9807694588
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مند
ڈاکٹر عابد الرحمن (چاندور بسوہ)
معزز سپریم کورٹ نے ان زرعی قوانین پر روک لگادی جن کو لے کر کسانوں نے دارالحکومت دہلی کو گھیر رکھا ہے ۔ احتجاج کے ساتھ ساتھ ان قوانین کی آئینی حیثیت کو سپریم کورٹ میں چیلینج کیا گیا تھا جس کے جواب میں کورٹ نے ان قوانین کی عمل درآمد پر روک لگادی اور چار ایکسپرٹس کی ایک کمیٹی تشکیل دے دی ہے جو ان قوانین کے متعلق کسانوں سے بات کر کے کورٹ کو آگاہ کرے گی ۔سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ کئی طرح سے تنقید کا نشانہ بن رہا ہے ایک تو یہ کہ ان قوانین کی آئینی حیثیت کو چیلینج کیا گیا تھا کہ زراعت صوبائی حکومتوں کا معاملہ ہے مرکزی حکومت اس پر قانون سازی نہیں کر سکتی ، اس پر عدالت نے اپنے فیصلے میں کچھ نہیں کہا دوسرے یہ کہ اس ضمن میںعزت مآب کورٹ سے کمیٹی بنانے یا صلح کروانے کی اپیپل نہیں کی گئی تھی کہ حکومت اور احتجاج کرنے والے کسانوں کے درمیان براہ راست گفتگو چل رہی ہے حکومت نے جہاں ان قوانین کو واپس لینے سے انکار کردیا ہے وہیں ان میں کچھ ترامیم کے لئے رضامندی جتائی ہے لیکن کسان ان قوانین کی واپسی سے کم کسی چیز پر راضی نہیںتیسرے یہ کہ محترم عدالت نے جن ایکسپرٹس کی کمیٹی تشکیل دی ہے وہ سب کے سب ان قوانین کے حمایتی ہیں، جب کسان ان قوانین کی واپسی سے کم کچھ نہیں چاہتے ، تو کیا قوانین کے حامی ایکسپرٹس ان کی واپسی کی صلاح دے گی؟کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ عدالت کے اس فیصلے سے مذکورہ قوانین پر روک لگنے کے باوجود کسانوں کے بجائے حکومت کو راحت ملی ہے کہ اب ایکسپرٹ کمیٹی دو مہینے میں اپنی رپورٹ عدالت کو پیش کرے گی جب تک احتجاج کا کیا ، ہوسکتا ہے اس مدت میں کسان احتجاج سے تھک کے اپنے گھروں کو لوٹنا شروع کردیں یا احتجاج میں پہلی کی سی شدت نہ رہے ۔ یعنی اس فیصلے سے سبکی کے باوجود حکومت کا فائدہ ہے کسانوں کا نہیں۔
ان سب اشکالات اور خدشات کے باوجود اس معاملہ میں سپریم کورٹ کی بر وقت دخل اندازی اور جلد بازی میں حکم جاری نہ کرنے کی سرکار کی صلاح پر برہمی خوش آئند ہے جس کا خیر مقدم کیا جانا چاہئے ۔ لیکن معزز عدالت کو یہ بھی پوچھا جانا چاہئے کہ جو اسٹینڈ اس نے اس معاملہ میں لیا ہے وہ شہریت ترمیمی قانون کے متعلق کیوں نہیں لیا گیا ؟ سی اے اے کے معاملہ میں بھی کم از کم سو سے زائد عرضداشتوں کے ذریعہ اس کی آئینی حیثیت کو چیلنج کیا گیا تھا اور اس پر فوری روک لگانے کی اپیل کی گئی تھی۔ اس معاملہ میں بھی ملک گیر پیمانے پر احتجاج ہوا تھا دہلی کی کڑ کڑاتی ٹھنڈ میں شاہین باغ میں عورتوں اور بچوں نے احتجاج میں حصہ لیا تھا لیکن اس پر معزز عدالت کا رویہ اس معاملے کے بالکل برعکس تھا ۔ یہاں معاملہ زراعت اور معیشت کا ہے لیکن وہاں تو بات شہریت کے خاتمے کی ، سیکولر ملک میں مذہب کی بنیاد پر بھید بھاؤ پر مبنی قانون کی اور مساوی حقوق کی خلاف ورزی کی تھی اور اس کو لے کر تمام مسلمانوں میں یہ خوف پیدا ہوگیا تھا کہ اس قانون کے تحت ہونے والے این آر سی سے ان کی شہریت جا سکتی ہے ۔ ملک بدری یا نازی جرمنی کی طرح ڈیٹینشن سینٹر س ان کی قسمت ہو سکتے ہیں ، یہ معاملہ تو فوری توجہ کا متقاضی تھا ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ کم از کم لوگوں کی تشویش دورکرنے کے لئے ہی سہی اس معاملہ کی فوری سنوائی کی جاتی حکومت کو کوئی حکم نامہ جاری کیا جاتا یا کم از کم اس پر اسی طرح روک لگادی جاتی جس طرح اب زرعی قوانین پر لگائی گئی ہے لیکن افسوس ایسا کچھ نہیں ہوا ، محترم عدالت نے سی اے اے پر روک لگانے سے صاف انکار کرتے ہوئے ، اسے بڑی آئینی بینچ کے حوالے کر نے کا عندیہ دیا اور سال ہواابھی تک اس پر کوئی خاص پیش رفت بھی نہیں۔کسانوں کے معاملہ میں سپریم کورٹ نے جو فیصلہ دیا موسم کی سختی اور کسانوں کی خود کشیوں کو اس کا سبب قرار دیا لیکن سی اے اے کے خلاف ہوئے احتجاجات میں بھی کئی جانیں گئیں بہت سی پراپرٹی کا نقصان ہوا اور خاص بات کہ احتجاجیوں پر سخت اور غیر متناسب پولس ایکشن کا الزام بھی لگایا گیا تھا لیکن اس وقت اس پر معزز کورٹ کو کو ئی تشویش نہیں ہوئی ، قابل احترام کورٹ سے بہت ادب سے پوچھا جانا چاہئے کہ ایسا کیوں ؟حالانکہ کسانوں کے متعلق کورٹ نے جوفیصلہ دیا ہے اس میں اس کیوں کا جواب تلاش کیا جاسکتا ہے کہ کورٹ نے بحث کے دوران صاف کہا کہ اگر کچھ غلط ہوگیا تو ہم میں سے ہر ایک اس کلا ذمہ دار ہوگا ہم ہمارے ہاتھوں پر کوئی زخم یا خون نہیں چاہتے ۔۔۔۔اگر خوںریزی ہوگئی تو اس کا ذمہ دار کون ہوگا؟کہیں اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ سخت موسم میں مسلمانوں کے احتجاج کی کوئی پروا نہیں ان کی اموات پر کوئی تشویش نہیں ان کا خون جائز ان پر غیر متناسب پولس ایکشن ناجائز نہیں اور پھر ان کی طرف سے کسی انہونی یا خوں ریزی کا کوئی خطرہ بھی نہیں ، یا اگر اسٹیٹ ایکشن کے ذریعہ ان کی خوں ریزی ہو ئی تو اس سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ کہیں اس مطلب یہ تو نہیں کہ آپ سیاسی اور سماجی طور پر طاقتور ہوں ، دارالحکومت کو گھیر کر اسے جوڑنے والی شاہ راہیںبند کرسکتے ہوں تو آپ قابل صد احترام سپریم کورٹ کو بھی مجبور کر سکتے ہیں کہ وہ آپ کی پروا کرے آپ کے لئے تشویش میں مبتلا ہو اور کوئی بیچ کا راستہ نکالنے کے سعی کرے ۔لیکن اگر آپُ کمزور ہیں سماجی اور سیاسی طور پر الگ تھلگ کردئے گئے ہوں اور آپ وہ سب نہیں کرسکتے جو کسان کر رہے ہیں تو پھر آپ کسی کنسیشن ( concession ) کے لائق نہیں ۔ کسانوں کے معاملے میں قابل احترام سپریم کورٹ نے زرعی قوانین کو جو اسٹے کیااس کا خیر مقدم کیا جانا چاہئے ْاور معزز سپریم کورٹ سے استدعا بھی کیا جانا چاہئے کہ سرکار کے اقدامات اگر ملک کے کسی ایک شہری یا کسی خاص گروپ یا قوم کے خلاف ہو ں باعث ہراسانی ہوں تو ان معاملات میں بھی سپریم کورٹ اسی طرح ایکشن میں آئے اور وہ بھی اس طرح کہ کوئی بھی شہری یا مذہبی اکائی اپنے آپ کو نظر انداز کیا گیا یا غیر محسوس نہ کرے ۔
[email protected]