عبید اللہ ناصر
حکومت اور حکمران جماعت بڑی شان سے اس سال کے سالانہ بجٹ کو پیپر لیس بتا رہی ہے جبکہ حزب اختلاف اسے ڈائریکشن لیس یعنی بے سمت اور ورتھ لیس یعنی بیکار قرار دے رہا ہے -بجٹ کے سلسلہ میں یہ عام روش ہے جس کی پاسداری شروع سے لے کر اب تک ہوتی رہی ہے حکومت اور حکومت نواز عناصر اسے اب تک کا سب سے اچّھا بجٹ بتاتے رہی ہیں اور مخالفین اسے بدترین غریب مخالف گرانی بڑھانے والا جیسے الفاظ اور تبصروں سے نوازتے رہے ہیں -ماہرین معاشیات بھی ایسے تبصروں سے ابھر نہیں پاتے اور انکے تجزیوں سے انکی سیاسی پسند اور رجحان ظاہر ہو ہی جاتا ہے -اس سال کے بجٹ کا بھی اگر تجزیہ کیا جائے توچند باتیں ایسی ابھر کر سامنے آتی ہیں جن سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا -مثال کے طور پر اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کی کورونہ کے اس دور میں جب طبی سہولیات چرمرا چکی ہوں صحت امہ کے مد میں مزید رقم دینا وقت کی ضرورت تھا اور ہکونٹ نے اس میں کوتاہی نہیں کی لیکن اگر اسکا مزید گہرائی سے تجزیہ کیا جائیگا تو پتا چلتا ہے کہ اس مد میں اصل رقم کم و بیش پچھلے بجٹ کے مطابق ہی مختص کی گئی جو فاضل رقم ہے وہ ٹیکوں کی تحقیقات اور ایسے ہی مدوں کے لئے ہے روایتی طبی ضروریات کے لئے رقم نہیں بڑھائی گئی ہے۔
سب سے دلچسپ معاملہ زراعت کا ہے -اس وقت پورا ملک کسانوں کی تحریک سے ہلا ہوا ہے بیرونی ملکوں میں بھی اسکی گونج سنائی دے رہی ہے حکومت نجو زرعی قانون بنائے ہیں ہر ہوشمند شخص ان سے فکر مند ہے خیونکہ یہ ہماری زراعت کو بھی دیگر زمروں کی طرح کارپوریٹ کے حوالہ کر دینے کا آغاز ہے ان قانونوں کے خلاف کسانوں کی تحریک تیسرے مہینہ میں داخل ہونے والی ہے قریب ١٥٠ کسان جانبحق ہو چکے ہیں حکموت نے سازش اور تشدد کے ذریعہ تحریک کو ناکام کرنا چاہا یوم جمہوریہ کو دہلی کے لال قلعہ پر جو ہوا وہ بہت غلط تھا ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سب کچھ ایک سوچی سمجھی حکمت عملی کا نتیجہ تھا یہ حکمت عملی کامیاب بھی ہو گئی تھی لیکن کسان نیتا راکیش ٹکیت کے آنسوؤں نے بازی پلٹ دی -بجٹ میں حکومت نے زرعی زمرہ کے لئے زیادہ رقم مختص کی ہے جسکا کسانوں کی آمدنی کو دوگنا کرنا بتایا گیا ہے مگر ڈیزل پر چار روپیہ فی لیٹر اور پیٹرول پر ڈھائی فی لیٹر زرعی سیس لگا دیا گیا ہے ڈیزل کا سب سے زیادہ استعمال زرعی کاموں ٹریکٹر سے جوتائی ٹیوب ویل اور پمپنگ سیٹ سے سنچائی اور زرعی پیداوار کی ڈھولائی میں ہوتا ہے اسکا بوجھ کسانوں پر ہی پڑیگا حکموت نے ایک ہی قمیض کی دو جیبوں میں سے ایک سے پیسہ نکل کر دوسرے میں رکھنے کا فیصلہ کیا ہے زرعی پیداوار کی لاگت بڑھ جانے سے کسانوں کی آمدنی دوگنا کرنے کی بات کرنا مضحکہ خیز ہی کہا جائیگا -پیٹرول بھی غر یبوں کا ایندھن ہے جو وہ اپنی دو پہیہ گاڑیوں میں ہی استعمال کرتے ہیں امیر لوگ تو ڈیزل سے چلنے والی منہگی گاڑیاں رکھتے ہیں –۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے مہاتما گاندھی روزگار گارنٹی اسکیم کو پارلیمنٹ میں کانگریس حکومت کی تاریخی ناکامی کا ثبوت کہہ کر اسے برقرار رکھنے کا اعلان کیا تھا بہت ہی مذاق اڑایا تھا اس اسکیم کا اس کے لئے بجٹ میں رقم بھی بہت کم کر دی تھی لیکن لاک ڈا ون میں یہی اسکیم خانماں برباد مزدوروں کے لئے نعمت ثابت ہوئی تھی پچھلے بجٹ میں اسکے لئے خاصی رقم مختص کی گئی تھی مگر اس بار پھر رقم بہت کم کر دی گئی ہے -دیہی حلقوں میں روزگار فراہمی کی اس دنیا کی سب سے کامیاب اسکیم کو کیوں بے موت مارا جا رہا ہے یہ سمجھ پانا مشکل ہو رہا ہے -ہندستان میں بیروزگاری کی شرح نو فیصدی کے قریب پہنچ گئی ہے جو گزشتہ پچاس برسوں میں سب سے زیادہ ہے اس بجٹ میں راست روزگار فراہمی کے کسی منصوبہ کا نہ تو ذکر کیا گیا ہے اور نہ ہی کوئی رقم مختص کی گئی ہے منریگا میں بجٹ گھٹا کر دیہی روزگار کے مواقعہ بھی کم کر دے گئے ہیں جو تشویش کا سبب ہیں –۔
وزیر اعظم نفریندر مودی آتم نربھر بھارت (خود کفیل ہندستان ) بنانے کی بات کرتے ہیں مگر اپنے بر سر اقتدار آتے ہی انہوں نے جس طرح سرکاری کمپنیوں اور عوامی زمرہ کی اکائیوں کو پرائیویٹ ہاتھوں میں بچنے اور ان ،میاں سرمایہ نکاسی کا سلسلہ شروع کیا تھا وہ انکے دعووں اور منصوبوں کے با لکل خلاف ہے -بھارت سنچار نگم ایئر پورٹ اتھارٹی آف انڈیا یہاں تک کہ ریلوے تک کو پرائیویٹ ہاتھوں میں دینے کی پالیسی اختیار کی گئی ہے حالیہ بجٹ میں بھی ٢٥-٢٦ سرکاری کمپنیوں کو فروخت کرنے یا سرمایہ نکاسی کا اعلان کیا گیا ہے گھر کا اثاثہ فروخت کر کے کیسے خود کفیل بنا جا سکتا ہے یہ سمجھ پانا مشکل ہو رہا ہے -ریزرو بینک آف انڈیا سے اسکا ریزرو فنڈ تک لے یا گیا ہے جو چین اور پاکستان سے جنگ کو زمانہ میں بھی نہیں لیا گیا تھا قریب قریب سبھی بینک معاشی بدحالی کا شکار ہیں انکا این پی اے خطرناک حد تک بڑھ چکا ہے غیر ملکی قرض گزشتہ ٧ برسوں میں تین گنا سے بھی زیادہ ہو چکا ہے جسکے سود کی ادائی میں ہی بجٹ کا ایک بڑا حصّہ نکل جاتا ہے ان حالت میں خود کفیل ہندستان کا نارہ محض چھلاوہ ہی کہا جائیگا –۔
سابق وزیر مالیات پی چدمبرم نے اپنے ایک حالیہ مضمون میں لکھا ہے کہ ٢٠٢١-٢٢ کا بجٹ حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان معاشی امور کو لے کر پیدا ہوے اختلاف ختم کرنے کا نادر موقعہ تھا -یہ بیحد غریب خانماں برباد مزدوروں ایم ایس ایم ای زمرہ ‘متوسط طبقہ اور بے روزگار نوجوا نوں کے ساتھ پالیسی کے معاملہ میں ہوئی کاہلی اور ڈھیل کی وجہ سے جو کچھ غلط ہوا اسے درست کرنے کا موقعہ تھا مگر اس بجٹ میں بھی سب سے زیادہ ضرورت مند لوگوں کو بھی انکی قسمت کے حوالہ کر دیا گیا ہے -انہوں نے لکھا ہے کہ مجھے اس حکومت سے کوئی امید نہیں تھی اس لئے مجھے مایوسی بھی نہیں ہوئی لیکن ہندستان کے لاکھوں لوگ حکوت کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھ رہے ہیں انکی امیدوں پپر پانی پڑ گیا ہے –
بجٹ میں وزیر مالیات نے معیشت میں سب سے نچلی سیڑھی پر کھڑے تیس فیصدی لوگوں اور ایم ایس ایم ای (بہت چھوٹی صنعتی اکائیوں )اور انکے بیروزگار ہو چکے ملازمین کے لئے بقول ماہرین ایک لفظ نہیں کہا انکے مسائل کے حل اور اسکے لئے رقم مختص کرنا تو دور کی بات ہے -بجٹ میں ٹیلی مواصلات بجلی تعمیرات شہری پرواز سیاحت سروس سیکٹر جیسے زمروں کے لئے بھی بجٹ میں کوئی اعلان نہیں کیا گیا ہے جی ایس ٹی کی شرح میں کمی کر کے مانگ بڑھانے کا بھی انتظام نہیں کیا گیا کیونکہ مانگ بڑھنے سے ہی اپیداوار اور روزگار کے مواقعہ بڑھیںگے اس جانب کوئی توجہ نہیں دی گئی ہے پیٹرو ل اور ڈیزل میں سیس لگانے سے ریاستوں کی آمدنی پر منفی اثر پڑ سکتا ہے جو جی ایس ٹی رقم کی مناسب ادائی نہ ہونے سے پہلے سے زبردست معاشی دباؤ اور بوجھ میں مبتلا ہیں –۔
ملک کا غریب طبقہ تنخواہ دار لوگ مہاجر مزدور چھوٹے اور متوسط کسان چھوٹی صنعتی اکائیوں کے مالکان بیروزگار نوجوان اور متوسط طبقہ خود کو ٹھگا ہوا محسوس کر رہا ہے جنکی نا امیدی اور ناراضگی سوشل میڈیا فیس بک ٹویٹر وغیرہ پر دیکھی جا سکتی ہے کیوں کہ مین اسٹریم میڈیا خاص کر ٹیلی ویژن کے مباحثوں اور خبروں میں انکے لئے جگہ نہیں ہوتی -کسانوں کی طرح اگر اس طبقہ کے محروم لوگوں کا غصہ پھوٹ پڑا اور وہ سڑکوں پر اتر آئیں تو کوئی تعجب نہیں ہوگا -بقول مسٹر چدمبرم معاشی ذمہ داری اور بجٹ منیجمنٹ کو دفن کرنے اور امیروں کو فایدہ پہنچانے والے بجٹ کی سمت کے پس پشت سوچا سمجھا دماغ تو ہے مگر دل نہیں ہے۔
٭٭٭