہذیبی جنگ چھیڑنے کا مقدمہ درج کیا تھا۔ دہلی پولیس کا کہنا ہے کہ گریٹا تھن برگ نے جب کسانوں کے احتجاج سے متعلق ٹول کٹ شیئر کی تو اس کے فوراًبعد دشا روی نے اسے واٹس ایپ پیغام بھیج کر کہا کہ یہ ٹول کٹ شیئر نہ کریں، اس میں سبھی کے نام ہیں۔ہم پر یواے پی اے کا مقدمہ قائم ہوسکتا ہے۔ ذرایع کے مطابق ’انٹر نیشنل فارمر اسٹرائک‘ نام کا یہ گروپ کسانوں کی احتجاجی سرگرمیوں سے لوگوں کو جوڑنے کے لیے بنایا گیا تھا۔پولیس کے مطابق اس گروپ کو 6دسمبر کو بنایا گیا تھااور اس سے دس ممبران وابستہ تھے۔ بعد میں دشا نے اپنے فون سے ان سبھی کے نام ڈیلیٹ کردئیے۔ دشا کی گرفتاری پر اپوزیشن پارٹیوں اور ملک بھر کے سماجی کارکنوں نے اعتراض درج کرایا ہے۔ کسان لیڈروں نے بھی دشا کی غیرمشروط رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔
سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس دیپک گپتا کا کہنا ہے کہ’’ لوگوں کی آواز دبانے کے لیے گزشتہ چارسال میں غداری قانون کا بہت غلط استعمال ہورہا ہے۔ دشا پر دفعہ153Aبھی لگائی گئی ہے، جس کا مطلب دوفرقوں میں تنازعہ پیدا کرنا ہے۔ ٹول کٹ میں مجھے ایسی کوئی بات نظر نہیں آئی۔ جانچ کے لیے دشا سے جوکچھ طلب کیا گیا ،وہ اس نے مہیا کرایا۔‘‘این سی آربی کے اعداد وشمار کے مطابق سال 2014سے2016کے درمیان غداری کی دفعہ کے تحت 179لوگوں کی گرفتاری ہوئی تھی مگر الزام ان میں سے صرف دوپر ہی ثابت ہوپایا۔ سال 2016 سے 2019کے درمیان غداری کے الزام میں گرفتار لوگوں میں صرف دوفیصد پر ہی الزامات طے ہوئے۔ سال2019 میں96 لوگ گرفتار ہوئے جبکہ صرف دو پر ہی الزامات طے ہوئے۔ 2020میں تقریباً تین ہزار لوگوں پر سی اے اے قانون کی مخالفت میں احتجاج کرنے پر اس کے تحت معاملے درج کئے گئے۔یعنی غداری کے سب سے زیادہ مقدمات شہریت ترمیمی قانون کی مخالفت کرنے والوں پر درج ہوئے ۔ یہاں یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ شہریت ترمیمی قانون کی مخالفت میں کو ن لوگ پیش پیش تھے اور کن لوگوں کو نارتھ ایسٹ دہلی کے فساد کا مجرم گردانا گیا ہے۔ماہرین قانون حکومت کی اس روش پرمسلسل تنقید کررہے ہیں۔سپریم کورٹ کے وکیل وراگ گپتا نے ’ دینک بھاسکر ‘سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ’’ انگریزوں کے دور کے غداری قانون کا آزاد ہندوستان میں غلط استعمال تشویشناک ہے۔ اس قانون کا استعمال بہت ہی ہوشیاری کے ساتھ صرف ملک دشمنوں کے خلاف ہی ہونا چاہئے۔ سوشل میڈیا پوسٹ اور سیاسی مخالفین کے خلاف اس کے غلط استعمال کے لیے پولیس اور سیاست دانوں کے ساتھ عدالتوں کی بھی جوابدہی ہے۔‘‘
[email protected]

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here