چنئی۔ آئی آئی ٹی مدراس کی طالبہ فاطمہ لطیف کی خودکشی کا معاملہ مسلسل الجھتا جا رہا ہے۔ کسی کو یہ یقین نہیں ہو رہا ہے کہ فاطمہ نے خودکشی کر لی۔ کنبہ والے اسے خودکشی نہیں بلکہ قتل مان رہے ہیں۔
انہوں نے الزام لگایا کہ اس میں آئی آئی ٹی مدراس کے ہی ایک پروفیسر کا ہاتھ ہو سکتا ہے جو مبینہ طور پر اس کے الگ مذہب کی وجہ سے اس کے ساتھ بھید بھاؤ کرتا تھا۔
بڑھتے دباؤ کے مدنظر اب کالج انتظامیہ نے سینٹرل کرائم برانچ کو جانچ کی ذمہ داری دے دی ہے۔ آئیے سلسلے وار طریقے سے نظر ڈالتے ہیں کہ اس واقعہ میں آخر کب کیا ہوا اور کس طرح موت کی گتھی الجھتی جا رہی ہے۔
کیرالہ کے کولم کی رہنے والی فاطمہ نے اس سال جولائی میں آئی آئی ٹی مدراس میں داخلہ لیا تھا۔ 9 نومبر کو اس کی لاش ہاسٹل کے کمرے میں ملی۔ 10 نومبر کو جب فاطمہ کی ماں کو کال کا کوئی جواب نہیں ملا تو انہوں نے اس کے دوستوں کو فون ملایا۔ تلاش کی گئی تو اس کی لاش پنکھے سے لٹکی ملی۔
موبائل سے کھلے گا راز
واقعہ کا پتہ چلتے ہی اہل خانہ چنئی پہنچے۔ یہاں انہیں فاطمہ کا موبائل ملا۔ فون ملتے ہی کنبے کے لوگ حیران ہو گئے۔ فاطمہ کی بہن عائشہ کے مطابق، کسی نے اس کے موبائل سے چھیڑ چھاڑ کی تھی۔ فاطمہ کے فون کے پاس ورڈ بدل دئیے گئے تھے۔
کنبے کا الزام ہے کہ فاطمہ نے موبائل کے ہوم اسکرین پر ایک نوٹ لکھا تھا جس میں اس نے اپنی موت کے لئے ہیومینیٹیز اور سوشل سائنس ڈیپارٹمنٹ کے پروفیسر کو ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔ 14 نومبر کو موبائل کو جانچ کے لئے سائبر سیل کے پاس بھیج دیا گیا ہے۔
پروفیسر کرتا تھا پریشان
میڈیا سے بات چیت میں کنبے والوں نے کہا کہ فاطمہ نے بتایا تھا کہ انہیں ایک پروفیسر پریشان کرتا تھا۔ کنبے کو پورا یقین ہے کہ یہ خودکشی نہیں قتل ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ پنکھے میں رسی بھی نہیں لگی تھی۔ اس کے علاوہ موت سے ایک دن پہلے رات کو کھانے کے وقت کینٹین میں وہ رو رہی تھی۔ انہیں کسی دوست نے چپ بھی کرایا تھا۔ کنبے والوں کا الزام ہے کہ انہوں نے سی سی ٹی وی فوٹیج کی مانگ کی تھی لیکن ابھی انہیں نہیں دیا گیا ہے۔
Also read