غالب پر خود اردو شاعری کو ناز ہے ‘‘پاسبان ادب کے زیر اہتمام غالب کی پیدائش پر آن لائن مذاکرہ میں شرکاء کا اظہار خیال

0
99

ممبئ:  اردو کے عظیم شاعر مرزا غالب کے یوم پیدائش پر کل شب دیر گئے ممبئ میں پاسبان ادب کے زیر اہتمام منعقدہ آن لائن مذاکرہ پرایک خصوصی پروگرام میں شرکاء نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ غالب پر خود اردو شاعری کو ناز ہے، غالب کی عظمت کا راز یہ ہے کہ وہ کئی بار اس مقام پر نظر آتے ہیں جہاں عام زبان میں گفتگو کرنا محال ہے ۔
مذکورہ پروگرام میں شاعروصحافی شمیم طارق نےغالب کی حیات و شخصیت اور شاعری کے حوالے سے اپنے خطاب میں کہاکہ غالب کی حیات و شخصیت اور شاعری کے حوالے سے ان کو خود بھی اس حقیقت کا احساس تھا اور انہوں نے اس کا اظہار بھی کیا ہے ۔
اس خصوصی مجلس کا انعقاد ’’پاسبان ادب ‘‘ نے کیا تھا جس کے سربراہ قیصر خالد آئی پی ایس ہیں ۔قیصر خالد نے اس موقع پر کہا کہ غالب میں ان لوگوں کی دلچسپی بھی بڑھ رہی ہے جو اردو نہیں جانتے ۔اس پروگرام کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ غالب کو اردو نہ جاننے والے طبقہ میں بھی متعارف کرایا جائے ۔
قیصر خالد نے کہاکہ شمالی ہند میں اور دلی کے آس پاس کے علاقوں میں بات چیت کے دوران غالب کے اشعار عام طور پر استعمال کیے جاتے ہیں۔غالب کی شاعری عام۔آدمی سے وابستہ ہے۔
اس موقع پر شمیم طارق نے اپنی طویل گفتگو کو چار حصوں میں تقسیم کیا، انہوں نے پہلے یہ بتایا کہ اردو کے اہم ناقدین نے غالب کے بارے میں کیا لکھا ہے ۔ اس ضمن میں انہوں نے عبدالرحمان بجنوری ، یاس یگانہ چنگیزی ،آل احمد سرور ، ظ انصاری اور پروفیسر گوپی چند نارنگ کی کتابوں کے اقتباسات پڑھ کر سنائے اور بتایا کہ یاس یگانہ نے غالب کو رد کرنے کی کوشش کی مگر وہ خود کو رد کر بیٹھے۔ انہوں نے علامہ اقبال کی ایک نظم ’’مرزا غالب ‘‘ کا تجزیہ پیش کیا اور کہا کہ غالب کو اس سے بہتر خراج عقیدت نہیں پیش کیا جا سکتا تھا ۔انہوں نے یہ بیان کیا کہ غالب کا امتیاز ان کے نادر خیالات اور اچھوتے پیرایہ اظہار سے قائم ہوتا ہے ۔جبکہ غالب اپنے خیالات کی ندرت اور وسعت کی وجہ سے بھی ہندوستانی ہے اور پیرایہ اظہار کے سبب بھی ۔غالب کو ہندوستانیت نے اور یہاں کے فکروفلسفہ نے فائدہ پہنچایا ہے ۔کیونکہ منفی بات کہکر مثبت مفہوم نکالنا ہندوستانیت کی روح ہے یہ روح غالب کی شاعری میں پوری طرح جلوہ گر ہوئی ہے ۔آخر میں انہوں نے کہا کہ وہ غالب کو سمجھنے کے مدعی نہیں ہیں ،مگر ان کے شیدائی ہیں۔
غالب کی یاد میں منعقدہ پروگرام کی نظامت ڈاکٹر ذاکر نے کی اور غالب کے کئی اشعار بھی پڑھ کرسنائے اور کہاکہ پاسبانِ ادب کی روزِ اول ہی سے یہ کوشس رہی ہے کہ زبان و ادب کے ذریعہ سماج و معاشرے میں ہم آہنگی پیدا کرتے ہوئے شعرا و ادبا سے عوام الناس کو روشناس کرائے۔

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here