9807694588
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مند
عبدالحمید نعمانی
جب نفرت وجارحیت، فساد اورقتل گری تک پہنچ جائے تو اس کے اسباب عوامل کو تلاش کرکے ان کو دور کرنا کسی بھی آئین و قانون والے ملک اورمہذب وجمہوری معاشرے کے لیے ضروری ہوجاتا ہے، بھارت میں ہندومسلمان صدیو ںنہیں بلکہ ہزار سال سے زیادہ مدت سے ساتھ ساتھ رہتے آرہے ہیں، اقتداری طبقے میں حکمرانی و سماجی سطح کشمکش اور مقابلہ آرائی یقینا ہوتی رہی ہے لیکن عوامی سطح پرباہمی قتل و غارت گری، فساد کا کوئی بڑاواقعہ ملک کے کسی حصے میں نظر نہیں آتا ہے، باہمی فساد و قتل اور نفرت و تصادم کا سلسہ انگریزی سامراج کے تسلط وتوسیع کے ساتھ شروع ہوا اور اس کو فرقہ پرستوں نے اپنی غلامانہ ذہنیت کے تحت لپک کر سینے سے لگا لیا۔ گجرات فساد خصوصاً2014 سے نئے رنگ و روغن کے ساتھ، جے شری رام، بھاتا ماتا کی جے کے نعرے پر سوارہوکر ہندوتو اور راشٹرواد کے نام پر خونی وفسادی رقص جاری ہے لیکن اس پر قدغن لگانے کے لیے کوئی بااثرقیادت سامنے نہیں آرہی ہے، بلکہ پارٹی کے عوامی نمائندے کھلے عام فرقہ پرستی و تشدد کی باتیں کرکے قتل و فساد کی راہ ہموار اوردائرہ وسیع کرنے کا کام کررہے ہیں، بنگال، بہار، آسام، یوپی ، تلنگانہ، کرناٹک ، مدھیہ پردیش، ہریانہ وغیرہ میں جس زبان کا استعمال اور عملی رویے کا ظہور ہورہا ہے، اس نے سماج کو تقسیم درتقسیم کرکے نفرت وجارحیت کے بارود پر کھڑا کردیا ہے، گائے کے لیے تو جذبہ بندگی وہمدردی کا اظہار ہوتاہے، لیکن انسانوں کے لیے بے حسی اورجذبہ قتل کا مظاہرہ ہوتاہے، اس کا صاف مطلب ہے کہ سماج انسانیت کے بجائے حیوانیت ودرندگی کی سمت میں گامزن ہے، یہ چلن، عالمی برادری کے قیام میں کیا رول ادا کرسکتا ہے؟ یہ قاتل و فسادی عناصر آنکھیں بند کرکے گروگولولکرکے اس فلسفے کو آگے بڑھاتے رہتے ہیں کہ ہندو ہی راشٹر ہے اور راشٹر ہندو ہے، اس کی مخالفت بھارت سے غداری ہے، جب ہندوراشٹر ہے تو وہ نہ تو فسادی ہوسکتا ہے، نہ قاتل۔ غدار، قاتل، فسادی، اوربے وفا دیگرہوسکتے ہیں، جو ہندو سنسکرتی، دھرم، نسل کا احترام کرتے ہوئے ان میں اپنی شناخت کو ختم کرکے جذب نہیں ہوجاتے ہیں، جارحانہ منفی فرقہ وارانہ تصور قومیت نے وطن اور بھارت کو قومیت کی مشترک بنیادسے باہر کردیا ہے، جس کے متعلق لگتا ہے کہ وہ ہماری سنسکرتی اور نسلی نظام اختلاف کرکے سوال کھڑا کرکے ہمارے تفوق کو چیلنج کررہا ہے، اسے راستے سے ہٹانے اور آواز کو ختم یا گم نامی کے غار میں ڈالنے کے لیے تما م طرح کی ہتھکنڈے اختیار کیے گئے اور کیے جاتے ہیں، آزادی کے فوراً بعد ملک کی عظیم شخصیت گاندھی جی قتل کا شکار ہوئے تھے، پھر اندر اگاندھی، راجیوگاندھی کا قتل ہوا، دوسرے تیسرے زمرے کے افراد کے قتل کی ایک طویل فہرست ہے، حال میں آصف، فیصل کا قتل اور پھرمرادآباد میں گوشت کاروباری کی بے رحمی سے پٹائی، کس ذہنیت کی غمازی کرتی ہے؟
اس سے پہلے یوپی میں دادری کے اخلاق،راجستھان کے پہلو خان، متھرا کے جنید، مہاراشٹر پونے کے محسن شیخ، مستقیم عباس(کوروکیشتر) جیسے بہت سے لوگوں کو ہندوتووادی عناصر کے گروہوں نے قتل کردیا، لیکن قاتلوں کے خلاف کیا کیاگیا؟ ہریانہ کے جھجر میں ایک ہزار کی بھیڑ نے 5 دلتوں کو بے دردی سے ماردیا تو کیا ہو، دابھولکر (20 اگست2013) ،پانسرے(20 فروری2015 )، کلبرگی(30 اگست2015 )گوری لنکیش(5ستمبر2017 )کے قاتلوں کا کیاہوا؟ جنید، خون سے لت پت فریدآباد کے اسٹیشن پر پڑا تھا لیکن دو سولوگوں میں سے کسی نے اسے نہیں دیکھا، یہ کس طرح کی ذہنیت کی غمازی کرتی ہے؟ تشہیر کرکے ایک فرقہ وارانہ ہندوتوادی ذہن بنایا جارہا ہے، اس میں میڈیا کے بڑے حصے کابڑا رول ہے، اس کے تحت لوک تنتر(جمہوریت) قاتل بھیڑتنتر میں بدلتا جارہا ہے،جھجر میں 5دلتوں کے قتل کو گائے ہتھیامیں بدل کر مارے گئے افراد کو مجرم ثابت کرنے کی کوشش نے آئین و قانون اور انصاف کو بے معنی بناکر رکھ دیا، آبادی کی اکثریت پرستی ملک کے نظام زندگی کو بری طرح متاثر کیاہے، منووادیوں کی روایتی تنگ نظری، اپنی بالا تری کے تحفظ کی ذہنیت نے سماج کے توازن و اعتدال کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔ اس میں اکثریت کے ایک طاقتور طبقے کے عوام کے ذہن وعمل کا جتنا دخل ہے اس سے زیادہ د خل قیادت کررہے لیڈروں کا ہے، انھوں نے سیاسی فائدے اور تفوق کے لیے سماج کی فرقہ وارانہ تقسیم کرکے ایک فرقے کو دوسرے فرقے اورایک طبقے کو دوسرے طبقے کے خلاف کھڑا کردیا ہے۔ تحفظ گاو کے نام پر نامعقول رویے و اہمیت نے فسادی عناصر کو ایک الگ ہی راہ پر ڈال دیا ہے، جہاں یہ اقلیت میں یا کمزور ہیں، وہاں ان کی عقیدت، آستھا ختم ہوجاتی ہے، شمال مشرق کی ریاستوں اور گوا، کیرلہ، اور اروناچل وغیرہ میں ان کی دوسری پالیسی اور رویہ ہے۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ آستھا کے معاملے میں ایمانداری اور دیانت داری نہیں ہے۔صرف منفی ردعمل کے تحت اپنے سے دیگر کو نشانہ بناکر اپنی حیثیت کو سماج میں خاص طرح سے قائم کرنا اور دیگر کی آزادی اور حقوق اختیارت کو سلب کرکے اپنی نفرت پسند ذہنیت کی تسکین ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کب تک چلتا رہے گا۔؟
کیا آدرش ہندوراشٹر اور رام راجیہ کے یہی نمونے ہیں۔ کم ازکم اپنے آدرش ، ہندوتو پر مبنی نظام حکومت میں بہتر نمونے لائے جاتے، نظریاتی ، فکری بحران تو ایک حقیقت ہے، لیکن عملی و اخلاقی لحاظ سے یقینا کچھ بہتر کیا جاسکتا تھا، سب کا ساتھ سب کا وکاس کے نعرے کے ساتھ ، پارٹی کی طرف سے لوک سبھا میں مسلم نمایندگی صفر ہے،اس سے بہت کچھ سمجھا جاسکتا ہے، گروگولولکر کے فلسفلے اور طریق کار کو ان کا نام لیے بغیر مختلف طریقوں، ترکیبوں سے آگے بڑھایا جارہا ہے، گرو گولولکرنے We our nationhood defined or میں واضح طور سے لکھا ہے کہ ہندوبذات راشٹر ہے اور راشٹر کے بنیادی عناصرو اجزاءدھرم، نسل ، سنسکرتی ، زبان کے دائرے سے باہر کے لوگوں کو ہندوراشٹر کا مساوی شہری اور حصہ نہیں مانا جائے گا، جب تک کہ مقدس نسل و سنسکرتی میں جذب نہیں ہوجاتے ہیں۔ کتاب کے باب2,4,5 میں ایسی باتیں ہیں جن کی موجودگی میں بھارت میں کبھی فرقہ وارانہ اتحاد، قومی یکجہتی اور مذہبی تہذیبی آزادی قائم و باقی نہیں رہ سکتی ہے۔ خاص بات یہ ہے بھارت ماتا کی جے کا نعرے لگانے کے باوجودتصورقومیت کی بنیادمیں بھارت بہ طور وطن نظرنہیں آتا ہے۔ بلکہ ایک برہمن وادی طبقے کی بالاتری مقصود بن کر رہ جاتی ہے۔ ایسی حالت میں مختلف فرقوں خصوصا ہندو مسلم کے درمیان اتحادو قرب کی راہ مسدود ہوکر رہ جاتی ہے۔ جب کہ قدرت نے دونوں کو ایک ہی ملک میں ساتھ رہنے کا فیصلہ کردیا ہے، اسی تناظرمیں خوشونت سنگھ نے السٹٹریڈ ویکلی کے لیے 17 نومبر1972 میں گرو گولولکر سے انٹرویو میں پوچھا تھا کہ ہمارے یہاں چھ کڑور ہندستانی مسلمان ہیں، ہم انہیں ختم نہیں کرسکتے، انہیں نکال باہر بھی نہیں کرسکتے، ان کی تبدیلی مذہب بھی نہیں کرسکتے یہ ان کا گھر ہے اس لیے ضروری ہے کہ ان میں بھروسہ پیدا کریں،اس کے جواب میں گرو گولولکر نے اصل باتوں کو نظرانداز کرتے ہوئے جماعت اسلامی کے ایک وفد کی ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ مسلمانوں کے جذبات وعقائد کوپریم سے جیتنا ہی ان کے تئیں واحد صحیح طریقہ ہے، جماعت اسلامی کے نمایندہ وفد سے میں نے کہا کہ مسلمانوں کو یہ بات بھول جانی چاہیے کہ انہوں نے بھارت پر حکومت کی تھی، بھارت سے باہر مسلم ممالک کو انہیں اپنا گھر نہیں سمجھنا چاہیے اورہندستانیت کے اصل دھارے میں انہیں شامل ہوجانا چاہیے، اس پر خوشونت سنگھ نے سوال کیا کیسے؟ تو گرو گولولکر نے جواب میں کہا کہ مسلمانوں کویہ سب باتیں سمجھانی ہوںگی، وہ جو کچھ کرتے ہیں، اس سے کبھی کبھی غصہ آتا ہے۔ لیکن ہندوقوم کے خون کی فطرت میں نفرت غصہ زیادہ وقت تک نہیں رہا کرتا ہے، وقت میں زخموں کو بھرنے کی بڑی طاقت ہے۔ میں پر امید ہوں اورمجھے لگتا ہے کہ ہندوتو اور اسلام ایک دوسرے کے ساتھ رہنا سیکھ لیں گے۔ ( دیکھیں، شری گروسمگرجلد 9 صفحہ200 تا201 مطبوعہ سروچی پرکاشن دہلی۔)
جماعت اسلامی کے وفد نے گرو گولولکر سے کیا کچھ کہا تھا اس کی تفصیلات فی الحال ہمارے پاس نہیں ہیں۔ تاہم یہ طے ہے کہ گرو گولولکر کا یہ کہنا بالکل بے بنیاد ہے کہ ہندستانی مسلمان، مسلم ممالک کو اپنا گھر سمجھتے ہیں اورملک کے اصل دھارے میں شامل نہیں ہیں۔ رہی مسلم حکومت کی بات تو یہ تاریخ کا حصہ ہے۔ اس میںخاص بات یہ کہ گرو گولولکر نے بھارت کے اصل دھارے کی وضاحت نہیں کی،اس سے ان کا مقصد ہندوتوپر مبنی منفی جارحانہ تصورقومیت ہے، جو گاندھی ، نہر و اور مولانا آزاد، مولانا مدنی کے مشترکہ بنیاد وطن پر مبنی متحدہ قومیت کے تصور سے بالکل متضاد و متصادم ہے۔ گرو گولولکر کے تصور قومیت کے تحت، ہندوتو اوراسلام کے ساتھ ساتھ رہنے کی راہ پر ہموار کیسے ہوگی؟ سنگھ کے تصور قومیت میں جوہری تبدیلی کے بغیر تو سب کچھ حسب حال چلتا رہے گا ایسی حالت میں مجاہدین آزادی کے سپنوں کا بھارت کیسے بنے گا۔٭