9807694588
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مند
مولانا ندیم الواجدی
اللہ تعالیٰ نے رمضان کو رحمت ومغفرت او ردوزخ سے نجات کا مہینہ بنایا ہے، اس مہینے میں اللہ کے نیک بندے روزہ، نماز ، تراویح ، تہجد، تلاوت قرآن کریم وغیرہ عبادتوں میں مشغول رہتے ہیں، گویا یہ عبادات کا مہینہ بھی ہے ،ہم میںسے بہت کم لوگ اس حقیقت سے باخبر ہیں کہ یہ مہینہ صحت وتندرستی کا مہینہ بھی ہے، بشرطیکہ ہم کھانے پینے کے معاملات میں سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت اور اور اسوے پر عمل کریں، اس طرح ہم روزہ بھی رکھ سکتے ہیں اور اپنی صحت کی حفاظت بھی کرسکتے ہیں، اس مقصد کے حصول کے لیے ہمیں مندرجہ ذیل ہدایات پر عمل کرنا ہوگا:
(۱) افطار میں عجلت:- سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ داروں کو ہدایت فرمائی ہے کہ وہ افطار میں جلدی کریں، یعنی جب وقت ہوجائے تو فوراً افطار کرلیں، اِدھر اُدھر پھر کر یادوسرے کاموں میں مشغول ہوکر افطار کو مؤخر کرنا کسی بھی طرح مناسب نہیںہے، حدیث شریف ہے: ’’ لوگ اس وقت تک خیر کے ساتھ رہیںگے جب تک افطار میں جلدی کرتے رہیں گے،‘‘ ( صحیح البخاری: ۷/ ۵۹، رقم الحدیث: ۱۸۲۱، مسلم:۵/ ۳۹۰، رقم الحدیث: ۱۸۳۸) سحر کے اختتام اور افطار کے آغاز کا ایک وقت متعین ہے، اس کی رعایت ضروری ہے، ظاہر ہے خیر احکام الٰہیہ پر پوری طرح عمل کرنے ہی میں ہے، اطباء کی رائے ہے کہ افطار میں عجلت کرنا انسانی صحت کے لیے بھی مفید ہے، لمبا وقت کھائے پیئے بغیر رہنے کے بعد انسانی جسم کو بھوک پیاس ختم کرنے والی غذاؤں کی شدید ضرورت ہے، اس ضرورت کی تکمیل میں تاخیر کرنے سے جسم میں پانی کی مقدار کم ہوسکتی ہے، اور شوگر بھی لازمی مقدار سے گھٹ سکتی ہے، یہ دونوں چیزیں انسانی صحت کے لیے سخت مضر ہیں، جب تک افطار کا وقت نہیں ہوتا، قدرتی طورپر انسان کے اندر کھانے پینے کی رغبت پیدا نہیں ہوتی، وقت ہونے کے بعد رغبت پیدا ہوجاتی ہے، اس صورت میں تاخیر کرنا، اور اشتہاء کے باوجود کھانے پینے سے رُکے رہنا، جسمانی نظام پر خراب اثر مرتب کرسکتا ہے جس کی شریعت اجازت نہیں دیتی۔
(۲) کھجور اور پانی سے افطار:- سرکار دوعالم صل اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے: ’’جب تم میں سے کوئی روزہ افطار کرے تو اسے کھجور سے روزہ افطار کرنا چاہئے کیوں کہ اس میں برکت ہوتی ہے، اگر کھجور نہ ہو تو پانی سے افطار کرلے کیوں کہ وہ پاک وطیب ہوتاہے‘‘ ( ترمذی: ۳/ ۶۵،رقم الحدیث: ۵۹۴، مسند أحمد:۳۲/ ۴۷۱، رقم الحدیث: ۱۵۶۴۹) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں چیزوں کو افطار کے لیے اس لیے منتخب فرمایا ہے کہ اس میں بہت سے طبی فائدے ہیں،روزہ دار کو افطار کے وقت غذائیت سے بھرپور ایسی غذا کی ضرورت ہے جو بھوک بھی رفع کرنے میں معین مدد گار ہو اور تیزی کے ساتھ ہضم ہونے والی بھی ہو، اسی طرح اسے پانی کی بھی شدید ضرورت ہوتی ہے، پانی جسم کے اندر پہنچ کر کھانے پینے کی نالیوں کو تر کردیتا ہے او رانھیں اپنے کام کے لیے مستعد کردیتا ہے، پانی او رکھجور دوہی چیزیں ایسی ہیں جو جسم کے اندر پہنچنے کے بعد تیزی کے ساتھ ہضم ہوجاتی ہیں اور روزہ دار کو توانائی فراہم کرتی ہیں۔
(۳) دو مرحلوں میں افطار کیجئے:- سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ یہ تھی کہ آپ افطار میں عجلت فرمایا کرتے تھے ، ساتھ ہی مغرب کی نماز میں بھی جلدی فرماتے تھے، اس کی ایک وجہ تو ظاہر ہے کہ مغرب کا وقت بڑا مختصر ہوتا ہے، اگر افطار میں ہی الجھے رہے تو مغرب کا وقت ختم ہوسکتاہے، اور نماز قضا ہوسکتی ہے، دوسرے اس میں یہ مصلحت بھی تھی کہ اوّلا کھجور پانی سے افطار کرکے مغرب کی نماز پڑھ لی جائے ، نماز سے فراغت کے بعد پھر کھانا کھایا جائے، طبی طورپر اس میں بڑا فائدہ ہے، پہلے روزہ دار کے معدے میںسادہ ، سریع الہضم اور تھوڑی غذا جاتی ہے، اورمعدے کو کچھ دیر کے لیے اپنے حال پر چھوڑ دیا جاتا ہے تاکہ وہ آنے والی غذا کو ہضم کرنے کے لیے پوری طرح تیار ہوجائے، افطار کے وقت معدے کو بھر دینے سے نظام ہضم سست پڑسکتا ہے اور بہت سی بیماریاں پیدا ہوسکتی ہیں۔
(۴) زیادہ کھانے سے ہیز: – بہت زیادہ کھانا ویسے بھی سخت مضر ہے، مگر روزہ رکھنے کے بعد تو کھانے پینے میں کچھ زیادہ ہی احتیاط کرنی چاہئے جو مشین دس بارہ چودہ گھنٹوں سے رُکی پڑی ہو، اسے آہستہ آہستہ اسٹارٹ کرنے کی ضرورت ہے، حدیث شریف میں زیادہ کھانے کو سخت ناپسند فرمایا گیا ہے، سرکا ردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں: ’ آدمی پیٹ سے زیادہ بری چیز کوئی نہیںبھرتا، انسان کے لیے کھانے کے چند لقمے کافی ہیں جو اس کی کمر سیدھی رکھ سکیں، لیکن اگر زیادہ کھانا ہی ضروری ہوتب بھی پیٹ کے تین حصے کرنے چاہئیں ایک تہائی کھانے کے لیے دوسرا تہائی پانی کے لیے اور باقی تہائی سانس لینے کے لیے،‘‘ (ترمذی:۸/ ۳۸۷، رقم: ۲۳۰۲) ’زیادہ کھانے سے معدے میں بڑی خرابیاں پید ا ہوسکتی ہی، معدہ پھول سکتا ہے، نظام ہضم میں مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں، پسلیوں کے پاس کا حصہ معدہ کے وزن سے متورم ہوسکتاہے، پیٹ میں گیس بن سکتی ہے، اپہارہ ہوسکتا ہے، دل کے آس پاس جلن ہوسکتی ہے، تیزابیت پیدا ہوسکتی ہے، اس کے علاوہ اذیت ناک ڈکاروں سے واسطہ پڑ سکتا ہے، جو خود اپنے لیے بھی تکلیف دہ ہوتی ہیں اور دوسر وں کے لیے بھی، خون کی گردش کم ہوسکتی ہے، اور جب خون تیزی کے ساتھ دل ودماغ تک نہیں پہنچے گا تو ان دونوں کی رفتار کار بھی سست پڑ سکتی ہے، جس سے جسم کے اندر کاہلی اورسستی پیدا ہوگی، کوئی کام کرنے کے لیے دل آمادہ نہیںہوگا، خاص طورپر نماز جیسی مشقت کے لیے جسم تیار ہی نہیں ہوگا، اسی لیے افطار کے بعد سونے سے بھی منع کیا جاتاہے کہ کیوں کہ یہ مختصر نیند بجائے مفید ہونے کے مضر ہوگی، طبیعت بوجھل ہوجائے گی، عشاء اور تراویح کی نماز کے لیے اٹھنا مشکل ہوجائے گا، کم کھانا اس لیے بھی ضروری ہے کہ اس سے نیند نہیں آتی، زیادہ کھانے سے نیند آتی ہے۔
(۵) سحری ضرور کھانی چاہئے:- سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ’’ سحری کیا کرو، اس لیے کہ سحری میں برکت ہوتی ہے۔‘‘ ( صحیح البخاری:۷/ ۳، رقم: ۱۷۸۹، مسلم: ۵/ ۳۸۷، رقم: ۱۸۳۵) اس میں شک نہیں کہ اگر سحری میں کچھ کھالیا جائے یا پی لیا جائے تو دن بھر چستی رہتی ہے، کمزوری اور نقاہت کا احساس نہیںہوتا، خالی پیٹ طبیعت بھی متلانے لگتی ہے، بہت سے لوگوں کے سر میں درد ہونے لگتا ہے، پیاس شدت سے لگتی ہے، ایسے میں کوئی کام نہیں ہوتا، روزہ پورا کرنا مشکل ہوجاتا ہے، سحری بالکل آخری وقت میں کرنے کا جوحکم دیا گیا ہے اس میں بھی یہی مصلحت ہے کہ زیادہ دیر پیٹ خالی نہ رہے، حدیث شریف میں ہے : ’’ رات (کے آخری پہر) حضرت بلال حبشیؓ یہ اعلان کیا کرتے تھے کہ جب تک ابن ام مکتوم اذان نہ کہیں اس وقت تک کھاؤ پیو۔‘‘ (بخاری :۲/ ۴۹۴، رقم: ۵۸۷، مسلم:۵/ ۳۸۰،رقم:۱۸۲۹) ۔
(۶) مسواک کی پابندی: – بخاری شریف میں حضرت عامر بن ربیعۃ ؓ کی روایت ہے، فرماتے ہیںکہ میں نے روزے کی حالت میں سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کو اتنی بار مسواک کرتے ہوئے دیکھا کہ میں تعداد شمار نہیں کرسکتا ‘‘ (صحیح البخاری:۷/۱۸)گویا آپ روزے میں بہ کثرت مسواک فرمایا کرتے تھے، دانتوں کی سلامتی کے لیے مسواک بہت ضروری ہے، موجودہ سائنس بھی مسواک کی اہمیت تسلیم کرتی ہے، کہتے ہیں کہ مسواک میں کئی کیمیاوی مادّے ایسے ہیں جو دانتوں کو سفید چمکدار رکھتے ہیں، مسوڑھوں کو مضبوط کرتے ہیں، جراثیم کا خاتمہ کرتے ہیں اور منھ کی بدبو دور کرنے میں مؤثر ثابت ہوتے ہیں۔
(۷) نماز تروایح کا اہتمام کیجئے:- نماز عبادت بھی ہے اور جسم کی بہترین ورزش بھی، اور ورزش بھی ایسی جو نہایت معتدل اور منظم ہے ، اور انسان کے تمام اعضاء کو محیط ہے، خاص طورپر رکوع وسجود کی حرکات تو اس ورزش کا اہم حصہ ہیں، ان حرکات سے معدے اورآنتوں پر دباؤپڑتا ہے، اوروہ بھی حرکت میں آکر چست ہوجاتی ہیں، اس طرح ہضم کی کاروائی تیزی کے ساتھ ہونے لگتی ہے، نماز کے بعد روزہ دار بد ہضمی اورنظام ہضم میں سست روی کی مشکلات سے بے پرواہ ہوکر آرام کی نیند لے سکتا ہے، سارے دن بھوکا رہنے والا انسان جب افطار کے وقت دستر خوان پر طرح طرح کے کھانے دیکھتا ہے تو وہ اپنے نفس پر قابو نہیں رکھ پاتا، اور عام دنوں کے مقابلے میں کچھ زیادہ ہی کھالیتاہے، یہ اللہ کا بڑا انعام ہے کہ اس نے ہمارے لیے تراویح کی نماز ضروری قرار دے دی، جو بے اعتدالی کھانے میں سرزد ہوتی ہے وہ تراویح کی نماز سے اعتدال پر آجاتی ہے، اس میں شک نہیںکہ اگر کھانے پینے میں نبوی ہدایات ملحوظ رکھی جائیں تو ہم ایک صحت مند روزہ دار کی حیثیت سے اس مقدس مہینے کی تکمیل کرسکتے ہیں۔ [email protected]