روزہ حفظان صحت اور تندرستی کے لئے انمول نسخۂ کیمیا- Invaluable prescription for fast hygiene and fitness

0
132

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔


ڈاکٹر محمد احمد نعیمیؔ

دین اسلام میں روزہ کو عربی زبان میں ’’صوم ‘‘کہتے ہیں جس کا مادہ ص،و،م اور مصدر صوم ہے۔ لغوی اعتبار سے صوم کے مختلف معانی ہیں جیسے کسی شی سے الگ ہو جانا ،ترک کردینا ،رکنا،چپ رہنا،صبر کرنا،بات کرنے چلنے پھرنے وغیرہ سے رکنا،باز رہنا اور کام سے رکنا وغیرہ۔ اور اصطلاح شریعت میں مسلمان کا عبادت کی نیت سے صبح صادق سے غروب آفتاب تک قصداً کھانے ،پینے اور جماع یعنی جسمانی تعلقات سے باز رہنے کا نام روزہ ہے۔
روزہ دین اسلام کا تیسرا اہم رکن ہے جو ہر عاقل ،بالغ ،آزاد مسلما ن مرد اور عورت پر فرض ہے۔ شریعت محمدی کی رو سے جس کا منکر کافر اور قصداً ترک کرنے والا حرام وگناہ کبیرہ کا مرتکب ہے۔
۱۰،شعبان ۲ھ مطابق جنوری ۶۲۴ء کو مدینہ منورہ میں روزے کی فرضیت کا حکم نازل ہوا۔ رمضان کے روزوں کی فرضیت اور اس سے متعلق ضروری احکام وہدایات قرآن مجید میں تقریباً تیرہ مقامات پر بیان ہوئی ہے چنانچہ ارشاد خداوندی ہے۔
ـ’’اے ایمان والو تم پر روزے فرض کئے گئے جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض ہوئے تھے۔ تا کہ تمہیں پاکیزگی ملے۔ گنتی کے دن ہیں۔ (یعنی رمضان کا ایک مہینہ)تو تم میں جو کوئی بیمار یا سفر میں ہو تو اتنے روزے اور دنوں میں رکھے۔ اور جنہیں اس کی طاقت نہ ہو وہ بدلہ میں ایک مسکین کا کھانا دیں۔ پھر اپنی طرف سے نیکی زیادہ کرے تو وہ اس کے لئے بہتر ہے۔ اور روزہ رکھنا تمہارے لئے زیادہ اچھا ہے اگر تم جانو۔ (سورۃ البقرہ،آیت ۱۸۳،۱۸۴ )
’’تو تم میں جو کوئی یہ (رمضان)مہینہ پائے ضرور اس کے روزے رکھے اور جو بیمار یاسفر میں ہو تو اتنے روزے اور دنوں میں رکھے۔ ‘‘(سورۃالبقرہ،آیت ۱۸۵ )
’’او ر کھاؤ اور پیو یہاں تک کہ ظاہر ہو جائے تمہارے لئے سفیدی کا ڈورا سیاھی کے ڈورے سے(پوپھٹ کر )پھر رات آنے تک روزے پورے کرو‘‘۔( سورۃ البقرہ۔ آیت ،۱۸۷ )
قرآن پاک کی مذکورہ بالا آیات میں روزوں کی فرضیت کے ساتھ ان کے مختلف احکام بیان کئے گئے ہیں ۔ بعد والی آیت میں رات کو سیاہ ڈورے اور صبح کو سفید ڈورے سے تشبیہ دے کر یہ حکم بیان کیا گیا ہے کہ تمہارے لئے رمضان میں مغرب سے صبح صادق شروع وقت فجر تک کھانا پینا وغیرہ مباح ہے۔ اور ما قبل والی آیت میں بیمار ومسافر کے لئے روزوں کا شرعی حکم بیان فرمایا گیا ہے۔ نیز یہ بھی آگاہ فرمایا گیا ہے کہ روزے تم سے پہلے لوگوں پر اور تم پر اس لئے فرض کئے گئے تھے تاکہ تم گناہوں سے بچو۔ پر ہیز گاری وپاکیزگی اختیار کرو۔
اس طرح ثابت ہوتا ہے کہ رمضان المبارک کے روزے رکھنے کے ساتھ ہر مسلمان مردو عورت پر یہ بھی لازمی وضروری ہے کہ وہ صرف کھانے ،پینے اور جسمانی تعلقات میل ملاپ سے اجتناب نہ کر ے بلکہ اپنے قولی ،فعلی،ذہنی وقلبی امور اور دیگر معاملات میں بھی نیکی وپرہیزگاری اختیار کرے جیسا کہ ’’لعلکم تتقون‘‘سے واضح ہے ۔ روزے کی حالت میں انسان ہاتھ ،پاؤں کو کسی حرام وناجائز کام کے لئے استعمال نہ کرے۔ زبان پر گالی گلوچ،غیبت جیسی خرافات ہر گز نہ لائے۔ نہ کان میں پڑنے دے،آنکھ بھی غیر اخلاقی وغیر شرعی کام کی طرف نہ اٹھے بلکہ انسان نیکی و پاکیزگی کا پیکر بن جائے روزے کے اس روحانی مقصد کو بیان کرتے ہوئے حضور انور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں :
’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ آدمی کا ہر عمل اسی کے لئے ہے سوائے روزے کے کیوں کہ وہ صرف میرے لئے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دیتا ہوں ۔ روزہ ڈھال ہے اور جس روز تم میں سے کوئی روزے سے ہو تو نہ فحش کلامی کرے اور نہ جھگڑے اگر اس کو کوئی گالی دے یا لڑے تو کہہ دے کہ میں روزے سے ہوں‘‘۔( صحیح بخاری ،کتاب الصوم،باب ھل یقول انی صائم اذاشئتم۲/۶۷۳ حدیث،۱۸۰۵ )
غرضیکہ روزہ کا مقصد تقویٰ وپرہیزگاری ہے تا کہ انسان قولی،فعلی اور قلبی وذہنی طور پر روحانی واخلاقی صفات سے آراستہ و مزین ہو ۔
اسلامی نقطۂ نظر سے روزہ صرف روحانی واخلاقی پاکیزگی وارتقاء کا ضامن ہی نہیں بلکہ جسمانی حفظان صحت وتندرستی اور سماجی وقومی فلاح وہمدردی کے لحاظ سے بھی انمول تحفہ ہے۔ چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’روزہ رکھا کرو تندرست رہوگے۔ (سنت نبوی اور جدید سائنس ۔ ص۱۸۵ )
حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے اسی طرح کی اور بھی احادیث مروی ہیں کہ جن میں صاف طور پر فرمایا گیا ہے کہ ’’روزہ بیماری کے لئے شفا، ہے۔ روزے کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ اپنے مرضِ وفات کے درمیان حضور انور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جو وصیت فرمائی ،ان میں سے ایک رمضان کے علاوہ ہر مہینے میں تین روزے رکھنے کی بھی نصیحت تھی۔ ہر ماہ تین نفلی روزے آپ خود بھی رکھا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے’’روزے رکھا کرو صحت مند رہو گے۔(سنت نبوی اور جدید سائنس ۔ ص۱۸۵ )
اسلام کے اس نقطۂ نظر کی تصدیق حکماء واطباء کی قدیم وجدید ترین تحقیق سے بھی ہوتی ہے۔ حکماء واطباء کا کہنا ہے کہ :
’’نظام ہضم جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ ایک دوسرے سے قریبی طور پر ملے ہوئے اعضاء پر شامل ہے ۔ اہم اعضاء جیسے منہ،جبڑے میں لعابی غدود،زبان ،گلے سے معدے تک خوراک لے جانی والی نالی،معدہ ،بارہ اُنگل والی آنت،جگر اور لب لبا اور آنتوں کے مختلف حصے وغیرہ تمام نظام اس نظام کا حصہ ہیں۔ یہ سب پیچیدہ اعضاء خود بخود ایک کمپیوٹرائز نظام سے جاری ہوتے ہیں جو کھانے یا پینے کے وقت اپنا مخصوص عمل شروع کر دیتے ہیں۔ اکثر اوقات کھانے پینے میں مصروف اور غلط قسم کی خوراک کے سبب یہ گھس جاتے ہیں ۔ روزہ ایک طرح سے اس سارے نظام پر ایک ماہ کا آرام طاری کر دیتا ہے۔ جس کے سبب جگر وغیرہ کو پانچ چھ گھنٹے کا آرام مل جاتا ہے۔ جو روزے کے بغیر بالکل نا ممکن ہے۔ کیوں کہ بے حد معمولی مقدار کی خوراک یہاں تک کہ ایک گرام کے دسویں حصے کے برابر بھی اگر معدہ میں داخل ہو جائے تو پورا کا پورا نظام ہضم اپنا کام شروع کرد یتا ہے اور جگر فوراً کام میں مصروف ہو جاتا ہے۔ سائنسی حساب سے یہ دعویٰ کیا جا سکتا ہے کہ اس آرام کا وقت سال میں ایک ماہ تو ہو نا ہی چاہیے‘‘۔ (سنت نبوی اور جدید سائنس۔ ص۱۷۱/۱۷۲ )
حکماء واطباء کے نزدیک روزے سے خون کے کیمیائی عمل پر بہتر اثر ہو تا ہے۔ روزے کے دوران خون کی مقدار کی کمی دل کے لئے انتہائی فائدہ مند ہوتی ہے۔ اعصابی نظام مضبوط ہوتا ہے۔ روزے کے دوران جب خون میں غذائی مادے کم ترین مقدار پر ہوتے ہیں تو ہڈیوں کا گودا حرکت میںآجاتا ہے اور کاہلی وسستی دور ہو جاتی ہے اور خراب مواد جل کر خاکستر ہو جاتے ہیں اور صحیح مواد پیدا ہو نا شروع ہو جاتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔( سنت نبوی اور جدید سائنس۔ ص۱۷۳تا۱۷۶ )
روسی ماہر ابدان پروفیسر وی ،این نکیٹن کے خصوصی بیان ۲۲،مارچ ۱۹۶۰ء لندن سے بھی یہی انکشاف ہوتا ہے ۔ وہ کہتے ہیں ’’اگرحسب ذیل تین اصول زندگی اپنا لئے جائیں تو جسم کے زہریلے مواد خارج ہو کر بڑھاپا روک دیتے ہیں(۱)خوب محنت کیا کرو(۲)کافی ورزش کیا کرو(۳)غذا جو پسند ہو کھاؤ لیکن مہینے میں کم سے کم ایک بار فاقہ ضرو ر کرو۔ (سنت نبوی اور جدید سائنس۔ ص۔ ۱۸۵ )
اسلامی روزہ جسمانی صحت وتندرستی و ترقی کے لحاظ سے بے شمار فوائد وخصوصیات کا حامل ہے اس حقیقت کو دنیا کے مشہور ومعروف سیکڑوں محققین ومدبرین نے بسر وچشم قبول کیا ہے۔ اختصار کے پیش نظر یہاں ہم صرف دو عظیم شخصیتوں کا اظہار خیال نقل کررہے ہیں۔ چنانچہ چندر گپت موریہ راجہ کے مشہور وزیر چاڑانکیہ اپنی مشہور کتاب’’ارتھ شاسترمیں لکھتے ہیں کہ :
میں نے بھو کارہ کر جینا سیکھا اور بھوکا رہ کر اڑنا سیکھا ہے۔ میں نے دشمنوں کی چالوں کو بھوکے پیٹ سے الٹا کیا ہے۔ (سنت نبوی اور جدید سائنس ۔ ص۱۶۵ )
مہاتما گاندھی کے فاقے مشہور ہیں ۔ فیروز راز نے گاندھی جی کی سوانح حیات میں لکھا ہے کہ گاندھی جی روزے کے قائل تھے ۔ وہ کہا کرتے تھے کہ انسان کھا کر اپنے جسم کو سست کر لیتا ہے۔ اور کاہل سست جسم نہ دنیا کا اورنہ ہی مہاراج کا۔ اگرتم جسم کو گرم اور چست رکھنا چاہتے ہو تو جسم کو کم سے کم خوراک دو اور روزے رکھو ۔ سارا دن جاپ الاپو اور پھر شام کو بکری کے دودھ سے روزہ کھولو۔ (سنت نبوی اور جدید سائنس ۔ ص۱۶۵ )
گویا کہ ایک طرح سے روزہ جسمانی زکوٰۃ ہے جس طرح زکوٰۃ سے مال پاک وصاف ہو جاتا ہے اسی طرح روزے سے روح وجسم جملہ آلودگیوں سے محفوظ ہو جاتا ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ ہر شیٔ کے لئے زکوٰۃ ہے اور جسم کی زکوٰۃ روزہ ہے۔ ( سنت نبوی اور جدید سائنس ۔ ص۱۶۵ )
روحانی واخلاقی اور جسمانی فوائد کے علاوہ روزہ سماجی وقومی اعتبار سے بھی بے مثال خوبیوں کا حامل ہے۔ روزے کے ذریعہ روزہ دار پر سماجی وقومی لحاظ سے بھی بہترین اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ جب پیٹ بھرا ہوتا ہے تو دوسرں کی بھوک کا احساس نہیں ہوتا اور جب پانی سے زبان تر ہوتی ہے تو دوسروں کی پیاس کا پتہ نہیں لگتا۔ روزہ روزہ دار کو رحم ،کرم ،غربا ء پروری اور تعاون باہمی سکھاتا ہے۔ جو اسلامی تعلیم کا اہم حصہ ہیں۔
مفتی احمد یار خان صاحب نعیمی ؔ نے اس سلسلے میں کیا ہی عمدہ بات کہی ہے وہ فرماتے ہیں :’’روزے سے فقر وفاقہ کی قدر معلوم ہوتی ہے اور فقر اء کی مدد کودل چاہتا ہے۔ روزے سے اپنی بندگی اور رب کی ملکیت کا اظہار ہوتا ہے کہ ہم اپنی کسی چیز کے مستقل مالک نہیں۔ گھر میں سب کچھ ہے مگر رب نے روک دیا کہ تم کچھ استعمال نہیں کر سکتے ۔ روزے سے بھوک برداشت کرنے کی عادت ہوتی ہے کہ اگر کبھی فاقے کی نوبت آجائے تو روزہ دار صبر کرسکے۔ روح جسم میں آنے سے پہلے غذا وخوراک سے دورتھی لہٰذا گناہ سے بھی بری تھی۔ جسم میں آکر غذا کی حاجت مند ہوئی لہٰذا گناہ بھی کرنے لگی اب کچھ وقت اس کو بھوکا رکھو تا کہ اس کو اپنی پہلی حالت یاد رہے اور گناہ سے باز رہے۔ (اسرار الاحکام بانوار القرآن ۔ ص۲۵،۲۶ )
اسلام کے جملہ فرائض واعمال کا بنیادی مقصد رضائے الٰہی وآخرت کی فلاح وبہبودی ہے۔ عقبیٰ وآخرت کی کامیابی کی روسے بھی روزہ عظیم انعامات الٰہی اور رحمت خدا وندی کا ذریعہ ہے ۔ چنانچہ حضور انور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:
’’قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے روزہ د ار کے منہ کی بو اللہ کے نزدیک مشک کی بو سے بہتر ہے‘‘۔(صحیح بخاری شریف جلد اول،کتاب الصوم ،باب فضل الصوم ،حدیث نمبر ۱۷۶۷ )
’’اور جس نے ایمان اور یقین کے ساتھ رمضان کے روزے رکھے اس کے اگلے گناہ بخش دئیے جاتے ہیں‘‘۔(صحیح بخاری شریف جلد اول،کتاب الصوم ، باب من صام رمضان ،حدیث نمبر ۱۷۷۴ )
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’جس نے اللہ کی رضا و خوشنودی کے لئے ایک دن کا روزہ رکھا اللہ تعالیٰ اس کو جہنم سے اتنا دور فرمادے گا جیسے کوا کہ جب بچہ تھا اڑتا رہا یہاں تک کہ بوڑھا ہو کر مر ا۔ (بہار شریعت حصہ پنجم،ص ۶۷ )
بخاری ومسلم وترمذی میں حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے ’’حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو بندہ اللہ کی راہ میں ایک دن روزہ رکھے اللہ اس کے منہ کو دوزخ سے ستر برس کی راہ دور فرما دے گا۔ (بہار شریعت حصہ پنجم ،ص ۶۷ )
اسسٹنٹ پروفیسر ڈپارٹمنٹ آف اسلامک اسٹڈیز
جامعہ ہمدرد (ہمدرد یونیورسٹی ) نئ دہلی

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here