محمد غزالی خان
’ہمیں کوئی بتائے کہ لکھنؤ یونیورسٹی، بنارس یونیورسٹی اور ملک کی دوسری یونیورسٹیوں نے نکلنے والے مسلمان لڑکوں اور مسلم یونیورسٹی سے نکلنے والےمسلم لڑکوں میں کوئی معمولی سا بھی فرق اس کے علاوہ ہے کہ وہ اپنے نام کے ساتھ علیگ لکھ کر اپنی ذات کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں اور یوم سرسید کے موقع پر ملک بھر میں تقریبات منعقد کرتے ہیں اور ان کے نام پر ڈنر کی شکل میں ایک روایتی ڈرامہ ملک بھر میں اسٹیج کرتے ہیں۔‘ (روداد قفس ، مصنف حفیظ نعمانی، ناشر الفرقان بکڈپو، نظیرآباد ، لکھنؤ)
علیگڑھ مسلم یونیورسٹی پر اپنے وقت کے موقر اخبار ’ندائے ملت ‘ کا خصوصی شمارہ نکالنے کی پاداش میں 9 ماہ کی قید کی روداد پر مبنی معروف صحافی حفیظ نعمانی صاحب مرضوم کی خود نوشت کتاب ’روداد قفس‘ جب سن 2000 میں چھپ کر آئی تو اس کتاب کی تعریف کرنے اور اس پر طویل تبصرہ شائع کروانے کے باوجود مندرجہ بالا اقتباس پر میں نے نعمانی صاحب کے بڑے بھائی مولانا عتیق الرحمٰن سنبھلی صاحب کی زبانی نعمانی صاحب تک اپنا شدید احتجاج پہنچوایا تھا۔ آج اگر نعمانی صاحب زندہ ہوتے تو میں اپنا احتجاج بھی واپس لیتا اور ان سے معافی بھی مانگتا۔
سوچتا ہوں اس ادارے کے لئے قربانی دینے وہ تمام لوگ اس لحاظ سے بھی خوش قسمت تھے کہ جس ادارے کی مسلم شناخت کی بقا کے لئے انہوں نے قربانیاں دی تھیں وہاں آج کے ذلت ناک مناظر دیکھنے کے لئے وہ زندہ نہیں رہے۔ اللہ تعالیٰ ان بزرگوں کی قربانیوں کو قبول فرمائے اور ان کے درجات بلند فرمائے۔ نئی نسل کو کون بتائے کہ اس ادارے کے لئے مسلمانوں نے کیسی کیسی قربانیاں دی ہیں۔ ان میں بہت سے بڑے بڑے نام ہیں بہت سے عام لوگ تھے۔ کچھ نے آنے والی نسلوں کی یاد دہانی کے لئے قربانیوں کی چند جھلیاں تحریری شکل میں چھوڑ گئے جبکہ معلوم نہیں ان میں سے کتنے بہت سے راز اپنے سینوں میں لئے اس دنیا سے چلے گئے۔
شاید ’روداد قفس‘ کے اقتباسات سے نئی نسل کو کچھ سبق ملے۔ انشااللہ عنقریب کتاب کے اقتباسات اپنے بلاگ پر شائع کروں گا۔ مگر فی الحال حفیظ صاحب کے چند مزید شکایتی جملے نقل کرنا ضروری ہے:
’۔۔۔گذشتہ 35 سال میں مسلم یونیورسٹی میں جو کچھ ہوا اور ہو رہا ہے کیا ایک لفظ مسلم نکالنے کے بعد اس سے کچھ زیادہ ہوتا۔ کیا ملک کے لاکھوں مسلمانوں نے ،جن میں ہم بھی شامل ہیں، ساری قربانیاں ایک لفظ کے لئے دی تھیں؟ ہم 35 سال کے بعد آج زبان کھلنے پر اس لئے مجبور ہوئے کہ اتنی بڑی قربانی کے بعد بھی ہم نے مسلم یونیورسٹی کے احاطہ میں قدم نہیں رکھا اور ہم ایک پیالہ چائے کے بھی گنہگار نہیں ہیں اسلئے ہمیں یہ حق حاصل ہے کہ ہم مسلم یونیورسٹی کے ارباب حل و قعد میں سے ایک ایک کا گریبان پکڑ کر معلوم کریں کہ آج وہ کون سی گندگی ،کون سی بددیانتی، کون سی برائی اور کون سی بد نمائی ہے اس یونیورسٹی میں نہیں ہے جو ملک کی دوسری یونیورسٹیوں میں ہے۔ ‘
حالانکہ 1983 میں یونیورسٹی چھوڑنے کے بعد وہاں میرا جانا نہیں ہوا، مگر کیونکہ کسی نہ کسی حد تک اپنے آپ کو وہاں کے حالات سے باخبر رکھنے کی کوشش کرتا ہوں اور جو کچھ وہاں کے بارے میں جانتا ہوں اس کی روشنی میں پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ حفیظ صاحب مرحوم (اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے) کی شکایت میں شکایت حقائق پر غالب آگئی ہے۔ بہر حال یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ، اس ادارے کے لئے اتنا سب کچھ جھیلنے کے بعد جب ملت کی امیدیں پوری نہ ہوں تو اتنی شکایت اور غصہ کسی بھی اس شخص کا حق بنتا ہے جس نے اس کے اقلیتی کردار کے لئے اپنا سب کچھ داؤ پر لگادیا ہو۔ یاد رہے کہ اس کے اقلیتی کردار کی بحالی کی مانگ کی پاداش میں مسلمانوں کو قید و بند ہی نہیں سہنا پڑی بلکہ مسلم کش فسادات میں سیکڑوں کو شہید بھی کیا گیا تھا۔ جن احباب نے حفیظ صاحب کی آپ بیتی نہیں پڑھی ہے انہیں ضرور پڑھنی چاہئے۔ آئیے آج اس وقت ملی ورثے کے تحفظ کے لئے جان و مال کی قربانی دینے والوں کی خصوصی دعائے مغفرت کا اہتمام بھی کرلیں۔