ارادہ- Intention

0
100

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔


Intention

 

معز ہاشم
9372696300

ارادہ

ایک مُصمم ارادہ کے ساتھ اٹھ کھڑا ہوا۔ ساری زندگی وہ خوف کے سائے میں جیتا رہا۔ بچپن ہی سے اس کے ذہن میں نا معلوم دشمن کی شبیہ کچھ اس طرح دکھائی گئی کہ وہ تمہارا دشمن ہے۔ اس سے تمہیں اذیت پہنچنے کا قوی امکان ہے اس لیے سخت احتیاط شرط ہے۔ شرطوں میں بٹی ریزہ ریزہ ہوئی اس کی زندگی نے آج اسے انتہائی سخت قدم اٹھانے پر مجبور کردیا۔ نامعلوم دشمن سے ہمیشہ کے لیے چھٹکارہ پانے کا اس نے ایسا منصوبہ بنایا کہ اسے اپنے منصوبے کی کامیابی پر پورا یقین ہوگیا اور آج اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے وہ میڈیا کے ہمراہ دشمن کی گلی میں داخل ہوا اسے اپنے سامنے دیکھ کر دشمن کا خون کھول گیا اس کے جسم سے خون کی پتلی سی لکیر نکلی دشمن نے جان لیوا حملہ کردیا اس واردات کی شوٹنگ ریکارڈ ہوگئی۔ اقدام قتل کے جرم میں اس کے دشمن کو سات سال قید با مشقت ہوگئی۔ ایک ٹھنڈی آہ لے کر اس نے سات سالوں کے لیے کھلی فضاء میں سانس لینے کی آزادی پر مہر لگادی۔

شرم

ہماری نظریں شرم سے زمین میں گڑھی جارہی تھی۔ ہم نے اپنے سر کو اس وقت تک جھکا رہنے دیا تاوقتیکہ سامنے والا نوجوان قعدہ میں نہیں آجاتا تاکہ ہم نگاہ کے گناہ سے بچ کر خشوع و خضوع سے اپنی عبادت ادا کریں۔
اقتباس
لوگ بھی کتنے عجیب ہوتے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرکے لڑنے مرنے پر آمادہ ہوجاتے بزرگانہ مشورے پر زندہ قوم کا دعویٰ پیش کردیا جاتا دوسرے ہی پل یہی لوگ جنازہ کے لیے خود اپنے ہاتھوں رکاوٹوں کو ہٹادیتے اور مردہ انسان کو جلد سے جلد اس کی منزل کی طرف روانہ کرنے کے لیے چالیس قدم بھی اس کا ساتھ دے کر اپنے نام نیکیاں بٹور لیتے۔اس عجیب و غریب رواج کو بدلا نہیں جاسکتا صرف محسوس کیا جاسکتا ہے۔ شاید “مردہ بدست زندہ” کی تحریر کا مابقی اقتباس ہے۔

نربھیہ

ایک عرصہ بعد دیرینہ دوست سے ہماری اچانک ملاقات ہوئی۔ پر جوش انداز میں ایک دوسرے سے بغلگیر ہونے کے بعد رسماً طویل غیر حاظری کا سبب جاننے کے لیے ہم نے دریافت کیا، کیا کررہے ہو! اس نے کاروباری مسکراہٹ لبوں پر بکھیرتے ہوئے کہا : موم بتی کا ٹھوک اور چلّر دھندہ کررہا ہوں۔ دکان کس محلّہ میں ہے؟ میاں دکان تو اوپر والے کے کرم سے ایسی جگہ ہے جہاں سے مورچوں کی ابتداء وہوتی ہے وہاں تمہارا کیا دھندہ ہوتا ہوگا۔ میاں ہمارے تو اچھے دن آگئے ہیں۔ یوں سمجھ لو ہر ہفتہ پندرہ دن میں “کینڈل مارچ” کے لیے ہماری ہی موم بتیاں روشن ہوتی اور ساتھ ہی ہماری دکان بھی چمک جاتی۔ تو بتا کیا کررہا ہے آج کل۔ بس ایسا سمجھ لیں کہ تیرے دھندے کا این جی او چلا رہا ہوں۔

نام کرن

شہر کے مصروف چوراہے پر ٹریفک جام ہوگیا۔ کوئی بھی اپنی غلطی ماننے کو تیار نہیں۔ پہلے تو، تو تو میں میں پھر ہاتھا پائی چند زخمی ہوئے چند ایک شدید زخمی ہوئے۔ دوسرے دن اخبار میں خبر آئی گذشتہ دن جو ٹریفک کی وجہ سے سنگین حادثہ ہوا تھا اس میں کا ایک شدید زخمی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسا۔ شہر کے چار معزز افراد نے پولیس محکمہ میں شکایت درج کروائی کہ حادثہ ٹریفک پر کنٹرول نہ ہونے کی وجہ سے ہوا۔ محکمہ کارپوریشن نے یہ کہہ کر پلڑا جھاڑ دیا کہ اگلی میٹنگ میں اس چوراہے کا نام مرنے والے کے نام پر رکھدیا جائیگا۔

معصوم سڑک پر

ترقی یافتہ شہر کی یہ خوبی ہوتی ہیکہ وہاں کی سڑکیں چوڑی اور کشادہ ہوتی ہے۔ یہی سوچ کر شہریوں کی کثیر تعداد نے شہر کی ترقی کے لیے اپنی آبائی بوسیدہ مکانوں کی قربانی پیش کیں اور اس کام میں اس نے بڑھ چڑھ کر لوگوں کو یہ باور کروایا کہ تمہارے کچے مکانوں کے کچھ حصے اگر کشادگی راہ کی بھینٹ چڑھ بھی گئے تو تمہاری باقی ماندہ جگہ کی قیمت بڑھ جائیگی۔ اس کی میٹھی میٹھی باتوں میں لوگ آتے گئے اور سڑک کشادہ ہوگئی اور وہ تمام معصوم سڑک پر آگئے۔

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here