[email protected]
9807694588(موسی رضا)
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
سیماب منظر
آج تصفیہ کو کچھ بھی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اب کیا ہوگا اصل اس نے زندگی کے مستقبل کا ایک سنہرا خواب دیکھا تھا۔در اصل تصفیہ کی نظر جس خبر پرپڑی وہ سوچ میں ڈوبی ہوئی چلی گئی ۔اس نے فیصل کے ساتھ مستقبل کو لیکر کتنے حسین خواب بنے تھے۔ فیصل کی وہ تمام باتیں بے ترتیب ذہن میں گردش کرنے لگی۔تصفیہ ایک ایسے فیملی سے تعلق رکھتی تھی جہاں زندگی کی وہ تمام آشائش میسر اسے حاصل نہیں تھی، وہ بچپن سے اپنے والد کی محنت اور زندگی کی جدوجہد کو دیکھتی آرہی تھی، تصفیہ ہمیشہ سے سوچتی تھی کہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد نوکری حاصل کروں گی اور پھر اباّ کے کندھوں پڑا بوجھ کو کچھ کم کروں گی جس سے اباّ کی مدد ہو جائے گی ۔ یہی سوچ اور ابّا کی فکر نے اسے پڑھنے میں ہمت دیا تھا۔ ہائی اسکول اور انٹر امتیازی نمبر سے پاس کرنے کے بعد وہ بی اے آنرس میں داخلہ لیا ۔بی اے کے دوران وہ یہی سوچتی رہتی تھی کہ کب میرے یہ تین سال مکمل ہو کہ بی ایڈ میں داخلہ لوں اور پھر دو سال کے بعد بہار سرکار میں ٹیچر کی نوکری حاصل کر کے اپنے گھر کی مدد کر سکوں۔ تصفیہ اپنے ابّا کی معاشی حالات سے خوب واقف تھی اس لیے بھی اس کے ذہن میں صرف بی ایڈ کے علاوہ کوئی اور دوسرا راستہ نظر نہیں آتا تھا، اس کی ایک اہم وجہ یہ بھی تھی کہ جب سے اس نے ہوش سنبھالا تو اس نے دیکھا کہ صوبہ بہار کے وزیر اعلیٰ اسکول ٹیچر کی اسامیاں زیادہ نکالتے ہیں اور اسکول ٹیچر کی جاب بہار میں حاصل کرنا تھوڑا آسان معلوم ہوتا ہے کیونکہ صوبہ میں ہر سال لاکھوں جاب کی نوٹیفکیشن آیا کرتی ہے، شاید وزیر اعلیٰ بہار میں اسی ٹیچر کی نوکری دینے کی بنا پر پچھلے پندرہ سال سے صوبہ بہارکے وزیر اعلیٰ بنے ہوئے ہیں۔تصفیہ کا ذہن بھی کچھ اسی طرح کا تھا کہ وہ بچوں کو تعلیم دے اور خود بھی زندگی بھر تعلیم کا سلسلہ قائم رکھ سکے۔ خیر وہ دن بھی اس کی زندگی میں آگیا جب اس کا سنٹرل یونیورسٹی میں بی ایڈ داخلہ کے فہرست میں نام شامل تھا۔
آج تصفیہ کے ذہن میں وہ تمام باتیں گردش کرنے لگی جب اسکا سنٹرل یونیورسٹی کے شعبہ تعلیم و تربیت ، مطلب بی ایڈ میں داخلہ ہوا تھا۔ تصفیہ سوچتی ہے کہ جب میرا داخلہ بی ایڈ میں ہوا تھا تو کتنی خوش تھی ۔ اس خوشی میں میرے والدین اور ہمارے خاندان کے وہ تمام افراد جو میرے لیےمخلص تھے انھیں بھی بیحد مسرت ہوئی تھی کہ چلو کم سے کم ایک ایسے کورس میں داخلہ ہوا ہے کہ یہ کورس مکمل ہونے کے بعد زندگی گزارنے کا یہ ایک اہم راستہ ثابت ہوگا۔ ویسے تو بی ایڈ کے بعد بھی اعلی تعلیم حاصل کرنے کا ارادہ اس کا بن چکا تھا۔ اعلٰی تعلیم کی طرف رحجان بڑھنے کا سبب بھی اس لیے بھی آیا کہ جب تصفیہ اپنے گھر سے ہزار کلومیٹر سفر طے کر کے ایک انجان شہر آچکی تھی۔ یہاں آنے کے بعد اعلی تعلیم کی منزل کس طرح طے کی جا سکتی ہے وہ تمام باتیں اسے معلوم ہوئیں۔
تصفیہ اپنے بی ایڈ کے پہلے ہی سمیسٹر میں امتیازی نمبر لاکر کلاس میں اپنی الگ شناخت قائم کر چکی تھی۔ اس کامیابی نے وہاں کے اساتذہ نے بھی اسے حوصلہ دیا کہ تم اپنی تعلیم کو آگے لیکر جانا۔ اس حوصلے نے ہی تصفیہ کو بی ایڈ کے آخری سمیسٹر میں ہی سی ٹیٹ میں کامیابی دلائی۔ سنٹرل ٹیچر ایلی جبل ٹسٹ اسکول میں نوکری حاصل کرنے کا ایک اہم مرحلہ سے گزرنا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ صوبائی ٹیچر ایلی جبل ٹسٹ بھی ایس ٹی ای ٹی بھی اس نے کوالیفائی کیا، اس کے بعد تصفیہ کو ایک طرح سے اطمینان ہو چکا تھا کہ جب کبھی بہار میں ٹیچر کی جاب آئے گی تو اس کی نوکری پکی ہے۔
بی ایڈ امتیازی نمبر سے پاس ہونے کے بعد اس نے اپنے ابّا کے سامنے خواہش ظاہر کی کہ جب تک نوکری نہیں لگتی ہے تو میں ایم ایڈ کر لیتی ہوں۔ اور اس کی اجازت بھی مل گئی، ایم ایڈ داخلہ انٹرنس بھی پاس کر کے اسکا سنٹرل یونیورسٹی کے مین کیمپس میں داخلہ ہو گیا۔
ایم ایڈ کے دوران تصفیہ کی ملاقات فیصل سے ہوئی، فیصل بھی ایک ایسے گھرانے سے تعلق رکھتا تھا کہ بس وہ کسی طرح ٹیچر کی نوکری حاصل کر کے عملی زندگی میں آجائے۔ تصفیہ اور فیصل کے خواب ایک جیسے تھے۔ وہ دونوں اکثر گفتگو کے درمیان کہا کرتے تھے کہ جلد سے جلد ہم دونوں کی نوکری لگ جائے جس سے اپنے والدین کی خواہشات کو پوری کر سکے ۔ وہیں دونوں ایک دوسرے کی زندگی میں اتنے قریب آچکے تھے کہ دونوں کے خاندان کی تمام باتیں ایک دوسرے کو معلوم ہو چکی تھی۔تصفیہ اور فیصل اپنے اپنے گھر کی مجبوریاں ایک دوسرے کو بتا چکے تھے۔شاید یہی وجہ رہی کہ دونوں نوکری لگنے کے بعد شادی کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔اور یہ بھی معاہدہ ہوا کہ ہم دونوں اپنے اپنے والدین کی مدد کریں گے۔ لیکن اب بہار سرکار نے ایک ایسا فرمان جاری کیا کہ اب ٹیچر بننے کے لیے آیوگ کے ذریعہ ایک اور امتحان پاس کرنا ہوگا۔
بہار سرکار کا یہ قانون دونوں کی زندگی میں ایک طوفان لیکر آیا،تصفیہ کو کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اب ایک اور امتحان کے مرحلہ سے کس طرح گزرا جائے، لیکن اس میں ایک خاص بات ضرور تھی کہ ہر مشکل راستے کو طے کرنا جانتی تھی۔ اسی سوچ میں تصفیہ گم تھی کہ موبائل پر کسی کے رنگ کی آواز آئی تو تصفیہ کے سوچنے کا سلسلہ ختم ہوا اور وہ موبائل دیکھی تو فیصل کا ہی فون تھا۔
دونوں سلام و خیریت کے بعد بہار کے نئے نوٹیفیکشن پر گفتگو کرنے لگے۔ اور پھر گفتگو کے دوران تصفیہ فیصل سےایک نوجوان لیڈر کا ذکر کرتے ہوئے کہتی ہے کہ تمہیں معلوم ہے کہ اس جواب لیڈر کے یہاں لڑکی پیدا ہوئی ہے۔
فیصل کہتا ہے۔۔۔ ہاں ہاں اسے کیا پریشانی ہے اتنی کم عمری میں تو وہ دو دفعہ نائب وزیر اعلیٰ بن چکا ہے۔ اور اب تو والد بھی ،۔۔ ہم جیسے لوگ تو ٹیچر بننے کا ہی خواب دیکھتے ہیں اور وہ بھی شاید پورا نہ ہو۔
تصفیہ۔۔۔ ہوں، یہ سیاست داں بھی عجب قسم کے ہوتے ہیں جب اقتدار میں نہیں ہوتے ہیں تو بڑے بڑے وعدے کرتے ہیں عوام سے۔
فیصل۔۔۔ ہوں۔۔۔۔دو سال قبل ہی الیکشن میں لیڈروںنے کتنے خواب دکھائے تھے ہم جیسے بے روزگاروں کو کہ جیسے ہی اقتدار میں آؤں گا تو پہلی کیبنٹ سے دس لاکھ روزگار دوں گا۔۔۔جس میں دو سے تین لاکھ ٹیچر کی نوکری ہوگی۔
خیر تصفیہ نے فیصل کو ہمت دی کہ کوئی بات نہیں اتنے دن انتظار کیا تو چند عرصہ اور مشکل امتحان کی تیاری کر لی جائے گی۔ اور دونوں طرف سے باتوں کا سلسلہ منقطع ہو گیا۔
تصفیہ کے ذہن میں اباّ کی ایک بات بار بار گردش کرنے لگی کہ اب کتنا انتظار کرنا بیٹا بس اب تمہارے لیے کوئی بہتر رشتہ دیکھ کر تمہاری شادی کر دی جائے گی۔ کیونکہ اباّ کی عمر بھی ہو چکی تھی وہ اپنی زندگی میں کی گئی محنت اور جدوجہد نے بچوں کو اس لائق بنا چکے تھے کہ آج نہ کل وہ کامیاب ہو جائیں گے۔
تصفیہ شادی کے الفاظ سن کر اور بھی زیادہ پریشان ہو رہی تھی کہ اب اباّ سے کیسے بتاوں کہ مجھے فیصل سے شادی کرنی ہے کیونکہ فیصل بھی ایک عرصہ سے ٹیچر بننے کے انتظار میں تھا کہ جیسے ہی نوکری لگے گی تو تصفیہ کے گھر رشتہ بھیج کر اس کا ہاتھ مانگ لوں گا۔ لیکن اب یہ خواب دھندلا سا لگنے لگا۔
ریسرچ اسکالر،مولانا آزاد نیشنل یونیورسٹی،حیدرآباد
<[email protected]