از سید حمیدالحسن
جس وقت یہ مضمون لکھا جارہا ہے اس وقت تمام اسلامی دنیا اپنی ایک بیحد اہم شخصیت کی ولادت کی خوشی منا رہی ہے۔ ایک ایسی شخصیت جس نے اپنی تقریباً 57 سال کی زندگی میں بڑی مصیبتیں اور بڑے غم دیکھے جس نے اپنی بیحد بااصول زندگی کے غم اپنے لئے اُٹھائے لیکن آنے والی صدیوں کے لوگوں کے لئے خوبصورت انسانی زندگی کی لاتعداد خوشیاں مہیا کردیں اس عظیم المرتبت ہستی کا نام نامی امام حسین ؑ ہے۔ وہ تمام دنیا کے لئے ان کے رسول حضرت محمد مصطفیٰؐ کے نواسے تھے وہ انسانی تاریخ کے لئے ایک بہت باعظمت نام حضرت علی ؑ کے بیٹے تھے اور تمام عالم انسانی کیلئے ایک بیحد محبوب و قابل احترام ہستی حضرت فاطمہ زہراؐ بنت حضرت محمدؐ کے پیارے بیٹے تھے۔ ان کے بڑے بھائی حضرت امام حسن ؑ تھے اور ان کی چھوٹی بہنیں حضرت زینب و حضرت اُم کلثوم تھیں۔
یہ مضمون تین شعبان کو لکھا جارہا ہے اور دو دن بعد جس دن شائع ہوگا اس دن نوروز ہوگا۔ ہزاروں سال سے خوشیوں کا دن۔ جس دن دنیا کے درختوں کی شاخوں پر پھول کھلے، ہر طرف بہار ہی بہار کے منظر اُبھرے پرندوں نے چہچہانا سیکھا اور شیریں پانی کی نہریں جاری ہوئیں۔
خوشی اور غم ساتھ ساتھ زمانوں سے رواں دواں ہیں ایک ہی وجود خوشیوں کا سبب بنتا ہے اور پھر وہی غموں کا نشان بن جاتا ہے۔ اب سے ایک ہزار چار سو اڑتیس (1438) سال پہلے حجاز (آج کے سعودی عرب) کے شہر یثرب، مدینہ میں ایک گھر میں جو رسول اسلام کی بیٹی کا گھر ہے۔ خوشیوں کا ماحول نظر آیا۔ ایک فرزند کی آمد ہے۔ انسانی و مذہبی دنیا کی انتہائی پروقار شخصیت حضرت رسالتمآب اس گھر تک آئے اسی گھر کی ایک فرد جن کا نام اسماء بنت عمیس تھا کو بلایا۔ فرمایا ’’ہمارے بیٹے کو لے آئو‘‘ ہم نے جس طرح تاریخ میں دیکھا وہی لکھا۔ اور شائد ہماری تمام رشتوں کی دنیا میں یہ پہلی بار ہوا ہوگا کہ کسی نانا نے اپنے نواسے کے لئے اس طرح آواز دی ہو ’’ہمارے بیٹے کو لے آئو‘‘ اور سفید کپڑے میں لپٹے ہوئے امام حسین ؑ اپنے نانا کی گود میں آگئے منظر پھر بدلا اب رسولؐ نے اپنے نواسہ کو اپنے زانو پر لٹایا اور معصوم نواسہ کے کانوں میں اذان اور اقامت اذان داہنی طرف اقامت بائیں طرف سنائی۔
مضمون کے اس موڑ پر اتنا لکھنے کے لئے دل چاہتا ہے۔ حضوؐر ختمی مرتبت نے یہ اذان، یہ اقامت نہیں سنائی بلکہ اپنے نواسے کو ان کلمات کی تا قیامت باقی رکھنے کا ضامن بنایا۔ اور یہ وعدہ جو ایک نواسہ کا اپنے نانا کی گود میں شائد ہوگیا اس طرح باقی رکھا گیا کہ جب یہی امام حسین ؑ 61 ہجری میں اپنی زندگی کے آخری دن کربلا میں تھے تو عاشور کی صبح اپنے 18 سال کے فرزند حضرت علی اکبر کے ذریعہ یہی کلمات جو اذان کے تھے کربلا کے میدان میں بلند کرنے کا انتظام کیا گیا کہ آج تک تمام دنیا میں کوئی بھی امام حسین ؑ کا چاہنے والا ایسا نہ ہوگا جو اس اذان کو یاد نہ کرتا ہو۔
اسلامی مذاہبی تاریخیں اس نادر وقت کے واقعات سے بھری پڑی ہیں اور پھر ہمارے حضوؐر کے ساتھ ان کے اس نواسہ کی زندگی 6 سال تک گذری اس میں انہوں نے اپنے نانا سے کیا کیا نہ سنا ہوگا اور کیا کچھ نہ دیکھا ہوگا۔ ہم اس میں سے یہ دو منظر اس لئے نقل کردیں کہ یہ دونوں منظر آج ہم سب کو جو بھی سبق دیتے ہوں وہ اپنی جگہ ہیں لیکن وہ کردار جو اِن مناظر کا ایک حصہ بن کر ایک جزو بن کر ساتھ ساتھ ہوں ان کا انداز کیا ہوگا؟
پہلا منظر رسولؐ اپنے بیٹی کے گھر میں آئے۔ ایک چادر مانگی آرام کیا اور اسی چادر میں رسول کی اجازت سے اور بھی گھر کے سب سے اہم کردار ساتھ ساتھ نظر آئے جن میں سب سے کمسن امام حسین ؑ تھے آئے ’’سلام ہو اُن پر جن کو اللہ نے اختیار کیا سلام ہو آپ پر اے اللہ کے رسول سلام ہو آپ پر اے میرے نانا‘‘ پھر اجازت لی۔ نانا اجازت ہے ہم بھی اس چادر میں آجائیں۔ اور اس کا حق ان کو تھا اس لئے کہ دنیا میں جب آئے تو اپنے انہیں نانا کی گود میں پرورش پائی۔
دوسرا منظر: حضوؐر کی زندگی کا آخری سال یمن کے 40 علماء مدینے آئے ہیں۔ اب کھلے میدان میں دنیا دیکھے گی کہ سچ کیا ہے؟ حق کیا ہے؟ سب نے دیکھا۔ رسولؐ کی گود میں امام حسین ؑ ہیں، رسولؐ کی ایک انگشت مبارک پکڑے امام حسن ؑ ساتھ ساتھ ہیں، پیچھے رسولؐ کی بیٹی حضرت فاطمہ زہراؐ ہیں اور ان کے پیچھے پیچھے خود امیرالمومنین علی ؑ ہیں۔
سب آکر میدان میں بیٹھ گئے۔ سامنے عیسائیوں کے 40 روحانی پیشوا ہیں۔ لیکن ان عیسائی علماء نے کہا ’’ہم وہ چہرے دیکھ رہے ہیں کہ اگر انہوں نے بددعا کردی تو پھر آسمان و زمین کے درمیان کوئی نہ بچے گا۔ مباہلہ نہیں ہوا۔ روحانی بددعا کا معاملہ ختم کردیا گیا یہاں بھی اتنا لکھ دیں ’’عیسائی تھے مگر پہچان گئے کہ سامنے کون ہیں؟‘‘ افسوس کربلا میں لاکھوں یزیدی نہ پہچان سکے کہ سامنے کون ہیں؟
اسی جگہ ہم ایک چھوٹاسا واقعہ لکھ دیں۔ حضوؐر (رسول خدا) ہیں اور اسی زمانے میں ایک شخص سے کوئی جرم (گناہ) ہوا خوف و ڈر سے چھپتا پھرتا رہا۔ ایک دن اس نے کمسن امام حسن ؑ و امام حسین ؑ کو اکیلا پالیا۔ انہیں گود میں لیا اب رسولؐ کے سامنے آیا اور کہا ’’یا رسول اللہ اِنی مستجیرٌ باللہ و بہما۔ یا رسول اللہ میں اپنے اس جرم کے لئے اپنے اللہ کے سامنے ان آپ کے دو فرزندوں کے وسیلے سے پناہ مانگتا ہوں۔
تاریخ میں ہے۔ حضوؐر کو اس انداز میں ہنسی آئی کہ آپ نے اپنا ہاتھ اپنے ہونٹوں پر رکھ لیا اور فرمایا۔ ’’جائو تم آزاد ہو اور اپنے فرزندوں امام حسن ؑ و امام حسین ؑ سے فرمایا تمہاری شفاعت اس کے لئے (سفارش) میں نے قبول کی۔ اسی وقت قرآن کریم کی ایک آیت نازل ہوئی ۔ ولوانہم اذظلموا… جس کا مفہوم کہ اگر شفاعت کے لئے رسول کے پاس آجائیں تو اللہ کو بڑا توبہ قبول کرنے والا اور رحم کرنے والا پائیں گے۔
ہماری زندگی میں خوشی کے لمحات بھی بے شمار آتے رہتے ہیں اور غم کے انداز بھی ملتے رہتے ہیں۔ لیکن ایسی خوشی جو خوشی ہوکر بھی غم کا تاثر دے اور ایسا غم جو غم ہوکر بھی زندگی کی حقیقی خوشی بن جائے۔ شائد دنیا میں کہیں نہ ملے گا۔ ہاں ملے گا تو بس صرف ایک نام کے ساتھ۔ اور وہ نام یہی نام ہے حسین ؑ آج ان کی ولادت کی تاریخ ہے۔ نذریں، روشنیاں، قصیدے، محفلیں۔ سب میں ایک نام حسین ؑ۔ حسین ؑ۔
کربلا میں ہم نے بھی اپنی تعلیمی زندگی کے کئی سال گذارے جب بھی یہ تاریخ آئی نجف اور کربلا کے تمام بازاروں کا آسمان ان کپڑوں سے شامیانہ بناکر چھپا دیا جاتا جو دکانداروں کے اپنے رزق کا سامان تھے۔ لیکن تین چار شعبان گذرتے ہی خریدار سب سے پہلے منھ مانگی قیمت پر یہی کپڑے خریدنا پسند کرتے جو نام حسین ؑ پر آرائش کا وسیلہ بنے تھے۔ یہاں کچھ لکھتے، خوشی کا تاثر بدل نہ جائے اس لئے نہیں لکھیں گے۔ بس اتنا لکھ دیں یہ نام دنیا میں غم دیتا ہے لیکن آخرت اور قبر کی زندگی میں خوشی کی روشنی بن کر ساتھ ساتھ رہے گا۔
٭٭٭