مولانا ابولحسن علی ندویؒ نے پیام انسانیت کو فروغ دے کر ایک امت کا پرچم بلند کیا: مولانا سید رابع حسنی ندوی
مولانا علی میاں ندوی ؒہندوستان اور عالم عرب میں کی ممتاز اور محبوب شخصیت تھے:مولانا سید ارشد مدنی
مفکر اسلام علی میاں ندوی ؒان پر اللہ تعالیٰ کی خصوصی کرم فرمائی تھی:مولانا ڈاکٹر سعید الرحمن اعظمی
مولانا علی میاں ندوی ؒ نے قرآن و حدیث روشنی میں زندگی بسر کرنے کی نصیحت دی: مولانا احمد لاٹ (امیر،تبلیغی جماعت)
آل انڈیا مسلم انٹلیکچؤل سوسائٹی کی جانب سے حضرت مولانا علی میاں ندوی ؒکی سیرت اور شخصیت
پر ملک اور بیرون ملک سے تمام علماء و مشائخ ، اسلامک اسکالر ادبا و دانشوروں کا اظہار خیال
لکھنؤ : مولانا علی میاں ندویؒ نے ہندوستان میں اس وقت جب مسلمانوں کے دینی و دنیاوی حالات قابل تشویش تھے ایسے میںانہوں نے پیام انسانیت کی تحریک چلائی۔امن و امان اس تحریک کا عین مقصد رہاہے۔ ان کے معاونین اور ذمہ داران ملت اس تحریک کو آج بھی زندہ کیے ہوئے ہیں۔ان کا ماننا تھا کہ ہم اس ملک میں ایک ساتھ رہ رہے ہیں زندگی کے مختلف پہلوؤں میں ساتھ ہے۔مفکر اسلام حضرت مولانا علی حسنی ندوی کی شخصیت اور ان کی دینی و ملی خدمات پر ان خیالات کا اظہار آل انڈیا مسلم انٹلیکچؤل سوسائٹی کے سرپرست اعلیٰ، دارلعلوم ندوۃ العلماء کے ناظم اعلیٰ اور آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے صدرحضرت مولانا سید رابع حسنی ندوی نے کیا۔ آل انڈیا مسلم انٹلیکچؤل سوسائٹی کی جانب سے منعقد ہونے والے اس آن لائن پروگرام میں انہوں نے کہا کہ مولانا علی میاں ندویؒ نے اسلام کی تعلیمات میں سے ایک پیام انسانیت کو فروغ دے کر ایک امت کا پرچم بلند کیا۔
اس سے قبل پرواگرام کا آغاز مولانا ساجد حسین ندوی کے ذریعے تلاوت قرآن پاک سے ہوئی۔ آل انڈیا مسلم انٹلیکچؤل سوسائٹی کے جنرل سکریٹری ڈاکٹر عمار انیس نگرامی نے تمام مہمانان کے لیے استقبالیہ کلمات پیش کیے۔انہوں نے مفکر اسلام حضرت مولانا علی میاں ندوی ؒ کی شخصیت پر اپنے خیلات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس صدی کی عظیم شخصیت تھے۔ وہ عالم اسلام کی پیشانی کے نور تھے۔انہوں نے دعوت اللہ اور جہاد فی سبیل اللہ کے لیے اپنی زبان ، قلم اور جان کو وقف کردیا تھا۔انہوں نے اسلام کی اصلی پہچان اور اس کی صحیح روح سے دنیا کو متعارف کرایا۔ آپ دعوت اصلاح کے دعوت ناموں میں سے ایک تھے۔ آپ کی بے شمار تصنیفات ہیں جو اسلام کی خدمت کے جذبے اور اس کے لیے درد و تڑپ سے مالا مال ہیں۔
مولانا سید ارشد مدنی، صدر جمیعت العلما ہنداوراستاد حدیث، وارالعلوم دیو بند نے مولانا حضرت علی میاں ندویؒکی شخصیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ان کے خاندان سے میرے خاندان کے بزرگوں کا گہرا تعلق رہا ہے۔حضرت مولانا علی میاں ندوی ؒ اپنے دور کے اور ان سے قبل کے تمام علمائے دین سے بے حد متاثر تھے۔ جو اثر ان علما کا مولانا علی میاں کی زندگی پر ہوا انہوں نے ہو بہ ہو اسے اپنی زندگی میں ڈھالنے کی کوشش کی۔مولانا علی میاں ندویؒ کی شخصیت ہندوستان اور عالم عرب میں بے حد محبوب شخصیت رہی ہے۔ دعا کرتا ہوں کہ ان کی سیرت اور شخصیت پر ہونے والے اس پروگرام کو اللہ تعالیٰ کامیابی بخشے۔
دارلعلوم ندوۃ العلماء کے مہتم مولانا ڈاکٹر سعید الرحمن اعظمی ندوی نے کہا کہ سال ۱۹۵۲ سے شروع سے آخر وقت تک ان کی خدمت میں رہا۔ان کے علمی و عملی فن سے میں نے خوب استفاد کیا۔ انہوں نے مجھ ناچیز پر ہمہ وقت اعتماد فرمایا۔ ان کی جامعیت ، ہمہ گیریت، ان کی بے مثال وسعت نظر اور عالم گیر معلومات اور اسلام کے خلود او دوام پر ان کی نظرنے عالم اسلام اور پوری دنیاکو متاثر کیا۔ان پر اللہ تعالیٰ کا خاص فضل وکرم اور خصوصی کرم فرمائی تھی۔میںنے ان کی خدمت میں رہتے ہوئے ان کے خلوص اور تمام دینی و ملی صلاحیتوں کے اعتراف میں ـ’’۴۸ سال شفقتوں کے آئینے میں‘‘ کتاب لکھی جو ایک میری ان کے تئیںایک سچی خراج عقیدت کا ثمرہ ہے۔
مبلغ اسلام اور تبلیغی جماعت کے سربراہ مولانا احمد لاٹ کی امانت داری، اخلاق اور شفقت کی مثال پورے عالم اسلام اور پوری دنیا میں قائم ہے۔ علماء نے دینی زندگی کے جتنے بھی شعبہ جات بیان کیے ہیں مولانا علی میاں ندویؒ ان سب کی فوٹو کاپی تھے۔ندوۃ العلماء کے فارغین طالب علموں سے ان کا رویہ ہمیشہ ناصحانہ رہا ہے۔ وہ اکثر ان سے نصیحت آمیز کلمات کہہ کر وداع کرتے تھے۔انہوں نے قرآن و حدیث روشنی میں زندگی بسر کرنے کی نصیحت دیتے تھے۔
امیرمرکز، جمعیت اہل حدیث ہندمولانا اصغر علی امام مہدی سلفی نے حضرت مولانا سید ابولحسن علی میاں ندویؒ کی شخصیت اور ان کی دینی و ملی خدمات کے اعتراف میں منعقد ہونے والے اس پروگرام کے منتظمین کو مبارک باد پیش کرتے ہوئے کہا میرے لیے بڑی سعادت کی بات ہے کہ عالم اسلام کی ایک عظیم شخصیت مفکر اسلام حضرت مولانا علی میاں ندویؒ کی خدمات اور ان کے اصاف پر گفتگو کرنے کا موقع فراہم ہوا۔آج پوری دنیا میں ملت اسلامیہ مختلف فتنوں اورآزمائشوں میں گھری ہوئی ہے۔میں یہ کہوں گا کہ پوری ملت کے ہر ایک فتنہ دلدل کی شکل اختیار کرتی جا رہی ہے۔ملت کے رہنما ہی ان کے حل فراہم کر سکتے ہیں ۔ ملت کی حقیقی رہنمائی کے لیے حضرت مولانا علی میاں ندویؒ جیسے بزرگوں کی ضرورت ہر دور میں رہتی ہے۔حضرت مولانا اپنے آپ میں ایک انجمن تھے۔وطن ہی نہیں پورے علام اسلام کی ایک عظیم شخصیت کے طور پر جانے پہچانے جاتے ہیں۔
آل انڈیال مسلم پرسنل لاء بورڈ کے قومی ترجمان مولانا سید خلیل الرحمن سجاد نعمانی نے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حضرت مولانا ابوالحسن علی ندویؒ کی شخصیت اور ان کے علمی و دینی خدمات کا اجمالی احا طہ ممکن نہیں ہے۔وہ قدیم اور جدید کا حسین ترین سنگم تھی۔اس دور میں جہاں علمائے دین کے سامنے تمام بڑے بڑے مسائل سامنے تھے، ایسے میںاسلام کی ترجمانی ، تفہیم اور تشریح کے چیلینج کو قبول کرکے مولانا علی میاں ندویؒ نے عالم اسلام کو ایک نئی مشعل راہ عطا کی۔ان کی طبیعت بے پناہ سادگی ، عالمانہ وقار اور سنجیدگی کا نمونہ تھی۔ ان کی مجلس میں عالمانہ گفتگو اور مشفقانہ نصیحتیں ہوا کرتی تھیں۔ہر دورمولانا جیسی عظیم شخصیت کا متقاضی ہے۔
مولانا سید شاہد مظاہری، جنرل سکریٹری، جامعہ مظاہرالعلوم سہارن پورنے مولانا علی میاں ندویؒ کی دینی و ملی خدمات پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مولانا حضرت خدمت میں متعددبار حاضری دینے کا شرف حاصل رہا۔ ان کے ساتھ کے کئی حسین اورسبق آموز واقعات بھی گذرے ہیں جو وقت کے تناظر میں انتہائی اہمیت کے حامل ہیں لیکن ان کو بیان کرنے کے لیے خاصا وقت درکار ہے۔اس سے قبل انہوں نے آل انڈیا مسلم انٹلکچؤل سوسائٹی کے اراکین اور پروگرام کے منتظمین کو مبارک باد اور تہنیت پیش کیا۔
محمود حسن حسنی ندوی نے مولانا علی میاں کی سیرت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان کی جانب سے اپنے چھوٹوں کے لیے یہ تاکید رہتی تھی کہ لوگوں کے احسانات ہمیشہ یاد رکھو، نفلوں کا اہتمام کرو۔پیام انسانیت کو عام کرنے اور بنا کسی نفع و نقصان کے ایک دوسرے کی بھلائی کی ترغیب دینا مولانا کی عادات میں شمار تھا۔قوم اور ملت کے لیے ہمیشہ فکر مند رہتے۔مولانا علی میاں کے دل میں قوم کا درد اور ان کے تئیں فکر موجود تھی۔ ندوۃ العلماء کے نصاب میں انگریزی زبان اور دیگر علوم کو شامل کرنے میں حضرت مولانا علی میاں نے اپنی گراں قدر خدمات انجام دیں۔اس کے پیچھے ان کی نیک منشا یہ تھی کہ ہم یہ جان سکیں کہ آج دنیا میں کیا ہو رہاہے اور ہر طرح کے رجحانات سے واقف ہوں۔ پوری امت کے لیے پیدا کیے جانے والی مشکلات کا سامنا کرنے کے لیے تبدیلی بے حد اہم ہے۔
امام عیدگاہ لکھنؤ وچیرمین اسلامک سنٹر آف انڈیامولانا خالد فرنگی محلی نے کہا کہ کسی بھی انسان کے لیے اس سے بڑی سے سعادت مندی کی بات نہیں ہو سکتی کہ اس کو بیت اللہ شریف اور کعبۃالمقدس کی کلید سے نوازہ جائے۔عالم اسلام میں ان کی ش حضرت مولانا کی زندگی سے تقویت حاصل کرنی چاہیے۔تعلیم کے میدان میں دینی علوم و فنون کو فروغ دینے میں ان کے بنیادی کردار کو کبھی بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا ہے۔ان کی تمام خدمات کو دنیا کے سامنے متعارف کرانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
ڈاکٹرمحمد اکرم ندوی، ڈین کیمبرج اسلامک کالج ( انگلینڈ ں) نے مولانا علی میاں ندوی کی علمی و عملی خدماتکا جائزہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ان کی تصنیف و تالیف میں ایک منفرد کیفیت تھی۔ ان میں قوم و ملت کا دردمندانہ احساس موجود ہے جو ا امت کے تئیں ان کی بے چینی کا نتیجۂ فکر ہے ۔
سید سعادت اللہ حسینی اس آن لائن پروگرام کے نتظمین کا شکریہ اداکرتے ہوئے اپنے تہنیتی کلمات پیش کیے۔انہوں نے کہا کہ حضرت مولانا علی میاں ندوی مرحوم ہمارے دور کے عظیم ترین علما و دینی رہنما میں سے ایک ہیں۔وہ بیسویں صدی عیسوی کے مفکر اسلام و قوم تھے جسے بجا طورپر احیائے اسلام کی صدی کہا جاتا ہے۔مولانا ندویؒ کے علمی، دینی و ملی کارناموں کی تفصیل پر گفتگو کرنے کے لیے ایک طویل وقت درکار ہے۔ انہوں نے تاریح سازی کا کام کیا۔ ان کی تصنیفات نے عرب و عجم دونوں کو یکساں طور پر متاثر کیا۔
جودھ پور یونیورسٹی کے چانسلرپروفیسر اختر الواسع نے کہا کہ حضرت مولانا ابوالحسن علی میاں ندوی ؒ کی شخصیت ہمارے لیے ایک روشن مینار کی حیثیت رکھتی ہے جو رہنمائی کا معیار بھی ہے۔وہ صدق و صفا کے پیکر اور صبر و تاب کے آئینہ دار عالم تھے۔آل انڈیا مجلس مشاورت اور پیام انسانیت جیسی تحریکیں ان کی فکر مندی اور قوم کے تئیں خدمت کے جذبے کا پتا دیتی ہیں۔ان کی شخصیت میں اعتدال اور استقامت ساتھ طبیعت کی روانی بھی تھی جو ایک باکمال عالم دین کے لیے اشد ضروری ہے۔
پروفیسر مشیر الحسن صدیقی صدر شعبۂ عربی و عرب کلچر ، لکھنؤ یونیورسٹی لکھنؤ نے موالانا علی میاں کی خدمات اور اوصاف کا بیان کرتے ہوئے کہا کہمولانا کی تمام تحریرں پڑھنے لائق ہے۔ ان کو سچی خراج عقیدت پیش کرنے کا سب سے آسان طریقہ ہے کہ ان کی لکھیں کتب پڑھی جائیں اور ان پر عمل کیا جائے۔ان کے اخلاق اور اطوار کو اپنی زندگی میں شامل کرنا ہم سب کو اپنی زندگی کا مقصد سمجھنا چایئے۔
مولانا کاکا سعید عمری نے کہا کہ ان کی دینی و علمی خدمات کا اعتراف عرب و عجم دونوں نے کیا ہے۔ وہ ایک مفکر، دانش ور اور درویش صفت عالم دین تھے۔حق گوئی اور جرأت پسند ی ان کا شیوہ تھا۔ اعتدال و اتحاد ان کا مشن تھا۔ ان کی بصیرت افزوں کارنامے ہماری زندگی کے لیے مشعل راہ ہیں۔
پروفیسر شفیق احمدنے مولانا علی میاں ندوی کی سیرت اور ان کے مشفقانہ رویے پر تفصیلی گفتگو پیش کی۔ انہوں کہا کہ مولانا کے انتقال کے نو برس پہلے رسالہ’ جامعہ ‘میں ان کے مضامین سے ان کی سیرت اورعلمی بصیرت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
حذیفہ وسطانوی ناظم جامعۃ العلوم جامعہ اکلکوا نے کہاکہ شخصیت کا امتیازی پہلو یہ تھا کہ انہوں نے اپنی عمر کا بیشتر حصہ امت کو جگانے میں صرف کیا۔ مکاتیب اور مدارس کو زندہ رکھنے کے لیے ہمیشہ فکر مند اور کوشاں رہے۔
کویت سے شیخ منور حسین نے مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی میاں ندوی کی خدمت میں منظوم خراج عقیدت پیش کیا۔اس پروگرا میں ملک اور بیرون ملک سے تمام علما و دانشوران نے مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی میاں ندویؒ کی سیرت اوران شخصیت پر اپنے خیالات کا اظہار کیا جس میںر آل انڈیا ملی کاؤنسل کے نائب صد سید مصطفیٰ رفاعی جیلانی، ڈاکٹر پروفیسر پرویز، سابق وائس چانسلر مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی،ڈاکٹر مظفر علی شہ میری ، وائس چانسلر عبد الحق یونیورسٹی حیدرآباد،مشہور و معروف اسلامک اسکالر شیخ عبد اللطیف بن عبداللہ، استاد تفسیر و حدیث، مکہ المکرمہ ،ڈاکٹر ظل رحمن ، مترجم ائمہ حرم ، مسجدالحرام،جناب طارق نقوی، مولانا محمد سفیان قاسمی،شیخ محمد بن حُمید،پروفیسر حدیث، ام القریٰ، مکہ المکرمہ ،ڈاکٹر محمد اکرم ، شعبۂ دینیات آکسفورڈ (انگلینڈ) وغیرہ اہم ہیں۔
اس آن لائن پروگرام میں، پروگرام کو کامیاب بنانے میں خصوصی طور پرانجینئر سجاد نگرامی،ڈاکٹرمسیح الدین خان، ڈاکٹر یاسر جمال، مسعود عالم جیلانی، احمد اویس نگرامی ، مولانا قمرالزماںوغیرہ نے خصوصی معادنت کی۔پروگرام کو آل انڈیا مسلم انٹلیکچؤل سوسائٹی کے فیس بک پیج سے تقریبا ۲۲ ہزار لوگوں تک پہنچایا گیاجسے بہ یک وقت آٹھ ہزار سے زائد ناظرین نے دیکھا۔
پروگرام کی نظامت شعبۂ عربی و عرب کلچر کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر محمد ادریس نے کی اور مولانا علی میاں ندوی ؒ کی زندگی اور ان کی خدمات پر مختلف پہلوؤں سے روشنی ڈالی۔پروگرام کے آخر میں مولانا احمد لاٹ صاحب نے خصوصی دعا کے بعد پروگرام کے کنوینر احمد اویس نگرامی نے کلمات تشکر پیش کیے۔
ڈاکٹرعمار انیس نگرامی
جنرل سکریٹری
آل انڈیا مسلم انٹلیکچؤل سوسائٹی، لکھنؤ
+91 9161002638