تازہ ترین خبروں اور اردو مضامین کے لئے نیچے دئے گئے لنک پر کلک کر کے واٹس ایپ اور فیس بک پر ہمیں جوائن کریں
https://chat.whatsapp.com/ 9h6eHrmXUAXBjMyW9zQS4B
https://www.facebook.com/
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه ذیل ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
[email protected]
9807694588(موسی رضا)
مضمون نگا: معصوم مرادآبادی
قائد ملت ڈاکٹر عبدالجلیل فریدی کے پروردہ سابق ممبرپارلیمنٹ اور معروف مسلم قائدالیاس اعظمی گزشتہ5جون کی صبح نئی دہلی کے اپولو اسپتال میں مختصر علالت کے بعد انتقال کرگئے۔ان کی عمر 88 سال تھی اور وہ اس عمر میں بھی اتنے چاق وچوبند تھے کہ ملکی سیاست کی گرہ کھولنے کا حوصلہ رکھتے تھے۔انھیں ہروقت ملک وملت کی فکر ستاتی رہتی تھی اور وہ مسائل کی گتھیوں کو سلجھانے کی تگ ودو میں مصروف رہتے تھے۔یہی وجہ ہے کہ ان کے انتقال سے ملّی حلقوں میں سوگ کی لہر ہے۔ وہ اپنی وضع قطع اور فکر کے اعتبار سے ایک منفرد انسان تھے۔ انتہائی معمولی لباس زیب تن کرتے تھے اور ایک عربی رومال ہمیشہ ان کے گلے میں لٹکا رہتا تھا۔انھوں نے قلندرانہ زندگی بسر کی۔ زندگی کی رعنائیاں اورزیبائشیں انھیں کبھی اپنے دام میں گرفتار نہیں کرسکیں۔ قائد ملت ڈاکٹر عبدالجلیل فریدی نے70کی دہائی میں مسلم مجلس کے پرچم تلے مسلمانوں کو سیاست کے محور میں لانے کی جو جدوجہد شروع کی تھی، الیاس اعظمی اس کے سرگرم اور قابل بھروسہ کارکنوں میں سے ایک تھے۔ اب اس قبیل کے لوگوں میں صرف عالم بدیع اعظمی ہی باقی رہ گئے ہیں جواپنی بہترین کارکردگی کی وجہ سے اعظم گڑھ سے ممبر اسمبلی ہیں۔ جودیگر لوگ ڈاکٹر فریدی کی مہم کے قافلہ سالاروں میں شامل تھے، ان میں فضل الباری، قمر کاظمی اور مسعود خاں کے نام بھی قابل ذکر ہیں۔الیاس اعظمی کو تحریرپر بھی مکمل عبور حاصل تھا اور اکثر اخبارات میں ان کے مضامین شائع ہوتے تھے۔ انھوں نے مسلم مسائل اور ان کے حل کے لیے کئی کتابیں بھی لکھیں۔ان میں ”مسلمانوں کی سیاست:زخم اور علاج“قابل ذکر ہے۔
الیاس اعظمی بابری مسجد بازیابی تحریک کے بانی قائدین میں شامل تھے۔ وہ اس بات کے خواہش مند تھے کہ بابری مسجد کی لڑائی ایک قومی مسئلے کے طورپر لڑی جائے۔ ان کا خیال تھا کہ اسے ہندومسلم مسئلہ بنانے سے سراسرنقصان ہوگا۔ لیکن ان کی بات نہیں سنی گئی تو انھوں نے اس تحریک سے علاحدگی اختیار کرلی۔ بابری مسجدتحریک کو جس انداز میں چلایا گیا، اس کے نقصانات سب پر واضح ہیں۔ انھوں نے ڈاکٹر فریدی کی قیادت میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کی لڑائی جس دوراندیشی اور سیاسی بصیرت کے ساتھ لڑی تھی، وہ بابری مسجد کے معاملے میں بھی وہی انداز اختیار کرنا چاہتے تھے۔
الیاس اعظمی نظریاتی طورپر علامہ اقبال اور مولانا مودودی کے پیروکار تھے۔ جبکہ سیاسی زندگی میں انھوں نے ڈاکٹر عبدالجلیل فریدی اور ڈاکٹر امبیڈکر کو اپنا رہنما بنایا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ مسلمانوں اور دلتوں کو ایک پلیٹ فارم پر لاکر ایک متحدہ سیاسی قوت بنانے کے طرفدار تھے۔ یہی جذبہ انھیں کاشی رام کے قریب لایا۔ انھوں نے لوک سبھا کے دونوں الیکشن بھی بہوجن سماج پارٹی کے ٹکٹ پر لڑے اور کامیابی حاصل کی۔
الیاس اعظمی کی بنیادی شناخت ان کی نظریاتی پختگی تھی۔ وہ کسی مسئلہ پر جو رائے شروع میں قایم کرلیتے تھے،اس سے پیچھے نہیں ہٹتے تھے۔ اس معاملے میں انھیں کسی کی رضامندی یا ناراضگی سے بھی کوئی سروکار نہیں ہوتا تھا۔وہ عوام کے پیچھے چلنے والے قائدین میں نہیں تھے بلکہ ہوا کے رخ کے خلاف دوراندیشی پر مبنی حکمت عملی تیار کرتے تھے۔انھوں نے پوری زندگی کانگریس پارٹی کی جارحانہ مخالفت میں گزاری۔ وہ کانگریس کو مسلمانوں کے تمام مسائل کی جڑ گردانتے تھے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ انھوں نے آخری دنوں میں اس سے رجوع کرلیا تھا۔ یہ بات مجھے مرحوم جاوید حبیب کے بھائی مجیب الدین خاں نے بتائی۔ الیاس اعظمی نے چنددنوں پہلے مجیب الدین خاں سے کہا تھا کہ”آپ جانتے ہیں کہ میں نے پوری زندگی کانگریس کی مخالفت میں گزاری ہے، لیکن اب راہل گاندھی کی تقریریں سن کر میرا ذہن بدل گیا ہے۔ اب میں کانگریس کے لیے کام کرنا چاہتا ہوں۔“ لیکن اپنی اس خواہش کی تکمیل سے پہلے ہی وہ سفر آخرت پرروانہ ہوگئے۔
الیاس اعظمی سے میرے تعلق کی داستان اتنی ہی طویل ہے جتنی کہ اردو صحافت سے میری وابستگی کا دورانیہ۔ ان سے ہوئی سیکڑوں ملاقاتوں کو یاد کرتا ہوں تو بہت سی باتیں ایک ساتھ یاد آتی ہیں۔الیاس اعظمی ایک عوامی رہنما تھے اور وہ ہر وقت عوام الناس کے درمیان ہی رہنا پسند کرتے تھے۔میں نے انھیں کبھی خواص کے درمیان نہیں دیکھا۔ وہ اکثر پرانی دہلی کے تنگ وتاریک گلی کوچوں کوعبور کرتے ہوئے چتلی قبر علاقہ میں مقیم ’دعوت‘ کے سابق ایڈیٹر محفوظ الرحمن مرحوم کے یہاں برابر آتے جاتے تھے، جن سے ان کا وطنی تعلق بھی تھا۔ میری بیشترملاقاتیں ان سے یہیں ہوئیں۔ یہ وہ زمانہ تھا جب محفوظ صاحب کے ہاں مسلم مجلس کے بیشتر لوگوں کی آمدورفت رہتی تھی۔ محفوظ الرحمن مرحوم چونکہ لکھنؤ میں ڈاکٹر عبدالجلیل فریدی کے اخبار’قائد‘ کے ایڈیٹر رہ چکے تھے،اس لیے مسلم مجلس کے تمام ہی لوگوں سے ان کی شناسائی تھی۔جب پارلیمنٹ کا اجلاس ہوتا تو وہاں اکثر الیاس اعظمی سے میری ملاقات ہوجاتی تھی۔ وہ جمعہ کی نماز پارلیمنٹ کی مسجدمیں ہی ادا کرتے تھے۔ اس مسجد میں عام طورپر نمازی فرض پڑھنے کے بعد اہم لوگوں سے ملاقات کا اشتیاق لیے ہوئے مسجد کے باہر آکر کھڑے ہوجاتے ہیں۔ دیگر ممبران پارلیمنٹ عجلت میں وہاں سے بچتے بچاتے نکل جاتے ہیں، لیکن الیاس اعظمی ہمیشہ عام نمازیوں کی طرح مسجد کے باہر اپنے شناساؤں کا انتظار کرتے تھے۔ لوگوں کے مسائل سننا اور اپنی بات ان تک پہنچانا ان کا محبوب مشغلہ تھا۔
الیاس اعظمی22/اگست 1934کو اعظم گڑھ کی تحصیل پھولپور کے موضع برولی میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم پھولپور میں واقع مدرسہ روضۃ العلوم میں حاصل کی اور یہیں سے حفظ قرآن مکمل کیا۔وہ پہلی بارشاہ آباد پارلیمانی حلقے سے2004 میں رکن پارلیمان چنے گئے اور دوسری بار 2009 میں کھیری حلقہ سے لوک سبھا کے رکن رہے۔یہ دونوں الیکشن انھوں نے بی ایس پی ٹکٹ پر لڑے۔ وہ عام آدمی پارٹی کے بانی ارکان میں شامل تھے، لیکن2016میں اروند کجریوال سے اختلافات کی وجہ سے انھوں نے پارٹی کو الوداع کہا۔ انھوں نے2021میں پیوپلز جسٹس پارٹی بنائی تھی جس کا مقصد سماج کے محروم طبقات اور مسلمانوں کو ایک مضبوط پلیٹ فارم فراہم کرنا تھا۔
سچ پوچھئے تو ان کی پوری سیاست سماج کے دبے کچلے اور پسماندہ طبقات کے گرد ہی گھومتی رہی۔اس کی تحریک انھیں ڈاکٹر فریدی سے ملی تھی۔1964کے بعد ڈاکٹر فریدی کی قیادت میں اقلیتوں، دلتوں اور پسماندہ ذاتوں میں سیاسی اتحاد قایم کرنے کی جو مہم چلی تھی، الیاس اعظمی نے اس کے لیے انتھک جدوجہد کی۔یہ وہ دور تھا جب فسادات میں ان طبقوں کو مسلمانوں کے خلاف استعمال کیا جاتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کی طرف سے ان کوششوں کی مزاحمت ہوئی اور بہت سے لوگ میدان چھوڑ کربھاگ کھڑے ہوئے، لیکن الیاس اعظمی اپنے مشن سے پیچھے نہیں ہٹے۔ڈاکٹر فریدی کے انتقال کے بعد بھی وہ اس محاذ پر پوری ثابت قدمی کے ساتھ ڈٹے رہے۔انھوں نے دلتوں اور پچھڑوں کی قیادت سے ہمیشہ تعلقات استوار رکھے اور دلت مسلم اتحاد کے لیے جدوجہد کرتے کرتے جان ہاردی۔ کاش یوپی کے مسلمان ان کے اس درد اور دوراندیشی کا ادراک کرپاتے۔یہ بات کم ہی لوگوں کو معلوم ہے کہ مرادآباد، میرٹھ اور ملیانہ قتل عام کے بعد فساد شکن فورس بنانے کی تجویز سب سے پہلے انھوں نے ہی پیش کی تھی۔ اسی مہم کے نتیجے میں رپڈایکشن فورس قایم ہوئی۔وہ پارلیمنٹ میں بھی ہمیشہ مظلوموں اور پسماندہ طبقات کی آواز بلند کرتے تھے۔ افسوس کہ اب ان جیسی سوچ رکھنے والا کوئی دوسرا مسلم لیڈر ہمارے درمیان نہیں ہے۔
٭٭٭