انسانیت

0
511

تازہ ترین خبروں اور اردو مضامین کے لئے نیچے دئے گئے لنک پر کلک کر کے واٹس ایپ اور فیس بک پر ہمیں جوائن کریں

https://chat.whatsapp.com/9h6eHrmXUAXBjMyW9zQS4B

https://www.facebook.com/urduavadhnama?mibextid=ZbWKwL


اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه ذیل ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

[email protected] 

9807694588(موسی رضا)


افسانہ نگار: شوکت محمود شوکتؔ

ہر سال کی طرح، امسال بھی ”عالمی افسانوی فورم“نے افسانہ نگاری کے مقابلے کا اعلان کیا تھا۔ یہ مقابلہ پچھلے دس سال سے، بغیر کسی تعطل کے ہر سال، مئی /جون کے مہینے میں انعقاد پذیر ہوتا تھا۔ اس بار، اس مقابلے کی خاص بات یہ تھی کہ بہترین افسانہ نگار کو شیلڈ اور میڈل کے ساتھ، دو لاکھ روپے کے انعام سے نوازنے کا بھی فیصلہ کیا گیا تھا۔ جب کہ گزشتہ سالوں کے مقابلہ جات میں صرف، شیلڈ اور میڈل سے بہترین افسانہ نگار کی حوصلہ افزائی کی جاتی۔

”دارین چند“ نے جب ”عالمی افسانوی فورم“ کا یہ اشتہار ملک کے ایک مؤقر اخبار میں پڑھا تو گویا، اس کے من کی مراد بر آئی۔ کیوں کہ اسے، دو لاکھ روپے کی اشد ضرورت تھی، وہ ان پیسوں سے اپنی کینسر زدہ بیوی کا علاج کرانا چاہتا تھا۔ اگرچہ، وہ پریم چند نہیں تھا، تاہم، پریم چند سے کم بھی نہیں تھا۔ لطف کی بات یہ کہ اپنے نام ”دارین“کے ساتھ اس نے پریم چند کا لاحقہ ”چند“ بھی بچپن ہی سے لگا لیا تھا،اصل نام اس کا عزت دارین بیگ تھا مگر ادبی دنیا میں اسے ”دارین چند“سے جانا اور پہچانا جاتا تھا۔ اگر خدا لگتی کہی جائے تو حقیقت بھی یہی تھی کہ ایک دنیا، اس کے افسانوں کی معترف تھی۔ اس کے افسانے تعداد میں کم، مگر معیار میں بہت بڑھیا اور اعلی تھے یا یوں کہہ لیں کہ اس کے افسانے ”بہ قامت کہتر بہ قیمت بہتر“کی زندہ مثال تھے۔ اس کے ہر افسانے میں نہ صرف کوئی نیا پلاٹ، اچھوتا خیال اور منفرد موضوع ہوا کرتا تھا بلکہ افسانے کا اختتام اتنا جان دار اور حیران کن ہوتا کہ قاری ایک بار تو اپنی نشست سے اچھل پڑتا اور بے اختیار اسے داد دینے لگ جاتا۔ یہ وہ اوصاف خاص تھے جو اس کے افسانوں کے نمایاں امتیازات میں سے تھے۔ بہرحال،جب سے، دو لاکھ روپے کی انعامی رقم برائے بہترین افسانہ، کا اشتہار، ”دارین چند“ کی نظر سے گزرا تھا اسے ہر طرف دو لاکھ روپے نظر آتے۔ اس کو اس بات کا یقین کی حد تک زعم تھا کہ اس کا ہم پلہ افسانہ نگار، اپنے ملک میں تو درکنار پوری دنیا میں کوئی نہیں۔ یہ وہ احساسِ تفاخر یا احساس ِبرتری تھا جس کی وجہ سے وہ دولاکھ روپے کو تصور ہی تصور میں اپنی ملکیت بنا بیٹھا تھا۔ مگر مسئلہ یہ تھا کہ اس اشتہار کو شائع ہوئے پانچ روز گزر چکے تھے اور اسے اب تک کوئی اچھوتا اور بین الاقوامی سطح کا پلاٹ یا موضوع نہیں مل پایا تھا۔ وہ رات دن اسی سوچ بچار میں غرق، دنیا و مافیہا سے بے خبر اپنے چھوٹے سے کمرے میں قید، منفرد اور اچھوتے پلاٹ کودام ِخیال میں لانے کی کوشش کرتا لیکن اسے کوئی پلاٹ یا موضوع پسند ہی نہیں آ رہا تھا۔ دو چار موضوعات نے اس کے در ِذہن پر از خوددستکیں دیں مگر بے سود۔

اِدھر، اسی کشمکش میں مزید چار روز گزر گئے،اسے کوئی نیا پلاٹ یا نیا موضوع نہیں سوجھ رہا تھا۔ اُدھر، افسانہ، واٹس ایپ / ای میل پر بھیجنے کی آخری تاریخ میں بھی دو دن باقی رہ گئے تھے۔ آج کی رات اس نے ہر صورت اپنا نیا افسانہ لکھنا تھا،تاکہ کل وہ، اسے واٹس ایپ / ای میل کے ذریعے مقابلہ افسانہ نگاری میں بھیج سکے۔شام ہوتے ہی، وہ اپنے کمرے میں چلا آیا، قلم اور کاغذ اٹھایا اور اشہبِ خیال کو دوڑانے لگا مگر، کوئی موضوع یا پلاٹ اُسے پسند نہیں آرہا تھا، اِسی کیفیت میں رات کے بارہ بج گئے کہ اچانک اس کے ذہن میں، ایک نئے موضوع یا پلاٹ کا جھماکا سا ہوا۔ وہ موضوع یا پلاٹ تھا”انسانیت“۔اس کی خوشی کی انتہا نہ رہی کہ اسے ایک اچھا موضوع مل گیا تھا، وہ اکثر سوچتا تھا کہ انسانیت کے حوالے سے بہت کچھ لکھا جا چکا ہے لیکن، اس موضوع کے ساتھ کسی نے آج تک انصاف نہیں برتاتھا۔ یہ سوچتے ہی اس نے لکھنا شروع کر دیا،ابھی ایک جملہ ہی لکھا ہو گا کہ اس کی بیمار بیوی نے کھانستے ہوئے، نحیف لہجے میں، دوسرے کمرے سے اُسے آواز دی کہ ذرا پانی تو پلاؤ! مگر اس نے اپنی بیوی کی آواز کو سنی ان سنی کرتے ہوئے کوئی توجہ نہ دی اور اپنے خیالات کو مجتمع کرتے ہوئے دوبارہ افسانہ لکھنا شروع کر دیا کہ اسی دوران میں اس کی بیوی نے کراہتے ہوئے،زور سے آواز لگائی۔اجی! سنتے ہو، ذرا پانی تو پلاؤ۔اس نے کاغذ اور قلم سامنے ٹوٹے پھوٹے میز پر رکھے اور منہ ہی منہ میں بڑبڑاتے ہوئے دو چار گالیوں سے اپنی بیمار بیوی کو نوازا، گھر کے بوسیدہ سے مطبخ میں پڑے ہوئے گھڑے سے مٹی کے پرانے برتن میں پانی لا کر بیوی کو پلایا اور پھر جلدی سے اپنے کمرے میں لوٹ آیا۔ اس کے سارے خیالات منتشر ہو گئے تھے یا یوں کہہ لیجیے کہ عنقائے موضوع،دام ِ خیال میں آتے ہی اڑ گیا تھا۔ابھی صبح ہونے میں، دو گھنٹے باقی تھے۔ اس نے سوچا، کیوں نہ تھوڑا سا آرام کر لیا جائے اور صبح کی اذان کے فوراً بعد اپنا افسانہ مکمل کر لیا جائے۔ یہ سوچتے ہی اس نے اپنی پرانی لالٹین کو بجھا دیا اور سونے کی کوشش کرنے لگا۔

یہ بھی پڑھیں

مفتی رضا انصاری فرنگی محلی

صبح کی اذان کے ساتھ ہی، اس کی آنکھ کھل گئی۔ اس کی بیوی جو کہ تین مہینوں سے کینسر کی مریضہ تھی، درد سے کراہ رہی تھی، اس کے کانوں میں اپنی بیوی کے کراہنے کی آوازیں صاف سنائی دی جا رہی تھیں،تاہم! اس نے اس کی پروا کیے بغیر، لالٹین روشن کی اور اس کی مدھم سی روشنی میں ایک بار پھر سے افسانہ لکھنا شروع کر دیا۔ ابھی بہ مشکل وہ دو سطریں ہی لکھ پایا تھا کہ اسے اپنی بیوی کی ایک زور دار کراہ سنائی دی گئی اور اس کے بعد، مکمل خاموشی چھا گئی۔ اس نے ایک بار پھر کاغذ اور قلم اسی میز پر رکھے اور لالٹین ہاتھ میں لیے، ڈرتے ڈرتے، بیوی کے پاس جا پہنچا۔اس نے دیکھا کہ اس کی بیوی بے حس و حرکت چار پائی پر پڑی ہوئی ہے، جیسا کہ وہ مر چکی ہو، لالٹین کی مدھم روشنی میں اس کی بیوی کا چہرہ بھی انتہائی خوف ناک لگ رہا تھا۔وہ اپنی بیوی کی چارپائی کے ساتھ زمین پر بیٹھ گیا، اس کے سارے خیالات منتشر ہو چکے تھے، اب وہ بیوی کی تجہیز و تکفین کے بارے میں سوچ رہا تھا، مشرق سے جیسے ہی سورج طلوع ہوا، اس نے بیوی کی لاش کو کمرے میں اکیلا چھوڑا اور گھر سے نکل کر سیدھا اپنے ایک تعلق دار سیٹھ واجد خاقان کے گھر کی طرف دوڑ لگا دی،کیوں کہ سیٹھ واجد ہی اس کی آخری امید تھی۔ سب عزیز و اقربا بہت پہلے اس سے بہ وجہِ افلاس منہ موڑ چکے تھے۔ وہ آس اور غم کے ملے جلے جذبات لیے، جب سیٹھ واجد کی عالی شان کوٹھی کے صدر دروازے پر پہنچا، گھر کے دروازے پر لگی گھنٹی بجائی، سیٹھ واجد، شاید اپنے گھر کے صحن میں ٹہل رہا تھا اس لیے پہلی بیل کے بجتے ہی سیٹھ واجد نے خود دروازہ کھولا اور ”دارین چند“ کو اندر آنے کے لیے کہا، مگر ”دارین چند“ نے دروازے ہی پر،پھولی ہوئی سانسوں کے ساتھ ساری روداد بیان کی کہ اس کی بیوی مر گئی ہے،اس کے کفن دفن کے لیے نہ صرف پیسوں کی ضرورت ہے بل کہ تدفین و تکفین کا بندوبست بھی کرنا ہے۔ سیٹھ واجد نے اس کی یہ باتیں جب سنیں تو اس نے ایسے آنکھیں پھیر لیں جیسے وہ ”دارین چند“ کو جانتا ہی نہ ہو۔ ”دارین چند“ شکست خوردہ حالت میں بھاری قدموں کے ساتھ گھر لوٹا،اس نے اپنے گھر کے چھوٹے سے صحن میں خود ہی ایک قبر کھود ڈالی اور انھی کپڑوں میں اپنی بیوی کو دفنا دیا، جن کپڑوں میں وہ فوت ہوئی تھی۔ اپنی بیوی کو دفنانے کے بعد وہ پھر اپنے کمرے میں داخل ہوا اور اس افسانے کو ایک بار پھر سے مکمل کرنے کی غرض سے کاغذ اور قلم اٹھا کر لکھنا شروع کر دیا۔ ابھی اس نے دو چار جملے مزید لکھے ہوں گے کہ اس کے گھر کے دروازے پر شور سا سنائی دیا۔وہ کمرے سے نکل کر گھر کے دروازے کی طرف آیا، دروازہ کھولا تو اس نے دیکھا کہ اس کے محلے کے لوگ، سیٹھ واجد کی سربراہی میں کافی تعداد میں باہرکھڑے ہیں اور اس کی بیوی کی تجہیز و تکفین کے حوالے سے باتیں ہو رہی ہیں۔”دارین چند“ جو پہلے ہی سیٹھ واجد کی انکار سے دل برداشتہ ہو چکا تھا، اس نے سیٹھ واجد سمیت موجود سب لوگوں کو جلی کٹی سنائیں اور انھیں بتایا کہ وہ اپنی فوت شدہ بیوی کو خود ہی دفنا چکا ہے، اب آپ لوگوں کی نہ تو مدد کی ضرورت ہے،نہ ہی پیسوں کی اور نہ ہی تعزیت کی۔ یہ کہ کر اس نے گھر کا دروازہ اندر سے بند کر لیا اور اپنے چھوٹے سے کمرے میں پھر سے داخل ہو کر، کاغذ اور قلم اٹھائے تاکہ افسانہ مکمل کر سکے۔

آج افسانہ، واٹس ایپ /ای میل پر بھیجنے کی آخری تاریخ تھی، اس کی بیوی کی موت، سیٹھ واجد کی عین وقت پر بے وفائی اور عزیز و اقربا کی بے مروتی نے اس کے افسانے کے موضوع ”انسانیت“ کو مزید چار چاند لگا دیے تھے۔ اس نے وہ افسانہ آخر کار مکمل کر لیا جو کہ واقعی ایک شان دار اور بہترین افسانہ کہلائے جانے کا مستحق تھا لیکن، جیسے ہی اس نے یہ افسانہ مکمل کر لیا، ابھی اس نے کاغذ اور قلم اسی میز پر رکھے ہی تھے کہ اس کے سینے میں شدید درد اٹھا جو جان لیوا ثابت ہوا اور وہ بھی چند ہی لمحوں میں اپنی بیوی کے پاس جا پہنچا۔ اپنی بیوی کی تو جیسے تیسے، اس نے خود تدفین و تکفین کر دی تھی مگر، اس کی اپنی لاش نہ صرف بے گور و کفن پڑی’انسانیت ‘ کا منہ چڑا رہی تھی بلکہ اس کے گھر کا دروازہ بھی اندر سے بند تھا۔
٭٭٭٭٭

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here