بے انتہا بیروزگاری اور ہوشربا گرانی نے عوام کی کمر توڑ دی ہے- Extreme unemployment and high prices have broken the backs of the people

0
132

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

عبید اللہ ناصر
تیل خواہ سرسوں مونگ پھلی وغیرہ ک خوردنی ہو یا پھر ریفائنڈ آئل ہو یا ایندھن والا ڈیزل پیٹرول ہو فی الوقت عوام کا تیل نکال رہا ہے ذرا سوچئے سرسوں کا ٹل سوا دو سو روپیہ کلو ریفائنڈ ایل دو سو روپیہ کلو اس کے ساتھ ہی دیگر اشتیا خاص کر دالوں سبزیوں وغیرہ کی آسمان چھوتی قیمتیں عوام کو کس طرح خوں کے آنسو رلا رہی ہیں ڈیزل پیٹرول آج کی زندگی کا ویسے ہی لازمی حصّہ بن گئے ہیں جیسے خوردنی تیل اور کھا نے پینے کی دیگر اشیا انکی ہوشربا قیمتیں عوام کو کس مصیبت میں مبتلا کئے ہوئے ہیں اس کا اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے بس شرط سینے میں ایک حساس دل ہونے کی ہے -ستم بالائے ستم کورونا نے زیادہ تر لوگوں کا روزگار چھین لیا ہے سرکاری ملازمین کی نوکریاں تو برقرار ہیں انھیں ہر مہینہ تنخواہ بھی مل ہی جاتی ہے لیکن ان کے تمام بھتہ روک دئے گئے ہیں سالانہ اضافہ بھی روک دیا گیا ہے -پرائیویٹ سیکٹر میں کام کرنے والوں کی حالت تو بہت ہی خراب ہے زیادہ تر کو گھر بٹھا دیا گیا ہے جو ہیں بھی انکی اجرت آدھی کر دی گئی ہے -آسمان چھوتی ضروری اشیا کی قیمتیں اور ہوشربا بیروزگاری متاثرین کو ڈپریشن میں مبتلا کے ہوے ہے –۔
شہری بیروزگاری کی شرح جب دو ہندسوں میں پہنچنے والی تھی اور جسے ٤٥ سال کی سب سے زیادہ شرح کہا گیا تھا تب مودی حکومت نے گھبرا کے بیروزگاری کے اعداد و شمار دینا ہی بند کر دیا تھا لیکن آج کے دور میں کسی بھی خبر کو دبایا نہیں جا سکتا تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق شہری بیروزگاری کی شرح ١٨ فیصدی کے قریب پہنچ گئی ہے جس سے اس وبا کی ہولناکی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے -دیہی بیروزگاری کی شرح میں بھی اضافہ ہو رہا ہے حالانکہ روزگار گارنٹی قانون (منریگا ) کی وجہ سے وہاں حالات غنیمت ہیں دوسرے یہ بوائ کا بھی سیزن ہے جس سے وہاں کام دھندے کی حالت بہتر ہے لیکن مںریگا کے بجٹ میں تخفیف سے حالات بوائ کے سیزن کے بعد خراب بھی ہو سکتے ہیں -بہتر ہوگا حکومت نہ صرف مںریگا کے بجٹ میں اضافہ کرے بلکہ اس میں کام کے دنوں کو بھی بڑھا دے –۔
گرانی کی تھوک اور پھٹکر دونوں شرح میں اضافہ خطرناک بھی ہے اور تشویشناک بھی -گرانی کی شرح میں لگاتار پانچ مہینوں سے اضافہ درج کیا جا رہا ہے لیکن مئی کے مہینہ میں تھوک گرانی کی شرح میں ١٢.٩٤ فیصدی کا اضافہ ریکارڈ ہے جہاں اب تک یہ شرح نہیں پہنچی تھی اسی ترہ پھٹکر گرانی کی شرح بھی ٦.٣٠ فیصدی پر پہنچ چکی ہے جو ریزرو بینک آف انڈیا کے تخمینہ سے بہت زیادہ ہے -اس میں کورونہ سے ہوئی معاشی تباہی بہت بڑی وجہ ہے اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن معیشت کی تباہی کا یہ سلسلہ تو گزشتہ ٦-٧ برسوں سے مسلسل چلا آ رہا ہے -نوٹ بندی سےجو سلسلہ شروع ہوا تھا وہ ابھی تک جاری ہے -اس درمیان ہندستان کے اثاثوں کو بیدردی سے فروخت کر کے پیسا کمایا گیا عالمی بازار میں تیل کی قیمت بہت کم ہونے کے باوجود ٹیکسوں کے ذریعہ عوام کو راحت دینا تو درکنار اور بوجھ ہی ڈالا گیا پیٹرول اور ڈیزل کو ددھاری گا سمجھ کر اسکا خوب دودھ تو درکنار خون تک نکال لیا گیا اور اب جب عالمی بازار میں تیل کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں تو کسی قسم کی راحت کے بارے میں سوچنا ہی فضول ہے -پیٹرول ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ کا اثر معیشت کے ہر شعبہ پر پڑتا ہے -متعدد ریاستوں میں تو پیٹرول ایک سو روپیہ سے او پر اور ڈیزل نوے روپیہ کے اس پاس پہنچ گیا ہے -بیروزگار عوام پر اسکے بوجھ کا اندازہ کیا جا سکتا ہے –۔
گرانی کے اسباب کی معاشی وجوہ اور دانشورانہ بحث چاہے جیسی کر لی جائے لیکن حقیقت یہ کہ آج عوام کا جینا محال ہو گیا ہے اور حکومت کی طرف سے ایسا کوئی اشارہ نہیں مل رہا ہے کہ اس کی مار سے مستقبل قریب میں کوئی راحت مل سکےگی -سرسوں اور ارہر کی نئی فصل بازار میں آ چکی ہے پھر بھی سرسوں کے تیل اور ارہر کی دال کی قیمت آسمان چھو رہی ہے اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے ظاہر ہے کہ اس میں کہیں نہ کہیں منافعہ خوری اور جمع خوری کا کھیل ہے جسے حکومت روکنا نہیں چاہتی -پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں میں بھی ایکسائز ڈیوٹی کم کر کے کمی لائی جا سکتی ہے تصور کیجئے کہ ٣٥ روپیہ لیٹر پیٹرول پر ٦٥ روپیہ ٹیکس لیا جائیگا تو قیمتیں تو بڑھنگی ہی -عوام کو درپیش مسائل سے قطع نظر حکومت کے معاشی مشیروں کا خیال ہے کہ اگر ابھی گرانی کم کرنے کے اقدام کے گئے تو معیشت کی ریکوری پر منفی اثر پڑ سکتا ہے خود ریزرو بینک کی ترجیح بھی معیشت کی ریکوری پر ہے اس لئے جب تک ضروری ہوگا وہ اپنی فسکل پالیسی کو نرم ہی رکھےگا -لیکن کیا آج بھوکے شخص کو کل بریانی کھلانے کے وعدہ پر زندہ رکھا جا سکتا ہے –۔ظاہر ہے ہنگامی حالات ہنگامی انتظامات کے متقاضی ہوتے ہیں اس وقت فوری ضرورت عوام کو راحت فراہم کرنے کی ہے پیٹرول اور ڈیزل پر لگے ٹیکس کم کر کے انکی قیمتیں نیچے لائی جائیں اشیاء خوردنی خاص کر دالوں خوردنی تیلوں اور سبزپوں کی قیمت مناسب سطح پر لانے کے اقدام کئے جائیں ریزرو بینک بھی اپنی فسکل پالیسی پر نظر ثانی کرے یہاں تک کہ اگر سود کی شرح میں اضافہ کرنا پڑے تو کرے – شہری بیروزگاری دور کرنے کے اقدام کئے جائیں منریگا کا بجٹ بڑھا کر دیہی بیروزگاری کو قابو میں کیا جائے اور بھی دیگر قلیل مدتی قدم جو ماہرین معاشیات مناسب سمجھیں اٹھائے جائیں -۔ماہرین معاشیات اس بات پر متفق ہیں نوٹ بندی سے لے کر کورونہ کی تباہکاریوں تک ہندستانی معیشت جس دور سے گزری ہے اور آج بھی مجموعی گھریلو پیدااور منفی ٧.٥ کے قریب ہے ایسے میں ہدستانی معیشت کو ٢٠١٣ کی سطح پر آنے میں دس سے پندرہ سال تک لگ سکتے ہیں -آج کے معاشی حالات کی سیاسی قیمت بھی حکمران جماعت کو ادا کر نی پڑ سکتی ہے کیونکہ جذبات بھڑکا کے بار بار الیکشن نہیں جیتے جا سکتے -عوام کبھی تو اپنی پریشانیوں اور انکی اصل وجوہ کا ادراک کرینگے اور تب حکمران جماعت کی ساری حکمت عملی دھری کی دھری رہ جائیگی۔
· مگر اتر پردیش میں جو کچھ ہو رہا ہے اس سے واضح ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی اور اس کی حکومت معاشی محاز پر عوام کو راحت پہنچانے اور کسانوں کے مسائل حل کر کے عوام کا دوبارا اعتماد حاصل کرنے کے بجائے اپنے آزمودہ نسخہ پر ہی زیادہ توجہ دے رہی ہے -ریاست میں جس طرح تبدیلی مذہب کے نام پر مسلمانوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اور جس طرح میڈیا کے ذریعہ تل کا تاڑ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے یہ کوئی نئی بات نہیں بلکہ اسے دیو مالائی کتھا میں بیان کئے گئے رام بان کی طرح سمجھا جا سکتا ہے جو بی جے پی کی سیاسی کشتی مو پار لگا سکتا ہے -الیکشن میں ابھی آٹھ مہینوں کا وقفہ ہے اور اس درمیان اتر پردیش میں کیا کیا گل کھیلینگے یہ سوچ کر ہی کلیجہ کانپ جاتا ہے مظفر نگر کب کہاں ہو جائیگا کہا نہیں جا سکتا -سیاسی پارٹیاں بھی سنگھ پریوار کے بچھائے جال میں جانے انجانے پھنس جاتی ہیں اور اسی کی پچ پر کھیلنے لگتی ہیں -گرانی بیروزگاری کسانوں کے مسائل اور سماجی انتشار کے خلاف کسی سیاسی پارٹی کی جانب سے کوئی ہلچل نہ دکھائی پڑنا ہماری سیاست کا مرثیہ ہے۔٭٭٭

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here