فہیم اختر(لندن)
میرایہ ہفتہ کافی اداس رہا ۔ دراصل بات ہی کچھ ایسی ہوئی کہ طبعیت غمگین ہوگئی۔برطانوی وزیراعظم بورِس جونسن نے ٹیلی ویژن پر آکر یہ اعلان کیا کہ برطانیہ میں مارچ 2020سے کورونا وائرس سے مرنے والوں کی تعداد 100,000پار کر گئی ہے۔ جس کے لیے وہ نہایت افسردہ اور غمگین ہیں۔
بھلا مرنے والوں پر کون ’آہ‘ نہیں بھرتا ہے۔ لیکن جب اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کی موت ہوجائے تو شاید ’آہ‘ بھی کافی نہیں ہوتی۔تاہم کورونا وائرس سے تو دنیا بھر میں مرنے والوں کی تعدادکئی لاکھ پار کرچکی ہے۔ لیکن اب تک یہ بات سمجھ میں نہیں آرہی ہے کہ امریکہ اور برطانیہ میں مرنے والوں کی تعداداتنی زیادہ کیوں ہے۔ جس کی وجہ سے لوگوں میں جواب جاننے کے لیے بے چینی ہے۔اور بے چینی کیوں نہ ہو، دنیا بھر میں دوانگریزی بولنے والے ممالک کی براہ راست یا بالواسطہ طور پرجو حکمرانی قائم ہے۔ چاہے جمہوری نظام ہو،اقتصادی طاقت ہو ، یا جنگی طاقت ہو، یا دولت کی طاقت ہویا جتنے اہم معاملات ہوں۔ گویا کہ اب بھی ان دو ممالک کا زور اور اثرپوری دنیا میںجاری و ساری ہے۔
سمجھ میں یہ نہیں آرہا کہ اگر کورونا وائرس کی دوسری لہر تھم گئی یا ختم ہوگئی تو کیا چند مہینے بعد پھر کورونا کی لہر واپس آئے گی؟ ویسے سنگا پور سے کسی نے دعویٰ کیا ہے کہ کورونا اگلے پانچ برس تک رہے گا۔ اللہ خیر کرے۔جب کورونا وائرس تھمتا دکھتا ہے تو ایک امید جاگتی ہے لیکن ماہرین کی رائے کو سن کر ہمت پست بھی ہوجاتا کہ آخر اس چنگل سے ہمیں کب نجات ملے گی۔انہی باتوں کی وجہ سے دنیا بھر میں لوگ حیران اور پریشان ہیں کہ آخر برطانیہ اور امریکہ کو دنیا کا ایک اعلیٰ ، مہذب اور ترقی یافتہ ملک کہا جاتا اور مانا جاتا ہے توکیونکر کورونا وائرس سے اتنی تعداد میں لوگوں کی موت ہورہی ہے۔ اس بات سے تو میں بھی حیران و پریشان ہوں کہ آخر کیوں برطانیہ کی ایسی حالے ہوگئی ہے۔ ا ب تو یہ بحث برطانیہ میں چھڑ گئی ہے کہ جب ساری سہولتیں اور ذرائع موجود ہیں تو کس طرح اتنی بڑی تعداد میں لوگ موت کی منہ میں چلے گئے۔سچ پوچھیے تو میں تو سمجھنے سے قاصر ہوں کہ کورونا وبا سے برطانیہ میں اتنے لوگ کیسے مر گئے؟
تاہم کورونا وبا سے نمٹنے میں حکومت پر انگلی اٹھائی جارہی ہے اور آئے دن حکومت کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا جارہا ہے۔لیکن برطانیہ ایک مہذب ملک مانا جاتا ہے اس لیے یہاں لوگ تیسری دنیا کے لوگوں کی طرح سڑکوں پر اتر کرعام طور پر ہنگامہ نہیں کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ برطانیہ کے لوگ اپنے غم و غصہ کا اظہار نہیں کر رہے ۔خبروں میں یہ بھی دیکھا جارہا ہے کہ مرنے والوں کے رشتہ دار کافی ناراض ہیں اور انہوں نے ایک آزاد تنظیم بنا کر حکومت سے کورونا سے مرنے والوں کے لیے پبلک انکوائری کی مانگ کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ برطانوی میڈیا جسے عام آدمی کی آواز سمجھا جاتا ہے اور جس کے ذریعہ وزیر اعظم سے لے کر سیاستداں اور ہسپتال کے عملے سے روزانہ سوال پوچھا جارہا ہے۔تاہم ایسا بھی دیکھا جاتا ہے کہ کبھی کبھی احتجاج کے لیے لوگ سڑکوں پر بھی نکل آتے ہیں۔ لیکن یہ احتجاج ایک خاص جگہ یا پارلیمنٹ کے قریب ہوتا ہے تاکہ سیاستداں ان کی بات سنیں ۔
اس کے علاوہ حزب اختلاف بھی جمہوری طریقے سے حکومت سے سوال کرنے سے گریز نہیں کرتی۔ خواہ وہ وزیراعظم ہوں ،یا ہیتلتھ سیکریٹری ہوں، یاوزیر داخلہ ہوں ،یا وزیر تعلیم ہوں یا چانسلر(وزیر خزانہ) ہوں۔ سب باری باری شام کو ٹیلی ویژن پر آتے ہیں اور میڈیا کے علاوہ عام لوگ ان سے سوال پوچھتے ہیں اور حکومت سے جواب طلب کرتے ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ حکومت کو اپنے کارنامے اور پلان کو بتانے کا موقعہ تو مل جاتا ہے تو وہیں انہیں میڈیا اور لوگوں کی تنقید کو بھی سننا پڑتاہے۔
ان تمام باتوں کے علاوہ کچھ اچھی خبر یہ آرہی ہے کہ کورونا وائرس کی دوسری لہر کا زور اب دھیرے دھیرے کم ہورہا ہے ۔ جو کہ ایک اچھی بات ہے لیکن برطانیہ کے لوگ جو تیسرے لاک ڈاؤن سے گھروں میں قید ہیں ان کی بے چینی اب بڑھتی جارہی ہے۔اسکول ، دکانیں ،ریسٹورنٹ،تھیٹر، سنیما، وغیرہ بند ہیں اور آئے دن لوگوں کی مایوسیاں بڑھتی جا رہی ہے۔لوگوں کی ذہنی صحت خراب ہوتی جارہی ہے جس سے گھریلو مسائل بڑھ رہے ہیںاور سماجی زندگی پراس کا اثر براپڑ رہا ہے۔
برطانیہ کے ایک معروف نگہداشت نگراں ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ اسپتالوں میں صورتِ حال مستحکم ہوچکی ہے اور عملے کو مزید اضافی صلاحیت کے لیے مزید منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔انتہائی نگہداشت سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر روپورٹ پئیرسی نے کہا ہے کہ ’یہ ایک انتہائی مشکل سال ‘ ہوگا اور انہوں نے این ایچ ایس کے عملے پر ذہنی صحت پر اثرات اور دباؤ سے خبر دار کیا ہے۔ایک تحقیق کے مطابق کورونا وبا کی پہلی لہر کے دوران بیمار مریضوں کا علاج کرنے والے اسپتال کے بہت سارے عملے کو کورونا سے متاثر مریضوں کاعلاج کرنے کے تجربے سے کافی صدمہ پہنچا ہے۔
وبائی مرض نے ہمیں ان میں سے بہت سی چیزیں سکھائیں ہیں کہ روحانیت ایک اچھی زندگی کی ضرورت ہے۔ روحانیت سے میری مراد ، ہمارا تعلق ابدی، پیار کرنے والا، خیال رکھنے والا، اور خدائے کائنات کے ساتھ ہے۔ہم اس سے کس طرح کا تعلق رکھتے ہیں ؟ ہم اس کے بارے میں کیا سوچتے ہیں؟ ہم اس کے بارے میں کیا سمجھتے ہیں؟ اس کے علاوہ ، ہم اس سے رابطہ قائم کرنے کے لئے کس طرح بات چیت کر سکتے ہیں؟
روحانیت کبھی کبھی ایک مشکل تصور ، ایک زبردست جدوجہد اور اس سے بھی زیادہ مشکل حصہ لگتا ہے۔ تاہم ایسا نہیں ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے ایک پھول والا ، رنگا رنگ اور بھر پور باغیچہ کو ایک باغبان نے تخلیق کیا ہے۔اسی طرح ، اگر ہم توجہ دیں تو ہم اپنے دل و دماغ کو روحانیت کے لئے تیار کر سکتے ہیں۔ جس کے لئے ایک بینائی کی ضرورت ہوتی ہے جو اللہ اور اس کی کتاب پر مضبوط یقین سے آتی ہے۔اس خواب کی تعبیر اور ادراک کے لئے اسے سخت محنت کی ضرورت ہے اور یہ وہ جگہ ہے جہاں ہمیں حضرت محمد ﷺ کے خوبصرت ماڈل کی ضرورت ہے۔تاہم ایک مقصد ، اس کا حصول مشکل ہے، لیکن نا ممکن نہیں ہے۔ مضبوط ماڈل پر مبنی ، مضبوط عقیدے پر مبنی واضح ارادے کے ساتھ ، ہم روحانیت کے خواب کو محسوس کر سکتے ہیں۔
برطانیہ میں کورونا وائرس نے مارچ 2020سے جو قہر مچایا ہے اس سے ایک لاکھ سے زیادہ لوگوں کی موت ہوچکی ہے۔اس کے علاوہ مرنے والوں کے رشتہ داروں میں رنج و غم کا ماحول بنا ہوا ہے جس سے فضا غمگین ہے۔ حکومت تمام کوششوں کے باوجود لوگوں کی جان بچانے میں ناکام ہے۔آئے دن اسی بات کاخوف لگا ہوا ہے کہ اب کس کی باری ہے۔تاہم ہر روز ایک امید کے ساتھ لوگ جی رہے ہیں۔
کورونا کی دوسری لہر سے برطانیہ میں مرنے والوں میں اردو زبان کی محفلوں کے کافی شائقین بھی موجود ہیں۔ لندن میںپچھلے تین ہفتوں میں میرے جاننے والوں میں درجنوں لوگوں کی کورونا سے موت ہوگئی جس سے مجھے کافی صدمہ پہنچا ہے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ اللہ تعالیٰ اـن سب کی مغفرت فرمائے اور لواحقین کو صبر و جمیل عطا فرمائے۔آمین
www.fahimakhter.com