9807694588
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مند
ڈاکٹر سلیم خان
اترا کھنڈ میں کانگریسیوں کو توڑ کر 4 سال قبل بی جے پی اقتدار میں آگئی اس کے باوجود اگر سوال کیا جائے کہ وہاں چار سالوں تک وہاں کا وزیر اعلیٰ کون تھا تو 90 فیصد لوگ درست جواب دینے میں ناکام ہوجائیں گے ۔ اس لیے کہ ٰ ترویندر سنگھ راوت نہ کچھ کرتے تھے اور نہ بولتے تھے اس لیے ذرائع ابلاغ ان کی جانب توجہ ہی نہیں دیتا تھا لیکن اپنے اقتدارکی چارسالہ سالگرہ مناکر اگلا انتخاب جیتنے کی خاطر انہوں نے ایک ایسی حماقت کی کہ کرسی گنوا بیٹھے ۔ اتراکھنڈ ایک چھوٹا سا صوبہ جس میں کل دو کمشنریٹ ہیں ۔ ایک دن اچانک انہوں نے بغیر کسی سے مشورہ کیے چمولی ، رودر پریاگ ، الموڑا اور باگیشور ضلعوں کو الگ کرکے گیر سین نامی تیسرے کمشنریٹ کا اعلان فرماکر اپنے حلقۂ انتخاب کو سرمائی اسمبلی اجلاس کا مرکز بنادیا ۔ اس سے کماوں علاقہ میں زبردست ناراضگی پھیل گئی اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ان کے جانشین کو یہ فیصلہ واپس لینا پڑا۔ اس طرح پھر سے اتراکھنڈ اپنی پہلی والی حالت میں پہنچ گیا ہےلیکن بیچارے ترویندر سنگھ کی چھٹی ہوگئی ۔
اتراکھنڈ میں اقتدار کی تبدیلی سے قبل مرکز نے دشینت گوتم اورڈاکٹر رمن سنگھ کو حالات کا جائزہ لینے کی خاطر دہرادون بھیجا گیا ۔ وہاں پر ارکان اسمبلی نے صاف کردیا کہ ترویندر کی قیادت میں آئندہ انتخاب جیتنا ناممکن ہے۔ ایک جائزے کے مطابق انہیں اب تک کا سب سے غیر مقبول وزیر اعلیٰ پایا گیا ،اس لیے انہیں ہٹاناناگزیر ہوگیا ۔ سابق وزیر اعلیٰ سے دیگر ارکان اسمبلی اس لیے بھی ناراض تھے کیونکہ وہ خود45 وزارتوں پر سانپ بن کر بیٹھے ہوئے تھے اوربارہ کی گنجائش ہونے کے باوجود پانچ سے کام چلا رہے تھے ۔ ان میں سے تین وزارتیں سابق کانگریسیوں کو دے رکھی تھیں۔ ایسا لگتا ہے کہ انہیں اپنے سنگھی ساتھیوں پر اعتماد نہیں تھا یا وہ ان سے خوفزدہ تھے خیر اب وہ اپنی تمام تر مجبوریوں اور کوتاہیوں کے ساتھ وداع ہوچکے ہیں ۔ سنگھ کے اس سابق پرچارک کا دوسرا قصور یہ تھا کہ انہوں نے اتراکھنڈ دیواستھان بورڈ بناکر کیدار ناتھ ، بدری ناتھ ، گنگوتری اور جمنوتری جیسے مندروں کو سرکارکے تحت کرلیا تھا جس سے براہمن سماج کے پیٹ پر لات لگ گئی اور خود ان سنگھ پریوار بھی ناراض ہوگیا ۔ اس فیصلے کے خلاف سبرامنیم سوامی عدالت عالیہ میں گئے اور منہ کی کھائی اب سپریم کورٹ میں یہ معاملہ زیر سماعت ہے لیکن پارٹی ہائی کمان کی ناراضی نے ان کو گھر بھیج دیا گیا۔
نہ کھاوں گا اور نہ کھانے دوں گا کا نعرہ لگانے والی بی جے پی کے اس سابق وزیر اعلیٰ پر بدعنوانی کے الزام میں ہائی کورٹ نے تفتیش کا حکم بھی دے رکھا ہے اور وہ معاملہ بھی فی الحال سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ راوت کو دہلی بلاکر اتراکھنڈ کے رہنے والے پارٹی صدر جے پی نڈا نے استعفیٰ کا حکم دیا اورپھر نئے وزیر اعلیٰ کا انتخاب کرنے کی خاطر رمن سنگھ کو صوبے میں بھیجا لیکن وہاں ارکان اسمبلی کے درمیان اس قدر خلفشار تھا کہ وہ کسی کے نام پر اتفاق نہیں ہوسکا اس لیے مجبوراً رکن پارلیمان تیرتھ سنگھ راوت کو وزیر اعلیٰ بنانے پر مجبور ہونا پڑا۔ یہ سنگھ کا نظم و ضبط جس کی قسمیں کھائی جاتی ہیں ۔ ترویندر سنگھ سے جب ان کی برخواستگی کی بابت پوچھا گیا تو وہ بولے یہ پارٹی کا ایک اجتماعی فیصلہ ہے ۔ صحافیوں نے اس کی وجہ دریافت کی تو بگڑ کر بولے یہ معلوم کرنے کے لیے آپ کو دہلی جانا پڑے گا۔
یہ حسن اتفاق ہے کہ اتراکھنڈ میں ایک پرچارک کے بعد دوسرا پرچارک وزیر اعلیٰ بنا اور اس نے سنگھ کی تربیت کا بھانڈا بیچ بازار میں پھوڑ دیا۔ نئے وزیر اعلیٰ تیرتھ سنگھ راوت نے اقتدار سنبھالنے کے بعد یکے بعد دیگرے متنازع بیانات کی جھڑی لگا راتوں رات مودی جی کی مانند ذرائع ابلاغ میں مقبولیت حاصل کرلی ۔ پچھلے4 سالوں سے اقتدار میں رہنے کے باوجود گجرات کے وجئے روپانی اتنے مشہور نہیں ہوئے جتنا تیرتھ سنگھ راوت 4دن میں ہوگئے۔19سال کی نوعمری میں سنگھ کے پرچارک بن جانے والے تیرتھ سنگھ نے کالی ٹوپی پہن کر سب سے پہلےاار ایس ایس سے اپنے تعلق پر فخر جتایا اس لیے ان کی بے مثال تربیت کو سنگھ کی شاکھا سے منسوب کرنا بالکل بھی غلط نہیں ہوگا ۔ وہ اگر کانگریس یا کسی اور سیاسی جماعت سے بی جے پی میں آنے والے رہنماوں میں سے ایک ہوتے تو بات اور تھی لیکن اپنے پیش رو کی مانند وہ بھی سنگھ کے پرچارک نکلے اور انہوں نے بڑے میاں تو بڑے میاں چھوٹے میاں سبحان اللہ کی قوالی یاد دلادی ۔
وزیر اعلیٰ بننے کے بعد تیرتھ سنگھ راوت اپنے عہدے سے اس قدر خوش ہوئے کہ انہوں نے حلف برداری کے تیسرے دن ہری دوار میں ہنس فاؤنڈیشن کےزیر اہتمام منعقدہ نیتر کمبھ پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے پی ایم مودی کی تعریف میں جذبات سے مغلوب ہوکر انیںا ’کل یُگ‘ کا بھگوان رام بتا دیا ۔ دورانِ تقریب انو ں نے کہہ دیا کہ ’’پی ایم مودی نے اپنے کاموں سے خود کو ایک چمتکاری انسان ثابت کردیا ہے۔ پہلے ہندوستان کے قومی لیڈروں کو دنیا میں کوئی خاص توجہ نہیں ملتی تھی، لیکن آج دنیا کا بڑے سے بڑا لیڈر پی ایم مودی کے ساتھ صرف تصویر کھنچوانے کے لیے پرجوش رہتاہے۔ یہ بات درست ہےلیکن مودی جی کو بھی تصویر کھنچوانے کا کم شوق نہیں ہے۔ وہ تو زوکر برگ کی بیوی کے ساتھ فوٹو کھنچوانے کے لیے اس کو بھی کنارے کردیتے ہیں۔
بات یہںھ تک رہتی تو کوئی بات نہیں تھی لیکن تیرتھ سنگھ آگے بڑھے اور کہا جس طرح سے دواپر اور تریتا یُگ میں بھگوان رام اور کرشن نے سماج کے لیے کام کیے تو لوگ انھیں بھگوان ماننے لگے تھے، آنے والے وقت میں کچھ ایسا ہی پی ایم مودی کے ساتھ ہونے والا ہے۔ وہ دن دور نہیں جب پی ایم مودی کو لوگ بھگوان کی شکل میں دیکھیں گے۔ نومنتخب وزیر اعلیٰ کے اس بیان سے وزیر اعظم کے اندھے بھکت تو خوشی سے جھوم اٹھے ہوں گے لیکن رام اور کرشن کے بھکتوں کو یقیناً اس سے دکھ ہوا ہوگا اس لیے کہ وہ ان کے دیوتاوں کی توہین ہے ۔ وزیر اعظم اپنے اقتدار کو بچانے کی خاطر کیا کیا کھیل تماشے کرتے ہیں اور کیسی کیسی جھوٹی سچی باتیں کرتے ہیں یہ سب کے سامنے ہے ایسے میں ان کا موازنہ رام اور کرشن سے کر دیای مضحکہ خیز ہے ۔
یہ حسن اتفاق ہے کہ تقریباً دو سال قبل ۳ فروری ۲۰۱۹ کو معروف سابق جج مارکنڈے کاٹجو نےاتراکھنڈ کی راجدھانی دہرہ دون میں منعقدہ ایک پروگرام کے بعد نیوز 18 سے بات چیت میں کہا تھا کہ رام بھگوان نہیں، بلکہ ایک عام آدمی تھے۔ والمیکی کے اصل رامائن میں انہیں ویسا ہی بتایا گیا ہے۔ وہیں گائےکو’ماتا’ کہے جانے پر اعتراض ظاہرکرتے ہوئے کاٹجونے کہا تھا کہ گائے بھی گھوڑے اورکتے کی طرح ایک جانور ہے۔ ایسے میں جولوگ گائے کوماتا کہتے ہیں، ان کے دماغ میں گوبربھرا ہے۔ ویسے مارکنڈے کاٹجو کے دوسرے بیان سے اتفاق کرنے کی جرأت تیرتھ سنگھ راوت نہیں کرسکتے کیونکہ اس صورت میں انہیں اپنا عہدہ گنوانا پڑے گا۔ جسٹس کاٹجوجیسے دلیر لوگ ملک میں کم ہیں کہ جنہوں نے لوک سبھا الیکشن سے قبل کہا تھا کہ رام مندرکوئی موضوع نہیں ہے۔ اصل میں لوگوں کی صرف توجہ بھٹکائی جارہی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ لوگ چاہے بھوکے مرجائیں، بے روزگاررہیں، اسے کوئی موضوع نہیں مان رہا ہے اوررام مندرکو موضوع بنائے بیٹھے ہیں۔
ہندوستانی عوام کاٹجو کی مانند نہیں سوچتی وہ جذباتی موضوعات کو اہمیت دیتی ہے اس لیے اپنے جمہوری حق استعمال کرتے ہوئے اس نے پھرسے مودی جی کے سر پر تاج رکھ دیا ۔ وزیر اعظم نے اتراکھنڈ کی عوام کا شکریہ ادا کرنے کے لیے انہںد تیرتھ سنگھ راوت جیسا وزیر اعلیٰ عطا کر دیا۔ وزیر اعظم کی احسانمندی میں تیرتھ یہاں تک کہہ دیا کہ ’’ اگر نریندر مودی کی جگہ کوئی اور وزیر اعظم ہوتا تو ہماری حالت بہت خراب ہوتی، لیکن پردھان سیوک نے ہمیں بہت راحت پہنچائی ہے۔‘‘ یہ بات تیرتھ سنگھ روات نے ملک کی عوام سے متعلق نہیں بلکہ خود اپنے بارے میں کہی لیکن اس کے بعد جو کچھ بولے اس سے آر ایس ایس کی قلعی کھل گئی ۔ دن رات آر ایس ایس کے گن گان کرکے مسلمانوں کو عار دلانے والے دانشوروں کو ان کا بیان غور سے پڑھنا چاہیے۔ تیرتھ سنگھ نے فرمایا’’دوسرے ممالک کے مقابلہ ہندوستان کورونا کی وبا سے زیادہ بہتر انداز میں نمٹ رہا ہے۔ امریکہ جس نے ہمارے اوپر 200 سال تک حکومت کی اور دنیا پر راج کیا، وہ اس وبا کے دوران جدو جہد کر رہا ہے۔ 3 لاکھ 75 ہزار سے زیادہ لوگوں کی امریکہ میں موت ہو چکی ہے، اٹلی جہاں دنیا کی بہترین طبی سہولیات موجود ہیں، وہاں 50 لاکھ سے زیادہ لوگ ہلاک ہو گئے اور اب وہ دوسرے لاک ڈاؤن کی جانب گامزن ہے۔‘‘ یہ بیان ایک ایسا شخص دے رہا ہے جس کےپاس پوسٹ گریجویٹ کی ڈگری ہے اور وہ امریکہ اور برطانیہ کے درمیان فرق نہیں جانتا ۔
وزیر اعلیٰ کے اس بیان سے نہ صرف ملک کے تعلیمی معیار کا پتہ چلتا ہے بلکہ یہ بھی طاہر ہوتا ہے کہ سنگھ کے سرسوتی ودیا مندر میں کس طرح کی تعلیم دی جاتی ہوگی کیونکہ بلدیہ کے ناقص اسکول میں پڑھائی کرنے والے طلباء بھی جانتے ہیں کہ برطانیہ یوروپ میں ہے اور ریاستہائے متحدہ امریکہ ایک مختلف براعظم ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اتراکھنڈ ریاست بننے کے بعد وہ صوبے کے پہلے وزیر تعلیم تھے ۔ اب اگر وزیر تعلیم کی عام معلومات ایسی ہے تو سنگھ کے جاہل بھکتوں کا کیا حال ہوگا اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے؟ ان کو شاید یہ بھی نہیں معلوم کہ کورونا سے ہلاک شدگان کی تعداد میں اٹلی ساتویں نمبر پر ہے جہاں مرنے والوں کی تعداد 50 لاکھ نہیں بلکہ صرف ایک لاکھ 7 ہزار سے کچھ زیادہ ہے جبکہ ہندوستان تیسرے نمبر ہے اور یہاں ہلاک شدگان کی تعداد تادمِ تحریر ایک لاکھ 61 ہزار سے تجاوز کرچکی ہے۔ گوگل کے مطابق چین میں اب تک صرف 4 ہزار 800 لوگ ہلاک ہوئے ہیں ۔ مودی جی اگر واقعی بہت قابل ہوتے تو اپنے دوست شی جن پنگ سے سبق لیتے لیکن اس نے تو لداخ میں دوسرا ہی سبق سکھا دیا۔
٭٭٭