کیفی اعظمی کے افکار و خیالات ہمیشہ ذہنوںمیں زندہ رہیں گے:سید سبط رضی

0
563
کیفی اعظمی کے افکار و خیالات ہمیشہ ذہنوںمیں زندہ رہیں گے:سید سبط رضی
کیفی اعظمی کے ڈکشن میں ایک قسم کی ڈرامائیت تھی:پروفیسر شارب ردولوی
اردو ہندی کی ساجھی وراثت ہے کیفی کی شاعری:راجیش جوشی
آل انڈیا کیفی اعظمی اکادمی میںایوارڈ تقریب اور مشاعرہ
حسن کمال اور راجیش جوشی کیفی اعظمی ایوارڈ ۲۰۱۸ء سے سرفراز کئے گئے
ڈاکٹر ہارون رشید
لکھنؤ۔۱۰؍مئی۔کیفی اعظمی کے افکار و خیالات ہمیشہ ہمارے ذہنوں میں زندہ رہیں گے۔رسم الخط سے قطع نظروہ ایک ایسے شاعر تھے جنھیں اردو ہندی کے خانوں میں تقسیم نہیں کیا جاسکتا۔کیونکہ وہ ایک ہندوستانی تھے۔وہ اشتراکیت اورادب برائے زندگی کے علمبردار تھے۔یہ ترقی پسندانہ ادبی نظریہ جس کی شروعات بھی اتفاق سے لکھنؤ میں ہوئی تھی اور اس سلسلہ میں ہونے والی پہلی کانفرنس کی صدارت منشی پریم چند نے کی تھی جس میں یہ نعرہ دیا گیا تھا کہ اب حسن کا معیار بدلنا ہوگا۔ان خیالات کا اظہارسابق گورنر جھار کھنڈ۔اتراکھنڈ سید سبط ر ضی نے آل انڈیا کیفی اعظمی (تھیٹر ہال)نشاط گنج میں کیفی اعظمی کی سولھویں برسی کے موقع پر ہونے والے تقسیم ایوارڈ کی تقریب میںبحیثیت مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے کیا۔انھوں نے کہا کہ کیفی اعظمی نے زندگی بھر سماجی نا برابری کے خلاف اپنے قلم سے جنگ کی۔
اس سے پہلے پروگرام کی شروعات میں مہمانوں میں سید سبط رضی،ایم ایس ستھیو،ولایت جعفری،ایوارڈ یافتگان میں حسن کمال اور راجیش جوشی نیز پروفیسر روپ ریکھا ورما،عائشہ صدیقی اورکنتی مکھر جی کا خیر مقدم اکادمی کے ذمہ داروں نے گلہائے محبت سے کیا۔نظامت کے فرائض مشاعروں کی دنیا کے معروف ناظم ندیم فرخ نے انجام دئے۔
اکادمی کے صدر پروفیسر شارب ردولوی نے خطبہ استقبالیہ میں مہمانوں کا اجمالی تعارف کراتے ہوئے ہال میں موجود جملہ سامعین کا خیرمقدم کیا ۔انھوں نے اپنے خطاب میں کیفی اعظمی کے بارے میں کہا کہ کیفی کی شاعری کو تین ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔انھوں نے اپنی شاعری میں تین عہد گذارے ہیں۔ایک وہ شاعری ہے جو شروعاتی دور کی ہے جس میں رومانیت ہے ۔دوسری وہ شاعری ہے جوانقلابی ہے اور تیسرا عہد ان کی شاعری کا وہ ہے جس میںانھوں نے رومانیت اور انقلاب سے انحراف کیا ہے اورزندگی کو بہت قریب سے دیکھنے کے بعد،اس رومان اور انقلابی تحریک میں اپنی زندگی گذارنے کے بعد،گھر بیوی بچوں سے دور رہنے کے بعد،جیل کی مصیبتیںاور صعوبتیں اٹھانے کے بعداگر کسی کو یہ محسوس ہو کہ ہم جس نظریہ پر چل رہے تھے وہ نظریہ غلط تھا، تو پوری عمارت بیٹھ جاتی ہے۔ پھر جس کرب سے گذرنا پڑتا ہے وہ برداشت کرنا آسان نہیں ہے۔انھوں نے تیسرے دور کی شاعری میں زندگی کو اس کی حقیقی شکل میں پیش کیا ہے اور انسانی زندگی کی بہتری کا خواب دیکھا ہے۔پروفیسر شارب نے آخر میںکیفی کی ان نظموں کے اقتباسات بھی پیش کئے جن سے ان کے مفروضات اور دعووں کو تقویت ملتی ہے۔انھوں نے کیفی اعظمی کو اپنا خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے اپنی بات مکمل کی۔
اکادمی کے سکریٹری سعید مہدی نے اکادمی کی ترقیاتی رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ اکادمی کا مْقصد ترقی پسند اقدار کا فروغ،سماج میں بغیر کسی مذہبی و مسلکی تفریق کے باہمی اتفاق و اتحاد قائم کرنا اور ساتھ ہی ترقی پسند ادبا و شعراپر سمینار کے ذریعہ عہد حاضر اور مستقبل کی نسل نو کو ان کی ادبی و ثقافتی و سماجی صحافتی خدمات سے واقف کرانا ہے ۔کیفی اعظمی اکادمی اپنے مقاصد کی ترویج کے لئے مسلسل کوشاں ہے۔
اس موقع پر مشہورترقی پسندشاعراور معروف صحافی حسن کمال اور ہندی  کے مشہور ترقی پسند شاعرکہانی کار راجیش جوشی کو ان کی گراں قدر خدمات کے اعتراف میںایک لاکھ روپیہ اورنشان یادگار پر مشتمل کیفی اعظمی ایوارڈ سے نوازا گیا۔نیز ایوارڈ یافتگان کی خدمت میں سپاس نامہ بھی پیش کیا گیا جسے اکادمی کی رکن ڈاکٹر ریشماں پروین اور شہاب حیدرزیدی نے پڑھ کر سنایا۔تقریب میں کیفی اعظمی اکادمی کے سونئیر۲۰۱۸ء کا اجرا بھی عمل میں آیا۔
حسن کمال نے ایوارڈ ملنے پر اظہار مسرت کرتے ہوئے اکادمی کے تئیں کلمات تشکر ادا کئے اور کہا کہ اس ایوارڈ کی اہمیت اس رقم کی حد تک یا مومنٹو کی حد تک نہیں ہے بلکہ اس کی اہمیت اس لئے ہے کہ یہ اس نام سے منسوب ہے جس کی شاعری کو پڑھ کر اور سن کر میرے ذہن میں شعر کہنے کا خیال آیا تھا۔راجیش جوشی نے اظہار تشکر کے بعد کہا کہ میں نے اپنے قلم سے ہندی میں ان اقدار کی پاسداری کی ہے جن کے لئے کیفی نے خود کو وقف کر دیا تھا۔انھوں نے کہا کہ کیفی کی شاعری اردو ہندی کی ساجھی وراثت ہے۔
مہمان خصوصی ایم ایس ستھیو نے نئے ہال کی تعمیر اور اس کی خصوصیات سے سامعین کو روشناس کراتے ہوئے کہا کہ اس عمارات کی ڈیژائن اس طرح کی گئی ہے کہ یہاں ہونے والے ڈرامے میں اداکار اور ناظرین ایک دوسرے کو بہت قریب سے دیکھ سکیں گے۔یہاں آواز میں گونج نہیں ہو گی اور نہ ہی مائک کی ضرورت ہو گی۔اس کے لئے اداکاروں کو اپنے اسلوب میں تھوڑی سی تبدیلی بھی کرنا ہوگی  تاکہ وہ ہر جانب بیٹھے ناظرین سے روبہ رو ہو سکیں۔
آخر میںاکادمی کے سر پرست ولایت جعفری نے کلمات تشکر ادا کئے اور تقریب کے پہلے دور کا اختتام ہوا۔دوسرے حصے میں آل انڈیا مشاعرے کا انعقاد کیا گیا جس میں مدعو شعرا ء کرام نے اپنے کلام سے سامعین کو محظوظ کیا۔
پروگرام میں پروفیسر روپ ریکھا ورما،پروفیسر فضل امام،پروفیسر جمال نصرت،ڈاکٹر انیس انصاری،ڈاکٹر احسن رضوی،سلام صدیقی،عائشہ صدیقی،پرویز ملک زادہ،عبیداللہ ناصر،قمر گونڈوی،ویریندر یادو،پردیپ کپور،زین العابدین عابدی،شاہانہ سلمان عباسی،ڈاکٹر منجو مشرا،شکیل صدیقی،امیر فیصل،شہر یار جلال پوری،ایچ ایم یاسین،ندیم حسنین،وغیرہ خاص طور پر موجود تھے۔
Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here