مشاہدہ گواہ ہے کہ تربیت اگر جانور کی بھی کردی جائے تو وہ ایک مطیع، فرمانبردار اور قابل قدرجانور بن جاتا ہے، اگر درخت کی پرداخت پر صحیح نگہداشت کی جائے تو وہ بھی خوبصورتی اور ثمرآوری میں مثال ہوتا ہے۔ ذرا سوچیں کہ اگر انسان کی تربیت و ذہنی پرورش بہتر طور پر کردی جائے تو وہ کیا کچھ ہوسکتا ہے، آج مسلمانوں کی نئی نسل کو جن چیلنجز کا سامنا ہے ان میں ایک نمایاں چیلنج ،فکری بے راہ روی اور خدشات سے تعلق رکھتا ہے، مغربی مفکرین اور ان کی لابیاں لگاتار اس پر کام کر رہی ہیں، دشمنان دین کی پوری تحریک کا اصل مدار یہی ہے کہ مسلمانوں کو ان کی شباہت اور دینداری کے ساتھ بہکایا جائے، ہندوستان میں تو اس فکری حملے نے مسلمانوں کی کمر توڑ دی ہے، اب ایک سیلاب آن پڑا ہے، جو طوفان اور آندھی بن کر مسلمانوں کی نئی نسل کو بہا لے جانا چاہتا ہے، اللہ کا شکر ہے کہ علماء نے اس نہج پر مکاتب کے قیام اور بچوں کی تربیت کیلئے مواد فراہم کئے ہیں، مگر صحیح بات تو یہ ہے کہ گاؤں، دیہات اور دور دراز کے علاقوں میں اب بھی اندھیر ہے، مگر وہاں عیسائی مشنریاں برابر اپنا کام کر رہی ہیں، راجستھان اور ہریانہ کے سلسلہ میں زمینی حقیقت یہی بیان کی جاتی ہے، ان کے علاوہ بھی مسلمانوں کے وہ گھرانے جو مال و دولت سے مالا مال ہیں، اللہ تعالی نے ان کیلئے زر کی فراہمی کے وسائل آسان کردیئے ہیں؛ وہ عموماً اپنے بچوں کو عیسائی مشینریز کے اسکولوں میں پڑھانے کو ترجیح دیتے ہیں۔اب تو مدارس کے سلسلہ میں بھی یقین کے ساتھ نہیں کہا جاسکتا کہ وہاں پر اسلامی فکر راسخ کردی جاتی ہے، فرقہ واریت اور فکری کشمکش میں بہہ جانے والوں کی کمی نہیں ہے، اہل دانش یہ کہتے آئے ہیں کہ مسلمانوں کو مسلمان رکھنے اور ان کے مستقبل کو مضبوط ایمانی قلعہ فراہم کرنے کیلئے یہ اشد لازم اور ضروری ہےکہ فکری تربیت پر توجہ دی جائے، وہ کہیں بھی جائیں اسلام اور اسلامیت ان سے جدا نہ ہو۔ اللہ تعالی کی وحدانیت، رسالت، آخرت اور للہیت پر کسی مصلحت اور موقع کو ترجیح نہ دیں، حالات جو بھی ہوں وہ ایمان کا سودا ہرگز نہ کریں۔
لہذا جب تک سوچ تبدیل نہ ہو اسلامی تعلیمات کی حقانیت اس پر واضح نہ ہو، اس کو یہ بات سمجھا نہ دی جائے کہ بے قید آزادی انسان کے لئے زہر ہے نہ کہ امرت، وہ محسوس نہ کرلیں کہ اللہ اور اس کے احکام پر عمل کرنے میں ہی ان کی دنیا سے لے کر آخرت تک کی کامیابی ہے، تب تک ان کی زندگی میں تبدیلی نہیں آسکتی، دل و دماغ کی تبدیلی کے بغیر صرف زبان سے کسی بات کا قائل ہوجانا ایسا ہی ہے جیسے پیتل کے برتن پر سونے کا پانی چڑھا دیا جائے اور اسے سونا سمجھ لیا جائے؛ کہ معمولی خراش اس کی حقیقت کو کھول کر رکھ دے گی، اسی طرح بے شعوری کے ساتھ جو بات تسلیم کی جاتی ہے، اس میں ثابت قدمی نہیں ہوتی، فریق مخالف کا ایک ہی حملہ اس کے یقین کو پاش پاش کردیتا ہے؛ اس لئے ہمیں نئی نسل کی فکری تربیت پر توجہ دینی چاہئے اور قرآن و حدیث کے ساتھ ساتھ عقل و حکمت کی مدد لے کر انھیں قائل کرنا چاہئے؛ تاکہ وہ مغرب کی فکری یلغار کے مقابلہ ٹھہر سکیں۔ اسی لئے قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء کو اپنی نسلوں کی ایمانی تربیت کی بہت فکر تھی، حضرت یعقوب علیہ السلام پر جب موت کا وقت قریب آیا تو انھوںنے اپنے صاحبزادوں سے نماز، روزہ کے بارے میں تو سوال نہیں کیا؛ لیکن ایمان کے بارے میں سوال کیا کہ تم میرے بعد کس کی عبادت کروگے؟:’’ مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ بَعْدِیْ‘‘ ( البقرۃ: ۱۳۳) اور رسول اللہ نے یہاں تک تاکید فرمائی کہ کوشش کرو کہ تمہارے بچوں کی زبان سے پہلا کلمہ جو نکلے، وہ لا اِلٰہ اِلا اللہ ۔
صورت حال یہ ہے کہ جو ماں باپ دین دار ہیں اور کسی حد تک بچوں کی دینی تعلیم و تربیت کا اہتمام کرتے ہیں، وہ بھی بچوں کو صرف وضوء، نماز اورروزہ کے نواقض تو سکھاتے ہیں؛ لیکن نواقضِ ایمان کی تعلیم نہیں دیتے، یعنی ان باتوں کے بارے میں کچھ نہیں کہتے، جو انسان کو ایمان سے محروم کردینے والی ہیں اور جس کی وجہ سے ایک مسلمان دائرہ ایمان سے باہر ہوجاتا ہے، اس پر پوری توجہ کی ضرورت ہے، عمل کی کوتاہی سے انسان فاسق اور گنہگار ہوتا ہے؛ لیکن فکر و ایمان میں خلل سے انسان کفر و ارتداد تک پہنچ جاتا ہے، کبھی یہ کفر وارتداد واضح صورت میں آپ کے سامنے ہوتا ہے اور کبھی ظاہری دین داری کے پردے میں چھپا ہوتا ہے، مگر ہوتی ہے یہ بھی کفر ہی کی ایک صورت، اللہ تعالیٰ ہم سب کی اس سے حفاظت فرمائے۔