دوستی

0
228

عطیہ بی
’’امی آپ سو جائیے میں بعد میں کھانا کھا لوں گا۔‘‘ عارف نے اپنی والدہ سے کہا۔
’’ نہیں بیٹا تم اتنی رات تک بنا کھائے پئے پڑھ رہے ہو میں تمیںبنا کھانا کھائے نہیں سونے دوں گی۔‘‘
’’ امی آپ بالکل فکر نہ کریں میں پڑھ کر ضرور کھا لونگا۔ بس تھوڑا سا ہوم ورک باقی ہے وہ کرلوں۔‘‘
’’ خوش رہو میرے بچے خوب پڑھو اپنی غریب ماں کا نام روشن کرو جس طرح کلاس میں اول آتے ہو ویسے ہمیشہ اول آئو۔‘‘
’’جی امی جیسا آپ چاہتی ہیں ویسا ہی ہوگا‘‘ ۔ اور یہ کہتے ہوئے عارف اپنی پڑھائی میں لگ گیا۔
صبح ہوئی اور عارف رو ز کی طرح اسکول جانے کے لئے تیار ہوا اور جیسے ہی اس نے اپنی اسکول ڈریس اٹھائی اس کی نظر پھٹی ہوئی پینٹ پر پڑی۔
وہ خاموش ہو گیا اور خاموشی سے اپنی پھٹی ہوئی پینٹ کو دیکھتا رہا۔ اچانک امی کی نگاہ اس پر پڑی اور اس کے ہاتھ میں موجود پھٹی ہوئی پینٹ کو دیکھا وہ پریشان ہو گئیںمگر عارف سے اس بات کا اظہار نہ کیا۔
’’ کیا ہوا عارف کیوں پریشان ہو۔‘‘؟
’’دیکھئے نہ امی میری اسکول کی پینٹ کتنی پرانی ہو گئی ہے اور پھٹ بھی گئی ہے۔ اب میں اسکول کیسے جائوں گا آج تو رپورٹ کارڈ بھی ملے گا۔ اسکول جانا بھی بہت ضروری ہے۔‘‘
’’کوئی بات نہیں میں ابھی ٹھیک کئے دیتی ہوں تم پریشان مت ہو‘‘۔
اور امی نے جادو کی طرح اس پھٹے ہوئے کپڑے پر ایسا رفو کیا کہ پتہ ہی نہ چلا کہ یہاں کو ئی سراخ بھی تھا۔
’’ لو جلدی سے پہن کر تیار ہو جائو کہتے ہو ئے والدہ نے عارف کو پینٹ دی اور عارف خوشی خوشی اسکول کے لئے تیار ہو گیا۔
آج اسکول کی چھٹی جلدی ہونی تھی کیوں کہ آج رپورٹ کارڈ ڈے تھا۔
عارف نے امی سے دعا کے لئے کہا ’’ امی میرے لئے دعا کیجئے گا جیسے ہمیشہ اول آتا ہوں آج بھی آئوں۔
’’ اللہ تمہاری مدد کرے بیٹا کامیابی تمہارے قدم چومے۔‘‘
عارف امی سے رخصت لے کر اسکول پہونچا ٹیچر نے سبھی بچوں کے سامنے عارف کا نام سب سے پہلے لیا کیوں کہ وہ ہر بار کی طرح اس بار بھی کلاس میں اول آیا تھا۔
عارف بہت خوش ہوا اور اپنے استاد کا شکریہ ادا کرتے ہوئے باہر نکل آیا عارف کی والدہ نے آج اسکول آتے وقت اپنے بچے ہوئے پیسوں میں سے ایک دس کا نوٹ بہت دن بعد اسے دیا تھا کہ اپنی پسند کی کو ئی چیز لے لینا وہ لے کر عارف اسکول کے باہر نکلا تو وہاں اسے ایک آئس کریم کا ٹھیلا دکھائی دیا۔
آج میں آئس کریم ضرور کھائوں گا۔ آج تو مزا آجائے گا اور یہ سوچتے ہوئے وہ آئس کریم کے ٹھیلے کی جانب بھاگا۔
’’ بھیا دس روپیہ میں کوئی آئس کریم ہے کیا‘‘؟
’’ ہاں ہیں‘‘
’’ مجھے ایک دس روپئے کی آئس کریم دے دو۔‘‘
وہ یہ کہہ ہی رہا تھا کہ پیچھے سے اس کی ہم عمر بچے نے آکر عارف کو آواز دی۔
’’ مجھے بھی آئس کریم کھانی ہے دوست مجھے بھی کھلا دو۔‘‘
عارف نے جیوں ہی پلٹ کر دیکھا اس کی ہم عمر ایک لڑکا جس کے بغل میں بیساکھی دبی ہوئی تھی اس سے فریاد کر رہا تھا۔
’’ پر میرے پاس تو دس ہی روپیہ ہیں۔‘‘ پھر عارف نے اس دس کے نوٹ کی طرف دیکھا اور آئس کریم والے بھیا کی طرف دیکھتے ہوئے بولا بھیا کیا پانچ کی کوئی آئس کریم ملے گی۔
’’ ہاں ہیں‘‘
’’ٹھیک ہے دو دے دو‘‘ یہ کہتے ہوئے اس نے ۵،۵ روپیہ کی دو آئس کریم لی اور اس لڑکے کو بھی دی۔
’’ تم کون ہو‘‘؟ عارف نے پوچھا۔
’’میرا نام جاذب ہے میرا اس دنیا میں کوئی نہیں ہے اور اوپر سے ظلم یہ کہ میرا پیر بھی کام نہیں کرتا ڈاکٹر کہتے ہیں اس کو ٹھیک ہونے میں بہت سے پیسے لگیںگے۔دو دن سے بھوکا ہوں کھانا بھی نہیں ملا۔ تمہارا شکریہ کہ تم نے مجھے آئس کریم کھلائی۔‘‘
’’ کوئی بات نہیں دوست میںاور میری ماں بھی بہت غریب ہیں ماں دوسرے کے گھروں میں کام کرکے مجھے پالتی ہے۔ آج میرا رزلٹ ملا تھا۔ تو اس خوشی میں میں نے آئس کریم لے لی میں اول نمبر سے پاس ہو گیا۔‘‘
’’ تم پریشان نہ ہو جب میںبڑا ہو کر ڈاکٹر بنوں گا نہ تو تمہارا پیر بھی جھٹ سے ٹھیک کر دوں گا۔‘‘
’’ کیا سچ کہہ رہے ہو تم‘‘ جاذب نے عارف سے تعجب سے پوچھا۔ مجھے بھی پڑھنے کا بہت شوق ہے کیا تم مجھے پڑھائوگے؟کیوں کہ میرے پاس پیسے نہیں کہ میں اسکول جا سکوں۔
ہاں دوست بالکل تم روز مجھے یہاں ملنا میں اسکول سے چھوٹنے کے بعد تم کو پڑھا دیا کروں گا۔
یہ سنتے ہی لڑکا بہت خوش ہوا اور وہ روز چھٹی سے پہلے ہی عارف کا انتظار کرنے اسکول کے باہر بیٹھ جاتا۔
عارف بڑی محنت سے روز اسے پڑھاتا کچھ ہی دنوں میں دو دونوں بہت اچھے دوست بن گئے۔ ایک روز عارف جب اسکول سے باہر ن کلا تو اسے جاذب دیکھائی نہیں دیا عارف کو فکر ہوئی کہ ایسا کیا ہوا کہ آج میرا دوست نہیں آیا۔
وہ اسے ڈھونڈھتے ڈھونڈھتے پاس کی ایک بستی میں جا پہونچا۔
تو پتہ چلا کہ کل رات سے اسے تیز بخار ہے اور اس نے کئی دنوں سے کچھ کھایا بھی نہیں ہے وہ بے چین بخار سے تپ رہا تھا۔ چونکہ اس کا کوئی دیکھنے والا نہیں تھا اس لئے وہ ایک ٹوٹی ہوئی جھوپڑی میں بے ہوش پڑا تھا ۔ عارف اسے دیکھ کر گھبرا گیا۔
’’ کیا ہوا میرے دوست تم کو کیا ہوا کہتے ہوئے وہ اس کے پاس بیٹھ گیا۔ جاذب نے عارف کی آواز سن کر آنکھیں کھول دیں۔
عارف کا دل اس کو دیکھ کر بھر آیا عارف بولا۔
’’ چلو ابھی چلو میں تمہیں اپنے گھر لے چلتا ہوں اب سے تم وہیں میرے ساتھ رہوں گے ہاں یہ سچ ہے کہ ہم لوگ غریب ہیں ۔ مگر جو کچھ ہے اس میں آدھا آدھا کھا لیں گے۔‘‘
’’ نہیں نہیں میں تم لوگوں پر بوجھ نہیں بننا چاہتا میں یہیں ٹھیک ہوں۔‘‘ ’’ نہیں نہیں میرے دوست سچی دوستی میں امیری غریبی نہیں ہوتی وہ دوست ہی کیا جو ضرورت کے وقت کام نہ آئے دوستی کرو تو نبھائو یہی دوستی کا تقازہ ہے میں تمہاری ایک نہیں سنوں گا۔ جو میرا ہے وہ تمہارا ہے آج سے چلو میرے ساتھ میں تمہارا خیال رکھوں گا۔ اور یہ کہتے ہوئے وہ جاذب کو اپنے ہمراہ اپنے گھر لے گیا۔
ایل پی روڈ، وزیر گنج، لکھنؤ ، انڈیا
فون نمبر:- 9336120372

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here