9807694588
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مند
ملک کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو کے 57 ویں یوم وفات کے موقع پر انھیں یاد کرتے ہوئے یہ بھی خیال جانے کیوں ذہن میں آتا ہے کہ اگرآج وہ ہوتے تو دنیا بھر کے ساتھ ساتھ ہندوستان میں پھیلی کورونا وبا اور اس کی تباہ کاریوں سے وہ کس طرح نمٹنے کی کوششیں کرتے اور کیا حخمت عملی اپناتے جس سے کہ انسانی جانوں کو بچایا جا سکتا۔ہم ن ے کہیں پڑھا تھا کہ نہرو نے ایک بار کہا تھا، ’’صاف، صفائی، صحت اور کچھ بیماریوں پر قابو پانا سائنس پر منحصر ہے۔‘‘وبا ملک کے پہلےوزیر اعظم جواہر لال نہرو کے دور میں بھی پھیلی تھی لیکن انھوںنے اپنے دور اقتدار میں نہ صرف وبائی امراض پر پوری طرح قابو پایا بلکہ جو بھی کام کیا اس میں سائنسی نظریہ کو نظر انداز نہیں کیا۔یہی وجہ ہے کہ اپنے دور اقتدار کے مشکل سالوں کے دوران ان کی سیاست اور اقدامات سائنسی نظریات کے حامل رہے جنہوں نے ملک کو کھڑا ہونے اور متعدد وباؤوں پر کامیابی کے ساتھ قابو پانے میں مدد کی اوربڑے پیمانے پر لوگوں کی جانوں کا ضیاع ہونے سے بچایا۔انہوں نے یہ بھی یقینی بنایا کہ لوگوں کو ادویات کی سہل فراہمی کے ساتھ ساتھ حکومت کی جانب سے تیار کردہ ویکسین بھی مفت میں فراہم کی جائے۔ ملک میں 1946 میں صرف 15 میڈیکل کالج تھے، جبکہ 1965 میں ان کی تعداد بڑھ کر 81 ہو چکی تھی اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ حکومت کے زیر انتظام لیباریٹریز دیسی ساختہ ٹیکے بھی تیار کر رہی تھیں۔
کیا موجودہ صورت حال میں وہ اس سے بہتر کر سکتے تھے۔اس سوال کے جواب میں کہا جا رہا ہے کہ ہاںشاید وہ سب سے پہلے ایسے سائنسدانوں کی تلاش کرتے جو وبا کی بہتر سمجھ رکھتے ہوتے اور اسے بحران سے نمٹنے والی ٹیم کا سربراہ مقرر کرتے۔ وہ اس ویکسین پروگرام کو بھی کافی پہلے لانچ کر چکے ہوتے، جسے اب شروع کیا جا رہا ہے اور وہ یہ یقینی بناتے کہ اس دوسری لہر سے قبل ملک کے ہر فرد تک ویکسین پہنچا دی جائے، جس نے ملک میں بڑے پیمانے پر تباہی مچائی ہے۔ اس معاملہ میں عملی حکم تیار کرنے کے لئے وہ صرف اور صرف سائنسدانوں سے مشورہ کرتے۔یہ تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کہ پنڈت نہرو بطور وزیر اعظم اس مجمع کے تئیں آنکھیں بند کر لیتے یا اس کی پذیرائی کرتے جو کمبھ میلے کے نام پر ہریدوار پہنچا، وہ بھی اس وقت جب کہ وبا اپنے عروج پر تھی۔یقینی طور پر پنڈت نہرو ایسے وقت میں اس وبائی مرض سے کامیابی سے نمٹنے کا ڈھول نہیں پیٹا ہوتا جب حقیقتاً اس وبا سے لوگ متاثر ہو رہے ہوں اور نہ ہی وہ لوگوں سے ایسے وقت میں بالکونی میں کھڑے ہو کر برتن بجانے یا چھت پر موم بتی اور دیئے جلانے کی اپیل کرتے، جس وقت ایمبولنس مریضوں کو لے جا رہی ہو۔
یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ سب سے بڑھ کر پنڈت نہرو ہوتے تو کسی عالمی میڈیا میں ’انڈیا ان کرائسس‘ اور ’ہاؤ مودی فیلڈ اس‘ جیسی مذموم سرخیاں نہیں چلائی جا رہی ہوتیں۔ کیونکہ اس وقت صورتحال مختلف ہوتی اور ہم وزیر اعظم کی قیادت میں اس وبائی مرض کا مقابلہ زیادہ موثر اور سائنسی انداز میں کر رہے ہوتے۔
بہر حال ہر زمانے کے حالات واقعات اور وسائل اور تقاضے مختلف ہوتے ہیں۔نہرو کا دور گذر چکا ان کا اپنا طریقہ کار تھا اور ان کا اپناایک نظریہ تھا۔جس کے تحت وہ کام کرتے رہے اور بلا شبہ ملک کو بہت تیزی سے وہ آگے لے گئے ۔آج وہ نہیں ہیں لیکن جو حضرات صاحب مسند ہیں وہ بالکل لا پروا ہیں یہ کہنا بھی انصاف اور حقیقت پسندی کے خلاف ہے۔
کورونا کے حوالے سےہمارےسامنے اتر پردیش کے وزیر اعلی کی کا کردگی اور رپورٹیں موجود ہیں جن کا سنجیدگی اور ایمانداری سے تجزیہ کیا جائے تو ہم اس نتیجہ پر پہونچتے ہیں کہ اتر پردیش کی ہندوستان کیسب سے بڑی ریاست ہونوے کے باوجود روزانہ سب سے زیادہ ٹیسٹ کرنے والی ریاست ہے۔جہاں ریاست میں ایک وقت میں ایک لاکھ سوالاکھ ٹیسٹ میں 38 ہزار کوڈ مریض نکل رہے تھے وہیں آج ٹیسٹ کی تعدا بڑھا کر پونے تین لاکھ سے زیادہ کر دی گئی ہے اور نئے کیسز کی تعداد بھی تین ہزار تک گھٹ گئی ہے۔اس میں حکومت و انتظامیہ کے ذمہ داروں کی محنت اور انھیں ملنے والے عوام کے تعاون کا اہم کردار ہے اور اس سے انصاف پسند شخص آنکھیں نہیں پھیر سکتا۔