بنگال اور آسام اسمبلی انتخابات کے متوقع نتائج- Expected results of Bengal and Assam Assembly elections

0
94

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔


Expected results of Bengal and Assam Assembly elections

ڈاکٹر محمد منظور عالم
آسام ، تمل ناڈو ، کیرلا اور پانڈوچیر ی میں انتخابات مکمل ہوچکے ہیں ۔ بنگال میں چناؤ ابھی جاری ہے اور مہینہ کے اخیر تک یہ سلسلہ جاری رہے گا ۔ 2مئی کو ایک ساتھ پانچوں ریاستوں کا نتیجہ سامنے آئے گا ۔ پانچ ریاستوں میں دو ریاست سب سے زیادہ اہم ہے اور سبھی کی اس پر نظر بھی ہے ۔ پہلے نمبر پر مغربی بنگال ہے اور دوسرے نمبر پر آسام ہے ۔ مغربی بنگال میں بی جے پی پوری شدت اور قوت کے ساتھ اپنی جڑیں مضبوط کرنے کی کوشش کررہی ہے اور چاہ رہی ہے وہ اپنی سرکار بنالے لیکن یہ مشکل ہے ۔ میڈیا کے ذریعہ مسلسل یہ ہنگامہ برپاہے کہ 2021 کے بنگال اسمبلی الیکشن میںترنمول کانگریس کی بدترین شکست ہوگی اور بی جے پی واضح اکثریت کے ساتھ سرکار بنائے گی لیکن زمینی حقائق اس کے خلاف ہیں ۔ بی جے پی کو بنگال میں متعدد طرح کی پریشانیوں کا سامنا کرناپڑرہاہے جس کا میڈیا میں دور دور تک کوئی تذکرہ نہیں ہے ۔ گراؤنڈ پر بی جے پی کو ورکز نہیں مل رہے ہیں ۔ بی جے پی کے اسٹار پرچارک اور بڑے رہنماؤں کی ریلیوں میں بھی بھیڑ اکٹھا نہیں ہورہی ہے ۔ وزیر داخلہ امت شاہ کو اسی وجہ سے اپنی ایک ریلی بھی مسترد کرنی پڑی کہ عوام زیادہ تعداد میں نہیں آئے تھے حالاں کہ انہوں نے اس کو ٹیکنل خرابی کا نام دیا تھا ۔بنگال میں ایک معاملہ بنگالی بمقابلہ غیر بنگالی کا ہے ۔ ممتابنرجی کا یہ نعرہ عوام پر اثر انداز ہونے میں کامیاب رہا کہ دو گجراتی بنگالیوں پر حکومت نہیں کرسکتے ہیں ۔ بنگال پر بنگال کی بیٹی ہی راج کرے گی ۔ بنگال کے عوام ممتا بنرجی کے تئیں فکرمندہیں اور وہ ان کے کاموں پر بھروسہ کرتے ہوئے ان کا ساتھ دے رہے ہیں دوسری طر ف بی جے پی کیلئے سب سے بڑی پریشانی یہ ہے کہ اس مرتبہ ان کے پاس عوام کو لبھانے کیلئے کوئی ماڈل اور ایجنڈا نہیں ہے ۔ تقریبا 18 ریاستوں میں بی جے پی اتحاد یعنی این ڈی اے کی کی حکومت ہے ۔9 ریاستوں میںتنہا بی جے پی کی سرکار ہے لیکن ایک بھی ریاست کی بی جے پی مثال نہیں پیش کرپارہی ہے کہ ہم فلاں ریاست کی طرح بنگال کو بنائیں گے ۔ نہ ہی مرکزی حکومت میں کئے گئے کاموں کا بی جے پی حوالہ دے پارہی ہے ۔ بی جے پی یہ سب کچھ کربھی نہیں سکتی ہے کیوں کہ ایسی کوئی بھی کوشش خود بی جے پی کے گلے کی ہڈی بنے گی ۔ بی جے پی کو بھی یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ اس کے پاس دکھانے کیلئے کچھ بھی نہیں ہے ۔ 2014 میں وزیر اعظم نریندر مودی نے گجرات ماڈل کو پیش کیاتھا اور اسی کے نام پر ووٹ مانگاتھا لیکن اب گجرات ماڈل کا سچ ہر ایک کے سامنے ہے ۔ اس لئے اس مرتبہ اس کا بھی تذکرہ نہیں ہورہاہے ۔ بی جے پی کی انتخابی مہم کا پورا انحصا ر ممتا بنرجی کے خلاف بولنے پر ہے ۔ بی جے پی کے سبھی رہنما صرف ممتا بنرجی کو ٹارگٹ کررہے ہیں ۔ اس کی ذات پر تنقید کررہے ہیں ۔ ممتا بنری کو نشانہ بنارہے ہیں جس کا ممتا بنرجی کو نقصان ہونے کے بجائے فائدہ ہورہاہے اور بی جے پی سے ووٹر مزید ناراض ہورہے ہیں ۔ بنگال میں خواتین رائے دہندگان کا بڑا کردار ہوتاہے اور خواتین کی واضح اکثریت ٹی ایم سی کے ساتھ کھڑی ہے ۔ممتابنری جی نے بنگال میں خواتین کے فلاح وبہبو د کیلئے قابل ذکر کام کیاہے اور خواتین کو اس کا علم بھی ہے جس کا انہیں بھر پور فائدہ مل رہاہے اور اسی بنیاد پر خواتین بڑی تعداد میں دیدی کو سپورٹ کررہی ہیں ۔ اس کے علاوہ ایک اور فرق یہ ہے کہ بی جے پی کے ساتھ ہندی بولنے والا طبقہ زیادہ ہے اس کے علاوہ جتنے اوریجنل بنگالی ہیں ان کی واضح اکثریت بی جے پی کے خلا ف ہے ۔ ان لوگوں کا یہی کہناہے کہ بی جے پی بنگال میں نہیں چاہیئے ۔ مرکزی حکومت کی حیثیت سے بی جے پی کاخراب ریکاڈ بنگال میں زیر بحث ہے ۔ مہنگائی ، بے روزگاری ، لاک ڈاؤن سے غریبوںاور مزدوروں کو پریشانی ۔ کسانوں پر ظلم ، اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک ۔ یہ سب ایسے مدعے ہیں جو بنگال میں زیر بحث ہیں اور اسی بنیاد پر بنگال میں ہندو مسلمان سبھی تقریبا بی جے پی کے خلاف ہیں ۔ پندرہ لاکھ ، ہرسال دو کروڑ نوکری جیسے جملے آج بھی عوام کو یادہیں۔ بی جے پی نے سونار بنگلہ بنانے کا نعرہ دیاتھا ۔ انتخابی منشور میں بھی بی جے پی نے اس کا ذکر کیا لیکن عوام نے تقریبا اس کو مسترد کردیا اور کہاکہ بی جے پی کی کسی بات پر اب بھروسہ نہیں رہ گیاہے ۔ سونار بنگلہ کے نام بی جے پی بنگال کو کنگال بنادے گی جس طرح اتر پردیش ، مدھیہ پردیش اور دیگر ریاستو ں کو اس نے تباہ وبرباد کردیاہے ۔ بی جے پی حامیوں کے پاس بی جے پی کو سپورٹ کرنے کی صرف دو تین وجہیں ہیںجیسے بی جے پی نے کشمیر سے آرٹیکل 370 کو ختم کردیا ۔ رام مندر کا مسئلہ حل کردیا ۔ بی جے پی حامیوں کے پاس اس کے علاوہ کوئی جواب نہیں ہوتاہے لیکن انتخاب میں یہ کام نہیں آئے گا ان ایشوز پر بنگال کے لوگ ووٹ نہیں ڈال سکتے ہیں ۔
دوسری قابل ذکر ریاست آسام ہے ۔ آسام میں پچھلے ستر سالوں میں زیادہ تر کانگریس کی حکومت رہی ہے ۔ درمیان میں دس سالوں کیلئے اے جی پی نے بھی حکومت کی ۔ 2016 کے انتخابات میں پہلی مرتبہ بی جے پی کی جیت ہوئی اور حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئی لیکن 2021 میں اب دوبارہ بی جے پی کی سرکار بننامشکل ہے ۔ 2016 میں کانگریس اور آل انڈیا یونائٹیڈ ڈیموکریٹک فرنٹ کے درمیان اتحاد نہ ہونے کی وجہ سے سیکولر ووٹ دو حصوں میں تقسیم ہوگیاتھا جس کا بی جے پی کو زبردست فائدہ ملا اور اس طرح تقریبا بیس سے زیادہ سیٹوں پر کامیابی مل گئی لیکن اس مرتبہ اتحاد ہونے کے بعد ایسا نہیں ہونے والا ہے اور اسی نے بی جے پی کیلئے مشکلیں کھڑی کردی ہے ۔ آسام میں اسی وقت بی جے پی کی شکست یقینی ہوگئی تھی جب کانگریس نے مولانا بدر الدین اجمل کے ساتھ اتحاد کرنے کا فیصلہ کرلیاتھا اور بی جے پی کو بھی یقین ہوگیا تھا کہ اب میرے راستے میں پتھر حائلہوگیا ہے چناں چہ انتخابی مہم کے دوران امت شاہ اور بی جے پی کے دوسرے رہنماؤں نے مسلسل مولانا اجمل کو نشانہ بنایا ۔ ان کی ذات پر حملہ کیا ۔ ان کے تعلق سے الٹے سیدھے جملے کہے گئے۔بی جے پی نے اسی بنیاد پر مسلسل کانگریس کی تنقید کی کہ انہوں نے مولانا سے ہاتھ ملالیا ہے جو مولانا ایسے ہیں ۔ لیکن اس کے باوجود بی جے پی کی پریشانی کم نہیں ہوئی۔ بی جے پی نے آٹھ مسلمانوں کو بھی میدان میں اپنی پارٹی سے امیداور بناکر اتار دیا کیوں کہ وہاں مسلمانوں کے بغیر کسی بھی پارٹی کی جیت ممکن نہیں رہ گئی ہے ۔ آسام کشمیر کے بعد سب سے زیادہ مسلم آبادی والا دوسرا صوبہ ہے ۔2011 کی مردم شماری کے مطابق آسام میں مسلمانوں کی آباد 34 فیصد سے زیادہ ہے اور یہی آباد ی سرکار بنانے میں نمایاں کردار ادا کرتی ہے ۔ آسام تین حصوں میں تقسیم ہے ۔ ایک اپر آسام جہاں اسمبلی کی کل 47 سیٹیں ہیں اور یہاں مسلمانوں کی آبادی صرف 5 فیصد ہے ۔ 47 سیٹوں میں ایک دوسیٹ ہی ایسی ہے جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں ۔دوسرا میڈیل آسام ہے جہاں تقریبا 55 فیصد آباد ی مسلمانوں کی ہے ۔ یہاں اسمبلی کی کل 39 سیٹیں جن میں زیادہ تر سیٹوں پر مسلمان اکثریت میں ہیں اور تیسرا علاقہ لور آسام کاہے جسے پسماندہ آسام بھی کہہ سکتے ہیں جو برہمپترا ندی سے ملاہوا ہے ۔ اس علاقے میں تقریبا 75 فیصد آبادی مسلمانوں کی ہے ۔ یہاں اسمبلی کی کل 40 سیٹیں ہیں اور چند سیٹوں کوچھوڑ کر سبھی پر ہار جیت کا فیصلہ مسلمان ہی کرتے ہیں ۔ اسی علاقے میں جنیا ودھان سبھا بھی ہے جہاں سے پہلی مرتبہ فخر الدین علی احمد ایم ایل اے منتخب ہوئے اور بعد میں ہندوستان کے صدر جمہوریہ بنے ۔بہر حال آسام کی کل126 سیٹوں میں سے اکثریت پر بی جے پی کی ہار واضح طور پر دکھ رہی ہے اور اسی نمبر نے بی جے پی کو سب سے زیادہ پریشانی میں ڈال رکھاہے ۔ بی جے پی کا پورا فوکس توڑ جوڑ پر ہے ۔ اس کے علاوہ بی جے پی نے پولنگ بوتھ کو بھی
متاثر کرنے کی کوشش کی۔ ای وی ایم کا معاملہ بھی مشکوک ہے ۔ آسام کے کریم گنج میں ایک واقعہ بھی پیش آچکاہے کہ ای وی ایم بی جے پی لیڈر کی گاڑی میں ملی ۔ الیکشن کمیشن کے افسران بھی اسی کار میں بیٹھے ہوئے تھے۔
بہر حال آسام اور بنگال میں بی جے پی دور دور تک نظر نہیں آرہی ہے ۔ ہاں یہ ضرورہے کہ اس مرتبہ بنگال میں بی جے پی دوسرے نمبر پر رہے گی اور پہلے کے مقابلے میں بہت زیادہ مضبوط ہوجائے گی لیکن سرکار بنانا تقریبا مشکل ہے تاہم ای وی ایم کا معاملہ ابھی تک مشکوک ہے ۔ یہ تجزیہ اسی وقت درست ثابت ہوسکتا ہے جب یہ بات یقینی ہوکہ ای وی ایم کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہیں کیاگیا ہے ۔عوام نے جس جذبے کے ساتھ ووٹ ڈالا ہے مشین نے اسی طرح قبول کیاہے ۔ کسی طرح کا ہیر پھیر نہیں ہوا ہے کیوں کہ ای وی ایم کا معاملہ بہت حدتک مشکوک نظر آرہاہے اور جب تک ای وی ایم سے انتخابات ہوں گے عوام کا اعتماد پختہ اور مضبوط نہیں ہوپائے گا ۔ رائے دہندگان کے ذہنوں میں یہ شک برقرار رہے گا کہ جسے ہم نے ووٹ دیا ہے کیا اس کو گیا بھی ہے یا نہیں ۔
آسام اور بنگال کے علاوہ کیرالا ،تمل ناڈو اور پانڈوی چیر میں بی جے پی دور دور تک نہیں ہے ۔ حالات بتارہے ہیں کہ اس مرتبہ پانچ ریاستوں کے انتخابی نتائج بی جے پی کیلئے مایوس کن ہوں گے اور عوام کے جذبات کا نتیجہ دیکھنے کو ملے گابشرطیہ کہ ای وی ایم نے ایمانداری اور انصاف کے ساتھ کام کیا ہوگا ۔ اس کے ساتھ کسی بھی طرح کی چھیڑ خوانی نہیں کی گئی ہوگی اور پھر یہیں سے شروع ہوگی بی جے پی کی الٹی گنتی ۔
(مضمون نگار آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ہیں )

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here