پولیس کی یہ گولی اگر تیواری کی جگہ انصاری کو لگتی؟

0
487

پولیس کی یہ گولی اگر تیواری کی جگہ انصاری کو لگتی؟
 


وقار رضوی

 

پولیس کی یہ گولی اگر تیواری کی جگہ انصاری کو لگتی؟ تو کیا ہوتا؟ پولیس کو شرمسار کرنے کے بجائے میڈیا ہم کو شرمسار کررہی ہوتی، دہشت گردی کی ایک اور نئی عبارت لکھی گئی ہوتی، اب تک نہ جانے کتنی نئی دہشت گرد تنظیموں کے نام اجاگر ہوگئے ہوتے، پولیس کو بھی ہر طرف سے مبارکباد مل رہی ہوتی اور جو پولیس والے آج جیل میں ہیں ان ہی پولیس والوں کے لئے گولڈ میڈل کی سفارش اب تک کردی گئی ہوتی اور نہ جانے کتنے انعام و اکرام سے نوازنے کا ہر طرف سے اعلان ہورہا ہوتا۔ یہ کوئی تصور نہیں بلکہ ماضی کی وہ حقیقت ہے جس سے ہر باشعور شخص آشنا ہے کیونکہ اس نے دیکھا ہے کہ نہ جانے کتنے بے قصور نوجوانوں کی زندگیاں پولیس کے ہاتھوں برباد ہوچکی ہیں۔ ایک لمبی فہرست ہے ایسے انکائونٹر کی، جس میں نہ جانے کتنے بے گناہ ماردیے گئے ہوں گے اور جو زندہ پولیس کے ہاتھوں لگ گیا اس کی زندگی موت سے بدتر ہوگئی کیونکہ سب سے آسان الزام دہشت گردی ہے جو نہ صرف بیحد سنگین ہے بلکہ ایک فرد نہیں، ایک خاندان نہیں بلکہ پوری قوم کو شرمسار بھی کرتا ہے اور یہ پولیس کے ساتھ سیاست کو بھی خوب راس آتا ہے، کیونکہ اس الزام میں جہاں ضمانت نہیں ہوتی وہیں سیاست کی روٹیاں بھی خوب سینکی جاتی ہیں۔ نہ جانے کتنے ہیں جو اس دہشت گردی کے سنگین الزام میں برسوں جیل میں رہنے کے بعد جب باعزت بری ہوئے تو ان کا سب کچھ مٹ چکا تھا اس وقت ان کے لئے موت زندگی سے آسان تھی کیونکہ برسوں بعد بھی پولیس اپنے ہی لگائے الزامات کو تو ثابت نہ کرسکی تھی لیکن میڈیا کے ذریعے اس کی بدکردار سازی ایسا کرچکی ہوتی ہے کہ سماج میں اس کو دوبارہ وہ مقام ملنا دشوار ہوجاتا ہے، کیونکہ جب وہ کورٹ سے باعزت بری ہوتے ہیں تو نہ وہ میڈیا کی سرخیاں بنتے ہیں اور نہ پولیس والوں سے کوئی سوال ہوتا ہے۔ اس کی سب سے بری اور زندہ مثال ہے ملیانہ اور ہاشم پورہ، جہاں 41 مسلم افراد کو پولیس اپنی گاڑی میں بٹھاکر لے گئی جن میں سے 39 لوگوں کی لاشیں غازی آباد کے مراد نگر میں ہنڈن ندی میں ملیں اور وہ لاشیں اس لئے برآمد کی جاسکیں کیونکہ اس وقت ایک نڈر، جانباز پولیس افسر وبھوتی نارائن رائے غازی آباد کے پولیس کپتان تھے انہوں نے اپنی جان پر کھیل کر حکومت کی ناراضگی مول لے کر اس کیس کو اجاگر کیا۔ آج کا کوئی افسر ہوتا تو یہ ساری لاشیں ندی میں ہی سڑ گل جاتیں اور کسی کو کانوں کان خبر بھی نہ ہوتی اور آج بھی ان 41 افراد کے گھر والے کہیں ان کی تلاش کررہے ہوتے۔ یہ جانباز افسر آج بھی اس کیس کو لڑرہا ہے اور ان کی ایک کتاب ملیانہ اور ہاشم پورہ کے نام سے دنیا کے بہت بڑے پبلشنگ ہائوس نے شائع کی ہے جو پولیس کو قریب سے جاننا چاہے وہ اسے ضرور پڑھے۔ ایسے ہی چند آفیسر ہیں جو پولیس کے بھرم کوباقی رکھے ہیں ورنہ اپنے ملک میں چور ڈاکوئوں اور کریمنل سے اتنا ڈر نہیں لگتا جتنا پولیس سے ڈر لگتا ہے اور ڈرنا بھی چاہئے کیونکہ اپنی پولیس تو ایسی ہی ہے جیسی آج کے تمام ہندی میڈیا نے اس کے بارے میں رپورٹنگ کی ہے۔ اس لئے آج کوئی بے گناہ اگر پولیس کی گرفت میں آجائے تو آپ خاموش نہ رہیں کیونکہ کل وہ آپ بھی ہوسکتے ہیں آپ جہاں ہیں وہاں سے اپنا احتجاج درج ضرور کرائیں یہی پیغام امام حسین ؑ نے کربلا میں بھی دیا تھا کہ ظالم کے سامنے احتجاج ضروری ہے اور عزاداری اس کی زندہ علامت ہے جو ظلم کے خلاف امام حسین ؑ کے اس ایک انکار کو یاد دلاتی ہے جس کے سبب کربلا وجود میں آئی۔
٭٭٭

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here