سپریم کورٹ کا اہم فیصلہ- Important decision of the Supreme Court

0
56

Important decision of the Supreme Court

مرکز میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت کا دوسر دور جب سے شروع ہو ا ۔اس نے لگاتا ایسے کئی ایسے فیصلے کئے ہیں جن کے خلاف عوام اور خواص نے کبھی دھرنا اور مظاہرہ کیا تو کبھی مضامین لکھے گئے اور بیانات سامنے آئے ۔حکموت کے فیصلے کے خلاف اور پالیسیوں کے خلاف رائے اور نظریہ کا اظہار عوام کا جمہور ی اور آئینی حق ہے۔ لیکن ریاستی اور مرکزی حکومتوں کی طرف سے ایسا رویہ اپنایا گیا جس سے ی تاثر عام ہوتا گیا کہ حکومت کی پالیسیوں کے خلاف رائے رکھنا وطن دشمنی کے مترادف ہے۔چاہےوہ دفعہ 370 کے خاتمے کے خلاف عوامی رائے ہوں یا سی اے اے کے خلاف مظاہرہ ہو یا کسانوں کا احتجاج ہو۔ایسے کئی کیسز سامنے آئے جب اس بات کے ثبوت بھی فراہم ہوتے چلے گئے کہ حکومت کے خلاف بولنا یا لکھنا وطن دشمنی کے مترادف ہے۔
مجھ سے خود ایک ادبی میٹنگ میں تعارف کے بعد غیر رسمی گفتگو مین ایک صاحب نےپوچھا کہ آپ پر کتنے مقدمے ہیں۔میں نے کہا کہ اللہ کا شکر ہے کہ میرے خلاف کوئی کہیںکوئ مقدمہ نہیں ہے۔اس پر انھوں نے کہا کہ پھر آپ اچھے صحافی نہیں ہے۔ان کا یہ جملہ ازراہ مذاق ضرور لیا گیا لیکن ان کے مذاق میں ملک میں بننے والی تصویر کی طرف واضح اشارہ بھی تھا کہ اگر آپ اچھے اور سچھے صحافی ہوتے تو سچ لکھتے اور سچ لکھنے والوں کے موجودہ دور میں کوئی ؐمقدمہ نہ ہو یہ ممکن ہی نہیں ہے۔
لیکن آج شپریم کورٹ نے ایک اہم فیصلہ دیتے ہوئے صاف کیا کہ حکومت کی رائے سے الگ نظریہ رکھنا ملک سے غداری نہیں ہے۔سپریم کورٹ نے بدھ کے روز کہا کہ حکومت کی رائے سے الگ سوچ رکھنے والوں کو وطن غدار نہیں کہا جا سکتا۔ اس بیان کے ساتھ ہی عدالت نے فاروق عبداللہ کے خلاف داخل ایک مفاد عامہ عرضی کو خارج کر دیا
سپریم کورٹ نے بدھ کے روز کہا کہ حکومت کی رائے سے الگ نظریہ یا سوچ رکھنے والوں کو وطن غدار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ عدالت نے جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ کے ذریعہ دفعہ 370 منسوخ کرنے کے خلاف بیان دینے کے معاملے میں داخل ایک مفاد عامہ عرضی کو بھی خارج کر دیا۔
جسٹس سنجے کشن کول اور ہیمنت گپتا کی بنچ نے کہا کہ عدم اتفاق کو ملک سے غداری نہیں کہا جا سکتا۔ عدالت عظمیٰ نے یہ بات وکیل شیو ساگر تیواری کے ذریعہ سے رجت شرما اور دیگر کے ذریعہ داخل عرضی پر کہی۔ عدالت عظمیٰ نے عبداللہ کے خلاف عرضی داخل کرنے کے لیے عرضی دہندگان پر 50 ہزار روپے کا جرمانہ بھی عائد کیا۔ عرضی میں فاروق عبداللہ کے مبینہ بیان کا حوالہ دیا گیا ہے کہ انھوں نے دفعہ 370 پر ہندوستان کے خلاف چین اور پاکستان کی مدد مانگی۔
نیشنل کانفرنس نے ان خبروں کو مسترد کر دیا تھا کہ ایک ٹیلی ویژن انٹرویو کے دوران اس کے لیڈر فاروق عبداللہ کے حوالے سے رپورٹ میں کہا تھا کہ آئین کی دفعہ 370 کو چین کی مدد سے کشمیر وادی میں بحال کیا جائے گا۔ عرضی میں کہا گیا کہ ’’عبداللہ کا عمل قوم کے مفاد کے خلاف بہت سنگین جرائم ہے اس لیے وہ پارلیمنٹ سے ہٹائے جانے کے حقدار ہیں۔‘‘دلیل میں کہا گیا ہے کہ عبداللہ کا بیان ملک مخالف اور ملک سے غداری ہے اور حکومت کو انھیں پارلیمنٹ کے رکن کی شکل میں نااہل امیدوار قرار دیتے ہوئے مناسب کارروائی کرنے کی ہدایت دی جانی چاہیے۔ اس میں کہا گیا تھا کہ اگر عبداللہ کو رکن پارلیمنٹ بنائے رکھا جائے گا تو یہ ہندوستان میں ملک مخالف سرگرمیوں کو منظوری دینے جیسا ہوگا۔سپریم کورٹ نے ایک مرتبہ پھر قانون کی بالا دستی اور ہندوستان کی آئینی ڈھانچہ اور اس کی روح کو مد نظر رکھتے ہوئے فیصلہ دیا ۔اس سے ان مقدموں پر ضرور اثر پڑے گا جو حکومت کے خلاف بولنے یا لکھنے والوں پر قائم کئے گئے ہیں۔

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here