بھارت کے یوگی، سادھو،سنت کی جان خطرے میں۔۔۔!- Indian yogis, sadhus, saints’ lives in danger …!

0
176

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔


Indian yogis, sadhus, saints' lives in danger ...!

صوفی انیس درانی
اے اللہ!اے پروردگار!اے سب کے خالق ، سب کے مالک، بھارت کی حفاظت فرما۔ان تمام پلیدآتماؤں سے جومشرق سے مغرب تک شمال سے جنوب تک تانڈوناچ میں مست ہیں۔ انہیں کوئی فکر نہیں کہ اس تانڈوناچ سے پیداہونے والاارتعاش ہزاروں ، لاکھوں بھارتیوں کے لئے موت کا پیغامبر بن سکتاہے۔ یہ دعا اس لئے کررہاہوں کہ بقول حکومت کے دوڈھائی ہزار تبلیغی جماعت کے اجتماع میں آنے والے مسلمانوں نے سارے بھارت میں کرونا پھیلا دیا تھا۔ اٹھتے بیٹھتے وزیراعظم کی کابینہ کے وزیروں سرکارکے وفادارافسران جبکہ دہلی کے وزیراعلیٰ کیجریوال بھی تبلیغی جماعت کے ممبران کا الگ سے ذکر کرکے مسلمانوں کے خلاف چلنے والی گندی سازش میں شریک تھے۔ خیر حق غالب آیا اور باطل کے جھوٹ کا پردہ فاش ہوکر رہا۔ سارے گرفتار ملکی وغیرملکی شہری بناکسی الزام ثابت ہوئے بری ہوگئے اور اپنے اپنے وطن واپس لوٹ گئے۔ لیکن آج جب کمبھ کے میلے میں لاکھوں بھارتیوں کو گنگا میں اشنان کرتے دیکھتاہوں تومیری روح کانپ اٹھتی ہے۔ اس لئے کہ جب تبلیغی جماعت کو نشانہ بنایا گیا تھا تواس وقت وبا کی شروعات تھی۔ چندہزار لوگ ہلاک ہوئے تھے لیکن آج جب کرونا کادوسرا دور شروع ہوچکا ہے ۔ دہلی اور مہاراشٹرجیسے اہم مقامات بری طرح اس وبا کے شکار ہیں۔ بڑے بڑے شہروں میں رات کے کرفیولگائے جارہے ہیں۔ اورتشویشناک بات یہ ہے کہ کرونا کے ٹیکوں کی تقسیم کو لے کر غیر واضح صورت حال ہے ایسے حالات میں ہرکی کی پوڑی پر کمبھ کے میلے میں ۱۲اپریل کودوسرا’’ شاہی اشنان‘‘ ہوا جس میں لگ بھگ ۳۵لاکھ لوگوں نے اشنان کیا۔ ان میں اکثریت اترپردیش، راجستھان، مدھیہ پردیش، ہریانہ، جھارکھنڈ، پنجاب، ہماچل پردیش اور جموں سے آئے یاتریوں کی تھی ۔ بقیہ اور صوبوں سے بھی بڑے بڑے جتھّے شاہی اشنان میں شرکت کے لئے آئے ہوئے تھے۔ ہمارے سناتنی دھرم کے ماننے والے ہندوبھائیوں کا عقیدہ ہے کہ کنبھ کے دوران ہری دوار پر ہڑکی بوڑی پرغوطہ لگانے یا اشنان کرنے سے انہیں سارے گناہوں سے معافی مل جاتی ہے اور وہ پاک وصاف ہوجاتے ہیں ۔ بعض ودوانوں (عالموں) کا یہ کہنا ہے کہ کمبھ کے دوران اشنان کرنے سے باربار جنم لینے سے نجات مل جاتی ہے ۔ ہمیں کسی کے عقیدے پر سوال کرنے کاکوئی حق نہیں ہے ۔ یہ مہاکنبھ ۳۰اپریل تک اختتام کوپہنچے گا۔ ہمیں توتشویش اس بات کی ہے کہ ایک طرف عام زندگی کرونا کے سبب مفلوج ہوکر رہ گئی ہے۔ ہرایک شخص منہ پر ایک ڈھاٹایا ماسک باندھے نظرآتاہے۔ باربار ٹیلی فون اٹھانے پر موبائل اٹھانے پر ٹیلی ویژن پر ایک ہی پیغام نشر ہوتارہتاہے کہ فاصلہ بنائے رکھئے۔ اس فاصلہ بنائے رکھنے کی لپیٹ میں سب ہی آتے ہیں مگر مسجدوں میں نماز پڑھنے والے بالخصوص جمعہ کی نماز ادا کرنے والوں کو بہت سے صوبوں میں بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ مگرمسلمان ایک ذمہ دار شہری کا فرض نبھارہے ہیں اور مفادعامہ میں جاری ہدایات کی پابندی کررہے ہیں۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہاہے کہ بھارت کے بڑے سادھوسنت مہنت سوامی اور ۱۳اکھاڑوں کے سربراہ جو اس مہاکمبھ کی شان ہوتے ہیں وہ بہت لاپرواہ ہوکر اشنان کررہے ہیں۔ہم کسی بھی دھرم کے گروؤں کا پورا احترام کرتے ہیں اور ان کی حفاظت کو لے کر بہت فکر مند ہیں ۔لیکن حکومت خواہ مرکزی ہو یا اتراکھنڈ کی ان سے مہاکمبھ کے انتظامات میں بڑی لاپرواہی ہوئی ہے۔ اتراکھنڈاور مرکزی حکومتوں کے سامنے برسہا برس کے اعدادوشمار تھے انھیں اس مہاکمبھ میں آنے والے انسانی ہجوم کا پوری طرح اندازہ تھا۔ ۱۳دھارمک اکھاڑوں سے تعلق رکھنے والے سادھوؤں اورسنتوں کی لگ بھگ تعدادکاعلم تھا۔ اشنان کے موقعہ پر ان کے کروفران کے ٹھاٹ باٹ ان کے سونے چاندی کے بنے جھنڈے یاعلم ان کے جائزاور ناجائزہتھیاروں کی پوری واقفیت تھی شاہی اشنان کے موقع پر وہ نہ کسی قانون کو مانتے ہیں اورنہ کسی سرکاری حکم کو ۔ اگر حکم مانتے ہیں تو صرف اپنے اکھاڑے کے سربراہ کا۔ اور سب سے افسوسناک بات تویہ ہے کہ ہری دوار اتراکھنڈ میں ہے اور اتراکھنڈ کے بے حد قریب اترپردیش ہے ا س لئے اترپردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ سے زیادہ ان مسائل کاتصرف یا مسائل بھکتی کا جانکاراور کون ہوسکتاہے۔ یہ سب کچھ میں بہت غم اور افسوس کے ساتھ لکھ رہاہوں۔ اس لئے کہ نرجنی اکھاڑہ جو ہندوسادھوؤں اکھاڑوں میں سے سب سے زیادہ اثردار سمجھاجاتاہے اس نے جمعرات کی شب یعنی ۱۵اپریل کو باضابطہ اعلان کیا کہ نروانی اکھاڑہ کے سربراہ ۶۵سالہ مہامنڈلیشورکپل دیو داس کی کرونا کے سبب موت ہوگئی اس لئے اکھاڑہ مہاکمبھ کے درمیان سے ہی واپس لوٹ رہا ہے۔ کپل دیوداس ایک پرائیویٹ نرسنگ ہوم میں زیر علاج تھے۔ نرجنی اکھاڑہ ناگاسادھوؤں (جو بیشتر برہنہ جسم رہتے ہیں) کادوسراسب سے بڑا اکھاڑہ ہے۔ پہلے نمبر پر جونااکھاڑہ مانا جاتاہے۔ نرنجنی اکھاڑہ کے سکریڑی مہنت رویندرپوری نے بہت صاف اور واضح طورپر کہا ہے کہ اکھاڑے کے کمیمپوں میں رہنے والے سنتوں اور ان بھکتوں کی اکثریت میں Covid-19 (کرونا) جیسی علامات مل رہی ہیں اس سبب انھوں نے ۱۷اپریل کو واپس جانے کافیصلہ لے لیا ہے۔ ٹائمزآف انڈیا کے مطابق اترپردیش سرکار کے محکمہ صحت کے ایک افسر کے مطابق ۱۴۔۱۵اپریل کے دوران ہری دوار میں ۶۸ سینئرسادھوسنت کرونا پازیٹیوپائے گئے تھے۔
کنکھال جہاں لگ بھگ دس ہزار سادھوسنتوں کے ٹھہرانے کے لیے کیمپ لگائے گئے ہیں۔ وہاں اب بڑے پیمانے پر کرونا ٹیسٹنگ کی شروعات ۱۶اپریل سے ہوئی ہے۔ سوامی سادھوسنت مہنت یوگی ہمارے دیش کی دولت اور وراثت ہیں ایک سنت بننے کے لیے راہ طلب کے مسافروں کو کتنی مشکلات کا سامنا کرناپڑتاہے برسوں جنگلوں میں، پہاڑوں میں، ننگ دھڑنگ پھرتے رہتے ہیں۔ جو مل جاتاہے کھالیتے ہیں۔ نہ ملے تو بھوکے رہ کر تپسیا کرتے رہتے ہیں۔ ایسی مہان آتماؤں کے ساتھ مودی حکومت کا یہ برتاؤیہ لاپرواہی ہماری سمجھ سے بالا ترہے؟ مجھے سادھوسنتوں کی المناک موت کا افسوس اپنی جگہ پرہے مگر تازہ ترین اطلاعات کے مطابق بھارت میں روزانہ کرونا کا شکاربننے والوں کی تعداد دولاکھ سے زائد ہوگئی ہے۔ انتہائی خوفناک بات یہ ہے کہ اتراکھنڈسرکار کے پاس کسی قسم کے اعدادوشمار ہی نہیں کہ کتنے لوگ کرونامیں مبتلا ہونے کی علامات رکھتے ہیں اور اس سے بھی زیادہ مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ ان کے پاس مہاکنبھ کے درمیان مرنے والوں کے بھی کسی قسم کے اعدادوشمارنہیںہیں۔ سب کچھ رام بھروسے ہے۔ وبائی بیماریوں کے ماہرین خواہ وہ بھارتی ہوں یا غیر ملکی سب اس بات کو لے کردم بخود ہیں کہ اتنی لاپرواہی کے ساتھ کمبھ میں شریک ہونے والے لوگ واپسی کے سفرمیں کہاں کہاں کرونا کی کاشت کریں گے اوراپنے قصبات اور گاؤں میں پہنچ کر چھوت کے اس مرض کو کس کس کو منتقل کریں گے۔ اگرماہرین کے یہ خدشات درست ثابت ہوتے ہیں توملک میں ایک قیامت صغریٰ بپا ہوجائے گی ۔ اور سیاست داں ہمیشہ کی طرح کسی کے سرٹوپی پہنانے کی جگہ تلاش کرلیں گے۔ اول توبھاجپاکی حکومتیں پوری کوشش کررہی ہیں کہ کسی طرح عوام تک مرنے والوں کی صحیح تعدادنہ پہنچ سکے۔ مودی جی کی سسرال گجرات میں بھٹروچ ایک مشہور ضلع ہے (میں نے گجرات کی مودی جی کی سسرال اس لئے لکھا کہ وہ تواب ہمیشہ دہلی میں رہنے کے لئے کوشش کرتے رہتے ہیں۔ گجرات میں البتہ راشٹرکی بھابھی یشودھراجی براجمان ہیں اور وہ تاحیات وہیں رہیں گی) بھڑوچ کے اسپتال کاریکارڈآٹھ دن میں ۳۶افراد کی موت دکھاتاہے جبکہ شمشان کا ریکارڈ کرونا سے مرنے والوں کی تعداد ۲۶۰ ریکارڈ ہے لیکن تعداد۲۶۰ بتارہاہے۔ بڑودہ کے صرف دواسپتالوں میں کرونا سے مرنے والوں کی تعداد ۳۵۰ ریکارڈ ہے۔ لیکن سرکاری ریکارڈ پورے ضلع میں کورونا سے مرنے والوں کی تعدادصرف۳۰۰بتارہی ہے۔ احمدآبادمیں روزانہ شمشان گھاٹوں اور قبرستانوں میں سوکے آس پاس نعشیں آخری منزل پہنچائی جاتی ہیں مگر سرکاری طورپر صرف تیس کہا جاتاہے۔ حال ہی میں گجرات ہائی کورٹ میں ایک سماعت کے دوران عدالت نے حکومت کا پیش کردہ اعدادوشمارپر شبہات کا اظہار کیاہے۔اورپوری تفصیل مانگی ہے۔ یہ سب مودی جی کے گجرات ماڈل کاکرشمہ ہے۔ مجھ کو دوسری بھاجپا کی حکومتیں بھی نقل کررہی ہیں۔ ایک بار پھر میں اس کالم کے قارئین سے درخواست کروں گا کہ وہ رمضان کے مقدس ماہ میں ہرآفت سے نجات کی دعا کریں اور بھارت کے تشویشناک حالات کو مستحکم کرنے کی التجا کریں۔آمین
اشہر قلم کالم کو اختتام کی طرف لے جانے کے لئے غورہی کر رہا تھا کہ ایک خوشخبری ملی جس کو میں قارئین کے ساتھ باٹناچاہتاہوں ۔ آپ سب کو یادہوگا کہ ۲۰۲۰ میں کروناکی وبا پھیلتے ہی اس کا ٹھیکرا بنگلہ والی مسجد حضرت نظام الدین اولیاء میں تبلیغی جماعت کے مرکز کے سرپھوڑدیاگیاتھا۔ مقصدواضح طورپر مسلمانوں کے خلاف غیرمسلم ہم وطنوں کوبھڑکاکر نفرت کو فروغ دینا تھا۔ یہ تبلیغی جماعت کے مرکزکو بند کرنا دیسی اور غیرممالک سے آئے ہوئے مہمانوں کو گرفتار کرنا ان کی باعزت رہائی یہ سب باتیں آپ کے علم میں ہیں۔ دہلی حکومت اور مرکزی حکومت کی گودی میڈیا کی جھوٹی الزام تراشی پر خاموشی اس کا جواب نہ کجریوال سرکار دے سکتی اورنہ وزیرداخلہ امیت شاہ۔ اہم سوال یہ سامنے آیا ہے کہ جب ماخوذین پر سے مقدمات ختم ہوگئے تھے توپھرمسجد میں عبادت پر پابندی کیوں؟ وزارت داخلہ نے صرف پانچ افراد کو اجازت دے رکھی تھی کہ وہ مسجد کھول کر صفائی ستھرائی کریں اورنمازکے بعدتالہ لگاکر چابیاں علاقہ کے پولیس انسپکٹرSHOکے حوالے کردیں۔ البتہ پولیس کس کے اشارے پر یہ سب کررہی تھی یہ سب بخوبی جانتے ہیں۔ اس تاناشاہی کے خلاف اس مرتبہ شب برات پر عدالت عالیہ سے رجوع کیا گیا۔ جسٹس مکتا گپتاکی عدالت میں سماعت شروع ہوئی۔پہلے توپولیس کے وکیل نے یہ کہا کہ دہلی ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی کاحکم ہے کہ کرونا کے سبب مذہبی اجتماعات پرپابندی لگادی جائے۔ جسٹس مکتاگپتانے ۱۰اپریل کو اس کے حکم نامہ کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ اس میں کرونا کے مدنظر مذہبی اجتماعات ،عبادت سیاسی سماجی تہذیبی سرگرمیوں (جس میں بھیڑاکٹھی ہو) کھیلوں کے انعقاد، میلوں ٹھیلوں پرپابندی لگانے کی بات کہی گئی ہے۔ مذہبی اجتماع اورمذہبی عبادت گاہ میں واضح فرق ہے۔ مسجد بنگلہ والی ایک عبادت گاہ ہے اور پہلے سے ہی مرکزی حکومت نے پانچ آدمیوں کوعبادت کرنے کی اجازت دے رکھی ہے۔ اس لئے رمضان کے مہینے میں ۵۰نمازیوں کوپنج وقتہ نماز کی اجازت دی جاتی ہے۔ یہ میں نے مختصراًاس مقدمہ کی اہم باتیں لکھیں ہیں ایک موقعہ پر پولیس نے بنئے کی طرح ۵ آدمیوں کوبڑھاکر ۲۰ نمازیوں کواجازت دینے کی بات بھی کہی تھی۔
اس سارے معاملہ میں دوباتیں اہم ہیں کہ کیا یہ اجازت صرف رمضان المبارک کے لئے ہے؟ اس کی وضاحت نہیں ہوسکی۔ رمضان میں اچھے کردار ورعمل کا مظاہرہ کرنے کے بعد بھی اگرپابندی دوبارہ عائدکی جاتی ہے تومسلمانو ں کو سپریم کورٹ میں PILدائر کرناچاہیے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ حکومت مسلمانوں کوان کی اوقات یاددلاناچاہتی ہے کہ اب مسجدیں عدالتی حکم سے ہی کھولی جائیں گی۔ بہرحال مسلمانوں کو جوش کے بجائے ہوش سے کام لینے کی ضرورت ہے!
یہ تو آغاز مصائب ہے نہ گھبر ااے دل
ہم ابھی اور ابھی اور پریشاں ہوںگ ے
٭٭٭

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here